ڈاکٹر بلند اقبال (کینیڈا)
اگلے ہی لمحے ایک بھپری ہوئی موج نے سارے سمندر کے سکوت کو سالم ہی نگل لیااور عبدالخالق کے قلم کی نوک کسی ڈوبتی ناؤ کے بے بس چپو کی طرح سطحِ آب میں چھپے ناچتے ہوئے حلقوں میں پھنستی چلی گئی۔ آسمان بادلوں کے پردوں کے پیچھے چھپ کر گہرا سیاہی مائل ہونے لگا ، ہوائیں بے بس بگولوں کی طرح اپنے محور پر ناچنے لگیں اور عبد الخاق کے قلم کی نوک سے پہلا لفظ کسی موج کی شکل میں نکلا اور اُس کی زندگی کی ناؤ کو ستیاسی برس پیچھے دھکیلنے لگا ۔۔ ۔آٹوبائیو گرافی
ساحل سمندر کی پر شوخ ہوا نے نہ جانے کیا اُس بوڑھے کہانی کار کے کان میں سرگوشی کی تھی کہ وہ جھنجلا کر بنا باد بان کے خیالوں کی کشتی ہی لیے، زندگی کے گہرے سمندروں میں خود کی تلاش میں نکل کھڑاہوا تھا۔ اپنی تخلیق کی پہلی سطح کو کریدنے کے خاطر پہلے پہل تو اُس کے قلم کی نوک کس قدر ر عونت سے کسی انجانے عدم میں اُس کو ٹٹولتی رہی اور جب کوئی سُراغ نہ ملا تو تھک کر اُ س کی زندگی کی پہلی کاغذی ناؤ کے ارد گرد اُسکے چھوٹے چھوٹے نازک ہاتھوں کو ڈھونڈنے لگی۔۔ ناؤ بھی تھی اور وہ چھوٹا ساجوہڑ بھی ،اُس کے دوست بھی تھے اور سگے پیارے بھی ، ہوائیں بھی تھی اور بادل بھی اور اُس کے پیاروں کی آوازیں بھی ، مگر۔۔۔ وہ نہیں تھا، کہیں نہیں تھا ۔عبدالخالق خود کو بار بار ڈھونڈتا تھا ۔ یہیں تو تھا میں، کہاں کھو گیا ؟ وہ خود سے سرگوشی کرنے لگا ۔۔
زندگی موج در موج اُس کو لیے گہرے سمندروں کے سفر پر نکلی تھی۔اُسے یاد تھا وہ کسی طوفان کی طرح سرکش ہواؤں کو پچھاڑ رہاتھا ۔قدم بہ قدم اُس کے ماں باپ اُس کے سر کی بلائیں لیتے تھے ۔وہ اُن کی ہتھیلیوں کی دعائیں بن کر زندگی کے ہر ایک میدان میں قبول ہورہا تھا ۔کامیابیاں اُس کے قدم چومتی تھی اور ناکامیاں اُس سے سر چھپائے پھرتی تھی مگر اُس کے قلم کی نوک کورے کاغذ کو کرید کرید کر تھکنے لگی تھی۔اُس کے ماں باپ کے ہتھیلیوں کے نشان بھی تھے اور اُن سے اُٹھنے والی دعاؤں کی سرگوشیاں بھی ،اُ ن کے پر شفقت چہرے بھی تھے اور دلنشین آوازیں بھی،کامیابیوں کے میدان بھی تھے اور اُن میں دوڑنے والے کھلا ڑ ی بھی ،ناکامیابیوں کے ڈوبتے سائے بھی تھے اور اُس سے ہارے ہوئے لوگوں کی سسکیاں بھی مگر ۔۔۔وہ نہیں تھا، کہیں نہیں تھا ۔عبدالخالق خود کو پھر بے بسی سے ڈھونڈتا تھا ۔یہی تو تھا میں، کہاں کھو گیا ؟ وہ خود سے پھر سرگوشی کرنے لگا ۔۔۔
عبدالخالق تھک ہار کر سوئے ہوئے سمندر کو تکنے لگا اور پھر ایک بار اپنے قلم کی نوک سے کورے کاغذکو کریدنے لگا ۔اچانک اُس کے بوڑھے ہونٹوں پر ایک انجانی سی مسکراہٹ پھیل گئی ۔اُس کی آنکھوں میں کسی کی محبت کے دیے جلنے لگے۔اُس کے سفید سوکھے بال کسی کی ریشمی زلفوں سے الجھنے لگے ۔خیالوں کی سیاہ شب میں کسی کی محبت کے چراغ جلنے لگے ۔۔مگر جلد ہی چراغ ٹمٹمانے لگے اور پھر وہ تاریکی ہوئی کہ وہ خود کو پانے کی خواہش میں پھو ٹ پھوٹ کر رونے لگااور خود سے پوچھنے لگا ۔۔میں کہاں تھا ؟ میں تھا بھی یا نہیں؟ وہ سب جن کے ساتھ میں تھا وہ تو ہیں مگر۔۔ میں نہیں ۔ میں خود کو نظر کیوں نہیں آتا ؟کیا میں اندھا ہوگیا ہوں ؟ یہ سوچ کر عبدالخالق نے اپنی بوڑھی آنکھوں کو دونوں ہاتھوں سے مسلا مگر گزرے ہو ئے منظروں میں اُس کی جگہ خالی تھی۔ساحل سمندر کی پُر شوق ہوائیں اُس پرکھلا کھلا کر ہنسنے لگی اور سمندر کی ساکت سطح پر موجوں کو ٹٹولنے لگی مگر اُس وقت تک سمندر سویا ہوا تھا یہ اور بات کہ سطحِ آب کے نیچے بہت نیچے عبدالخالق کی زندگی کی پہلی ناؤ بنا اُس کے نازک ہاتوں کے، گذرے وقت کے گردشی حلقو ں میں پھنسی ہوئی اپنے محور پر گھوم رہی تھی
عبدالخالق شکستگی سے سمندر کو تکنے لگا اورپھر ایک بارگزرتے وقت کے گردشی حلقوں میں خود کو ڈھونڈنے لگا۔ سمندری ہوائیں اُس کے کانوں کے پاس پھر سے سرسرائی اور چپکے سے اُس کے کان میں کہا ۔۔۔ ’موج ہے دریامیں اور بیرون دریا کچھ نہیں‘ اور اُسے شوخ نگاہوں سے تکنے لگی۔عبد الخالق حلقہ در حلقہ خود کو اپنی تخلیقات میں ڈھونڈنے لگا ۔۔میری زندگی تو میرے تخلیق کردہ کردار تھے میں ضروراُن کے ساتھ کہیں ہونگا ۔وہ خود سے بڑ بڑایا۔میں کون تھا ؟وہ ایک ایک کہانی کے حلقے میں خود کو ڈھونڈنے لگا۔میں وہ کارٹون تھا جس کے قول و فعل میں تضاد تھایا وہ چونے والا تھا جس کا بچہ مسجد میں شہید ہوا تھا ؟ یا میں وہ طوائف تھا جو جوان لڑکیوں کی خریدوفرخت کرتی تھی ؟ کہیں میں وہ آرٹسٹ تو نہیں تھا جو سجدے میں گر کر خدا سے شکوہ کرتا تھا ؟ یا میں وہ بچہ تھا جس کا پہلا پیار اُس کے ساتھ ہونے والا گناہ تھا ؟ میں کون تھا ؟؟ عبدالخالق اپنے تخلیق کردہ ایک ایک کردار کو جھنجوڑنے لگا مگر ہر ایک کردار کچھ ہی دیر میں اپنا دامن جھٹک کر اُسے تنہا چھوڑ کر اپنے دائرے میں چلا جاتا اور وہ پھر اندھیرے میں کھو تا چلا جاتا۔پانی کی بالائی سطح پر چھوٹی چھوٹی موجیں اُن حلقوں کی شدت سے کبھی کبھار بنتی مگر سوئے ہوئے سمندر کو جگانے سے پہلے ہی پھراپنے اپنے محوروں میں سمٹ جاتیں۔
بالآخر عبدالخاق نے تھک ہار کر اپنے قلم کی نوک کو کسی ڈوبتی ناؤ کے بے بس چپو کی طرح اپنی تخلیق کے سوتوں میں چھپے حلقوں میں پھنسایا اور اپنی زندگی کی کہانی، اپنی شکستگی کی داستان خود کے نہ ہونے کے یقین کے ساتھ لکھنا شروع کیا ۔ ساحل سمندر کی پر شوخ ہوائیں اس بار اُس کے کان میں سرسرانے کے بجائے گونجنے لگی ۔ ۔۔۔ ’احساسِ شکستگی خود اگہی کی پہلی منزل ہے‘ !
یکایک آسمان بادلوں کے پردوں کے پیچھے چھپ کر گہرا سیاہی مائل ہونے لگا ، ہوائیں بے بس بگولوں کی طرح اپنے محور پر ناچنے لگیں ،لفظ اُس کے قلم کی نوک سے موج در موج کی شکل میں نکلنے لگے اور اُس کی زندگی کی ناؤ کو ستیاسی برس پیچھے دھکیلتے چلے گئے ۔۔ آٹوبائیو گرافی ۔۔۔اگلے ہی لمحے پانی کی زیریں سطح پر بننے والا ایک حلقہ کسی بھپری ہوئی موج کی شکل میں ڈحل گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے سمندر کے سکوت کو سالم ہی نگل لیا ۔۔۔عبد الخاق خود کو پاکر خوشی سے رونے لگا ۔