(Last Updated On: )
عباس رضوی
مثالِ موجِ صبا اعتبار اپنا نہیں
کہ دل تو اپنا ہے پر اختیار اپنا نہیں
یہ برگ و بار یہ سرووسمن اسی کے ہیں
کوئی گلاب سرِ شاخسار اپنا نہیں
نہ منزلوں کی خبر ہے نہ کارواں ہے کوئی
مگر قیام سرِ رہگزار اپنا نہیں
یہ کارِ عشق ہمارا جنوں سے ہے مشروط
ہمیں خبر ہے مگر یہ شعار اپنا نہیں
انہی کا خوف،انہی سے خطر جو اپنے ہیں
امید ہے تو اسی سے ہزار اپنا نہیں
یہ اور بات کہ شامل غبارِ راہ میں ہیں
تمہارے ہم سفروں میں شمار اپنا نہیں
کچھ اہتمام سحاب و صبا کریں تو کریں
کہ اس نگر میں کوئی سوگوار اپنا نہیں