ارشد کمال(دہلی)
تلاطم ہے نہ جاں لیوا بھنور ہے
کہ بحرِ مصلحت اب مستقر ہے
درِ صیّاد پر برپا ہے ماتم
قفس میں جب سے ذکرِ بال و پر ہے
تکلم کا کرشمہ اب دکھادو!
تمھاری خامشی میں شوروشر ہے
کروں کیا آرزوئے سرفرازی!
کہ جب نیزے پہ ہر پل میرا سر ہے
ملی مہلت تو دل میں جھانک لوں گا
ابھی تو ذہن پر میری نظر ہے
چڑھے دریا میں ٹوٹی ناؤ کھینا
کہانی زندگی کی مختصر ہے
اگر سودا رہے سر میں تو ارشدؔ
ہراک دیوار کے سینے میں در ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تعلق ہے شمس و قمر سے، تو کیا!
ہمیں چاہیے آپ اپنی ضیا
خودی سے ہے رشتہ پُرانا مرا
مگر دور رہتی ہے مجھ سے انا
نہ جانے کہاں، کیا تماشا کرے!
یہ میرے وسائل کی چھوٹی رِدا
چلے تھے جہاں سے، وہیں آگئے
یہ کیسا سفر ہم نے اب تک کیا!
کہا جب کسی نے کہ شام آگئی
دِیے کے تعاقب میں چل دی ہوا
نہ فردا کی آہٹ، نہ دی کا گزر
مرے دل کا موسم رہا ایک سا
یہ سُن کر صبا اُن کو صر صر لگی
کہ ارشدؔ کو بھی ہے میسّر صبا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہے میں نے ایسا کیا، کہ ایسا ہوگیا ہے
مرا دل میرے پہلو میں پرایا ہوگیا ہے
سوادِ شب ترے صدقے کچھ ایسا ہوگیا ہے!
بھنور بھی دیکھنے میں اب کنارا ہوگیا ہے
میں اُن کی گفتگو سے عالمِ سکتہ میں گم تھا
وہ سمجھے اُن کی باتوں سے دلاسہ ہوگیا ہے
کبھی موقع ملے تو گفتگو کر لوں، خبر لوں
کہ خود سے ربط ٹوٹے ایک عرصہ ہوگیا ہے
کبھی اُن کا نہیں آنا خبر کے ذیل میں تھا
مگر اب اُن کا آنا ہی تماشا ہوگیا ہے
مجھے فرہاد و مجنوں آفریں کہتے ہیں ارشدؔ!
کہ اب میرا بھی جینے کا ارادہ ہوگیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رہِ حیات کی ظلمت کا دل دُکھاتے رہیں
کسی کی یاد کے تارے جو جھلملاتے رہیں
مزہ تو جب ہے کہ ہم زندگی کے صحرا میں
ہراک سراب کو آبِ رواں بناتے رہیں
فراق و وصل حقیقت میں ایک ہوں کہ نہ ہوں
یہ عین عشق ہے دونوں کو ہم ملاتے رہیں
جواز کوئی نہیں آج قہقہوں کا ، مگر
امیرِ وقت کا منشاء ہے کھلکھلاتے رہیں
ہوا کی سانس یقیناً اُکھڑ ہی جائے گی
چراغ اپنے لہو سے تو ہم جلاتے رہیں
کہاں سے چھانو ملے گی ہماری نسلوں کو !
زمیں پہ دھوپ کے پودے جو ہم اُگاتے رہیں
کسی مکاں میں کوئی گھر نہ مل سکے گا یہاں
ہزار شہرمیں ارشدؔ جی سر کھپاتے رہیں