ستیہ پال آنند(امریکہ)
کافکا (1)کہتا ہے
(شاید طنز کی دُہری زباں میں)
بھوکا رہنے سے کوئی مرتا نہیں ہے!
آٹھ دن بھوکا رہا تھا ، روس کا گوگول(2)ؔ، دیکھو
مرنہیں پایا تو اپنے پیٹ کے بل
رینگ کر دیوار تک پہنچاکہ سر ٹکرائے
چھٹکارہ ہو اپنی زندگی سے
کافکاؔ کہتا ہے، بھوکا موت کو آواز دے، تو
موت بھی کانوں کو اپنے بند کر لیتی ہے فوراً
بھوک سے مرتے ہوئے اک شخص کو واجب ہے
اپنی پنڈلیوں کو کاٹ کھائے
بازوؤں کا گوشت دانتوں سے چبا ئے
اپنے خوں کا قطرہ قطرہ چاٹ ڈالے
گوشت اپنا ہو ، پرایا، گوشت آخر گوشت ہی ہے
اور اس کے پیٹ کا تنّور ایندھن کو جلانا جانتا ہے ۰
کافکا کو کیا کوئی سمجھائے
(نٹ ہیمسنؔ (3)کی سیدھی سادی بولی میں)
کہ بھوکا مر نہیں سکتا
مگر باہر نکل کر مار تو سکتا ہے
موٹی توند والے گوشت کے بیوپاریوں کو!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1. Franz Kafka
2. Nikolai Gogol
3. Knut Hamson
۰کافکا کی کہانیMetamorphosisکا کرداگریگورؔ اچھا بھلا محنتی کاریگر تھا جب اسے یہ عجیب مرض لاحق ہوا اور اس نے خود کو ایک عظیم الجثہ، عجیب الخلقت بسیار خور مکوڑے کی شکل میں تبدیل کر لیا اور آخر میں جب کھانے کو کچھ نہیں ملا تو وہ بھوک سے مر گیا۔ مندرجہ بالا الفاظ کافکاؔ کے ایک انٹرویو سے لے گئے ہیں جس میں اس نے اپنی بھوک کیallegory کا دفاع کیا۔