(Last Updated On: )
رشید ندیم(کینیڈا)
نظارہ تھا اک اور ہی اور منظر سے نکل کر
دیکھا جو سمندر کو سمندر سے نکل کر
پِھرتا تھا کہیں خواب خلاوں میں اکیلا
مَیں گردشٰ افلاک کے محور سے نکل کر
اب یاد نہیں رہتی مُجھے وقت کی گنتی
نسیاں میں پڑا رہتا ہُوں ازبر سے نکل کر
کھو جاوں گا اک روز کسی خوابِ ابد میں
لیٹوں گا کفِ خاک پہ بستر سے نکل کر
لزّت کشِ خمیازہ ہُوں اَے حسرتِ نایافت
نایاب میں رہتا ہُوں مُیسر سے نکل کر
پھر رقص میں ہے حرفِ برہنہ سرِ محفل
پابندیءِ آداب کی چادر سے نکل کر
گُونجا ہے ندیمؔ اب کے بڑے زور سے سَر میں
اک شورِ تمنا دلِ خُود سَر سے نکل کر !!