ڈاکٹر بلند اقبال(کینیڈا)
ہارمونیم کے پردوں کے پیچھے چُھپا ہوا میٹھا سُر جنم جنم سے ان دیکھی مشتاق انگلیوں کا منتظر تھا۔۔۔ انگلیاں جوبولتی ہو ، انگلیاں جو دیکھتی ہو ، ا نگلیاں جو ہنستی ہو ، انگلیاں جو روتی ہو ۔۔۔انگلیاں جو ڈھولک کی تھاپ ، سارنگی کے سُر اور بانسری کی لے کے ساتھ ہارمونیم کے اُس میٹھے سُر کو کچھ اس طرح سے ملاد ے کہ ایک ا یسا سنگیت جنم لے جس کی ہر تان ایک دیپک ہو ۔مگر ۔۔۔ بادل گزرتے رہے ، سورج ڈوبتا اُبھرتا رہا اور موسم بدلتے رہے۔۔۔ سارنگی ہارمونیم کے میٹھے سُر کے لیے ترستی رہی ، بانسری کی لے ڈھولک کی تھاپ کے انتظار میں روتی رہی ۔۔ ۔ ہارمونیم کا سچا سُر کہیں کھو گیا تھا ۔ سنگیت بنا جنم لیے مر رہا تھا۔
با لاخر تھک ہار کر اِک رات کے پچھلے پہر کچھ انگلیاں ہارمونیم کے پردوں پر سر سرائی ۔ ہارمونیم کے سوئے ہوئے میٹھے سُر نے نیند کی آغوش میں کروٹ لی اور پھر دھیمے سے ڈھولک کی تھاپ کے کان میں کچھ ایسی بات کہی کہ ڈھولک کی تھاپ اک دم شرما سی گئی اور پھر بانسری کی لے کے ساتھ کسی ناچتی ناگن کی طرح بل کھا کر اُٹھی ۔
مگر اِس سے پہلے کہ سنگیت کی جل ترنگ فضاؤں میں گُنگنا تی ، ہارمونیم کا میٹھا سُر معصوم روتے ہوئے بچوں کی آوازوں میں کراہنے لگا ۔ ڈھولک کی تھاپ ماؤں کے سینے کوٹتے ہوئے بے ہنگم شور میں بد لنے لگی۔ سارنگی سے نکلتے ہوئے سُر ہوائی جہازوں کی بے سُری چنگاڑتی ہوئی آوازوں سے کانپنے لگے ۔ بانسری کی لے روتے ہوئے گید ڑوں کی آوازوں میں ڈھلنے لگی ۔ سنگیت نوحہ بننے لگا۔ ہر طرف دھواں دھواں ہونے لگا ۔۔۔ سُر رورہا تھا ا ور سنگیت مر رہا تھا۔اور پھر سُر نے روتے ہوئے اُن مشتاق ا نگلیوں کو دیکھا جو ہارمونیم پر ناچ رہی تھیں ۔ انگلیاں ۔۔۔ جو خون میں ڈوبی ہوئی تھیں۔انگلیاں جو درد کے قصے بانٹتی تھیں ۔ انگلیاں جو زندگیوں میں عذاب بن کر ناچتی تھیں۔ انگلیاں جو عزتیں بھنبھوڑتی تھیں۔ ا نگلیاں جو گولیاں چلاتی تھی۔ انگلیاں جو بم گراتی تھیں۔ انگلیاں جو آشیانے جلاتی تھیں۔ انگلیاں جو زیست کے نوالے بناتی تھیں ۔ انگلیاں جو خون چاٹتی تھیں ۔۔۔ انگلیاں جو خون میں ڈوبی ہوئی تھیں ۔۔۔ انگلیاں جو خون میں ڈوبی ہوئی تھیں۔
اور پھر تھک ہار کر ڈھولک نے ہارمونیم کے سُر کا ساتھ چھوڑ دیا ۔ سارنگی روتے روتے سو گئی ۔ سُر پھر سے ہارمونیم کے پردوں میں چھپ گیا۔ اُس چاندنی رات کے پچھلے پہر ہر سو موت کی سی خاموشی تھی۔کچھ لمحوں کے بعد ہارمونیم پر جمی انگلیاں د ھیمے سے سر سرائی اور آ ہستگی سے ہارمونیم کے پردوں کو تکنے لگی۔ پردے۔۔۔ جو نفرتوں کے تھے۔