سید ماجد شاہ(اسلام آباد)
ارے! کیا پوچھتے ہو ،کیا بتاؤں ،زندگی کیا ہے
میں اتنا جانتا ہوں،اک زمانہ تھا
یہ ٹافی میں دھڑکتی تھی
کبھی بسکٹ میں رہتی تھی
کبھی کمبخت مہنگی چاکلیٹوں میں کہیں پوشیدہ رہتی تھی
کھلونوں میں سرکتی تھی
کبھی ٹوٹی پرانی دوست سے مانگی ہوئی سائیکل پہ
میرے ساتھ گلیوں میں بھٹکتی تھی
یہ میرے ساتھ تھی شاید
کہ بنٹے ہوں یا کر کٹ ہو یا ہاکی ہو
یہ میری ٹیم میں ہوتی تھی میرے ساتھ رہتی تھی
ارے! کیا پوچھتے ہو ،کیا بتاؤں ،زندگی کیا ہے
میں اتنا جانتا ہوں اک زمانہ تھا
کہ جب یہ بسکٹوں سے ٹافیوں سے چاکلیٹوں سے
نکل کر لہلہاتے اور لچکتے تازہ جسموں پر چمکتی تھی
دمکتی تھی دمادم رقص کرتی تھی
یہ دن بھر خوبصورت جاگتی آنکھوں میں رہتی تھی
گھنیری زلف کے سائے میں اِس کی رات ہوتی تھی
گلابی عارضِ خوش رنگ میں بیدار ہوتی تھی
خطوں میں دائروں میں اورنقطوں میں سلگتی تھی
تنفس میں بھڑکتی تھی۔۔۔۔۔
ارے! کیا پوچھتے ہو ،کیا بتاؤں ،زندگی کیا ہے
میں اتنا جانتا ہوں اک زمانہ تھا
یہ سکّوں میں چھنکتی تھی
کبھی انبار میں زر کے یہ بیٹھی کسمساتی تھی
اور اس کو جان کر مقصد میں صبح کو شام کرتا تھا
کبھی ماں باپ کے احسان کا بدلاچکانے کو
کبھی بیوی کے روٹھے خواب کی تعبیر لانے کو
کبھی اولاد کی خاطر میں صبح کو شام کرتا تھا
ارے! کیا پوچھتے ہو ،کیا بتاؤں ،زندگی کیا ہے
میں اتنا جانتا ہوں،جب کبھی میں نے اسے سوچا
یہ فَٹ سے فلسفی بابے کی گدڑی میں دُبک بیٹھی
میں کورا سیدھا سادہ سا
کہاں گتھی کو سلجھاتا!
ارے! کیا پوچھتے ہو ،کیا بتاؤں ،زندگی کیا ہے
میں اتنا جانتا ہوں،جب مرے اندر کے سوئے ڈر
کبھی بیدار ہوتے تھے
تویہ مذہب کے اُن پُرپیچ غاروں میں بھٹکتی تھی
جہاں آبِ بقا ملنے کی اک اُمید ہوتی ہے
ارے! کیا پوچھتے ہو ،کیا بتاؤں ،زندگی کیا ہے
میں اتنا جانتا ہوں،یہ مرے اندر سے اُگتی تھی
میں اتنا جانتا ہوں یہ مرے اندر ہی اک دن
۔۔۔۔۔۔۔ڈُوب جائے گی