(Last Updated On: )
مظفر حنفی
جہاں زمیں ہے وہاں آسماں بھی پڑتا ہے
یہ پردہ تیرے مرے درمیاں بھی پڑتا ہے
کوئی بتائے سفینے جلانے والوں کو
کہ اک اَنا کا سمندر یہاں بھی پڑتا ہے
مزا تو آتا ہے مرمر کے زیست کرنے میں
کبھی کبھار یہ سودا گراں بھی پڑتا ہے
حسین چہروں پہ ہم سینک لیتے ہیں آنکھیں
بلا سے کم نظری کا دھواں بھی پڑتا ہے
اب اتنا خوش بھی نہ ہو ڈھا کے چار دیواریں
بدن فصیل میں اک شہرِ جاں بھی پڑتا ہے
ترے نثار، کچھ اتنا کیا ہے سر افراز
کہ سرے سے نیچے ترا آستاں بھی پڑتا ہے
میں اپنی ذات کی پیچیدگی سے عاجز ہوں
اسی میں ورطۂ کون و مکاں بھی پڑتا ہے