(Last Updated On: )
پروین شیر
رات سے بند کمرے میں بیٹھی ہوں میں
کس قدر حبس ہے
روشنی کی جگہ
جل رہا ہے اندھیرا یہاں
ایک جھونکا بھی تازہ ہوا کا نہیں
دور تک کچھ نہیں
ایک آواز کا شائبہ تک نہیں
بند کمرے میں دو کھڑکیاں ہیں مگر
کونسی کھول دوں؟
کشمکش میں ہوں میں
کیا میں کھولوں وہ کھڑکی کہ جس کی طرف
اونچی اونچی عمارات ہیں ہر طرف جگمگاتی ہوئی
گاڑیوں،کارخانوں کا اک شور ہے
چمنیوں سے ابلتا ہے کالا دھواں
سارا عالم ہے مصروف اک دوڑ میں
اس طرف عشرتِ جسم تو ہے مگر
عشرتِ جاں نہیں!
یا میں کھولوں وہ کھڑکی کہ جس کی طرف
ہیں شجر جھومتے،گیت گاتے ہوئے
چاند روشن ہے بادل کی آغوش میں
آسماں کا ستاروں سے جھلمل بدن
دے رہا ہے صدا
وادیاں سرخ پھولوں سے رنگین ہیں
خوشبوؤں سے معطر ہے سارا جہاں
عشرتِ جاں توہے اس طرف جلوہ گر
عشرتِ جسم لیکن نہیں ہے یہاں!
بند کمرے میں دو کھڑکیاں ہیں مگر
میں نہیں جانتی
کونسی کھول دوں؟