(Last Updated On: )
فراغ روہوی(کولکاتا)
ہر ایک موڑ پہ تصویر جستجو رکھ دے
دئیے جلا کے ہواؤں کے رو برو رکھ دے
وہ آسماں سے زمیں پر کبھی تو اترے گا
اس انتظار میں آنکھوں کو چار سو رکھ دے
ہمارا چاک، جگر کب اُٹھائے گا احساں
یہ بخیہ گر سے کہو آلۂ رفو رکھ دے
عجب نہیں کہ وہ تیری نگاہ کے آگے
ہر ایک خواب کی تعبیر ہو بہو رکھ دے
جسے بیاں تو سرِ عام کر نہیں سکتا
غزل کے پردے میں اپنی وہ گفتگو رکھ دے
بھری بہار میں صد حیف بیوگی کا لباس
قبائے گل پہ چھڑک کر مرا لہو رکھ دے
ہر ایک رُت میں جو احساسِ تازگی بخشے
مری زمینِ غزل میں بھی وہ نمو رکھ دے
کبھی تو دستِ دعا کر بلند دل سے فراغؔ
کبھی تو داؤ پہ اپنی ہر آرزو رکھ دے