حمایت علی شاعر
(دلیلِ کم نظری قصۂ جدید و قدیم)
(ہارون کی آواز)
تلمود سے منسوب ایک حکایت ہے کہ
بچپن میں حضرت موسیٰ نے فرعون کے تاج کو ٹھوکر مار دی تھی ،ستارہ شناسوں نے اُسے بدشگونی قرار دیا اور بچے کی معصومیت مشکوک قرار پائی ۔امتحان لیا گیا۔ایک تشت میں یا قوت کے ٹکڑے رکھے گئے اور دوسرے میں انگارے، بچے نے انگارہ اٹھا کر منہ میں رکھ لیا۔فرعون تو مطمئن ہو گیا مگر یہ آگ بچے کی پہچان بن گئی۔
یدِبیضا اور زبان کی لکنت اسی آگ کی امانتیں ہیں
حقیقت کا یہ افسانوی پس منظر درست ہو یا نہ ہو مگر یہ سچ ہے کہ حضرت موسیٰ کی زبان رواں نہ تھی۔ بائبل سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے اور قرآن حکیم سے بھی۔
’اے خدا، میں فصیح نہیں ہوں، نہ پہلے ہی تھا اور نہ جب سے تو نے اپنے بندے سے کلام کیا، بلکہ رک رک کر بولتا ہوں اور میری زبان کند ہے‘ (خروج، ۱۰/۴)
’اے پروردگار، میرا سینہ کھول دے اور میرے کام کو میرے لیے آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ سلجھا دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں‘
قرآن حکیم سے اس دعا کا بھی سراغ ملتا ہے جو انہوں نے اپنے بھائی ہارون کے لیے مانگی تھی
’میرا بھائی ہارون، مجھ سے زیادہ زبان آور ہے، اس کو میرے ساتھ (نبی بنا کر۔ الشعراء) مددگار کی حیثیت سے بھیج‘(القصص)
اور اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول بھی کر لی۔
’میں نے تجھے فرعون کیلئے گویا خدا ٹھہرایا اور تیرا بھائی ہارون تیرا پیغمبر ہو گا‘(خروج)
’ہم تیرے بھائی کے ذریعے تیرا ہاتھ مضبوط کریں گے‘(القصص)
ان الہامی حوالوں کی روشنی میں اگر ہارون کو ’اظہار‘ کی علامت قرار دیا جائے تو شاعری، جزویست از پیغمبری کے مصداق ٹھہرتی ہے اور میرا یہ مصرعہ ہارون کی زبان بھی لوحِ کلیم ہے
اپنے وسیع تر معنی آپ متعین کر لیتا ہے۔
مولانا گرامی نے علامہ اقبالؔ کے لیے فرمایا تھا پیغمبری ٔکر دو پیمبر نتواں گفت
یقینا شاعر پیغمبر نہیں ہوتا۔ حضرت موسیٰ ’کلیم اللہ ‘ تھے اور شاعر ’تلمیذارحمن‘ شاید اسی اعزاز کے سبب یہ دنیا شاعر کا بھی امتحان لیتی ہے ۔ اس کے سامنے بھی دو تشت رکھے جاتے ہیں اورایک زندہ ضمیر شاعر، دولت کو ٹھکرا کر انگاروں کو اپنے سینے سے لگا لیتا ہے۔اپنا تعارف کراتے ہوئے میرؔ نے کہا تھا
میں کون ہوں اے ہم نفساں، سوختہ جاں ہوں اِک آگ ہے سینے میں، جو میں شعلہ فشاں ہوں
یہ آگ نہ صرف شاعر کے تخلیقی جوہر کی امین ہوتی ہے بلکہ ان محرکات کا بھی سراغ دیتی ہے جو ہمیشہ اسے اظہار کی حسرت میں مضطرب رکھتے ہیں۔غالبؔ کے الفاظ میں
آتش کدہ ہے سینہ مرا، رازِ نہاں سے اے وائے اگر معرضِ اظہار میں آوے
اور جب اظہار کے لیے اقبالؔ ایسا صاحبِ شعور نصیب ہوتا ہے تو وہ شاعر کا منصب بھی متعین کر دیتا ہے
مِری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ کہ میں ہوں محرمِ راز درونِ مے خانہ
محرمِ راز ہونا ہی شعور کی دلیل ہے اور شعور۔ زندگی کو تاریخ کی کسوٹی پر پرکھنے کا نام ہے علامہ اقبال نے اسی شعور کی روشنی میں زندگی کی بنیادی حقیقت کا انکشاف کیا تھا
جو تھا نہیں ہے جو ہے نہ ہوگا یہی ہے اک حرفِ محرمانہ قریب تر ہے نمود جس کی، اُسی کا مشتاق ہے زمانہ
لیکن شاعر صرف قریب تر کا مشتاق نہیں ہوتا۔ وہ اس نامعلوم کو بھی امکانات کے حدود میں دیکھتا ہے ۔ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے
حادثہ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے عکس اس کا، مرے آئینۂ ادراک میں ہے (اقبالؔ)
اور جب معلوم و نامعلوم کی سرحدیں مل جائیں تو عہدِ عتیق کو عہد حاضر سے اور موجود کو لاموجودسے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ اُن کے درمیان اقدار کا ایک معنوی رشتہ برقرار رہتا ہے جو عہد بہ عہد، عمل اور ردعمل کے مختلف مراحل سے گزرتا ہوا نئے امکانات کی صورت متعین کرتا ہے۔ مثال کے طور پر :
حضرت یوسفؑ کے زمانے میں ، حضرت یعقوبؑ کی اُمت نے قحط سالی کے سبب ارضِ کنعان سے ہجرت کر کے مصر میں بودو باش اختیار کر لی تھی لیکن دریائے نیل کے زرخیز کناروں پر صدیوں آباد رہنے کے باوجود وہ بے زمینی کے احساس میں مبتلا رہی۔ اِس کا سبب جہاں نسلی اور تہذیبی فرق تھاوہیں معاشرے کی وہ مخصوص درجہ بندی ، معاشی حق تلفی اور سیاسی ناانصافی بھی تھی جن کے باعث رفتہ رفتہ عبرانیوں کو قبطیوں کا غلام بن جانا پڑا اور بالآخر اس کا انجام پوری قوم کی مراجعت پر منتج ہوا۔ ظاہر ہے کہ فرعون کی مطلق العنان حکومت میں مظلوم طبقے کے حقوق کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا لیکن یہ صدی جسے جمہوری حقوق کی صدی کہاجاتا ہے، اس جبر سے آزاد ہے۔ اس لیے ضروری نہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرانے لگے۔جہاں تک تہذیبی آواگون سے گزر کر ایک نیا تشخص پانے کا مسئلہ ہے وہ قانونِ فطرت کا پابند ہے اور اِس میں صدیاں صرف ہو جاتی ہیں لیکن جہاں تک مظلوم طبقات کی حق طلبی کا مسئلہ ہے فلسطین سے لے کر لاطینی امریکہ تک، ہر ملک میں ایک جدوجہد جاری ہے۔
میری شاعری میں عہدِ پارینہ کی مخصوص حکایات اور اُن کے مختلف کردار جو اپنی پرچھائیاں تلاش کرتے نظر آتے ہیں ماضی و حال کے اِسی جدلیاتی ربط کے آئینہ دار ہیں ۔میں اس آئینے میں اُن حکایات کا نیا روپ اور اُن کرداروں کے نئے چہرے دیکھتا ہوں اور اس آگ کی روشنی میں جو میرے تخلیقی جوہر کی امین ہے، اپنے عہد کے ان پس پردہ محرکات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں جن کے سبب تاریخ کبھی اپنے آپ کو دہراتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور کبھی آگے بڑھتی ہوئی اور کبھی اس عالم میں جیسے اپنی جگہ ٹھہر کر رہ گئی ہو
افسانہ یاد آگیا اصحابِ کہف کا تاریخ لکھنے بیٹھا تھا میں اپنے دور کی
اور مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا عہد کسی طلسم کا اسیر ہے اور ایک عالم خود فراموشی ہے کہ ہم سب پر طاری ہے
اعجاز دیدنی ہے طلسم سراب کا دریا رکا ہوا ہے، بہے جا رہے ہیں ہم
اور میرے ذہن میں مختلف سوالات جاگ اٹھتے ہیں۔ میں کبھی نسل پرستی کے خلاف حضرت عیسیٰ کے اجتہاد کو استعارے کے طورپر اپنا کر حضرت مریمؑ سے سوال کرتا ہوں
مریم، کہو کہ جائے یہ لخت جگر کہاں اللہ کی زمین پہ ہے اِس کا گھر کہاں
اور کبھی عالمی انسانی برادری کے خوبصورت تصور میں برادران یوسف کا کردار دیکھ چیخ پڑتا ہوں:
میں چاہِ کنعاں میں زخم خوردہ پڑا ہوا ہوںزمیں میں زندہ گڑا ہوا ہوں
کوئی مجھے اس برادرانہ فریب کی قبر سے نکالےمجھے خریدے کہ بیچ ڈالے
پھر مجھے انجیل کی ایک حکایت یوں تسلی دینے لگتی ہے
حیراں نہ ہو، یہ زہر ہے اپنی ہی کشت کا اک رشتہ سانپ سے بھی ہے باغِ بہشت کا
اور میں سوچنے لگتا ہوں:سانپ تو شیطان کا بہروپ تھا جس کے سبب باغِ بہشت ، حضرت آدمؑ سے چھن گیا اور میرے ذہن میں وہ تمام سانپ پھنکارنے لگتے ہیں جنہوں نے انسانوں کو اپنی اپنی جنتوں سے محروم کر دیااور میں ایک اندرونی کرب سے بے تاب ہو کر پھر چیخ پڑتا ہوں
جب سانپ ہی ڈسوانے کی عادت ہے تو یارو جو زہر زباں پر ہے وہ دل میں بھی اتر جائی
لیکن پھر وہ انجام بھی نظر میں گھوم جاتا ہے جو ہر بے زمین قوم کا مقدر ہے
دشتِ غربت میں ہوں آوارہ مثالِ گردباد کوئی منزل ہے، نہ کوئی نقشِ پا رکھتا ہوں میں
زندگی کے یہ تمام مسائل جو ان اشعار میں بکھرے ہوئے ہیں، میرے عہد کی منتشر حقیقتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن میں ایک مشترک صداقت پوشیدہ ہے اور میرے اندر چھپی ہوئی آگ اس صداقت کے اظہار کے لیے مضطرب رہتی ہے ۔ کبھی شعلہ جوالا کی صورت تو کبھی راکھ کے اندر دہکتی ہوئی، کبھی چراغ کی لو کے مانند تو کبھی میراؔ بائی کے اس دوہے کی مثالـ:
لکڑی جل کوئلہ بھئی، کوئلہ جل بھئی آک میں پاپن ایسی جلی، کوئلہ بھئی نہ راکھ
میرے پہلے مجموعۂ کلام کا نام تھا’آگ میں پھول‘(مطبوعہ ۱۹۵۶ء) اور اس میں ایک طویل افسانوی نظم تھی ’شعلۂ بے دود‘ (یہ نظم اب ’تشنگی کا سفر‘ میں ہے) یہ نظم میں نے ۱۹۵۶ء میں کہی تھی ۔ اس دور میں میرے اندر جو آگ بھڑک رہی تھی اس کی تپش ہی کچھ اور تھی
آگ لاشوں کے قلب کی دھڑکن آگ پیہم سکوت کا طوفاں
آگ محرومیوں کی تشنہ لبی آگ غربت کا آخری ارماں
اور یہ آگ کر گئی روشن مجھ پہ تاریخ کے مقدس راز
ہر گناہِ عظیم کے پیچھے کس خدا کا ہے دست کار دراز
۱۹۶۲ء میں ایک طویل تمثیلی نظم’شکست کی آواز‘میں یہ آگ ایک کردار کی معرفت مجھے اپنی حقیقت کا سراغ دیتی ہے ۔(تشنگی کا سفر) یہ بجھی آگ ہے؟ خوب آگ بجھی بھی ہے کہیں
آگ بجھ جائے تو زندہ بھی رہے گی یہ زمیں یہ مہ و مہر ہیں کیا چیز اگر آگ نہیں
زندگی کے ہر اک ایوان میں پوشیدہ ہے آگ زندگی کے ہر اک امکان میں پوشیدہ ہے آگ
پھر ۱۹۷۲ء میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یہ آگ میری روح کا عذاب بن گئی
میرے سینے کے دہکتے ہوئے انگارے کو اب تو جس طرح بھی ممکن ہو، بجھا دے کوئی
اور ۱۹۸۲ء میں جب ہر گفتنی ناگفتنی ہو کر رہ گئی تو مجھے اپنی ذات میں ایک ’اجتماعی نزاع‘ کی کیفیت محسوس ہونے لگی بدن پہ پیرہنِ خاک کے سوا کیا ہے مرے الاؤ میں اب راکھ کے سوا کیا ہے
تیس برس کے اِس سفر میں آگ کی حدت کا جو گراف بنتا ہے وہ میری تاریخ کا ایک المناک باب ہے ۔ اس المیے کا پس منظر اس عظیم المیے سے مختلف نہیں جو حضرت موسیٰ کی امت کا مقدر بن گیا تھا، فرعون کے تاج کو ٹھوکر مارنے اور انگارہ منہ میں رکھ لینے کے باوجود ان کی قوم سامری کے سحر کا شکار ہو گئی اور ’گوسالہ‘ کی پرستش کرنے لگی ’گوسالہ‘ زر پرستی کا جو استعارہ ہے ۔صدیاں گزر گئیں حتیٰ کہ بنی اسرائیل پرایک نیا صحیفہ بھی اتار دیا گیامگر یہ المیہ تاریخ پر محیط رہا اور آج بھی استہزائیہ لہجے میں اپنی قوم کا مرثیہ سنا رہا ہے
’یہ معجزہ‘ بھی وقت کا کتنا عظیم ہے اب ’دستِ سامری‘ میں’عصائے کلیم‘ ہے
لیکن اِسے تاریخ کی جدلیات کہیے کہ وقت کا انتقام۔ جس اُمت نے اپنے پیغمبر سے انحراف کیا۔ اُسی امت کے ایک باغی مفکر کے قلم نے عصائے موسیٰ کی روایت تازہ کر دی اور اُس ’گوسالہ‘ کا طلسم توڑ دیاجس نے ساری دنیا کو دولت کا پجاری بنا کر رکھ دیا تھا
آں کلیم بے تجلی، آں مسیح بے صلیب نیست پیغمبر ولیکن در بغل دارد کتاب (اقبالؔ)
قلم نے انسان کو کتاب دی اور کتاب نے حقیقت کا شعور اور آج شعورِ انسانی ایک فیصلہ کن منزل پر پہنچ چکا ہے
کھینچی تھی جن کے خوف سے سدّ سکندری سوئے نہیں ہیں آج وہ دیوار چاٹ کے
روایت ہے کہ یاجوج ماجوج جس دن یہ دیوار چاٹ لیں گے اُس دن قیامت آ جائے گی اور قیامت کا مطلب ہے ۔ روز حساب یعنی سزا و جزا کا دن۔شہنشاہیت کا دفاع کرنے والی یہ دیوار شاید اُسی قیامت کو روکنے کیلئے کھڑی کی گئی تھی سکندرذوالقرنین سے لے کر اَبرہہ تک ہر استحصالی طاقت نے اپنے تحفظ کیلئے کہیں دیوار اٹھائی ہے تو کہیں گرانے کی کوشش کی ہے اور آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے ہر عہد ایک امتحان سے گزر رہا ہے
اِک طرف اُڑتے ’ابابیل‘ اِک طرف ’اصحابِ فیل‘ اب کے اپنے کعبۂ جاں کا مقدر دیکھنا
ظاہر ہے کہ سکندر کی فوج قیامت کو روک سکتی ہے نہ ابرہہ کے ہاتھی کعبے کی دیوارگرا سکتے ہیں، یہ وقت کا فیصلہ ہے اور وقت ۔۔۔ خدا ہے:
DON’T VILIFY TIME
BECAUSE TIME IS GOD
’زمانے کو برا نہ کہو۔۔۔ زمانہ خدا ہے‘(حدیث نبویؐ)
اور شاعر، تلمیذ الرحمن ہوتا ہے ، وہ جس زبان سے بولتا ہے، وہ ہارون کی زبان ہے اور جس ہاتھ سے لکھتا ہے وہ یدبیضا کی طرح روشن ہے ۔
مری ہتھیلی کہ جس میں روشن وہ آگ بھی ہے ،وہ نور بھی ہےجو دستِ موسیٰ ہے، طور بھی ہی
لیکن اس روشنی میں لفظ و معنی کے قافلے کو لے کر شاعر فن کے جس پل صراط سے گزرتا ہے وہ بحرِا حمر پار کرنے کے مترادف ہے اگر اس کا قلم ، عصائے کلیم کی طرح معجز نما نہ ہو تو وہ بیچ منجدھار میں ڈوب بھی سکتا ہے۔
تاریخِ ادب میں کتنے ہی شاعر اس منجدھار کی نذر ہو گئے اور کون جانے کہ میرے نصیب میں کیا ہے ۔
حمایت علی شاعر
شعبۂ اردو، سندھ یونیورسٹی(/۱۸جون۱۹۸۵ء)
٭میرا چوتھا مجموعہ کلام ’ہارون کی آواز‘(۱۹۸۵ء)فلسطینی رہنما یاسرعرفات کے نام، معنون ہے۔شاعرؔ