حمایت علی شاعر
کیا کیا نہ زندگی کے فسانے رقم ہوئے
لیکن جو حاصلِ غمِ دل تھے وہ کم ہوئے
اے تشنگیء درد، کوئی غم، کوئی کرم
مدت گذر گئی ہے اِن آنکھوں کو نم ہوئے
ملنے کو ایک اذنِ تبسم تو مل گیا
کچھ دل ہی جانتا ہے جو دل پر ستم ہوئے
کس کو ہے یہ خبر کہ بہ عنوانِ زندگی
کس حسنِ اہتمام سے مصلوب ہم ہوئے
شاعر تمہیں پہ تنگ نہیں عرصۂ حیات
ہر اہلِ فن پہ دہر میں ایسے کرم ہوئے
حمایت علی شاعر
کیوں ہو گئی اے شمع، تری بزمِ سخن چپ
دل چپ ہے، نظر چپ ہے، قلم چپ ہے، دہن چپ
نعرہ نہ سہی، چیخ سہی، کچھ تو ہو یارو!
بیٹھے ہیں بڑی دیر سے اربابِ وطن چپ
گل چیں ہے کہ گلشن کو کیے جاتا ہے تاراج
اور اہلِ چمن دیکھ رہے ہیں ہمہ تن چپ
جب موت ہی ٹھہری ہے تو اے دل یہ فغاں کیا
للکار کہ کر دیں نہ کہیں دار و رسن چپ
شاعرؔ یہ عجب شور ہے، خاموش و پر اَسرار
دل میں تو ہے محشر سا مگر حرفِ سخن چپ
حمایت علی شاعر
دل سے جو ترے غم کے پرستار نہ ہوتے
اِس شان سے رسوا سرِ بازار نہ ہوتے
سینے میں جو دل بن کے دھڑکتا نہ غمِ عشق
ہم اہلِ جنوں آج سرِدار نہ ہوتے
جینا بھی اِک الزام ہے، مرنا بھی اِک الزام
اے کاش ہم اس ملک کے فنکار نہ ہوتے
چلتے نہ اگر ہٹ کے زمانے کی روش سے
اربابِ جہاں، درپئے آزار نہ ہوتے
ہر بت کو خدا کہتے اگر ہم بھی تو یارو
کچھ ہوتے مگر شاعرِ نادار نہ ہوتے
حمایت علی شاعر
زخم کو پھول، حقیقت کو گماں کہتے ہیں
لوگ ہر بات سرِ بزم کہاں کہتے ہیں
شاخِ گل ہے کہ کسی لاش کا سوکھا ہوا ہاتھ
یہ بہاراں ہے تو پھر کس کو خزاں کہتے ہیں
ہے یہ ویرانہ، یہاں پاؤں سنبھل کر رکھنا
کبھی آباد تھا اِک شہر یہاں کہتے ہیں
تم میں اور ہم میں یہی فرق ہے دنیا والو
ہم ہر اِک بات سرِ بزمِ جہاں کہتے ہیں
ظرف کی بات ہے، اِک جام کی خاطر کچھ لوگ
دُزدِ میخانہ کو بھی پیرِ مغاں کہتے ہیں
حمایت علی شاعر
کل تک تو اِک فریبِ یقیں تھا، گماں کے ساتھ
اور آج یہ زمیں بھی نہیں آسماں کے ساتھ
ہر ذرہ اپنی حدِ کشش سے نکل گیا
تنہا ہر ایک دل ہے غمِ بیکراں کے ساتھ
ہر نقشِ پا کا آپ ہی بنتی رہی کفن
گردِ سفر جو اُڑتی رہی کارواں کے ساتھ
تم اِس کو جبرِ وقت کہو یا ہوا کا رخ
اِک نسبتِ قفس بھی رہی آشیاں کے ساتھ
تنہا ہے تُو بھی میری طرح اے خدائے کُل
اِک رشتۂ نہاں بھی ہے ہم میں عیاں کے ساتھ
حمایت علی شاعر
منزل کے خواب دیکھتے ہیں پاؤں کاٹ کے
کیا سادہ دل یہ لوگ ہیں گھر کے نہ گھاٹ کے
اب اپنے آنسوؤں میں ہیں ڈوبے ہوئے تمام
آئے تھے اپنے خون کا دریا جو پاٹ کے
شہرِ وفا میں حقِ نمک یوں ادا ہوا
مخمل میں ہیں لگے ہوئے پیوند ٹاٹ کے
کھینچی تھی جن کے خوف سے سدّ سکندری
سوئے نہیں ہیں آج وہ دیوار چاٹ کے
اب تو درندگی کی نمائش بھی حسن ہے
دیوار پر سجاتے ہیں سر کاٹ کاٹ کے
حمایت علی شاعر
الفاظ ہیں کہ زہر کے پیالے بھرے ہوئے
یہ مدرسے، یونہی تو نہیں، مقبرے ہوئے
خود آگہی نہ تھی تو خدا آشنا تھے ہم
خود آشنا ہوئے تو ہیں خود سے ڈرے ہوئے
اِک مرکزِ نگاہ پہ کوئی نہ آ سکا
ہر چند ذہن و دل میں بہت مشورے ہوئے
اب کیوں نہ شاخِ دار پہ آئے سروں کی فصل
شہروں کا خوں پیا ہے تو جنگل ہرے ہوئے
اِک جرمِ بے وفائی، بنامِ وفا سہی
الزام یوں بھی سر پہ ہیں کتنے دھرے ہوئے
حمایت علی شاعر
میں کون ہوں، کیا ہوں مری تحریر کہے گی
خاموش رہوں تو مری تصویر کہے گی
کیوں سرخ ہیں نقشِ کفِ پا، راہِ طلب میں
کوئی نہ کہے، پاؤں کی زنجیر کہے گی
ہم کو تو سدا نیند میں چلنے کا مرض ہے
پہنچیں گے کہاں، خواب کی تعبیر کہے گی
الفاظ کی محتاج نہیں دل کی حکایت
خاموشی میں پنہاں ہے جو تقریر کہے گی
کیا راز ہے پوشیدہ پسِ پردۂ تقدیر
اس دور کے انسان کی تدبیر کہے گی
حمایت علی شاعر
بدن پہ پیرہنِ خاک کے سوا کیا ہے
مرے الاؤ میں اب راکھ کے سوا کیا ہے
یہ شہرِ سجدہ گزاراں، دیارِ کم نظراں
یتیم خانۂ ادراک کے سوا کیا ہے
تمام گنبد و مینار و منبر و محراب
فقیہِ شہر کی املاک کے سوا کیا ہے
کھلے سروں کا مقدر بہ فیض ’جہلِ خرد‘
فریبِ سایۂ افلاک کے سوا کیا ہے
یہ میرا دعویِٰ خود بینی و جہاں بینی
مری جہالتِ سفاک کے سوا کیا ہے
جہانِ فکر و عمل میں یہ میرا زعمِ وجود
فقط نمائشِ پوشاک کے سوا کیا ہے
تمام عمر کا حاصل بہ فضل ربِ کریم
متاعِ دیدۂ نمناک کے سوا کیا ہے
حمایت علی شاعر
میں سو رہا تھا اور کوئی بیدار مجھ میں تھا
شاید ابھی تلک مرا پندار مجھ میں تھا
وہ کج ادا سہی، مری پہچان بھی تھا وہ
اپنے نشے میں مست جو فن کار مجھ میں تھا
میں خود کو بھولتا بھی تو کس طرح بھولتا
اک شخص تھا کہ آئینہ بردار مجھ میں تھا
اپنے خلاف ہو کہ کسی کے خلاف ہو
میرا وجود برسرِ پیکار مجھ میں تھا
شاید اسی سبب سے توازن سا مجھ میں ہے
اک محتسب لیے ہوئے تلوار مجھ میں تھا
اپنے کسی عمل پہ ندامت نہیں مجھے
تھا نیک دل بہت جو گنہگار مجھ میں تھا
حمایت علی شاعر
در پردہ اپنے عہد کی تقدیر دیکھ لی
آیات میں چھپی ہوئی زنجیر دیکھ لی
معنی کے در پہ لفظ بھی ہیں قفل کی طرح
اے کاتبِ ازل، تری تحریر دیکھ لی
تھے دامنِ سراب میں صحرا بچھے ہوئے
خوش فہمیوں کے خواب کی تعبیر دیکھ لی
زنداں ہیں اور بھی پسِ زنداں بنے ہوئے
اِس سر زمیں پہ خوبیٔ تعمیر دیکھ لی
اچھا کیا کہ آپ نے قشقہ لگا لیا
اپنی نجات ہم نے بھی اے میرؔ دیکھ لی
حمایت علی شاعر
شہر علم
وہ ذات، شہرِ علم، تو ہم طالبانِ علم
ہم ذرہ ہائے خاک ہیں، وہ آسمانِ علم
ہم کیا ہیں ۔۔۔ ایک لفظ ۔۔۔ معانی سے بے خبر
ہم کیا سمجھ سکیں گے رموزِ جہانِ علم
سوچو تو ہم ہیں کب سے اساطیر کے اسیر
کب سے ہے اپنے جہل پہ ہم کو گمانِ علم
قرآں ہے، اس کے نطق کا اِک زندہ معجزہ
اقرأ سے تا بہ آیتِ آخر، زبانِ علم
اسرارِ کائنات کا عقدہ کشا وہی
وہ راز دانِ وسعتِ کون و مکانِ علم
ہم جستجوئے حق میں رواں اس کے سائے سائے
ہم کو اُسی کے نقشِ کفِ پا، نشانِ علم
حمایت علی شاعر
بابِ علم
بے اماں زمین پر، سایۂ اماں تھا وہ
ایک اور آسماں، زیر آسماں تھا وہ
آئینہ در آئینہ، اس کا عکس دیکھنا
سوچنا کہ فرد تھا کہ ایک کارواں تھا وہ
وہم اور گمان کی، گھپ سیاہ رات میں
مشعلِ یقیں تھا وہ، صبح کی اذاں تھا وہ
حرف و لب کے درمیان جب بھی فاصلے بڑھے
خامشی گواہ ہے، عہد کی زباں تھا وہ
وہ جسے کہا گیا، باب شہر علم کا
اپنے لفظ لفظ میں علم کا جہاں تھا وہ
دیکھیے تو آدمی، سوچیے تو اور کچھ
یعنی ایک بوند میں، بحرِ بیکراں تھا وہ
حمایت علی شاعر
تنہا تنہا
میں بہت تھک گیا ہوں
یہ کٹھن راستہ مجھ سے اب طے نہ ہو گا
یہ تمازت، یہ ویراں خموشی
جو ازل سے مری ہم سفر ہے
آج زنجیرِ پا بن گئی ہے
یہ ہوا جس کے دامن میں بکھری ہوئی خاک ہے
یا کہ سورج کی جھڑتی ہوئی راکھ ہے
میرے رستے میں دیوار سی بن گئی ہے
میں بہت تھک گیا ہوں
ایک پتھر کے مانند افتادہ
چپ چاپ بیٹھا ہوا سوچتا ہوں
میرے اطراف ہر چیز ٹھہری ہوئی ہے
پیڑ، سورج، پہاڑ۔۔۔آسماں
اس جہاں کی ہر اِک چیز ساکت ہے
کوئی نہیں جو مرا ہم سفر ہو
یہ طویل اور کٹھن راستہ مختصر ہو
حمایت علی شاعر
ایشیاء
آخرش جاگ اُٹھا وقت کا خوابیدہ شعور
شب کے پروردہ اندھیروں کا فسوں ٹوٹ گیا
اِک کرن پھوٹ کے چمکا گئی مشرق کا نصیب
دستِ اوہام سے ہر دامنِ دل چھوٹ گیا
کل تلک سرد تھی جن ذروں کے احساس کی آگ
آج تپ تپ کے وہ خورشید ہوئے جاتے ہیں
جن کو روندا گیا صدیوں وہی مجبور عوام
انقلابات کی تمہید ہوئے جاتے ہیں
لاکھ پھینکے شبِ تاریک سویرے پہ کمند
کارواں صبح کا بڑھتا ہی چلا جائے گا
اپنے ہمراہ لیے سینکڑوں کرنوں کا جلوس
وسعتِ عالمِ آفاق پہ چھا جائے گا
(اشاعت اول بعنوان ’بیداری‘ہفتہ وار’شاہد‘بمبئی ۔ ۲۲مئی ،۱۹۴۹ء)
حمایت علی شاعر
مادرِ وطن کا نوحہ
میرے بدن پر بیٹھے ہوئے گِدھ
میرے گوشت کی بوٹی بوٹی نوچ رہے ہیں
میری آنکھیں۔۔۔میرے حسیں خوابوں کے نشیمن
میری زباں۔۔۔ موتی جیسے الفاظ کا درپن
میرے بازو۔۔۔خوابوں کی تعبیر کے ضامن
میرا دل۔۔۔جس میں ہر ناممکن بھی ممکن
میری روح، یہ سارا منظر دیکھ رہی ہے
سوچ رہی ہے
کیا یہ سارا کھیل تماشا
(خونخواروں کے دستر خوان پہ میرا لاشہ)
لذتِ کام و دہن کے لیے تھا؟
(۱۹۵۸ء)
حمایت علی شاعر
سمندر اور انسان
قلزمِ بیکراں! ترا پھیلاؤ
زندگی کے شعور کا غماز
تیری موجوں کا پر سکون بہاؤ
زندگی کے سرور کا غماز
تیرے طوفان کا اُتار چڑھاؤ
زندگی کے غرور کا غماز
سوچتا ہوں کہ تیری فطرت سے
میری فطرت ہے کتنی ہم آہنگ
تیری دنیا ہے کتنی بے پایاں
میری دنیا ہے کیسی رنگا رنگ
تو ہے کتنا وسیع اور محدود
میں ہوں کتنا وسیع، کتنا تنگ
میرے ماتھے پہ کتبۂ تقدیر
تیری موجیں ترے لیے زنجیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حمایت علی شاعر
ہَوا
جو دور رہ کر بھی نزدِ جاں ہے
نفس نفس میں رواں دواں ہے
ازل سے محوِ سفر ہے اب تک
حیات کی رہگزر ہے اب تک
لطیف اتنی کہ یادِ یاراں
کثیف اتنی کہ دشمنِ جاں
ہر ایک رازِ دروں کی محرم
کوئی تغیر ہو ایک عالم
ہزار انداز سے عیاں ہے
مگر ہر اِک آنکھ سے نہاں ہے
کبھی گماں ہے، کبھی یقیں ہے
کہیں یہی تو خدا نہیں ہے
حمایت علی شاعر
سنگ میل
میرے سینے کے دہکتے ہوئے انگارے کو
اب تو جس طرح بھی ممکن ہو بجھا دے کوئی
اپنی آنکھوں میں بھی ہوں، آنکھ سے اوجھل بھی ہوں
میں گماں ہوں کہ حقیقت ہوں، بتا دے کوئی
دھوپ چھاؤں کا یہ انداز رہے گا کب تک
مجھ کو اِس خواب کے عالم سے جگا دے کوئی
میں ہوں اِس دشتِ طلسمات کا وہ شہزادہ
جس کے سر پر ہے فلک، گنبد بے در کی طرح
میری منزل، مرے سینے پہ لکھی ہے لیکن
اپنی ہی راہ میں ہوں نصب، میں پتھر کی طرح
رہنما ہوں مگر اِک گام نہیں چل سکتا
ایسی اِک ضرب کہ ٹوٹے یہ مسلسل سکتہ
حمایت علی شاعر
خلاء
خود فریبی کا اِک بہانہ تھا
آج اُس کا فسوں بھی ٹوٹ گیا
آج کوئی نہیں ہے دور و قریب
آج ہر ایک ساتھ چھوٹ گیا
چند آنسو تھے بہہ گئے وہ بھی
دل میں اِک آبلہ تھا پھوٹ گیا
اب کوئی صبح ہے نہ کوئی شام
روشنی ہے نہ تیرگی ہے کہیں
اُس کا غم تھا تو کتنے غم تھے عزیز
وہ نہیں ہے تو آسماں نہ زمیں
ہر طرف ایک ہو کا عالم ہے
سوچتا ہوں کہ میں بھی ہوں کہ نہیں
حمایت علی شاعر
تناسخ
جب ایک سورج غروب ہوتا ہے
کم نظر لوگ یہ سمجھتے ہیں
اب اندھیرا زمیں کی تقدیر ہو گیا ہے
زمانہ زنجیر ہو گیا ہے
انہیں خبر کیا
کہ مہر و ماہ و نجوم سارے
تو روشنی کے ہیں استعارے
طلوع کا دل فروز منظر
غروب کا دل شکن نظارہ
ازل سے اس روشنی کا پر تو ہے
جو مسلسل سفر کے عالم میں
ہر مکاں، لامکاں کو اپنے جلو میں لے کر
رواں دواں ہے
یہ رات اور دن
ہر ایک ظاہر، ہر ایک باطن
ہر ایک ممکن
اسی تسلسل کا زیر و بم ہے
نگارِ فطرت کا حسنِ رم ہے
افق افق پر یہی رقم ہے
کہ جو عدم ہے
وہ زندگی کا نیا جنم ہے
ثلاثی: حمایت علی شاعر
کرسی
جنگل کا خونخوار درندہ، کل تھا مرا ہمسایہ
اپنی جان بچانے، میں جنگل سے شہر میں آیا
شہر میں بھی ہے میرے خون کا پیاسا اِک ’چوپایہ‘
رویتِ ہلال
خود آگہی نہ جدتِ فکر و نظر ملی
وہ قوم آج بھی ہے پرستار چاند کی
جس قوم کو روایتِ ’شق القمر‘ ملی
ذوقِ تعمیر
ہم میں وہ شوقِ عبادت اب کہاں
ہر محلے میں بناتے ہیں، مگر
اے خدائے لامکاں، تیرا مکاں
نمائش
قرآں، خدا، رسول ہے، سب کی زبان پر
ہر لفظ آج یوں ہے معانی سے بے نیاز
جیسے لگی ہو نام کی تختی مکان پر
تضاد
اہلِ اسلام میں نہیں طبقات
اور فرما رہے تھے مولانا
اہلِ ثروت پہ فرض ہے خیرات
مساوات
زندگی بھر تو نہیں، ہاں مگر اِک وقتِ نماز
اپنے ایماں کی سرِ عام نمائش کے لیے
’ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز‘
ہائیکو: حمایت علی شاعر
چھوڑیں خلد کی بات
دنیا بھی اک جنت ہے
جب تک تم ہو ساتھ
چاند ہے کیا چالاک
رات کو زیبِ تن کر لے
سورج کی پوشاک
کوئی ہاتھ نہ آئے
بھاگتے رہتے ہیں پھر بھی
دھوپ کے پیچھے سائے
پھر کیا ہے یہ دہر
شکر کو بھی کہتے ہیں
جب ہم میٹھا زہر
کیا ہے رازِ نہاں
آنکھوں میں پل کر بھی اشک
پلکوں پر ہیں گراں
راہ کرے کیا پار
واماندہ راہی کو تو
سایہ بھی دیوار
حمایت علی شاعر
معراج کے نام
میں کینیڈا سے کراچی میں آ گیا ہوں پھر
وہ شہر میری محبت کا جو امین بھی ہے
مری حیات، جو ہے محو خواب پکرنگ میں
مری حیات، مرے گھر میں جو مکین بھی ہے
میں اس کو دیکھتا رہتا ہوں صبح و شام یہاں
وہ اپنے بچوں میں دن رات ہے مگن کتنی
وہ کینیڈا ہو کہ امریکہ ہو کہ پاکستان
وہ ہر جگہ ہے مگر مجھ سے ہے لگن کتنی
یہاں بھی اس کے ہیں لخت جگر وہاں بھی ہیں
وہ ایک ماں ہے، خدا کی طرح ہے ہر دل میں
وہ اپنی قبر میں آسودہ اپنے گھر کی طرح
چراغِ راہ ہے لیکن ہر ایک منزل میں
وہی تو ہے، جو مری ہم سفر ہے عمر تمام
وہی تو ہے، جو مری زیست سے عبارت ہے
جو سب میں ہو کے بھی تقسیم ’ایک‘ ہے اب تک
جو اپنی ذات میں ’توحید‘ کی علامت ہے
حمایت علی شاعر
اِک پیکر جمال ابھی تک نظر میں ہے
محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے وہ گھر میں ہے
اِک روشنی سی پھیلی ہوئی ہے درونِ دل
اِک کہکشاں سی بکھری ہوئی چشمِ تر میں ہے
اِک عالم سکوت ہے ایسا کہ یوں لگے
اِک نغمگی سی جاگی ہوئی بام و در میں ہے
وہ تو چلی گئی مگر اس کے وجود کی
خوشبو بسی ہوئی مرے شام و سحر میں ہے
یہ واہمہ ہے یا کہ حقیقت، خبر نہیں
میں اس کا ہمسفر ہوں، وہ جس رہگزر میں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویب سائٹ
’بلند‘ کی آرزو تھی یہ بھی
کہ اس کی امی نظر سے اوجھل نہ ہونے پائیں
وہ جب بھی چاہے
وہ سامنے ہوں
وہ اپنی امی کو چلتا پھرتا ہمیشہ دیکھے
وہ اپنے بچوں سے بات کرتی
اور ان کی باتوں پہ مسکراتی
کبھی کبھی قہقہے لگاتی
ہمیشہ اس کو دکھائی دے
گھر کے لوگ دیکھیں تو سب یہ سمجھیں
وہ آج بھی سب کے درمیاں ہیں
وہ زندہ ہیں اور سدا رہیں گی
حمایت علی شاعر
نغمہ
(۱۹۶۲ء کا نگار ایوارڈ یافتہ بہترین نغمہ )
کسی چمن میں رہو تم‘ بہار بن کے رہو
خدا کرے کسی دل کا قرار بن کے رہو
ہم اپنے پیار کو دل سے لگا کے جی لیں گے
یہ زہر تم نے دیا ہے تو ہنس کے پی لیں گے
زمانہ دے نہ تمہیں بے وفائی کا الزام
زمانے بھر میں وفا کا وقار بن کے رہو
خدا کرے کسی دل کا قرار بن کے رہو
کسی چمن میں رہو تم‘ بہار بن کے رہو
کسی کے ساتھ رہو تم‘ تمہارے ساتھ ہیں ہم
تمہارا غم ہے سلامت تو پھر ہمیں کیا غم
تمہاری راہ چمکتی رہے ستاروں سے
دیارِ حسن میں‘ حسنِ دیار بن کے رہو
خدا کرے کسی دل کا قرار بن کے رہو
کسی چمن میں رہو تم‘ بہار بن کے رہو
(آواز۔ احمد رشدی o موسیقی ۔خلیل احمد
o فلم ۔ آنچل )
حمایت علی شاعر
نغمہ
(۱۹۶۳ء کا نگار ایوارڈ یافتہ بہترین نغمہ )
نہ چھڑا سکو گے دامن نہ نظر بچا سکو گے
جو میں دل کی بات کہہ دوں تو کہیں نہ جا سکو گے
نہ چھڑا سکو گے دامن ………….
وہ حسین سا تصور جسے تم نے زندگی دی
اسے بھول کربھی شاید نہ کبھی بھلا سکوگے
نہ چھڑا سکو گے دامن ………
یہ نظر جھکی جھکی سی‘ یہ قدم رکے رکے سے
میرا دل یہ کہہ رہا ہے‘ کہیں تم نہ جا سکو گے
نہ چھڑا سکو گے دامن ……….
میرے ہم نشیں تمہیں ہو، میرے ہم سفرتمہیں ہو
میری کون سی ہے منزل، یہ تمہیں بتا سکو گے
نہ چھڑا سکو گے دامن …….
(۲)
جو چراغ جل رہا ہے میرے دل کی انجمن میں
نہ کوئی بجھا سکا ہے نہ ہی تم بجھا سکو گے
نہ چھڑا سکو گے دامن……….
[(آواز ۔نور جہاں o موسیقی ۔خلیل احمد
o فلم – دامن )
حمایت علی شاعر
دو گانا
لڑکا جب رات ڈھلی تم یاد آئے
ہم دور نکل آئے، اس یاد کے سائے سائے
جب رات ڈھلی…………………
لڑکی جو بات چلی تم یاد آئے
اور پاس چلے آئے، اس یاد کے سائے سائے
جب رات ڈھلی ………………..
لڑکا اپنوں نے دیا جو غم، اس غم کی شکایت کیا
کیا جانے یہاں کوئی، اس غم میں ہے راحت کیا
لڑکی ڈر ہے کہ یہ غم دل کا، ناسور نہ بن جائے
لڑکا جب رات ڈھلی. ………………….
لڑکی تم چاہو تو یہ آنسو، بن جائیں شرارے بھی
تم چاہو تو مل جائیں، طوفاں میں کنارے بھی
لڑکا ڈر ہے یہ کنارا بھی ، طوفاں ہی نہ بن جائے
لڑکی جب رات ڈھلی. ………………… …………………………….
(آواز ۔مالا‘ احمد رشدی o موسیقی ۔خلیل احمد
o فلم۔کنیز )
حمایت علی شاعر
نظم
تجھ کو معلوم نہیں‘ تجھ کو بھلا کیا معلوم
تیری زلفیں‘ تری آنکھیں‘ ترے عارض‘ ترے ہونٹ
کیسی انجانی سی معصوم خطا کرتے ہیں
تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم
تیرے قامت کا لچکتا ہوا مغرور تناؤ
جیسے پھولوں سے لدی شاخ ہوا میں لہرائے
وہ چھلکتے ہوئے ساغر سی جوانی وہ بدن
جیسے شعلہ سا نگاہوں میں لپک کر رہ جائے
تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم
اتنا مانوس ہے تیرا ہرِ اک انداز کہ دل
تیری ہر بات کا افسانہ بنا لیتا ہے
تیرے ترشے ہوئے پیکر سے چرا کر کچھ رنگ
اپنے خوابوں کا صنم خانہ سجا لیتا ہے
تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم
جانے اِس حسنِ تصور کی حقیقت کیا ہے
جانے ان خوابوں کی قسمت میں سحر ہے کہ نہیں
جانے تو کون ہے میں نے تجھے سمجھا کیا ہے
جانے تجھ کو بھی مرے دل کی خبر ہے کہ نہیں
تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم
(آواز ۔ سلیم رضا o موسیقی ۔خلیل احمد
o فلم ۔ آنچل )
حمایت علی شاعر
غزل
خداوندا یہ کیسی آگ سی جلتی ہے سینے میں
تمنا جو نہ پوری ہو وہ کیوں پلتی ہے سینے میں
نہ جانے یہ شبِ غم صبح تک کیا رنگ لائے گی
نفس کے ساتھ اک تلوار سی چلتی ہے سینے میں
کسے معلوم تھا یارب کہ ہوگی دشمنِ جاں میں
وہ حسر ت خونِ دل پی پی کے جو پلتی ہے سینے میں
خداوندا یہ کیسی آگ سی جلتی ہے سینے میں
تمنا جو نہ پوری ہو وہ کیوں پلتی ہے سینے میں
(آواز۔مہدی حسن o موسیقی ۔خلیل احمد
o فلم ۔لوری )
حمایت علی شاعر
غزل
ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ
دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ
کس لیے کیجئے کسی گم گشتہ جنت کی تلاش
جب کے مٹی کے کھلونوں سے بہل جاتے ہیں لوگ
شمع کی مانند اہلِ انجمن سے بے نیاز
اکثر اپنی آگ میں چپ چاپ جل جاتے ہیں لوگ
شاعر اُن کی دوستی کا اب بھی دم بھرتے ہیں آپ
ٹھوکریں کھاکر تو سنتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ
(آواز ۔نورجہاں o موسیقی ۔خلیل احمد
o فلم ۔میرے محبوب )
حمایت علی شاعر
غزل
اُس کے غم کو غمِ ہستی تو میرے دل نہ بنا
زیست مشکل ہے اُسے اور بھی مشکل نہ بنا
تو بھی محدود نہ ہو مجھ کو بھی محدود نہ کر
اپنے نقشِ کفِ پا کو میری منزل نہ بنا
دل کے ہر کھیل میں ہوتا ہے بہت جاں کا زیاں
عشق کو عشق سمجھ مشغلۂ دل نہ بنا
پھر میری آس بندھا کر مجھے مایوس نہ کر
حاصلِ غم کو خدارا غمِ حاصل نہ بنا
(آواز۔ مہدی حسن o موسیقی ۔سہیل رعنا
o فلم ۔گڑیا)
حمایت علی شاعر
نغمہ
نوازش‘ کرم‘ شکریہ‘ مہربانی
مجھے بخش دی آپ نے زندگانی
نوازش‘ کرم‘ شکریہ‘ مہربانی……………………
جوانی کی جلتی ہوئی دوپہر میں
یہ زلفوں کے سائے گھنیرے گھنیرے
عجب دھوپ چھاؤں کا عالم ہے طاری
مہکتا اجالا‘ چمکتے اندھیرے
زمیں کی فضا ہو گئی آسمانی
نوازش‘ کرم‘ شکریہ‘ مہربانی……………………
لبوں کی یہ کلیاں کِھلی اَدھ کِھلی سی
یہ مخمور آنکھیں گلابی گلابی
بدن کا یہ کندن سنہرا سنہرا
قد ہے کہ چُھوٹی ہوئی ماہتابی
ہمیشہ سلامت رہے یہ جوانی
نوازش‘ کرم‘ شکریہ‘ مہربانی……………………
(آواز ۔مہدی حسن o موسیقی ۔اے حمید
o فلم ۔میں وہ نہیں )
حمایت علی شاعر
غزل
سامنے رشکِ قمر ہو تو غزل کیوں نہ کہوں
کوئی محبوبِ نظر ہو تو غزل کیوں نہ کہوں
سامنے رشکِ قمر ہو تو غزل کیوں نہ کہوں
چاند کی طرح ستاروں میں جوانی گزرے
کہکشاں راہ گزر ہو تو غزل کیوں نہ کہوں
سامنے رشکِ قمر ہو تو غزل کیوں نہ کہوں
گل کی آغوش میں سوئی ہوئی خوشبو کی طرح
زندگی اپنی بسر ہو تو غزل کیوں نہ کہوں
سامنے رشکِ قمر ہو تو غزل کیوں نہ کہوں
عارض و لب کے چمن زار ہوں، پہلو میں کِھلے
ایسے ہر شب کی سحر ہو تو غزل کیوں نہ کہوں
سامنے رشکِ قمر ہو تو غزل کیوں نہ کہوں
کوئی محبوبِ نظر ہو تو غزل کیوں نہ کہوں
سامنے رشکِ قمر ہو………..
(آواز ۔مسعود رانا o موسیقی ۔خلیل احمد
o فلم ۔میرے محبوب)
حمایت علی شاعر
دوگانا
عورت :دور ویرانے میں اِک شمع ہے روشن کب سے
کوئی پروانہ ادھر آئے تو کچھ بات بنے
مرد:میں ترے پاس تو آ جاؤں مگر تو ہی بتا
ترا انداز ملاقات عجب ہے کہ نہیں
دیکھتے ہی مجھے کترا کے گزرنا تیرا
مجھ کو بیگانہ سمجھنے کا سبب ہے کہ نہیں
دل کی الجھن یہ سلجھ جائے تو کچھ بات بنے
کوئی دیوانہ ادھر آئے تو کچھ بات بنے
عورت:یہ حسیں رات یہ شبنم میں نہائی ہوئی رات
آ کہ اس رات کی آغوش میں کھو کر رہ جائیں
وہ فسانہ جسے اب تک کوئی عنواں نہ ملا
لب نہ کہہ پائیں تو آنکھوں کی زبانی کہہ جائیں
مرد:اب یہ حسر ت بھی نکل جائے تو کچھ بات بنے
عورت:کوئی پروانہ ادھر آئے تو کچھ بات بنے
دل میں ارمان ہیں کیا کیا کوئی دل سے پوچھے
عمر بھر کاش نہ یہ چاند نہ یہ رات ڈھلے
مردچاند کے پاس ستارہ ہے میرے پاس ہے تو
کاش ایسے میں ہوا بھی ذرا لہرا کے چلے
زلف شانوں پہ بکھر جائے تو کچھ بات بنے
(آواز ۔مالا ۔مسعود رانا o
موسیقی ۔ ماسٹر عنایت حسین o فلم ۔ نائلہ )
حمایت علی شاعر
نغمہ
وللہ سر سے پاؤں تلک موجِ نور ہو
قدرت کا شاہکار ہو تم رشکِ حور ہو……وللہ
یہ حسن یہ نکھار یہ شوخی حیا کے ساتھ
یہ شرم سے جھکی ہوئی پلکیں ادا کے ساتھ
کیوں کر نہ اپنے حسن پہ تم کو غرور ہے
قدرت کا شاہکار ہو تم رشک حور ہو ……وللہ
زلفیں اڑیں تو چاند پہ بدلی بکھر گئی
نظریں اٹھیں تو دل پہ قیامت گزر گئی
دل کی خطا ہو تم کہ نظر کا قصور ہو
قدرت کا شاہکار ہو تم رشکِ حور ہو……وللہ
سوچو دبی زبان سے کیا کہہ رہی ہے رات
آؤ کہ آج دل میں نہ رہ جائے دل کی بات
نزدیک آ چکی ہو تو کیوں دور دور ہو
قدرت کا شاہکار ہو تم رشکِ حور ہو……وللہ
(آواز ۔احمد رشدی o موسیقی ۔خلیل احمد
o فلم ۔ دامن )
حمایت علی شاعر
کورس
سب تالی بجے بھئی تالی بجے
لڑکی مُناّہمار ا دودھوں نہائے پوتوں پھلے
تالی بجے بھئی تالی بجے
لڑکا منّے میاں ہوں اتنے بڑے ‘
تاروں کو چھو لیں کھڑے کھڑے
ایک لڑکی منّے کے ماموں چوسیں انگوٹھا
بچہ پھوپو ہماری دودھو پیئے
سب تالی بجے بھئی تالی بجے
لڑکا منّے کی آنٹی‘ کھٹ مِٹھی گولی
ایک لڑکی چکھّو تو نکلے ‘ کڑوی نبولی
دوسری لڑکی منّے کے ماموں تھالی کے بیگن
ایک لڑکی بیگن نہیں جی‘ چکنے گھڑے
سب تالی بجے بھئی تالی بجے
ایک لڑکی منّے میاں تو دولھا بنے
دوسری لڑکی منّے کے ماموں گھوڑا بنے
لڑکا منّے کی پھوپی کھینچے لگام
بچہ ماموں رُکے تو ڈنڈے پڑے
سب تالی بجے بھئی تالے بجے
مناّ ہمارا دودھوں نہائے پوتوں پھلے
تالی بجے بھئی تالی بجی
(آواز یں۔آئرن پروین۔ شکیل۔نگہت سیما اور دوسرےoموسیقی ۔خلیل احمد oفلم ۔لوری)