(Last Updated On: )
احمد صغیر صدیقی(کراچی)
اور سے اور نگر جاتے ہوئے
رات ہو جاتی ہے گھر جاتے ہوئے
وہ جو مل جاتے ہیں بے سان و گمان
کہاں دیتے ہیں خبر، جاتے ہوئے
دیکھ اتنا بھی نہ کر دل کا خیال
دیر لگتی نہیں سر جاتے ہوئے
صرف آنے کے لیے کھولتے ہیں
بند کر لیتے ہیں در جاتے ہوئے
دائرے کا یہ سفر ہے اپنا
کہاں سوچا تھا اُدھر جاتے ہوئے
کیوں نہ اک روز اسی سمت چلیں
لوگ ڈرتے ہیں جدھر جاتے ہوئے