مسعود علی تماپوری (گلبرگہ)
چینئی سے ممبئی جا نے وا لی تیز رفتا ر ریل اپنے مقررہ وقت سے آ دھا گھنٹہ تاخیر کے بعد اب پلیٹ فام پر آ چکی تھی ۔ ریل کے آ نے سے قبل مسافرو ں کی بھیڑ جو پلیٹ فام پر اکھٹا تھی اب وہ ریل کے پلیٹ فام پر رکتے ہی گو یا حملہ بول چکی تھی ۔ ان حملو ں آ ور مسافرو ں میں ایک میں بھی شامل تھا۔ پلیٹ فام پر لگے ریل کے ہر ڈبے کے دونو ں دروازوں کے روبرو مسافرو ں کی بھیڑ تقریباً یکساں تھی عموما ً جنرل ڈبے میں سوار ہو نے والے مسافرو ں کی تعداد زیادہ ہو تی ہے مگر آج یہاں ریز روڈ ڈبے کے مسافرو ں کی تعداد میں بھی کسی قدر اضافہ دکھائی دے رہا تھا۔ جو ڈبے میں اپنے سامان سمیت داخل ہونے کی کوشش میں دیگر مسافرو ں کو یکسر نظر انداز کر دیا تھا ۔ وہ اپنی ریزروڈ سیٹ تک پہنچنے میں ’’پہلے میں آ گے ‘‘ وا لی سو چ کیسا تھ اپنے وجود کی سا ری توانائی کا استعمال کر کے ڈبے میں داخل ہو رہے تھے سا تھ ہی انہیں اس بات کا ڈر بھی ہو نے لگا تھا اِن کے ڈبے میں سوار ہو نے سے پہلے ہی کہیں ریل پلیٹ فام سے ہل نہ جائے اگر ریل میں سوار بھی ہو ئے ہوں ان کا سامان کہیں پلیٹ فا م پر ہی نہ چھوٹ جا ئے اسی خیال نے ڈبے کے اندر جا نے وا لے مسافروں کو ایک دوسرے پر سبقت لے جا نے وا لے اس عمل کو جاری رکھا تھا ۔ چند منٹو ں بعد ریل پلیٹ فام چھوڑ چکی تھی ۔ ریل کی ہر لمحہ بڑھتی ہو ئی رفتار نے اسٹیشن کے ہر منظر کو کسی گذرے ماضی کی طرح پیچھے چھوڑ دیا تھا ۔ مسافرو ں کی جتنی تعداد نے پلیٹ فام پر ڈبے میں داخل ہونے کے لیے خاص رسہ کشی کا مظاہرہ کیا تھا وہ سب اب ڈبے کے اندر داخل ہو چکے تھے مگر اب بھی مسا فر کے چہرے سے بے قرار ی عیاں تھی ۔ ٹرین میں پہلے سے مو جود پچھلے اسٹیشنوں سے سوار مسا فر جو اپنی اپنی نشست پر بیٹھے کچھ دیر پہلے سکون کا سانس لے رہے تھے اب نئے مسافرو ں کی بھیڑ نے ان کا وہ پہلا سا سکون تقریباً چھین ہی لیا تھا۔ اس سے پہلے کہ ٹی ٹی ای ان نئے مسافرو ں کی ٹکٹ تلا ش کر لے پرانے مسافر جو اپنی اپنی نشستوں پر براجمان تھے آ نکھوں ہی آ نکھوں میں نئے مسافرو ں کی ٹکٹ تلا شی کر دی تھی ان کی آنکھوں میں سوا لیہ نظر تھی ……کیا ریزرویشن ہے ؟
ہاں میر ے پا س ہے ۔ میں نے بھی آ نکھوں کے سوال کا جواب آنکھوں ہی کے ذریعہ دیاتھا۔ جن جن نئے مسافر وں کے پا س ریزرویشن تھا اس کا جواب وہ اپنی ہا تھو ں میں ٹکٹ کی صورت دکھا رہے تھے اور بھیڑ میں سے اِدھر اُدھر سر نکال کر اپنی سیٹ کا نمبر ڈھنونڈتے ہو ئے ’’ایکسکیوزمی‘‘ کا راستہ نکال رہے تھے ۔
ریل نے اپنی سست رفتاری کو تیز رفتاری میں بدل دیا تھا کھڑ کی سے باہر پیچھے کی جا نب گذرنے والے ہر منظر کی پہچان ناممکن تھی ۔ ریل کی تیز رفتاری نے گذرتے ہو ئے ہر منظر کو بھلنے والا ماضی بنادیا تھا ۔ ڈبے کے اندر مسافر وں میں ہو نے والی چہ میاگوئیوں پر ریل کی پٹریوں سے پیدا ہو نے والی گڑ گڑا ہٹ نے قا بو پا لیا تھا ۔ مسافرو ں نے بھی اپنی چہ میاں گو یوں کو چیخوں میں بدل کر ریل کی گڑ گڑ ا ہٹ والی اُس آواز پر سبقت لے جا نے میں کامیابی حاصل کی تھی۔
مسا فر ایک دوسرے سے چیخ چیخ کر اپنے اپنے سامان کے تحفظ کی مدد مانگ رہے تھے کسی مسافر کا سامان کہیں سیٹ تلے جا بھنسا تھا اور کسی کا سامان اس بھیڑ میں کھڑے مسافرو ں کے قدموں میں پھنس کر اُن کی آ گے بڑھنے والی راہ میں رکاوٹ کا سبب بن گیا تھا ۔ پرانے مسا فر کی اپنی کسی بھی ضرورت کو پورا کر نے میں نئے مسافرو ں کی بھیڑ ایک زبر دست رکاوٹ بن چکی تھی ۔ مسافرو ں کی اپنی اپنی بر ت و سیٹ سے ٹوا ئلٹ تک پہنچنے والا چھوٹا سا راستہ نئے مسافروں کی اس بھیڑ کے قدموں تلے کچلا گیاتھا۔ مسافرو ں کی بھیڑ نے اب خا مو شی اختیار کر لی تھی ۔ صر ف ریل کی تیز رفتاری سے پیدا ہو نے وا لی گڑ گڑا ہٹ سما عت کے پر دوں پر ہتھوڑے بر سا رہی تھی ۔ ریل کے اس ڈبے کی سا ری کھڑ کیاں کھلی ہو ئی تھیں ہوا کے تیز جھونکے ان کھڑکیوں سے ڈبے میں گھس کر مسا فرو ں کو موسم کے سرد ہو نے کا احساس دلا یا تھا۔ نئے مسا فرو ں کی بھیڑ نے اپنے ہا تھو ں میں ریزرویشن ٹکٹ لہرا کر پرانے مسا فرو ں سے یہ اعلان کر دیا تھا کہ وہ بھی اس ڈبے میں سفر کر نے کا حق رکھتے ہیں چو ں کہ ابھی تک اس کی حق شنا سی باقی تھی کیوں کہ ٹی ٹی ای کا وجود ابھی اس بھیڑ میں کہیں بھی دکھائی نہ دیا۔ ریل کے پلیٹ فام سے چھوٹنے کے بعد ڈبے کا دروازا اب بھی کھلا ہی تھا جس کے پائیدان پر چند نو جواں مسافرو ں نے قبضہ جما لیا تھا، پائیدان وا لی نشست پر ہی اکتفا کر نے وا لے ان نو جواں مسافرو ں نے ہم بھیڑ میں پھنسے چہروں پر فاخرانہ نگاہیں ڈالی وہ ابھی تک ٹی ٹی ای کی آمد سے بے خبر تھے جو ان کی پشت پیچھے کھڑا ٹکٹ تلاشی کے کام میں مصرو ف تھا ۔ ٹی ٹی ای نے ان پائیدان پر بیٹھے نوجواں مسافرو ں سے ٹکٹ طلب کی اور سا تھ ہی یہ تاکید بھی کر دی کہ وہ اس طرح دروا زے کے پائیدان پر نہ بیٹھیں بلکہ ڈبے کے اندر آجائیں اور دروازہ بند کر دیں ۔ ٹی ٹی ای نوجواں تھا اس کی مردانہ قدآور وجا ہت کو کا لے کوٹ نے کسی قدر بڑھا دیا تھاشکیل وجہ جواں ٹی ٹی ای کی شخصیت نے مخالف جنس کو اپنی طرف متوجہ کر نے کے ساتھ سا تھ ہم جنسوں کو اس کی تعریف کر نے پر مجبور کر دیا تھا۔ ٹی ٹی ای یکے بعد دیگر مسافروں کی ٹکٹ تلا ش کے بعد مجھ سے بھی ٹکٹ دکھلا نے کو کہا ۔ میں نے اپنا جنرل ٹکٹ اُسے دکھاکر نہا یت سنجیدگی سے سیٹ آلاٹ کر نے کی درخواست کی جسے وہ بہ آسانی ٹھکراتا ہوا بھیڑ میں اور مسافرو ں کی طر ف مڑ گیا مجھ سے بنا کچھ کہے جیسے میرا یہ جنرل ٹکٹ کوئی نہ چلنے والا جعلی نوٹ ہو جسے دکھا کر میں نے اس کو کسی فریب میں مبتلا کر نے کی کوشش کی ہو۔
جوں جوں ٹرین کی رفتار بڑھتی جارہی تھی میر ے قدموں میں ہورہے ہلکے درد میں بھی اضافہ ہو نے لگا جو بھیڑ میں کا فی دیر تک کھڑا رہنے کا نتیجہ تھا۔ میری نظریں بھی دیگر مسافرو ں کی نظرو ں کے ساتھ ٹرین کے ڈبے میں اس کو نے سے اُس آخری کو نے تک سیٹ کو تلا ش کر کے ناکام و ما یوس اپنی جگہ آنکھوں کے حلقوں میں چھپ گئیں اور پلکوں کا لحاف اوڑھ کر سکون کی نیند کے طلب گار تھیں ۔ دفعتاً مجھے یہ خیال آیا کہ ٹی ٹی ای کا تعاقب کر کے کم از کم بیٹھنے کی خاطر سیٹ حاصل کرلوں اور پھر میں نے سوچاکہ میری میڈیکل رپورٹ اور یکسرے جسے دکھاکر کسی بھی طرح ٹی ٹی ای سے سیٹ حاصل کی جاسکتی ہے۔ زیادہ دیر اس طرح مسافروں کے درمیاں بھیڑ میں کھڑے میر ے قدموں کے درد کو مزید بڑھنے سے روک سکوں یا اسے نجا ت ہی دلادوں اسی خیال سے میں اپنی جگہ سے متحرک ہوا اچانک میری نظر دروازے پر لگی سیٹ کے اوپری حصہ میں لکھے انگریزی کے چار حرفوں پر پڑی ’’TTE‘‘ اس TTEکے Tسے پہلے کسی نے ’’L‘‘ کا گہرے موٹے انداز میں اضافہ کر کے ’’LTTE‘‘ بنا دیا تھا جس سے ٹی ٹی ای کی شخصیت کا مفہوم پوری طرح مضحکہ خیز اور بامعنی بھی لگ رہا تھا۔ مسافرو ں کی بھیڑ میں سے مختصر ساراستہ بنا تا ہوا اپنے درد بھرے قدموں کو اُٹھا کر ٹی ٹی ای کے تعا قب میں اس کی پشت پنا ہی میں کیے گئے جنرل ٹکٹ والے گنا ہ کے سفر کا اعتراف کر نے کے لیے میں نے اپنی زبان کھولی ہی تھی اچانک ٹی ٹی ای نے میری طرف پیچھے مڑ کر دیکھا اور حکم صادر فرمایا ’’اگلے اسٹیشن پر آ پ اتر جائیں اور جنرل ڈبے کارخ کریں ‘‘ جس تیزی سے وہ میری طرف مڑاتھا اسی تیزی کیساتھ پلٹ کر ٹکٹ تلاشی کے کام میں دو بارہ مصروف ہو گیا جس سے یہ اندازہ ہو گیاتھاکہ اب وہ پھر دوبارہ میری صورت اس ڈبے میں نہ دیکھنا چاہتا ہو۔ ٹکٹ تلاشی کا عمل ٹی ٹی ای نے جاری رکھا اور آ گے آ گے سر کتا رہا۔ ٹرین کی رفتار اچانک دھیمی ہو نے لگی چند ثانیوں بعد پھر وہ تھم گئی ۔ ٹرین اب کسی سنسان مقام پر کھڑی تھی شاید اسے رکنے کا سگنل (اشارہ ) دیاگیاتھا۔ شاید مقابل سمت سے کسی ٹرین کا گذ ر نا تھا۔ ٹرین کے اس طرح اچانک کسی اسٹیشن سے پہلے رکنے سے اپنی اپنی سیٹ پر بیٹھے مسافرو ں نے سروں کو کھڑکیوں سے باہر نکالا اور ان کی آ نکھیں تاریکی میں ٹرین کے رکنے سے شا ید کسی اسٹیشن ہی کے خیال سے اس کے نام والی تختی کو ڈھونڈ رہی تھیں ۔مگر باہر رات نے اپنے کا لے پر دور دور تک پھیلا رکھے تھے ۔ آسمان پر ستاروں کی جگمگا ہٹ اس تاریکی میں خوبصورت نظارہ پیش کررہی تھی ۔ ریل کے ڈبے کی اندرو نی روشنی اس کی کھڑکیوں سے باہر نکل کر تاریکی کے پھیلے اس پر کو کتر نے کی ناکام کو شش کر رہی تھی اور اس ہلکی سی روشنی میں اس سنسان جنگل کے عجیب و غریب کیڑے پتنگے اڑتے دکھائی دے رہے تھے جو اپنے تاریک مقدر میں آ ئے اس ہلکے سے روشن موقع کو گنوانا نہیں چاہتے تھے ۔اچا نک ہلکا سا جھٹکا لگا اسی جھٹکے کے سا تھ ٹرین متحرک ہو کر دوبارہ منزل کی جانب ہلکی رفتار میں آ گے بڑھنے لگی ۔ کھڑکیوں سے باہر نکالے سروں کو مسافرو ں نے ڈبے کے اندر واپس کھینچ لیا۔ ٹی ٹی ای مسافرو ں کی بھیڑ میں سر کتا ہوا اس ڈبے سے شاید اگلے ڈبے میں پہنچ چکا تھا۔ میرے قدموں نے ٹی ٹی ای کے نقش قدم کو اپنایا جس پر چل کر میں اپنے لیے سیٹ حاصل کر سکتا تھا۔ مگر اچا نک مجھے ٹوا ئلٹ کی طر ف رخ کر نا پڑا جس کا درواز ہ یوں ہی ادھ کھلا تھا۔ ٹوائلٹ کا دروازہ اندر سے بند کر کے جب میں اس کے لو ہے کی دیواروں پر دیکھتا ہوں تو جا بجا فحش عر یا ں تصویروں کی مصوری کے نمونے دکھائی دیتے ہیں اور ایک جگہ عر یا نیت کی مکمل تصویر اتار کر کسی مسا فر نے محکمہ ٔ ریلوے سے اپنے اس نا معقول اور نامکمل مصورا نہ فن کا حوصلہ نمائیانہ طورپر حاصل کر نے کی خا طر مو بائیل فون کے نمبر تک اس تصویر کے نیچے لکھ ڈالے تھے ۔ محکمہ ٔ ریلوے کے حکام نے مصوری کے ان نمو نوں کو نہ مٹاکر گویا ان فن کاروں کی حوصلہ افزائی کر دی تھی تاکہ وہی فن کار مصور اگر دوبارہ اسی ریل سے سفر کر ے اور اپنی اس مصوری کے فن کو زندہ جاوید ٹوائلٹ کی دیوار پر دیکھ لے تو اس کا سر فخر سے اُٹھے اور مصوری کے تخلیق کو اب تک زندہ دیکھ کر اپنا حوصلہ بلند کر لے اور ایسے فن کاروں کی اس ریل کے ڈبے کی دیگر ٹوائلٹ کی دیواریں ان کے الجھے ہو ئے مصورا نہ فن کی صلاحیتو ں کا بے چینی سے منتظر تھیں ۔ جو ں ہی میں ٹوائلٹ سے با ہر نکلا ایک خوبصورت نو خیز مسا فرہ اپنی تمام تر جلوہ نمایوں کے سا تھ چست لباس میں اپنے بدن کو چھپانے سے کہیں زیادہ دکھانے میں کامیاب لگ رہی تھی۔ لپ اسٹک کے گہرے رنگ میں لپٹے ہوئے لبوں سے جب اُس نے ’’پلیز!‘‘ کہا تو یوں لگا ’’پلیز‘‘ بھی اُس کے لبوں سے یوں چمٹ گیا ہو جس طر ح جینز کی پتلون اس کے بدن سے ! وہ بھی ٹوائلٹ کی دیواروں پر سجی فحش عر یاں مصوری کے فن کا نظارہ کر نے پر مجبورہو کر ٹوائلٹ کے اندر چلی گئی ۔
ٹی ٹی ای کو ڈھونڈتا ہوا میں اس ڈبے سے اگلے ڈبے میں پہنچا تیسرے ،چوتھے اسی طرح پا نچویں ڈبے کے آ خری کو نے میں میری آنکھوں نے کا لے کوٹ کی تصدیق کر دی ۔ میں نے فوری بیگ سے میڈیکل رپورٹ اور ایکسرے کو باہر نکالا تاکہ ان کا سہا ر۱لے کر ٹی ٹی ای کی ہمدردی بٹور کر سیٹ حاصل کرسکوں۔
ٹی ٹی ای نے شاید تقریباً ہر ایک ڈبے میں سوار سا رے مسافرو ں کی ٹکٹ تلاشی مکمل کر لی تھی اور وہ اب واپس اسی طرف لوٹ رہا تھاجہاں سے اس نے ٹکٹ تلاشی کی ابتدا ء کی تھی اُسی جگہ پر شا ید واحدسیٹ اسی کی خا طر مختص تھی جس پر اس نے اپنا بیگ (چھوٹا سا بریف کیس ) بہ تصور تحفظ زنجیر کے ذریعہ کھڑ کی کے سلاخ کے سا تھ جوڑ کر چھوٹا سا تالہ ہی لگادیا تھا گویا اپنے سامان کو اس نے حفاظت کی زنجیر سے گرفتار کر لیا تھا۔ ٹی ٹی ای میری جانب بڑھ رہا تھا اور میں اسی جگہ پر رکا اس کے قریب آ نے کا منتظر تھا۔ جیسے ہی وہ میرے نزدیک آ گیا میں نے بلاتا خیر اُس میڈیکل رپورٹ اور ایکسرے اس کی طر ف بڑھاتے ہو ئے متا نت بھر ے لہجے میں عر ض کیا۔
’’سر پلیز میں بیمار ہوں یہ رہی میڈیکل رپورٹ…… اس بھیڑ میں کھڑے کھڑے پونا تک سفر کر نا مشکل ہی نہیں میر ے لیے ناممکن ہے ۔آپ کم از کم اگر بر ت کے علا وہ صرف سیٹ ہی الاٹ کردیں تو مہر بانی ہوگی ۔ ‘‘ ٹی ٹی ای کو میری اس سنجیدگی نے متاثر کر دیا تھا یا میڈیکل رپورٹ کی سچائی ……لیکن وہ متاثر ضرور تھا۔ دونوں میں کسی ایک کا تاثر ٹی ٹی ای کے چہرے سے عیاں تھا۔ اب میری اُمید کی رفتار بھی ٹرین کی رفتار کے برابر دوڑ نے لگی جسے میرے لیے سیٹ لیکر لوٹنا تھا۔ آیئے …… کہہ کر ٹی ٹی ای نے میڈیکل رپورٹ اور ایکسرے کو سر سری جائزے کے بعد واپس لوٹا دیئے تھے…… اب میں ٹی تی ای کے پیچھے بھیڑ میں اس کے بنائے راستے پر بہ آسانی آگے بڑھ رہاتھا۔ ریلوے کیا ٹرنگ سروس ملازم…… چائے ،کافی ،گرم سموسہ ،اڈلی کی آوازیں بلند کر تے ان اشیاؤں کو مسافرو ں کی بھیڑ سے بچا کر اوپر اُٹھائے حسبِ معمول آ گے بڑھنے میں کامیاب تھے۔ بھیڑ میں سے گذرنے والاٹی ٹی ای اچانک زُک گیا ، ٹرین کی رفتار بدستور تیز تھی ۔ کھڑ کی سے لگی سیٹ پر بیٹھے مسا فر نے اپنے سا منے والی اوپری برت کی جانب اشارہ کر کے ٹی ٹی ای کو رو کا تھا۔ اُس مسا فر کا اشارہ اوپر والی واحد برت پر اُن دو مسافرو ں کی جانب تھا جن کے بدن ایک دوسرے کی بانہوں میں جکڑے ہو ئے تھے ۔ ایک بدن نازک و خوبصورت دوسرے بدن کا مخالف جنس تھا۔ مضبوط بدن والے جنس نے اپنی بانہوں کے حصار میں نازک بدن کو پوری طرح لے لیا تھااپنی بانہوں کی گر فت اُس نازک و خوبصورت بدن پر اور مضبوط کر دی تھی ایک دوسرے کی بانہوں کا دائرہ کسی قدر تنگ ہو تا جا رہا تھا۔ مضبوط بانہوں کے تنگ حصار میں خود کو نازک بدن نے پوری طرح سونپ دیا تھا۔ مضبوط بانہوں کی ہر لمحہ بڑھنے والی گرفت نے نازک بدن کے منہ سے جذباتی و میٹھے درد کی سسکیوں کو نچلی بر ت پر کھڑکی سے لگے بیٹھے مسا فر کے سما عت کے ٹہرے پانی میں ارتعا ش سا پیدا کر دیاتھا۔
اب وہ احتجاجاََ ٹی ٹی ای سے مخاطب ہو کر کہہ رہا تھا ۔صاحب یہ کیاہے اس طرح ٹرین میں اور رو شنی میں ! کچھ بولو نا صاحب ………… ہم سب مسافرو ں سے یہ سین دیکھا نہیں جاتا جو شرم کے پانی میں ڈبو دے !!
ٹی ٹی ای نے جب مسا فر کے اشارے پر اوپر والی برت کا شر مناک نظارہ کیا تو اس کے دماغ میں یہ خیال ابھرا یہ بیا ہتا جوڑا ہی ہو سکتاہے شا ید ہنی مون سے واپسی میں اس کی باقی رہی سہی کسر کو منزل پر پہنچنے سے پہلے پوری کر نے میں گو یا فرض ازدواجیت کے اسی فر ض کو اوّل و آخر جان کر ان مسا فرین کی موجود گی سے بے خبر و بیگانہ ہو کر شر مناکی کا یوں مظاہرہ کر نے میں بے حد مصروف تھے ۔
ٹی ٹی ای نے مسا فر کے احتجاجی جملے کا یوں جواب دیا اور آ گے بھیڑ میں نکل گیا۔ ’’یار اُن کی لائف ہی ’آر اے سی ‘ ٹکٹ ہے ۔ !! ‘‘ٹی ٹی ای کے اس بات میں بلا کا طنز چھپا تھا اور وسیع معنی بھی !!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ان خواتین کی طرف دیکھتاہوں۔ ان میں سے ایک بے حد خوبصورت عورت مجھے بڑے غور سے
دیکھ رہی ہے۔ مجھے عجیب سا محسوس ہوتاہے۔ اس کی نگاہوں سے سورج کی کرنیں میری جسم پر اترنے لگتی
ہیں اور میں جیسے ایک دم جوان ہونے لگتاہوں۔ پانچ سے دس، دس سے پندرہ، پندرہ سے بیس اور بیس سے
پچیس۔ اب میں پچیس سال کا بھرپور جوان ہوگیاہوں۔ مگر گاڑی کا سارا منظر بدل چکا ہے۔ زنانہ ڈبہ کی
بجائے مردانہ ڈبہ ہوگیاہے۔ میرے پاس سیٹ بھی نہیں ہے۔ فر ش پر اکڑوں ہو کر بیٹھا ہوں اور سارے فرش
پر بھی اتنا رش ہے کہ بیٹھے بیٹھے پہلو بدلنا مشکل ہے۔
(حیدر قریشی کے افسانہ دھند کا سفر سے اقتباس)