حمیدہ معین رضوی(لندن)
جو ویرانی تھی دل میں وہ ہی ویرانی ابھی تک ہے
کھنڈر سے اس مکاں کی خستہ سامانی ابھی تک ہے
ہم اپنے قافلے سے لگتا ہے آگے نکل آئے
کہ ان کے گھر میں عہدِ ظلَ سبحانی ابھی تک ہے
لئے کشکول پھرتے ہیں زمانے بھر میں و ہ گر چہ
مگر انکی وہ کرو فر سلطا نی ابھی تک ہے
وہ جس میں کشتیِ جاں ڈوب کرمٹ جاتی ہے اکثر
مرے سیلابِ غم میں وہ ہی طغیانی ابھی تک ہے
قبائیں تن پہ ،پیشانی پہ ،سجدوں کے نشاں واضح
عمل میں نفسِ امّارہ کی شیطانی ابھی تک ہے
بڑھاپے کی گواہی چہرے کا ہر نقش دیتا ہے
مگررنگیں مزا جی کی وہ نادانی ا بھی تک ہے
جہاں تک ہوسکے ندرت کو اپنانا ضروری ہے
یہ نکتہ ہے غزل کی جس سے تا بانی ابھی تک ہے
ہر اس شے کی ہے قلت زندگی جس سے سنورتی ہے
فقط اک حرص ہے جس کی فراوا نی ابھی تک ہے
وہ زندہ دفن کیوں کر دی گئیں اِس عہدِ’’روشن‘‘ میں
کیوں عہدِ جاہلیت کی ستم رانی ابھی تک ہے
عجب عالم ہمارا ہے ،سکوں ناپید ہے جیسے
ہے خوش حالی ،مگر اک دردِروحانی ابھی تک ہے