حیدر قریشی(جرمنی)
ہمت رائے شرما جی ایک عرصہ سے رتن ناتھ سرشار کے ’’فسانہ آزاد‘‘ کے سحر میں گھِر ے ہوئے تھے۔ آخر اس کے جادو نے اثر دکھایا اور ہمت رائے شرما جی نے میاں آزاد کو آج کے لکھنو میں لاکھڑا کیا۔ پھر انہیں ایک سفر بمبئی کا کرایا اور ایک سفر دلی کا ۔یوں ’’فسانہ آزاد‘‘ کے دو نئے فسانے، دو نئے سفر نامے سامنے آئے۔ہمت رائے شرماجی ایک عمدہ پیروڈی نگار، خوبصور ت مزاح نگار اور اور زبان پر حیرت انگیز قدرت رکھنے والے ادیب مانے گئے۔’’میاں آزاد فلمی دنیا میں ‘‘ اور ’’میاں آزاد سیاست کے میدان میں ‘‘یہ دونوں اسفار ’’میاں آزاد کا سفر نامہ ‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں چھپ چکے ہیں۔ ہمت رائے شرما جی نے کتاب کے ’’حرفِ آغاز‘‘ میں لکھا ہے۔:
’’پنڈت رتن ناتھ سرشار کے مخصوص اسلوب کو اپنانا لوہے کے چنے چبانا تھا۔‘‘
بے شک حقیقت ایسے ہی ہے لیکن میرے جیسوں کے لیے۔ ہمت رائے شرما جی نے تو سرشار کے مخصوص اسلوب کو یوں روانی کے ساتھ نبھایا ہے گویا میاں آزاد اس زمانے میں نہیں آئے، خودرتن ناتھ سرشار اس زمانے میں آگئے ہیں اور ’’فسانہ آزاد‘‘ کو اپنے اسی مخصوص اسلوب کے ساتھ نئے زمانے سے ملا کر پھر سے لکھنے لگے ہیں۔
بمبئی میں میاں آزاد پہنچے تو بمبئی کا نقشہ انہیں کیسا لگا۔ آپ بھی دیکھئے:
’’جدھر دیکھوبے شمار کاریں ، ٹیکسیوں کی قطاریں، دونوں طرف عالی شان مکانوں کی بناوٹ ۔ نیچے دکانوں کی سجاوٹ ، واہ واہ کیا شہر ہے ! خدا کی شان، اس شہر کے قربان، نشاط آباد ہے، واقعی عروس البلاد ہے۔‘‘
بمبئی کی فلم نگری کا نقشہ یوں بیان ہوتا ہے:
’’کہیں پریوں کا ہجوم ،کہیں پلے بیک کی دھوم، یہاں میراثی وہاں ڈوم، کہیں زاغ کہیں بوم، دوشیزائیں ہیں کہ واہ واہ !ایک سے ایک بڑھ کے دنیا سے نرالی ، مئے کی پیالی، فتنہ ٔ زمانہ ، آفت ڈھانے والی ، جسے دیکھو نور کا عالم‘‘۔
اور اب دلّی کا نظارہ:
٭ ’’واہ واہ کیا شہر ہے ۔ جیسا سنا تھا ویسا دیکھ لیا ۔جدھر دیکھو چہل پہل، ہر محلہ آباد، چپہ چپہ روکش بہشت شداد، سڑکوں پر دور ویہ عالیشان کوٹھیاں اور بنگلے، پنج منزلہ ، ہفت منزلہ اونچے مکان، گویا آسمان سے باتیں کرتے ہیں، فلک الافلاک سے ٹکر لڑتے ہیں‘‘۔
٭ ’’واہ رے میاں شاہ جہاں! صاحب قرونِ ثانی، لاثانی قلعہ بنوا گئے۔ آج تک نہ کسی نے ایسا قلعہ بنوایا نہ بنوائے گا۔ سنگِ سرخ جانے کہاں سے منگوایا جو اس قلعہ مبارک کے صرف میں آیا۔شفق کی سُرخی۔ جناب باری نے پتھر میں ملائی تب جا کر سنگِ سُرخ نے یہ آب و تاب پائی‘‘۔
٭ ’’سامنے حلوائی کی دکان ہے گویا گھی شکر کی کان ہے۔ میٹھے پکوان۔مٹھائی کے خوان ان پر ورق نقرہ ، گاہک ٹوٹے پڑتے۔ ایک دکان پر لوگ جلیبیاں چکھ رہے ہیں کہ یہ دکان صرف جلیبیوں کے لیے مشہور ہے۔ میاں آزاد حیرت سے تک رہے ہیں۔ عش عش کر رہے ہیں۔واہ ری دلّی۔واقعی جیسا سنا تھا ویسا دیکھ لیا۔ دلّی دیکھی ۔ دلّی والے دیکھے گورے دیکھے کالے دیکھے ۔ چاندنی چوک کے لالے دیکھے‘‘۔
میاں آزاد جب بمبئی میں ہوتے ہیں تو ٹرین کے سفر کے دوران ایک مسافر نائب جھانسوی نے ان کا بٹوامارلیا۔ جب بمبئی پہنچ کر ٹی۔ٹی۔نے ٹکٹ طلب کیاتو کیا ہوا؟
’’میاں آزاد نے جونہی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ بٹوا غائب ، واہ رے میاں نائب۔ آخر پکے جھانسوی نکلے کہ ہم جھانسے میں آ گئے۔ کیا غپّا کھا گئے۔‘‘
بمبئی میں میاں آزاد کو بھنڈی بازار پہنچنا تھا۔ دیکھیں کیسے پہنچتے ہیں:
’’چند قدم چلنے کے بعد ایک پان والے سے پوچھا’’میاں بھنڈی بازار کہاں ہے؟ ‘‘ اس نے جواب دیا’’یہی تو ہے‘‘ ۔ اس پر میاں آزاد نے اِدھر ُادھر نظر دوڑائی ۔کہیں کوئی کنجڑے کی دکان نظر نہ آئی۔ بھنڈی بازار میں بھنڈی تو کیا ترکاری کا نام و نشان نہیں۔‘‘
ٹرین کے سفر کے دوران سامنے کی سیٹ پر ایک خوبصورت سی لڑکی بیٹھی تھی۔یوں تو بیشتر مسافر اس کے حسن وجمال پر فریفتہ تھے لیکن میاں آزاد حسبِ معمول اس پر ہزار جان سے عاشق ہو گئے لیکن جب اس دوشیزہ کا شوہر سامنے آیا اور وہ کوئی فوجی افسر معلوم پڑا تو میاں آزاد یوں اپنے آپ کو سمجھانے لگے:
’’میاں ! وہ نازک اندام وگلفام، تو نامراد و ناکام ، وہ اپنے حسن و جمال پر مغرور ، تو شراب عاشقی کے نشے میں چُور ، وہ بت مہوش، تو بند سبوکش، تیرا اس کا کیا سامناہے، گویا مٹھی میں ہوا کا تھامنا ہے۔ اس کی ’’چاہ کرنا‘‘اندھے کنویں میں گرنا ہے۔‘‘
ہمت رائے شرما جی کے تحریر کردہ اس سفرنامہ میں مجھے ایک ہلکا سا کھٹکا ہوا تھا۔ میاں آزاد اور میاں خوجی حقیقتاً ہم سب کے اندر کے دورُخ ہیں جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ میاں آزاد ہماری شخصیت کا مہم جو اور سیاح کردار ہے جب کہ میاں خو جی اسی سیاحت کے دوران مضحکہ خیزی کی صورت ہے۔ ہمت رائے شرما جی نے میاں خو جی کو اس سفر میں شامل نہیں کیا لیکن نئے زمانے کی صورتحال کے سامنے میاں آزاد کے کردار میں میاں خوجی کی تھوڑی سی مضحکہ خیزی بھی شامل کر دی ہے۔سیاسی جلوس میں میاں آزاد کا بھوت بننا، جلوس میں کتوں کی بھگدڑ سے لے کر میاں آزاد کے تھانے جانے تک، ایسے لگتا ہے جیسے میاں خوجی نے میاں آزاد کا لبادہ پہن لیا ہے اور سرگرم عمل ہیں لیکن شاید نئے زمانے کی صورتحال کے سامنے میاں آزاد کا حقیقتاً بھی یہی حال ہوتا ۔
شرمیلا ٹیگور کے نام کو شرمیلاناگور سے بدل کر ہمت رائے شرما جی نے بتایا ہے کہ کتنے ہی بڑے بڑے ہیروان سے شادی کرنا چاہتے تھے لیکن انہوں نے ایک سانڈ جیسے آدمی سے شادی کر لی۔ بات مزاحیہ رنگ میں کہی گئی ہے لیکن مجھے سنجیدہ ہونا پڑا ہے۔ شرمیلا ٹیگور ان ہیروئنوں میں شامل ہیں جو مجھے اچھی لگتی ہیں۔ ایک بار جب میں نے نواب پٹودی کوٹی ۔وی پر دیکھا تو حیران رہ گیا۔ مجھے وہ مردانہ وجاہت کا مثالی نمونہ لگے اور میں نے بے اختیار انہ کہا شرمیلا نے شاندارشوہر کا انتخاب کیا ہے۔ سو اپنا اختلافی بیان ریکارڈ پر لا رہا ہوں۔
بمبئی کے سفر کے دوران سب سے جاندار وہ حصہ ہے جہاں میاں آزاد فلم نگری کے اندر جاتے ہیں۔ چونکہ ہمت رائے شرما جی خود فلمی دنیا سے گہری وابستگی رکھتے ہیں اسی لئے فلمی دنیا کے احوال میں ان کے قلم کی جولانی دیکھنے کے لائق ہے۔ صرف ایک مثال :
’’مکالمہ نویس لڑکی کو جو سائڈ ہیروئن ہے، ڈائیلاگ سمجھاتے ہیں۔وہ ہٹتی ہے،یہ آگے بڑھتے جاتے ہیں بار بار کہتے ہیں،کہو’’کل آنا‘‘۔سائڈ ہیروئن اپنی دھن کی پکی ہے۔ ہر بار یہی کہتی ہے ’’کل آ‘‘۔ مکالمہ نویس جھلا ٹھے۔بولے کہو کل آنا۔ تم کل آکیوں کہتی ہو۔ ’’نا‘‘ کیوں نہیں کہتیں۔ ایکسٹرا سپلائر جھٹ بول اٹھا’’جناب اس نے نا کہنا سیکھا ہی نہیں۔ آپ اسے کوئی دوسرا ڈائیلاگ بتائیے۔ اتنے میں مکالمہ نگار ہڑ بڑا کر اٹھے سائڈ ہیروئن سے کہا ’’ دیکھیے میڈم آپ نے ابھی تک اپنے ڈائیلاگ یا د نہیں کیے۔ وہ دیکھیے ڈائریکٹر کمل بوس اور پروڈیوسر بمل بوس آر ہے ہیں۔ ‘‘ سائیڈ ہیروئن نے بے پروائی سے کہا’’آنے دو میں بوسوں سے نہیں ڈرتی‘‘۔
دلّی کے سفر کے دوران میاں آزاد ایک صاحب کا گھر کیسے تلاش کرتے ہیں اور کیسے وہاں تک رسائی پانے کی کوشش کرتے ہیں اس کا ایک نمونہ بھی دیکھ لیں:
’’دوسرے دن ادھر مہرِ عالم افروز بصد کرو فرنور افشاں ہوا ادھر کوچہ گردوں کے پشت پناہ ، رہ نو ردوں کے قبلہ گاہ۔ قلمرو وحشت کے شہنشاہ ذیجاہ۔ استادوں کے استاد، میاں آزاد ماڈل ٹاؤن کی طرف روانہ ہوئے۔الپنا سینما کے پچھلے دروازے سے ہوتے ہوئے ایف بلاک میں داخل ہوئے کہ سامنے ہی کوٹھی پر ڈائریکٹر گلاب چند نارنگ کا بورڈ دکھائی دیا۔ اندر سے نوکر آیا۔ پوچھا آپ کہاں سے آئے ہیں۔ صاحب گھر پر نہیں ہیں۔
آزاد ’’اگر ڈائریکٹر صاحب نہیں ہیں تو ہمیں’’ڈائریکٹری ‘‘ صاحبہ سے ملوادو‘‘۔
نوکر:’’وہ بھی گھر میں نہیں ہیں‘‘۔
آزاد:’’کیا نارنگ صاحب کے ساتھ نارنگی صاحبہ بھی گئی ہیں؟‘‘
دلّی میں میاں آزاد ایک ادبی مجلس میں پہلی بار’’نثری نظم‘‘ کے ایک شاعر کا کلام سنتے ہیں۔ دیکھیں میاں آزاد پر کیا بیتی:
’’صاحب صدر نے تعارف کرایا’’۔یہ بہت بڑے باغی شاعر ہیں۔ نثری نظموں کے استاد ہیں۔ جدید شاعری انہیں کی دین ہے۔ صفِ اول کے ’’جدیدئیے‘‘۔ میاں آزاد یہ سنتے ہی سوچنے لگے انیسیے۔وبیریے۔ میریے تو سنتے آئے ہیں۔ شاید یہاں غالبیے۔ اقبالیے بھی ہوں۔ بھلا یہ جدیدئیے کیا بلا ہیں۔ کہ اتنے میں انہوں نے کلام سنانا شروع کیا ۔نہ سر نہ پیر۔الہٰی خیر۔جوجی میں آیا کہے جار ہے ہیں۔‘‘
میاں آزاد کے دونوں سفر ناموں میں بدلے ہوئے زمانے کے سماج کو کہیں طنزاً اور کہیں حیرت کے ساتھ دیکھا گیا ہے۔ بمبئی کی فلمی سیاست اور دلّی کی اندرون ملک سیاست کے منفی رخوں پر گہرا طنز کرتے ہوئے ان کی مضحکہ خیزیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ہمت رائے شرما جی نے رتن ناتھ سرشار کے انداز بیان کو اپنانے میں اپنی مہارت کا کمال دکھایا ہے۔’’میاں آزاد کا سفر نامہ‘‘ صرف پیروڈی ہی نہیں ہے ۔پیروڈی کے روپ میں ہمیں اپنے کلاسیکل لٹریچر کی اہمیت کا احساس دلایا گیا ہے۔ اس کی طرف راغب کرنے کے لیے ا یک تخلیقی کاوش کی گئی ہے۔
٭٭٭
میاں آزاد کا سفر نامہ جہاں اسلوبِ بیان میں انتہائی دلچسپ ہے وہیں ٹیکنیک کے اعتبار سے قدیم و جدید میں ربط پیدا کرنے کا ایک نادر نمونہ۔ ڈاکٹر اخلاق اثر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبان دانی جو فی زمانہ نایاب ہے،آپ کے مضمون کی خصوصیت ہے۔آئندہ بھی زحمت کرتے رہیں تاکہ ہماری نئی نسل Classicسے واقف ہوتی رہے۔ علی عباس امید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج فروری ۸۴ء کا ’’آج کل‘‘ دیکھنے کا موقعہ ملا۔اس میں آپ کا مضمون ’’میاں آزاد فلمی دنیا میں‘‘چھپا ہے۔واقعی ایک طویل مدت کے بعد ایسی اچھی چیز پڑھنے میں آئی ہے جس نے دل پر اثر کیا۔عیاں ہے کہ اسے آپ نے بہت محنت اور لگن سے لکھا ہے۔اس سے آپ کی غیر معمولی قابلیت اور عظیم شخصیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے،جس سے میں اب تک اچھی طرح واقف نہ تھا۔واقعی مضمون بے حد شاندار ہے۔Rareہے۔جس قدر تعریف کی جائے کم ہے۔ دھرم ویر (ایڈیٹر ’’چترا‘‘)