منزّہ یاسمین (بہاولپور)
’’ اُردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما‘‘ حیدرقریشی کی تحقیق و تنقید پرمشتمل کتاب ہے۔ ۷۲صفحات پرمبنی یہ کتاب ۱۹۹۹ء میں ’’معیار پبلی کیشنز، دہلی‘‘ کی جانب سے شائع ہوئی۔ زیر تبصرہ کتاب کا انتساب ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے نام ہے جنہوں ے اُردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما جی کو پہلی بار دریافت کیا۔ (۴۹)
کتاب کی ترتیب میں پیش لفظ ’’اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما‘‘ ، ’’اُردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما‘‘، فلم ’’خاموشی‘‘ کے گیت اور تحقیق مزید، ’’میاں آزاد‘‘ کاسفرنامہ‘‘، ’’ہمت رائے شرما کی شاعری۔ ایک تعارف‘‘، ’’ہمت رائے شرما کی دو کتابیں‘‘، ’’ہمت رائے شرما بنام حیدر قریشی‘‘ اور آخر میں ’’ہمت رائے شرما کے ماہیے‘‘ شامل کیے گئے ہیں۔حیدر قریشی زیر تبصرہ کتاب کے ’’پیش لفظ‘‘ میں ’’ارد ماہیے کے بانی‘‘ کے بارے میں اپنی سابقہ تحقیق جو چراغ حسن حسرت اور قمر جلال آبادی کے متعلق تھی کو مدلل انداز سے رد کرتے ہوئے اس کا جواز پیش کرتے ہیں:
’’ اب قمر جلال آبادی کی جگہ ہمت رائے شرما جی ہی اردو ماہیے کے بانی ہیں، کسی بھی دوسری ’’سہ مصرعی صنف‘‘ کے مصنف کو اردو ماہیے کے بانی، ہمت رائے شرما جی کی جگہ نہیں دی جاسکتی ‘‘ ۔ (۵۰)
اپنے مضمون ’’اردو ماہیے کے بانی۔۔۔ہمت رائے شرما‘‘ میں حیدر قریشی ، ڈاکٹرمناظر عاشق ہرگانوی کی تحقیق و تنقید کو مدنظررکھتے ہوئے اپنی تازہ تحقیق اور ہمت رائے شرماجی کی اولیت پرہونے والے اعتراضات کاجواب دیتے ہیں۔مذکورہ مضمون میں حیدرقریشی، ڈاکٹرمناظرعاشق ہرگانوی کی تحقیق کے معاملے میں آنے والے دو رد عملوں کا ذکر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی تحقیق کے بعد ایک رد عمل یہ آیا کہ اکثر ماہیا نگاروں نے ان کی تحقیق کو سراہتے ہوئے تسلیم کیا کہ ’’ہمت رائے شرما‘‘ ہی اردو ماہیا کے بانی ہیں۔ دوسرا رد عمل ، حسرت کے ثلاثی ماہیوں کی پیروی کرنے والے ماہیانگاروں مثلاً علی محمد فرشی، نصیراحمد ناصر، سیدہ حنا ، دیپک قمر کی طرف سے یہ آیا کہ ڈاکٹرمناظر نے اردو ماہیے کے بنیاد گزاروں میں قمر جلال آبادی اور ساحر لدھیانوی کے ساتھ چراغ حسن حسرت کوبھی تسلیم کیا ہے اور ساتھ ہی یہ موقف بھی بیان کیا گیا کہ اولیت کا سہرا پھر بھی حسرت کے سر بندھتاہے ۔ کیونکہ شرما جی کہتے ہیں۔ فلم ’’خاموشی ۱۹۳۹ء میں آئی جب کہ فلم ’’باغباں‘‘ میں حسرت کے ماہیے ۱۹۳۷ء میں آگئے تھے۔ (۵۱)
مزید تحقیقی کوششوں اور چند ادبی شواہد کومدنظررکھتے ہوئے ’’ہمت رائے شرما‘‘ کے بارے میں حیدرقریشی لکھتے ہیں:
’’۱۹۱۹ء میں ۱۷سال جمع کیے جائیں تو فلم ’’خاموشی‘‘ کے ماہیے لکھنے کا سال۱۹۳۶ء بنتاہے جب تک کوئی نیا تحقیقی ثبوت نہیں ملتا تب تک فلم ’’خاموشی‘‘ کے لیے شرما جی کے اردو ماہیے لکھنے کا سال ۱۹۳۶ء ثابت ہے۔‘‘ (۵۲)
ڈاکٹر عاشق ہرگانوی کی تحقیق کومزید موثر بنانے کے لیے حیدر قریشی نے خود ’’ہمت رائے شرما ‘‘ سے براہ راست رابطہ قائم کیا، جس سے حاصل ہونے والی معلومات اور حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے حیدرقریشی اپنی رائے کا اظہار ان لفظوں میں کرتے ہیں:
’’ا ن تمام شواہد اور حقائق کی بنیاد پر یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ قمر جلال آباد ی اور ساحر لدھیانوی سے بھی پہلے اردو ماہیے کے درست وزن کااولین اظہار ہمت رائے شرماجی نے ۱۹۳۶ء میں کیاتھا۔۔۔۔ سو بلاشک و شبہ ہمت رائے شرما اردو ماہیے کے بانی ہیں ۔‘‘ (۵۳)
’’اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما‘‘ فلم ’’خاموشی‘‘ اور تحقیقِ مزید‘‘ مضمون میں حیدر قریشی ہمت رائے پوری کے بارے میں اپنی مزید تحقیق کو بیان کرتے ہیں ۔ اس تحقیق کا اہم سبب فلم ’’خاموشی‘‘ کی بک لیٹ تھی۔ جس سے یہ تصدیق ہوئی کہ :
’’ فلم ’’خاموشی‘‘ کی بک لیٹ پر مئی ۱۹۳۶ء کا اندراج یہ ثابت کرتاہے کہ ہمت رائے شرما جی نے ۱۹۳۶ء میں پہلی بار اس فلم کے لیے اردو ماہیے لکھے ‘‘۔ (۵۴)
اس تصدیق کے علاوہ حیدرقریشی نے فلم ’’خاموشی‘‘ کی بک لیٹ (Booklet)پر درج گیتوں کو بھی اپنے مضمون کا حصہ بنایا۔
اپنے مضمون ’’میاں آزاد کاسفرنامہ‘‘ میں حیدر قریشی نے ہمت رائے شرما کو بطور ایک عمد ہ پیروڈی نگار، خوبصورت مزاح نگار اور زبان پرحیرت انگیز قدرت رکھنے والا ادیب قرار دیتے ہوئے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کااعتراف کیاہے جو’’میاں آزاد کاسفرنامہ‘‘ لکھ کرسامنے آتی ہیں۔ حیدر قریشی اس کتاب کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ کرتے ہوئے ’’ہمت رائے شرما‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ہمت رائے شرما جی نے رتن ناتھ سرشار کے انداز بیان کو اپنانے میں اپنی مہارت کا کمال دکھایا۔ ’’میاں آزاد کا سفرنامہ‘‘ صرف پیروڈی ہی نہیں ہے۔ پیروڈی کے روپ میں ہمیں اپنے کلاسیکل لٹریچر کی اہمیت کا احساس دلا یا گیاہے۔ اس کی طرف راغب کرنے کے لیے ایک تخلیقی کاوش کی گئی ہے ۔‘‘ (۵۵)
زیرتبصرہ کتاب کے مضمون’’ہمت رائے شرما کی شاعری۔ ایک تعارف‘‘ میں حیدر قریشی، ہمت رائے شرما جی کے شعری مجموعہ ء کلام ’’شہابِ ثاقب ‘‘ کا تنقیدی اور فکری تجزیہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہمت رائے شرماجی کی تعریف کرتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں:
’’ہمت رائے شرماجی کا یہ بیان سو فی صد درست ہے کہ شاعری فقیروں کا حصہ ہے ہمت رائے شرما نے خوبصورت شاعری کی ،جب فلمی دنیا میں مقتدر ہستی تھے تب انپے اس فقیری اثاثے کو چھپائے رکھا۔ جب فلمی دنیا سے الگ ہوگئے تو اپنا فقیری سرمایہ لے آئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ۱۹۶۴ء کی بجائے ۱۹۸۴ء میں اپنا مجموعہ چھپوانے کی اصل وجہ یہی فقیرانہ جذبہ تھا۔‘‘ (۵۶)
شاعری کے علاوہ حیدر قریشی نے مذکورہ کتاب میں ہمت رائے شرما کی دو کتابوں ’’ہندو مسلمان‘‘ اور ’’نکات زباندانی‘ ‘پر بھی اپنانقطہ ء نظر پیش کیاہے۔ اس کے علاوہ حیدر قریشی نے اپنے نام لکھے گئے ہمت رائے شرما کے خط کو بھی صفحہ ۵۲پرشامل کیاہے جو کہ ان دونوں کے درمیان رابطے کا ثبوت پیش کرتاہے۔
کتاب ’’اردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما‘‘ کے آخر میں حیدر قریشی نے ہمت رائے شرما کے ماہیے تحریر کیے ہیں۔ جن میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں:
’’ماہیے کی کہانی ہے
ماہیے کی دھن میں
ماہیے کی زبانی ہے‘‘
دو پھول گلاب کے ہیں
بھنگڑا اور ماہیا
تحفے پنجاب کے ہیں (۵۷)
جی کو بہلاتے ہیں
پیار بھرے ارماں
ماہیے کہلاتے ہیں
ٹھنڈک بھی، حرارت بھی
ہوتی ہے ماہیے میں
شوخی بھی، شرارت بھی (۵۸)
’’ہمت رائے شرما‘‘ نے انہی ماہیوں میں حیدرقریشی کے لیے بھی ایک ماہیا تخلیق کیا ہے جو حیدر قریشی کی ماہیا نگاری میں اہمیت کو اجاگر کرتاہے۔
’’فن میں لاثانی ہیں
حیدر’’ ماہیے کی
تحریک ‘‘کے بانی ہیں (۵۹)
’’ہمت رائے شرما‘‘ پر اس قدر مکمل اور تنقیدی کتاب لکھنے پر ڈاکٹروزیرآغا، حیدرقریشی کومبارک باد دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ہمت رائے شرما‘‘ پر آپ کامضمون بہت متوازن ہے اور متاثر کرتاہے ۔ آپ کی شاعر،افسانہ نگار، انشائیہ نگار اور خاکہ نگار کی حیثیت تو پہلے ہی مسلم ہے اور ان اصناف کے سلسلے میں آپ کے دستخط باآسانی پہچانے جاسکتے ہیں مگر اب تنقید کے میدان میں بھی آپ کسی سے پیچھے نہیں رہے بلکہ اگلی صف میں نظرآرہے ہیں۔‘‘ (۶۰)
نذیر فتح پوری بھی حیدرقریشی کو ’’لفظوں کامسیحا‘‘ کا خطاب دیتے ہوئے ان کے تنقیدی ذوق و شوق کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ جرمنی میں بیٹھے بیٹھے موصوف نے بمبئی جیسے گنجان شہر میں کھوئے ہمت رائے شرما جی کو دریافت کرکے نئی زندگی عطا کی ہے۔ ہم اسے حیدر قریشی کامسیحانہ عمل قرار دیتے ہیں کہ ۱۹۳۶ء سے فلمی دنیا میں نام کمانے والے شرما جی آج پھر قرطاس و قلم سے منسلک ہوگئے ہیں اورخوبصورت ماہیے کہہ رہے ہیں ۔‘‘ (۶۱)
مختصر یہ کہ اس کتاب کواردو ماہیا نگاری کی تاریخ میں ایک دستاویز کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ جس سے حیدر قریشی کی اردو ماہیا سے وابستگی اورشیفتگی کے ساتھ ساتھ اس کے مقام و مرتبہ کا تعین بھی ممکن ہوگیاہے جو بلاشبہ قابل قدر ہے۔
حوالہ جات
۱۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیرآغا۔عہد ساز شخصیت‘‘، ص نمبر ۸، نایاب پبلی کیشنز، خان پور ۱۹۹۵ء
۲۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیرآغا۔عہد ساز شخصیت‘‘، ص نمبر ۷
۳۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیرآغا۔عہد ساز شخصیت‘‘، ص نمبر ۱۹
۴۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیرآغا۔عہد ساز شخصیت‘‘، ص نمبر۲۴
۵۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیرآغا۔عہد ساز شخصیت‘‘، ص نمبر ۲۹
۶۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیرآغا۔عہد ساز شخصیت‘‘، ص نمبر ۳۰
۷۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیرآغا۔عہد ساز شخصیت‘‘، ص نمبر ۳۱
۸۔ محمد وسیم انجم، ’’حیدرقریشی۔ فکروفن‘‘ ص نمبر۵۰، انجم پبلی کیشنز، راول پنڈی، ۱۹۹۹ء
۹۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیرآغا۔عہد ساز شخصیت‘‘، ص نمبر ۳۶
۱۰۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیرآغا۔عہد ساز شخصیت‘‘، ص نمبر ۳۷
۱۱۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیرآغا۔عہد ساز شخصیت‘‘، ص نمبر ۷۰
۱۲۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیرآغا۔عہد ساز شخصیت‘‘، ص نمبر ۱۰۸
۱۳۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیرآغا۔عہد ساز شخصیت‘‘، ص نمبر ۱۲۲
۱۴۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیرآغا۔عہد ساز شخصیت‘‘، ص نمبر ۱۲۳
۱۵۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیرآغا۔عہد ساز شخصیت‘‘، ص نمبر ۱۲۴
۱۶۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیرآغا۔عہد ساز شخصیت‘‘، ص نمبر ۱۲۶
۱۷۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیرآغا۔عہد ساز شخصیت‘‘، ص نمبر ۱۳۳
۱۸۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیرآغا۔عہد ساز شخصیت‘‘، ص نمبر ۱۳۴
۱۹۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیرآغا۔عہد ساز شخصیت‘‘، ص نمبر ۱۴۴
۲۰۔ محمد وسیم انجم، ’’حیدر قریشی ۔ فکر وفن‘‘ ص نمبر ۵۴
۲۱۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیرآغا۔عہد ساز شخصیت‘‘، ص نمبر ۱۵۳
۲۲۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیرآغا۔عہد ساز شخصیت‘‘، ص نمبر ۲۶
۲۳۔ حیدر قریشی، ’’ڈاکٹر وزیرآغا۔عہد ساز شخصیت‘‘، ص نمبر ۹
۲۴۔ محمد وسیم انجم، ’’حیدر قریشی۔ فکر وفن‘‘ ص نمبر ۵۶
۲۵۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیانگاری‘‘، ص نمبر۳، فرہاد پبلی کیشنز اسلام آباد۔ ۱۹۹۷ء
۲۶۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیانگاری‘‘، ص نمبر۸
۲۷۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیانگاری‘‘، ص نمبر۹
۲۸۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیانگاری‘‘، ص نمبر۱۷
۲۹۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیانگاری‘‘، ص نمبر۱۸
۳۰۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیانگاری‘‘، پس ورق از ڈاکٹر انور سدید
۳۱۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیانگاری‘‘، ص نمبر۲۱
۳۲۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیانگاری‘‘، ص نمبر۲۱
۳۳۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیانگاری‘‘، ص نمبر۲۲
۳۴۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیانگاری‘‘، ص نمبر۳۹۔۴۰
۳۵۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیانگاری‘‘، ص نمبر۵۹
۳۶۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیانگاری‘‘، ص نمبر۶۰
۳۷۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیانگاری‘‘، ص نمبر۳۳
۳۸۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیانگاری‘‘، ص نمبر۷۶
۳۹۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیانگاری‘‘، ص نمبر۹۹
۴۰۔ حیدر قریشی، ’’اردو میں ماہیانگاری‘‘، ص نمبر۱۵۷
۴۱۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کی تحریک‘‘، ص نمبر ۷، فرہاد پبلی کیشنز، راول پنڈی، ۱۹۹۹ء
۴۲۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کی تحریک‘‘، ص نمبر ۱۴
۴۳۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کی تحریک‘‘، ص نمبر ۲۵
۴۴۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کی تحریک‘‘، ص نمبر ۳۲
۴۵۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کی تحریک‘‘، ص نمبر ۳۳۔۳۴
۴۶۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کی تحریک‘‘، ص نمبر ۷۹
۴۷۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کی تحریک‘‘، ص نمبر ۱۰۰
۴۸۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کی تحریک‘‘، ص نمبر ۱۰۳
۴۹۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما‘‘، ص نمبر۳، معیار پبلی کیشنز، دہلی، ۱۹۹۹ء
۵۰۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما‘‘، ص نمبر۹
۵۱۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما‘‘، ص نمبر۱۲
۵۲۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما‘‘، ص نمبر۱۵
۵۳۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما‘‘، ص نمبر۲۱
۵۴۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما‘‘، ص نمبر۲۴
۵۵۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما‘‘، ص نمبر۳۶
۵۶۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما‘‘، ص نمبر۴۵
۵۷۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما‘‘، ص نمبر۵۳
۵۸۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما‘‘، ص نمبر۵۴
۵۹۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما‘‘، ص نمبر۵۷
۶۰۔ حیدر قریشی، ’’اردو ماہیے کی تحریک‘‘، پس ورق از ڈاکٹر وزیر آغا
۶۱۔مرتبین نذیر فتح پوری۔سنجے گوڑ بولے، ’’حیدر قریشی۔ فن او رشخصیت‘‘، ص نمبر۲۰۔ اسباق پبلی کیشنز۔پونا۔ ۲۰۰۲ء