(Last Updated On: )
محمد رفیع رضا
اگر چہ وقت مناجات کرنے والا تھا
مگر مَیں چُبھتے سوالات کرنے والا تھا
مُجھے سلیقہ نہ تھا روشنی سے ملنے کا
مَیں ہجر میں گُزر اوقات کرنے والا تھا
مَیں سامنے سے اُٹھا ااور لَو لرزنے لگی
چراغ جیسے کوئی بات کرنے والا تھا
کُھلی ہُوئی تھیں بدن پر رُواں رُواں آنکھیں
نہ جانے کون مُلاقات کرنے والا تھا۔
وُہ میرے کعبہءٰ دل میں ذرا سی دیر رُکا
یہ حج ادا وُہ مرے ساتھ کرنے والا تھا
کہاں یہ خاک کے تودے تلے دبا ہُوا جسم
کہاں مَیں سیرِ سمٰاوات کرنے والا تھا !