(Last Updated On: )
ناصر ملک (لیہ)
اُلجھنوں میں پڑا نہیں تھا مَیں
اُس سے جب تک لڑا نہیں تھا مَیں
خود بخود گر گئے سبھی ورنہ
اس نگر میں بڑا نہیں تھا مَیں
اُس کو پانے کی ضد بھی تھی میری
اور ضد پر اَڑا نہیں تھا مَیں
پوچھ لیتا وہ حالِ دل میرا
بے سبب تو کھڑا نہیں تھا مَیں
پانیوں کا مزاج بدلا تھا
ورنہ کچا گھڑا نہیں تھا مَیں
اُس خزاں کو نہ معتبر جانا
جس خزاں میں جھڑا نہیں تھا مَیں
بٹ گئے لوگ جا بجا لیکن
ان دھڑوں میں دھڑا نہیں تھا مَیں
دل کہ خدشوں سے پاک تھا ناصر
جب کہیں بھی جڑا نہیں تھا مَیں