فراق گورکھپوری
(ائیر لائنز ہوٹل بمبئی سے ۱۲دسمبر ۱۹۶۴ء کی تحریر)
۱۲دسمبر ۱۹۶۴ء کو بمبئی میں شامِ بہاراں کا مشاعرہ تھا۔اس مشاعرے میں شرکت کی غرض سے میں بمبئی آکر ائیر لائنز ہوٹل میں اہلِ مشاعرہ کا مہمان تھا۔شام کے وقت جناب ہمت رائے صاحب مجھ سے ملے۔میں یہ معلوم کرکے بہت خوش ہوا کہ فنونِ لطیف یا سکمار کلا کے لیے ان کے دل میں سچی لگن ہے۔میں نے ان کی مصوری کے کچھ نہایت خوبصورت نمونے دیکھے۔ان کے گیت سُنے۔ان کی نظمیں و غزلیں دیکھیں۔میں بلا خوفِ تردد کہہ سکتا ہوں کہ ان کے فن کے یہ نمونے عوام و خواص ،سب کے لیے جاذبِ نظر ثابت ہوں گے۔
ان کی شاعری میں ایک صحت مند اور تربیت یافتہ جوانی کارفرما ہے۔ان کی آواز اور طرزِ تحریر میں چوٹ اور درد ہے اور ان کے کلام میں ایک خوشگوار شگفتگی ہے۔ان کی شاعری ایسی بادِ سحر نہیں ہے جس سے چمن افسردہ ہو۔ان کے لہجے کا خلوص اکثرو بیشتر ان کے کلام میں نظر آتا ہے جو اور جیسا وہ محسوس کرتے ہیں،وہی اور ویسا ہی کہتے ہیں۔رسمی،روایتی یا بناوٹی باتیں اس مجموعۂ کلام میں نہیں ملیں گی۔بلکہ یہ کتاب ایک حقیقی شاعر اور مسور کے جذبات اور فن کی نہایت خوبصورت تصویر ہے۔
مجھے اپنے نوجوان ہم عصروں کے کلام پر مدیحیہ باتیں کہنے میں عموماَ۔ ہچکچاہٹ ہوتی ہے،کیونک میرا اپنا مذاق بن چکا ہے اور میری پسند بن چکی ہے لیکن میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ نوجوان لکھنے والوں نے اگر سچے دل سے اپنے انداز میں اپنی باتیں کہنے کی کوشش کی ہے اور کسی حد تک کامیابی سے ایسی کوشش کی ہے تو میرا فرض ہے کہ انہیں مناسب داد دوں اور ان کی ہمت افزائی کروں۔
جناب ہمت رائے صاحب اپنا ہی مجموعہ ،اپنی ہی بنائی ہوئی تصویروں کے ساتھ شائع کر رہے ہیں اور نہایت اہتمام سے شائع کر رہے ہیں۔یہ مجموعہ ایک خوبصورت گلدستہ ہے ہو گا جس کی بو باس اور رنگینی سب کو اپنی طرف متوجہ کرے گی۔