(Last Updated On: )
عاطرؔ عثمانی(کوالاالمپور)
مرا وجُود مرا آشیاں لہو میں ہے
مری زمیں پہ مری داستاں لہو میں ہے
کوئی کمی سی بدن کا طواف کرتی ہے
اور اِک عجب سا خسارہ رواں لہو میں ہے
ہوا بھی سُرخ ہے شُعلوں کے اِس سمندر کی
جو ناؤ آگ میں تو بادباں لہو میں ہے
ترے وِصال کی بارش تو تھم چُکی کب کی
مگر یہ کیا کہ دھنک سی جواں لہو میں ہے
بس ایک شخص کا نام و نشاں مٹانا ہے
بس ایک شخص کا نام و نشاں لہو میں ہے
اُٹھی تھی جو رگِ ہابیل سے کبھی عاطرؔ
رواں چھلک وُہ ابھی تک دواں لہو میں ہے