جوگندر پال(دہلی)
نہیں رحمن بابو
میرے کلینک میں آج ایک روبو آنکلا،رحمن بابو،چیک اپ کے بعد میں نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ بتانے لگا ،میں تھکا تھکا رہنے لگا ہوں،ڈاکٹر۔
اور اس کی شکایت سن کر مجھے یہ فکر لا حق ہونے لگی کہ کہیں اس میں جان تو نہیں پڑ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں ،رحمن بابو،میں پاگل نہیں ہوں۔۔۔کیا؟۔۔۔اپنے آپ سے باتیں کیوں کرتا رہتاہوں؟تم ہی بتاؤ رحمن بابو،گم شدگان تک اور کیسے پہنچا جا سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سب ہم مذہب ہیں رحمن بابو،
مگر اس کا کیا کیا جائے کہ ہر کسی کو اپنی اپنی بساط کا ہی خدا ملتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہاری رائے سے مجھے اتفاق ہے رحمن بابو۔
تم کہتے ہو،دشمن سے ہمیشہ دوستی سے پیش آؤ۔میں نے ساری زندگی یہی کیا ہے۔میرا خیال ہے کہ دشمن سے سدا دوستی سے ہی پیش آتے رہوتو وہ جیتے جی مرجاتا ہے۔۔۔کیسے؟
ایسے بابو کہ میں بھی اپنے قابو میں کہاں تھا۔مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اپنا سب سے بڑا دشمن میں خود آپ ہوں۔پھر بھی میں اپنے آپ سے دوستی سے پیش آتا رہا۔حتیٰ کہ میری روح میرا جسم چھوڑ کر آسمان کوپرواز کر گئی۔
نہیں بابو،اب کیا ہو سکتا ہے؟ مرے ہوئے کو بھی کوئی زندہ کر سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا سمجھنا چاہتے ہو رحمن بابو؟
ساری عمر سمجھ بوجھ سے ہی کام لے لے کر تو کنارے پر آلگے ہو۔اب آگے کی خبر لینا چاہتے ہو تو بے خبر ہو جاؤ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کے لوگ
ہاں، بھئی،ہاں میری موت واقع ہو لی تھی،مگر دیکھ لو،میرا دل کیسے دھائیں دھائیں دھڑکے جا رہا ہے۔
ہاں اور کیا؟پورے کا پورا مرچکا تھا مگر تم خود ہی دیکھ لو،جوں کا توں زندہ ہوں۔
کیسے کیا؟جیسے ہے،ویسے!۔۔جیتے جی جب میرے دل کی دھڑکن میں خلل واقع ہوا تو ڈاکٹروں نے میرے سینے میں ایک پیس میکر(Pace Maker) فٹ کر دیااور دعویٰ کیا کہ اب دَم نکل جانے پر بھی میرا دل جوں کا توں دھڑکتا رہے گا۔سو جو ہے سو ہے۔۔مرکھپ کر بھی۔۔۔کیا؟۔۔۔مرا کب؟۔۔۔کتنے احمق ہو بھئی! جو مرگیا اسے کیا پتہ ،وہ کب مرا؟۔۔ہاں ،بھئی،اب خدا کا ڈر کاہے کو؟مر کر خدا کے پاس تھوڑ اہی جانا ہے۔۔ہاں اور کیا؟اب تو سدا اپنے ہی پاس رہنا ہے۔۔۔ہیہ ہیہ ہا! ٹھیک کہتے ہو اب تو صرف اسی نیک کام سے نجات وابستہ ہے کہ اپنی مشین بگڑنے نہ دو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنا اپنا
ایک دفعہ سائبیریا کا ایک باشندہ ہمیں بتا رہا تھا۔’’پھر کیا ہواکہ میرے دیکھتے ہی دیکھتے ایک عجیب و غریب اُڑن کٹھولا زمین پر اُتر آیا۔اس اُڑن کٹھولے سے دو شکلیں باہر نکلیں۔بڑی مختلف النوع مخلوق تھی۔الٹا سیدھا لباس پہن رکھا تھااور چہروں پو کوئی آلے جما رکھے تھے۔‘‘
’’کیا انہوں نے بھی آپ کو دیکھا؟‘‘
’’نہیں،میں پاس ہی جھاڑی میں چھپ گیا تھا۔۔تھوڑی دیر میں دو میں سے ایک کا آلہ اس کے منہ سے گر کر سینے پر لٹکنے لگا ۔اتنا عجیب چہرہ تھا کہ میرے بیان سے باہر ہے۔کچھ دیر وہ آپس میں باتیں کرتے رہے۔‘‘
’’کیا باتیں کرتے رہے؟‘‘
’’مجھے ان کی زبان تو نہیں آتی مگر جب ایک نے دوسرے کی طرف دیکھ کر چونکی چونکی آواز میں ایک جملہ بولا تو مجھے لگا،اس نے کہا ہے،بے وقوف اپنا آلہ جلدی سے منہ پر چڑھا لو،ورنہ آکسیجن کے زہر سے دَم توڑ دوگے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محض
میں اپنے پیروں کے ٹکاؤ،ہاتھوں کی پینگ اور سر کی چھتری پر ہی اپنی ذات کو محمول کرنے لگااور میری اصلی ذات سالہا سال بڑے صبر و سکون سے دو سرے عالم میں میرا انتظار کرتی رہی اور ہنستی رہی کہ میں اپنے آپ کو محض جوگندر پال سمجھ بیٹھا ہوں۔