صبیحہ خورشید(کامٹی)
اردو میں ماہیا نگاری کی ابتداء ہوچکی تھی۔ماہیا کو اردو میں باقاعدہ ایک صنف کا درجہ مل گیا توپھر اس پر تحقیقی،تنقیدی،تحریکی نوعیت کے کام شروع ہونے لگے۔ابتداء میں ماہیا کے بنیاد گزراروں میں چراغ حسن حسرت ،قمر جلال آبادی اور ساحر لدھیانوی کا نام لیا جاتا تھا۔
فلم ’’باغبان‘‘ ۱۹۳۷ء(؟)
باغوں میں بڑے جھولے
تم بھو ل گئے ہم کو
ہم تم کو نہیں بھو لے
ساون کا مہینہ ہے
ساجن سے جدا ہو کر
جینا کو ئی جینا ہے
مذکورہ بالا چراغ حسن حسرت کا ثلاثی قسم کا ماہیا ۱۹۳۷ء میں شائع ہوا جوکہ تین ہم وزن مصرعوں پر مشتمل تھا۔اس پر اولیت کا سہرا باندھا گیا۔چونکہ یہ تین مساوی ا لوزن مصرعوں کی نظم تھی۔اس لیے مختلف اسکالرز نے اسے ماہیا نما ثلاثی قرار دیاگیا۔یوں حسرت ماہیا کے بنیاد گزاروں میں شامل بھی ہیں لیکن خالص پنجابی لَے کی بنیاد پر پورا نہ اترنے کے باعث وہ ماہیا کے بانی قرار نہ پا سکے۔تب ماہیاکے درست وزن کے بانی قمرجلال آبادی قرار پائے جنہوں نے ۱۹۵۶ء کے لگ بھگ فلم پھاگن کے لیے ماہیا گیت لکھا تھا۔
پھر ماہیا کی اٹھا ئی گئی تحریک کے زیر اثر ارباب فن نے اس میں اور بھی زیادہ گہری دلچسپی لینی شروع کی۔ اس پر مزید تحقیقی وتنقیدی نوعیت کے کام ہونے لگے ۔تب ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی اپنی تحقیقی کاوش سے یہ بات منظر عام پر لائے کہ اردو ماہیاکا ابتدائی نمونہ قمر جلال آبادی سے بھی پہلے ہمت رائے شرما کے ہاں ملتا ہے۔ان کا مضمون ’’اردو ماہیا کی روایت سے متعلق ہمت رائے شرماکی وضاحت‘‘کے عنوان سے سہ ماہی ’کوہسار جرنل‘ بھا گل پور کے شمارہ اگست ۱۹۹۹۷ء میں شائع ہوا یہی تحریر ماہنامہ صریر کے شمارہ جون ،جولائی۱۹۹۷ء میں بھی چھپی۔
اس مضمون ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی رقم طراز ہیں:
’’اردو ماہیاکے بنیاد گذاروں میں ابھی تک کی تحقیق کے مطابق چراغ حسن حسرت ،ساحر لدھیانوی اورقمر جلال آبادی کے نام آتے ہیں ۔لیکن میری حالیہ تحقیق یہ ہے کہ اولیت کا سہرہ ہمت رائے شرما کے سر ہے۔
ایک تقریب میں درج ذیل بول میری سماعت سے ٹکرائے تو تجسس پیدا ہوا۔
اک بار تو مل ساجن
آکردیکھ ذ را
ٹوٹا ہوا دل ساجن
تلاش وجستجو کے بعد اتنا پتہ چلا کہ یہ بول مشہور شاعر اور فلم ڈائر یکٹر ہمت رائے شرما کے ہیں ۔بڑی کدوکاوش کے بعد ان کا پتہ مل سکا اور میں نے خط لکھا۔‘‘ ۱
الغرض مناظر عاشق ہرگانوی نے ہمت رائے شرما سے خطوط کے ذریعہ رابطہ قائم کیا اور وہ تمام خط وکتابت اس مضمون میں جمع کردی اپنے خط میں مناظرعاشق نے ہمت رائے شرماسے چند سوالات اٹھائے۔
۱:۔ آپ نے سب سے پہلے ماہیے کب کہے تھے ؟
۲:۔ فلم’’ خاموشی‘‘ کب بنی اور کب ریلیز ہوئی ؟
۳:۔ فلم ’’باغباں‘‘ کب ریلیز ہوئی ؟
۴:۔ آپ نے جن ماہیوں کو اختر شیرانی سے منسوب کیا ہے اس سلسلے میں روایت ہے کہ یہ چراغ حسن حسرت کے ہیں ؟
۵:۔ آپ کی کتاب ’’شہاب ثاقب‘‘ کب شائع ہوئی ؟
مناظر عاشق ہرگانوی کے سوال کا جواب ہمت رائے شرما نے اس طرح دیا:
’’آپ نے جوسوالات پوچھے ہیں ان کے لیے عرض ہے کہ ہماری فلم’’ خاموشی‘‘ 1939 ئ میں تیار ہوئی اور فوراً ریلیز ہو گئی تھی۔1938 ء میں میں نے پہلی بار اردو ماہیا ہر فلم ’’خاموشی‘‘ میں گانا لکھا اس وقت میری عمر کوئی سولہ سترہ برس کی ہوگی ۔’’ خاموشی‘‘ کے مکالمہ نگار اور کہانی کار سید امتیاز علی تاج صاحب تھے۔ ’باغباںـ‘ بھی انہی دنوں ریلیز ہوئی تھی ۔پہلے کون سی فلم ریلیز ہوئی تھی۔ یہ یاد نہیں ۔چالیس پچاس برس ہوگئے ہیں۔کچھ یاد نہیں میری صحت ویسی ہی ہے ۔ اب paralaysis فالج کا ساتواں سال چل رہاہے لکھتا کچھ ہوں لکھا کچھ اور جاتا ہے ۔بستر پر لیٹا رہتا ہوں۔ نہ چل پھر سکتا ہوں ۔اور نہ لکھ پڑھ سکتا ہوں ۔آپ نے فرمایا مولانا چراغ حسن حسرت سے یہ گانا منسوب ہے ۔مولانا صاحب اس وقت ا خبار ’شیرازہ ‘ کے لاہور میں اڈیٹر تھے ۔ہو سکتا ہے میاں کاردار ان سے یہ بول لکھوانے لاہور گئے ہوں۔اور تو مجھے کچھ یاد نہیں۔والسلام خاکسار ہمت رائے شرما
ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے تحقیق کا بنیادی نوعیت کا کام کیا لیکن اس پر مزید تحقیق باقی تھی کیونکہ اس پر ابھی دلائل کی مہر ثبت ہونا تھی جس کے سبب بعض محققین نے ڈاکٹر مناظر عاشق کی تحقیق پر اعتراضات کیے۔اور ہمت رائے شرما کو ماہیا کابانی تسلیم کرنے سے انکار کرنے لگے۔تب اس تحریک کے علمبردار جناب حیدر قریشی نے ڈاکٹر مناظر عاشق کی تائید کرتے ہوئے اس پر مزید تحقیق کا کام کیا۔حیدر قریشی رقم طراز ہیں:
’’ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی کی تحقیق سامنے آنے کے بعد میں نے ہمت رائے شرما جی سے براہ رست رابطہ قائم کیا۔ان سے تھوڑی بہت خط وکتابت بھی ہے ۔دو بار میں نے ان سے ٹیلیفون پر بات کی ہے۔ ان کی آواز میں لقوہ کے حملہ کا واضح اثر ہے ۔تاہم ہماری محبت کے کسی انجانے جذبے نے ان کی گویائی کی قوت بڑھادی ۔انھوں نے فون پر بتایا کہ میں پنجابی ہوں۔پنجابی ماہیا(اوربولیاں بھی)میرے اندر بسے ہوئے ہیں۔ابھی میں کم عمر تھاامرتسر میں گرمیوں کے ایا م تھے۔رات کے وقت میں گھر کی چھت پر چار پائی پر لیٹا ہوا تھاکہ ایک درد بھری آواز سنائی دی یہ ہمارے گھر سے کچھ دور رہنے والے ایک نوجوان کی آواز تھی جو اپنے درد میں مگن پنجابی ماہیا گا رہا تھا۔
(بعد میں پتہ کہ چلا کہ وہ نوجوان اپنی محبت میں ناکام ہوچکاتھا)گرمیوں کی رات ،کھلی چھت اور گہری خاموشی سے ابھرتی ہوئی ماہیا گانے کی درد بھری آواز ۔مجھ پر سحر طاری ہو گیا۔یہی سحر تھا جس نے بعد میں مجھ سے فلم خاموشی کے ماہیے لکھوائے۔یہ باتیں ہمت رائے شرما جی نے مجھے ٹیلی فون پر بتائی تھیں۔ان سے بھی ظاہر ہے کہ پنجابی ماہیا براہ راست ان کے اندر اگا ہوا تھا ۔اگر ان پر کسی کا اثر تھا۔تو امرتسر کا وہ ناکام نا معلوم شخص تھا۔جس کے درد کی سچائی نے پنجابی ماہیے کے دو آتشہ کرکے ہمت رائے شرما جی کو باندھ لیا تھا۔‘‘
مذکورہ بالا ہمت رائے شرما جی کے بیان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شرما جی نے اس نوجوان کی آواز کے سحر سے متاثر ہو کر اردو کا سب سے پہلا ماہیا فلم خاموشی کے لیے لکھا۔
فلم ’خاموشی‘
اک بار تو مل ساجن
آکردیکھ ذرا
ٹوٹاہوا دل ساجن
سہمی ہوئی آہوں نے
سب کچھ کہ ڈالا
خاموش نگاہوں نے
مذکورہ بالا بیان کی سچائی جناب حیدر قریشی کی تحقیق کی روشنی میں دیکھی جا سکتی ہے۔
۱ :۔’’ہمت رائے شرما ۱۹۱۹ء میں پنجاب کے مردم خیز ضلع سیالکوٹ کے مشہور قصبے ناروال میں ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے ۔۔۔صرف ۱۷سال کی عمر میں ’خاموشی‘نامی فلم کے گیت لکھ ڈالے۔‘‘
(مضمون :۔ہمت رائے شرما اور ان کی کتابوں کا خصوصی تعارف’’مضمون نگار رئیس الدین فریدی ،مدیر’’روزانہ ہند‘‘کلکتہ۔۔مطبوعہ ماہنامہ ’’انشاء‘‘کلکتہ شمارہ:اکتوبر ،نومبر۱۹۹۱ء)
۲:۔ ۱۹۸۴ء میں ہمت رائے شرما جی کا شعری سرمایہ’’شہاب ثاقب‘‘کے نام سے شائع ہوا ۔کتاب کے فلیپ پر شرما جی کا تعارف اور ان کی شاعری پر فراق گورکھپوری کی رائے درج ہے۔شرما جی کے تعارف میں یہ الفاظ ہماری تحقیق کے لیے اہمیت کے حامل ہیں :
’’ہمت رائے شرما ایک باکمال فنکا ر ہیں ۔۔۔۲۳نومبر۱۹۱۹ء کوشرماصاحب ناروال کے ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔۔۔۱۷سال کی عمر میں فلم خاموشی ‘‘ کے گیت لکھے۔‘‘
اسی مسئلے پر بحث کرتے ہوئے جناب حیدر قریشی رقم طراز ہیں:
’’اس کتاب کی اشاعت کے وقت شرما جی 65سال کے تھے۔بیمار نہیں تھے ۔اس لیے اس وقت ان کے تعارف میں جو سن لکھے گئے وہ زیادہ مستند اور اہم ہیں خصوصاً اس لیے بھی کہ 1984ء میں نہ تو ان کے تعارف نگار اور نہ ہی خود انہیں کوئی ایسی غرض لاحق تھی کہ ماہیے کی تاریخ میں اولیت کااعزاز حاصل کرنا ہے۔‘‘
’’ان دونوں شواہد کی روشنی میں جو خود ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں۔1919 ء میں 17 سال جمع کیے جائیں تو فلم ’’خاموشی‘‘ کے لکھنے کا سال 1936 بنتا ہے ۔جب تک کوئی نیا تحقیقی ثبوت نہیں ملتا ۔فلم ’’خاموشی‘‘ کے لیے شرما جی کے ماہییا لکھنے کا سال 1936 ء ثابت ہوا۔‘‘
درج بالا دونوں شواہد سے فلم ’’خاموشی‘‘کا سن 1936ء بنتا ہے لیکن پھر بھی جناب حیدر قریشی نے اپنی تحقیقی جہت کو جاری رکھا اور کسی پختہ اور ٹھوس ثبوت کی تلاش میں سر گرم عمل رہے۔آخر کار ہمت رائے شرما جی کی مدد سے انہیں وہ ثبوت مل ہی گئے جو اس بات کے بین ثبوت ہیں کہ فلم خا موشی 1936 ء میں بنی تھی جسے یہاں پیش کیا جا تا ہے۔
ہمت رائے شرما جی نے21 دسمبر1998 ء حیدر قریشی صاحب کے نام ایک خط تحریر کیا تھا اور ساتھ ہی فلم خاموشی کی Bookletکی فوٹو کاپی بھی روانہ کی تھی ۔جس میں ہمت رائے کی تحریر اس طرح سے تھی:
’’آج سے ساٹھ باسٹھ سال پرانی فلم خاموشی کی Bookletجوپرانے گودام کے ایک اسٹور سے پھٹی پرانی حالت میں مل گئی ہے۔یہ اسی رنگدارسرورق کی فوٹو کاپی ہے ۔اس میں وہ سب کچھ درج ہے جس کی تلاش تھی۔یہ فوٹو کاپی بیحد اہم اور نایاب ہے۔اسے حاصل کرنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑی۔کافی رقم خرچ ہوئی کیونکہ اسے حاصل کرنے کے لیے ایک خاص ا ٓدمی کو کلکتے بھیجناپڑا‘‘
حیدر قریشی اپنی کتاب’’ اردو ماہیا کے بانی۔۔ہمت رائے شرما‘‘میں بطور ثبوت ہمت رائے شرما کے خط کی تحریر کے علاوہ اس بک لیٹ کے سرورق کو بھی بیان کیا ہے:
’’سرورق پر ہیروئن رمولا کی تصویر ہے ۔دائیں طرف اوپر انگریزی میں،درمیان میں ہندی میں میں اوراور نیچے اردو میں فلم کا نام ’’خاموشی‘‘ لکھاہواہے۔اور آخر میں صرف انگریزی میں ڈائریکٹرآر۔سی تلوارکا نام لکھا ہے۔ سرورق کے اندر کی طرف فلم کے پروڈیوسر،ڈائریکٹر،کاسٹ اور اہم ٹیکنیشنزوغیرہ کے نام دررج ہیں۔یہ سارے نام انگریزی میں لکھے ہیں۔پرو ڈ یو سر ایل ۔آر ۔پراشرہیں(ایل آر=لاہوری رام)’’پروڈیوسر انڈر دی بینر آف تلوار پروڈکشنز(انڈر نیو مینیجمینٹ)مئی 1936 ء ‘‘ درج ہے۔انگریزی کے اصل الفاظ یہاں درج کردیتا ہوں: Producer under the banner of……TALWAR PRODUCTIONS
May ,1936 ( Unde new manage ment)
اس طرح سے حیدر قریشی نے ہمت رائے شرما سے براہ راست رابطہ قائم کرکے ان سے وہ تمام ثبوت جمع کیے جواس بات کی دلیل بن گئے کہ ہمت رائے شرما ہی ماہیے کے بانی ہیں۔ساتھ ہی ان محققین اور معترضین کے اعتراضات کا جواب بھی دیا جو ہمت رائے کو ماہیا کے بانی ماننے سے انکار کررہے تھے ۔
معترضین کا سب پہلا اعتراض تو یہ تھا کہ وہ زمانی لحاظ سے چراغ حسن حسرت کو شرما جی پراولیت دے رہے تھے۔ جب کہ فلم باغبان کا سن 1937 ء ہے جو کہ 1936 ء کے بعد آتا ہے۔لیکن حیدر قریشی نے اپنی تحقیقات کے ذریعہ ثبوت کے طور پر فلم خاموشی کی بک لیٹ پیش کر کے اس بات کو ثابت بھی کر دیا کہ فلم خاموشی 1936ء میں ریلیز ہوئی جو کہ 1937ء سے پہلے آتا ہے۔اس طرح سے شرما جی کو زمانی لحاظ سے حسرت پر اولیت حاصل ہو گئی۔معترضین کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ وہ حسرت کے ثلاثی قسم کے گیت پر ماہیا کا لیبل چسپاں کرنے کی انتھک کوشش میں تھے۔جبکہ یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ ماہیا ایک غنائی صنف شاعری ہے ۔مخصوص لے اور دھن اس کی پہچان ہے۔اس سہ مصرعی صنف سخن میں اگر دوسرا مصرعہ میں ایک سبب کم یا دو حرف کم ہو تو وہی وزن ایسا ہے جسے ہم ماہیے کی مخصوص دھن میں گنگناسکتے ہیں۔باوجود اس کے حسرت کی ثلاثی تین مساوی الوزن مصرعوں کی ہے۔جسے ہم مخصوص لے اور دھن میں نہیں گنگنا سکتے۔لہذا یہ ماہیا نہ ہو کر ثلاثی قسم کا گیت ہوا۔
اس سلسلے میں حیدر قریشی فرماتے ہیں :
’’حسرت کے ثلاثی کو پروفیسر آل احمدسرور نظم بیان کرتے ہیں ۔خود اسے حسرت ایک گیت لکھتے ہیں ۔ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی بھی اسے گیت قرار دیتے ہیں تو پھر اصل شاعر کی بات مان کراسے صرف ایک فلمی گیت ہی کیوں نہیں مان لیا جائے۔
اپنی تحقیق میں حیدر قریشی ایک جگہ یہ بھی فرماتے ہیں:
’’تحقیقی معاملات میں حقائق مقدس ہوتے ہیں اس لئے انہیں ماہیے سے دلچسپی رکھنے والوں کے سامنے لارہا ہوں ۔حمید نسیم،ڈاکٹرتاثیراور چراغ حسن حسرت تینوں ہی میرے نزدیک محترم ہیں اول الذکر دو نے اگر ’’باغبان‘‘ والے گیت کو ماہیا لکھا ہے تو ماہیے کی بحث کے حوالے سے مجھے احمد حسین مجاہد کے ایک جوابی مضمون کا اقتباس یاد آگیاہے وہ اقتباس یہاں درج کررہا ہوں :
’’علامہ اقبال نے اگر اپنے چند قطعات کو رباعی کہا ہے تو کیا علا مہ اقبال کے کہنے سے قطعات ،رباعی ہو گئے ؟غالب جیسا بڑا شاعر بھی رباعی کہتے ہوئے بحر سے باہر ہوگیا تھا۔کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ غالب سے غلطی سرزد نہیں ہوئی۔‘‘(مضمون’’اردو ماہیے کا وزن‘‘از احمد حسین مجاہد ،مطبوعہ ادبی روز نامہ ’’نوائے وقت ‘‘ اسلام آباد
مور خہ ۹۸۔۵۔۱۹)
’’سو حمید نسیم اور ڈاکٹر تاثیر کے ا لفاظ کو بھی غالب اور اقبال اور رباعی اور قطعہ کے حقائق کے تناظر میں دیکھناچاہیے‘‘
خلاصۂ کلام یہ کہ ہمت رائے شرما کے ماہیے کو ماہیے کی لَے کا پابند ہونے کی بنیاد پر بھی حسرتؔ پر فوقیت حاصل ہے اور زمانی اعتبار سے بھی فوقیت حاصل ہے۔
حسرت کے اسی ثلاثی قسم کے گیت کے متعلق ہمت رائے شرما فرماتے ہیں:
’’ایک دن خاں صاحب برکت علی خاں جو مشہور گلوکار خاں صاحب بڑے غلام علی خاں صاحب کے چھوٹے بھائی خاں صاحب برکت علی خاں صاحب کے نام سے پہچان جاتے تھے ان سے سنا۔
ساون کا مہینہ ہے
ساجن سے جد ا ہو کر
جینا کو ئی جینا ہے
اب اور نہ تڑ پا ؤ
ہم کو بلا بھیجو یا
یا آ پ چلے آ ؤ
’’یہ ٹھمری نما پہاڑی (راگ) بہت ہی سر میں گاتے تھے ۔کوئی بھی آج تک ان کی نقل نہیں کر سکا۔‘‘
مذ کور ہ بالاہمت رائے شرما کے متعلق حیدر قریشی فرماتے ہیں:
’’اس میں جو تعریف کی گئی ہے وہ حسرت کے مبینہ’’ ماہیوں‘‘ کی نہیں بلکہ خاں صاحب برکت علی
خاں کی کلاسیکل گائیکی کی تعریف ہے۔ ‘‘
علاوہ ازیں ہمت رائے شرما جی کے ایک اور خط کا بیان دیکھئے ۔
’’استاد برکت علی خاں نے ’باغبان‘میں جو گیت گایا تھا ۔وہ پنجابی ماہیے سے بالکل میل نہیں کھاتا تھا بلکہ بالکل کلاسیکل گانا تھا۔جسے ’جھنجھوٹی ‘کہا جاتا ہے یہ گانا بہت مشکل ہوتا ہے۔‘‘
حسرت کے ثلاثی نما گیت کو پروفیسر آل احمد سرور نظم کہتے ہیں خود حسرت نے اسے ایک گیت لکھا ہے۔ڈٓکٹر مناظر عاشق بھی اسے گیت ہی قرار دیتے ہیں ۔لیکن ہمت رائے شرما گائیکی کے حوالے سے اسے جھنجھوٹی کہتے ہیں۔
جناب حیدر قریشی کی تحقیقات سے حاصل ہونے مختلف شواہد اور بیانات سے صاف عیاں ہے کہ چراغ حسن حسرت کا فلم باغبان ۱۹۳۷ء کا لکھا ہوا گیت ماہیا نہیں ہے۔اردو ماہیا کے بانی صد فیصد ہمت رائے شرما ہیں۔جبکہ انھو ں نے ۱۹۳۶ء میں فلم ’’خاموشی‘‘ کے لیے اردو و کا سب سے پہلا ماہیاکہا اس کے بعد وقفے وقفے سے قتیل شفائی۔ قمر جلال آبادی اور ساحر لدھیانوی نے اردو ماہیے کا تجربہ پنجابی لوک لے کی بناء پر کیا اور اردوشاعری کو ایک نئی صنف شاعری’’ماہیا‘‘ کا تحفہ دیا۔ہمت رائے شرما کے متعلق جناب حیدر قریشی فرماتے ہیں:
’’اردو ماہیا کی دنیا میں ہمت رائے شرما جی کا وہی مقام ومرتبہ ہے جو اردو غزل کی دنیا میں حضرت
امیرّ خسروکا ہے‘‘۔
(مضمون : ہمت رائے شرما کی شاعری ۔۔ایک تعارف۔مطبوعہ اردو ماہیے کے بانی ۔۔ہمت رائے شرما صفحہ۳۸)
ماہیے کے بانی کی کھوج کرنے والے ڈاکٹر مناظر عاشق ہیں ۔ لیکن اس انکشاف پرمکمل اور ٹھوس تحقیقی ثبوت فراہم کرنے والے حیدر قریشی ہیں ۔ذیل میں فلم’’ خاموشی‘‘ (1936 ( کے ماہیے درج کیے جاتے ہیں جنہیں اب تک کی تحقیق کے مطابق اردو ماہیے کا ابتدائی نقش قرار دیا جاتا ہے
اک بارتو مل ساجن
آکردیکھ ذرا
ٹوٹاہوا دل ساجن
سہمی ہوئی آہوں نے
سب کچھ کہہ ڈالا
خاموش نگاہوں نے
کچھ کھوکر پائیں ہم
دور کہیں جا کر
ایک دنیا بسائیں ہم
یہ طر ز بیاں سمجھو
کیف میں ڈوبی ہوئی
آنکھوں کی زباں سمجھو
تارے گنواتے ہو
بن کر چاند کبھی
جب سامنے آتے ہو
سر مست فضائیں ہیں
پیتم پریم بھری
پھاگن کی ہوائیں ہیں
اشکوں میں روانی ہے
آنسوپی پی کر
مد ہوش جوانی ہے
کچھ کھو کر پاتے ہیں
یاد میں ساجن کی
یوں جی بہلاتے ہیں
کیا اشک ہمارے ہیں
آنسو مت سمجھو
ٹوٹے ہوئے تارے ہیں
دو نین چھلکتے ہیں
ساجن آجاؤ
ارمان مچلتے ہیں
بھیگی ہوئی راتوں میں
ہم تم کھو جائیں
پھر پریم کی باتوں میں
اردو ماہیے کی تحریک کے دوران جب ہمت رائے شرما کو ماہیے کے فروغ کا علم ہوا تو بسترِ علالت پر پڑے ہونے کے باوجود ان کے اندر سولہ سترہ سال کی عمر والا شوق پھر سے بیدار ہوا۔اور وہ اپنی عمر کے ابتدائی دور کی طرح عمر کے آخری دور میں بھی ماہیے کہنے کی طرف راغب ہوئے۔عمر کے آخری ایام میں انہوں نے جو ماہیے کہے وہ اس لحاظ سے انفرادیت کے حامل ہیں کہ انہوں نے اردو کے ساتھ گنتی کے چند ماہیے دوسری زبانوں میں کہہ دیے۔ایسے ماہیے یہاں درج کیے جاتے ہیں۔
ہمت رائے شرما کے متفرق اردوماہیے
دنیا سے نہیں ڈرتے
عشق ہے لا فانی
عاشق تو نہیں مرتے
دو بول ہیں گانے کے
بیتے دن سجنا
نہیں واپس آنے کے
کیا جرم ہمارا ہے
چھوڑ کے مت جانا
اک تیرا سہارا ہے
نفرت کا صلہ کیسا؟
اپنی خطائیں ہیں
یزداں سے گلہ کیسا؟
کچھ کر کے دکھا تی ہے
رحمت مولا کی
جب جوش میں آتی ہے
وہ رام ، رحیم بھی ہے
ایک ہی مالک ہے
جو کرشن ،کریم بھی ہے
ماہیے پر ماہیے
ماہیے کی کہانی ہے
ماہیے کی د ھن میں
ماہیے کی زبانی ہے
دو پھول گلاب کے ہیں
بھنگڑا اور ماہیا
تحفے پنجاب کے ہیں
جب یاد ستاتی ہے
دل کی ہر دھڑکن
ماہیا بن جاتی ہے
ٹھنڈک بھی، حرارت بھی
ہوتی ہے ماہیے میں
شوخی بھی ،شرارت بھی
روداد جوانی ہے
اردو ماہیے کی
کیا خوب کہانی ہے
ٹکڑوں پر پلتے ہیں
اب بھی کچھ شاعر
ماہیے سے جلتے ہیں
فن میں لا ثا نی ہیں
حیدر ’’ماہیے کی
تحریک ‘‘کے بانی ہیں
اردو کے علاوہ دوسری زبانوں کے ماہیے
’’پنجابی‘‘
دو پتر اناراں دے
اک واری میل کریں
ربا و چھڑ یاں یاراں دے
’’فارسی‘‘
ایں محفل یاراں است
گلبن گل مے کند
چہ فصل بہاراں است
’’ہندی‘‘
کیسی تروینی ہے
چندر مکھی سجنی
مرگ شاوک نینی ہے
’’بنگالی‘‘
ایکھن امی جا چھی نہ
بندھو ایشے چھے
امی دانڑاں تے پاچھی نہ
’’گجراتی‘‘
دیپک پن جاگے چھے
بھائی نقی ائی دا
تمے کیو و لا گے چھے
’’مراٹھی‘‘
اتا جاؤ کٹھے سانگا ؟
گانی پریما چی
می گاؤ کٹھے سانگا
اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما نے اپنی عمر کے ابتدائی اور آخری ایام میں ماہیا کو تخلیقی طور پرجو کچھ بھی عطا کیا ہے وہ اردو ماہیا کے لیے تبرک کا درجہ رکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی :۔
(۱):۔ کوہسار جرنل بھاگلپور اگست ۱۹۹۷ء صفحہ۱۴
(۲):۔ ایضاً۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر۱۸
(۳):۔ کتاب اردو ماہیے کے بانی ۔۔ہمت رائے شرما صفحہ ۱۹
(۴):۔ ایضاً۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر۱۵۔۴۱
(۵):۔ ایضاً۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صفحہ ۲۳۔۲۲
(۶):۔ ایضاً۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صفحہ ۱۷
(۷):۔ ایضاً۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر۸
(۸):۔ ایضاً۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر۱۸۔۱۷
(۹):۔ ایضاً۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر ۲۵
(۱۰):۔ مضمون ہمت رائے شرما کی شاعری ۔۔ایک تعارف۔۔۔مطبوعہ اردو ماہیا کے بانی ہمت رائے شرما۔صفحہ ۳۸