(Last Updated On: )
رؤف خیر
جو اتحادِ دلِ ما و تو نہ راس آئے
تو پھر یہ طے ہے کہ دنیائے ہُو نہ راس آئے
ہمارے دیدہ و دل سے جو دور جاتے ہو
خدا کرے تمہیں دوری کبھو نہ راس آئے
ہماری آج بھی خوننابیت سلامت ہے
دعا کرو کہ کسی کا لہو نہ راس آئے
بہ جبرِ دل سہی تیری گلی سے کیا اُٹھے
تو پھر خدا کی قسم کاخ و کو نہ راس آئے
دماغ سے نہ گئی تیری بوئے خوش بدنی
یہ حال اب ہے کہ منٹو کی’’بُو‘‘ نہ راس آئے
رؤف خیرؔ سلامت ہے آرزو اس کی
اب اس کے بعد کوئی آرزو نہ راس آئے