کوثر فاطمہ(گلبرگہ)
لاشعوری طورپر ادباء و شعراء کی اپنی تخلیقات میں تغیر کی خواہش یا تغیّرکی تکرار ایک نئے رجحان کو جنم دیتی ہے۔ یہی طاقتور رجحان آہستہ روی سے کئی خیالات کو منقلب کرکے انہیں اپنا ہم نوا بنالیتے ہیں، اور ادب کے جمود اور یکرنگی کو ہمہ رنگی اور تنوع میں تبدیل کرتے ہیں۔ اس عمل کو تحریک کہتے ہیں۔
برصغیر میں بیسویں صدی کا آغاز ہوا تو ہندوستان پر انگریزوں کے شب خون کو ۴۳برس گزر چکے تھے، مسلم اقتدار کا زوال جہاں کچھ لوگوں کیلئے آزردگی کا سبب بنا وہیں کچھ دوراندیش، شخصیتوں نے ماضی کو فرامو ش کرکے مستقبل کو بہتر اور بامعنی بنانے کی کوشش کی سرسید احمد خاں نے ایک مصلح کی حیثیت سے وقت کے تقاضوں کے مطابق بنیادی تصورات اور مطالبات میں ایک نقطۂ نظر کی تبدیلی کو اپنا مسلک قرار دیا اور ان کے رفقائے کار نے ان کے اس مقصد کو کامیابی بخشی، اس تحریک کو سرسید تحریک کا نام دیاگیا۔ روایت پرستی کے خلاف مقصدی اور مفید ادب کی تخلیق اس تحریک کی اساس تھی۔ اس تحریک کے زیر اثر ادب نے موضوعات میں وسعت، بیان کی سلاست و سادگی کو ایک نئے رنگ سے آشناکیا۔ مسدس حالی اس خیال کی بھرپور نمائندگی کرتی ہے۔ ان کا مقدمہ، مقدمۂ شعروشاعری اس اصلاحی تحریک کی رہنمائی کا ذریعہ بنا اور یہیں سے ادب زندگی سے ہم آہنگ بھی ہوا۔
اردو کا ابتدائی ادب کلاسیکی ادب کہلاتا ہے۔ کلاسیکیت کی حیثیت صرف ایک طویل تر زمانے پر پھیلے ہوئے رجحان کی تھی۔ حیدرآباد کرناٹک کے علاقوں میں شہر گلبرگہ، اردو زبان اور تہذیب، کا علاقہ کہلاتا ہے۔ آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد بھی اس سرزمین پر نامور (شعراء اور ادباء) فنکار اپنے فن کے چراغ جلائے جسکا سلسلہ آج بھی برقرار ہے۔ اس علاقے نے جہاں کلاسیکی شعراء و ادباء کے فن کو جلا بخشی وہیں مختلف تحریکات و رجحانات کے اثرات بہترین ادب کی تخلیق کا باعث بنے، تاب گلبرگوی، جاق گلبرگوی، مختار ہاشمی سرور مرزائی، شور عابدی، صابر شاہ آبادی جیسے شعراء نے کلاسکی شاعری سے صنف شاعری کو بام عروج تک پہنچایا۔ وہیں سلیمان خطیب جو دکنی لہجے کے منفرد شاعر تھے انہوں نے اصلاحی وکلاسکی انداز کو برتتے ہوئے ایک واعظ و فلسفی کی طرح روزمرہ زندگی کی اصلاح کا بیڑہ اتھایا اپنے بلند خیالات کے جذبے کو خلوص میں ڈال کر زبان کی انتہائی سادگی و صفائی سے اپنی شاعری کو خطیبانہ لہجہ دیا۔
تحریکات نے جہاں ادب اور سماج کے مختلف صیغوں پر اپنا اثر ڈالا وہیں رومانی ادیبوں اور شاعروں نے ایسے حسن کی خواہش کی جو ذوق سلیم کی آبیاری کرے۔ اس سے فرد جمالیاتی خودفراموشی کے سحر میں مبتلاہوگیا سماج کی تلخ حقیقتیں اور اسکی چبھن دب گئی۔ لیکن سائنسی اور صنعتی ترقی کے نتیجے کے طورپر انسان کا حقیقت پسندی کی طرف رجحان بڑھ گیا جسکے اثرات مختلف شکلوں میں بیسویں صدی کے اواخر تک نمایاں ہوئے اور ادب بھی اسکی زد سے بچ نہ سکا۔ سماجی ناانصافی، بے روزگاری، نظام تعلیم کی ناہمواری، انسانی کرب ودکھ درد، کے خلاف احتجاجی طورپر جن اہل قلم حضرات کا قلم جنبش میں آیا، ان میں شاہد فریدی، شکیب انصاری، جلیل تنویر، وحیدانجم، حنیف قمر، عبیداللہ، مختار احمد منو، سمیرحیدر، کوثر پروین ناظم خلیلی کے نام اہمیت کے حامل ہیں ان تخلیق کاروں نے مشاہدہ اور خارجی تجزیہ سے اپنے تخلیقات اور موضوعات میں تنوع پیداکیا، ان کی تخلیقات روایتی ہونے کے باوجود عصری تقاضوں کی پوراکرتی ہے۔
ہجرت کے کرب کا شدید احساس، فراق اعزواحباب اور تہذیبی المیہ کے احساسات کی جھلک ہمیں نیاز گلبرگوی، فضل گلبرگوی اور ابراہیم جلیس کے یہاں ملتی ہے۔
انقلاب روس نے دنیا بھر کے حساس، درد مند شاعروں اور ادیبوں کو محنت کش کی حمایت، نسلی تعصب، فرقہ پرستی، انسانی استحصال کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور کیا۔ مقصدی ادب پر زور دیاگیا تاکہ ادب کے ذریعے عوام تک رسائی ہو اس مقصد کے حصول کیلئے انجمن ترقی پسند مصنفین، کی بنیاد ڈالی گئی۔ حیدرآباد میں مخدوم محی الدین اور گلبرگہ مین ابراہیم جلیس اس تحریک کے طاقتور ستون بن گئے یہ دور ترقی پسند تحریک کے شباب کا دور تھا، ابراہیم جلیس نے ترقی پسند تحریک کے اہم افسانہ نگار کی حیثیت سے اپنی شناخت محفوظ کرلی تھی، ان کا دور اردو نثر کا تابناک دور کہلایا۔ ابراہیم جلیس کے بعد جن شخصیتوں نے ترقی پسند تصورات کو اپنی تحریروں میں جگہ دی ان میں محبوب حسین جگر، غلام حسین ساحل، نیاز گلبرگوی، عبدالقادر ادیب، عبدالرحیم آرزو، مجتبیٰ حسین، وغیرہ۔
ترقی پسند تحریک کے عروج کے زمانے میں ہی ایک رجحان نے قدم جمالیئے تھے اس رجحان نے ادب میں انفرادیت کو ترجیح دی، ادب کا مواد زندگی سے حاصل کرکے فرد کو زندگی کی آلائیشوں سے بلند ہونے اور متخیلہ کی گمبھیر گہرائیوں سے انکشاف حیات اور عرفان ذات پر مائل کیا، اس تحریک کو حلقہ ارباب ذوق، کے نام سے جانا جاتا ہے۔ حمید الماس اس علاقے کے واحد شاعر ہیں جنہیں حلقۂ ارباب ذوق کا معروف شاعر تسلیم کیاگیا۔
کلاسیکیت اور جدیدیت کا حسین امتزاج جن شعراء کے یہاں ملتاہے ان میں راہی قریشی، خمار قریشی، تنہاتماپوری اور محب کوثر ان فنکاروں نے منفرد لہجہ و آہنگ سے اپنی انفرادیت کو قائم رکھا۔
۱۹۶۵ء میں اردو میں جورجحان ابھرا اس نے جدیدیت کی شکل اختیار کی، کلاسکیت سے انحراف اور رومانیت کو ترجیح جدیدیت کہلاتی ہے۔ اس رجحان نے ذہنی آزادی کو فوقیت دی اسمیں انسانی تجربہ کی بہت اہمیت ہے، زبان کے جوہر پر اصرار اس تحریک کے فن پاروں کو خاص حسن بخشتے ہیں بقول ڈاکٹر محمد یٰسین
’’عام طورپر جدیدیت کا خیال آتے ہی ہمارا ذہن جدید میلانات و رجحانات کی طرف منتقل ہوجاتاہے۔ ادب میں جدیدیت کسی خاص تحریک سے زیادہ اظہار خیال کا ایک مخصوص اور شاید اچھوتا انداز ہے اسکا مقصد موضوع اور تکنیک میں انقلاب اور تنوع، نئے افکار و خیالات کی ترجمانی ہے، جدیدیت ادب اور زندگی کے بدلے ہوئے معیاروں اور قدروں کے درمیان ہم آہنگی کی کوشش ہے۔‘‘
حیدرآباد کرناٹک میں گلبرگہ ہی وہ مقام ہے جہاں جدید ادب کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔ یہاں کے فنکاروں نے جدید حیّت سے متاثر ہوکر افسانے، نظمیں اور غزلیں لکھیں، جدیدیت کی لہر نے ادب کے میدان کو مالامال کیا، جدید فنکاروں نے اجتماعی نظریات کے بجائے انفرادی نظریات کی حمایت کی اور زندگی سے اپنا رشتہ جوڑا، ذات کے وسیلے سے حیات و کائنات کے اسرار و رموز تک رسائی حاصل کی، اس علاقہ کے جدید جدید فنکارون نے اظہار روہیئت کے گوناگو تجربات کئے، اکرام باگ، حمید سہروردی، حکیم شاکر، حامد اکمل، خمار قریشی، جبار جمیل، تنہاتماپوری، لطیف حزیں، راہی قریشی، محب کوثر، فضل الرحمٰن شعلہ، محسن کمال قابل ذکر ہیں۔
زندگی کی محرومیاں، تلخ حقائق کی چبھن میں شکیب انصاری اور شاہد فریدی کے افسانوں کا موضوع بنے تو لاچاریوں اور محرومیوں کو جبار جمیل نے اپنی شاعری میں جگہ دی اور سماجی سیاسی، تہذیبی مسائل صغریٰ عالم کی شاعری کا محور قرار پائے۔
زندگی کی نئی قدروں اور نئے اسلوب سے آگاہی نے فن کی نئی راہیں کھولی، ترقی پسندی کے زیر اثرادب نے ایک نیا موڑ لیا تو ابہام اور علامت نگاری اسکا حصہ بن گئے۔ اکرام باگ اور حمید سہروردی نے اپنی تحریروں میں علامت، تجرید اور ابہام کے ذریعہ فن پارون کو ایک نئی سمت و رفتار عطا کی، بعد کو نجم باگ، ریاض قاصدار، علیم احمد اور بشیر باگ نے بھی علامتی و تجریدی افسانے لکھئے۔
علامتی طرز کے اظہار کا سلسلہ شروع ہوا تو مروجہ علامتون اور استعارون کو رد کرکے جدید شاعری میں نئے علامات اور نئی لفظیات کا استعمال ہونے لگا۔ تنہائی کا کرب، خوف و ہراس، زندگی سے بیزارنی کا احساس، سماجی و معاشی مسائل، معاشی عدم توازن، سیاست، اقتدار کا زوال نئی شاعری کے موضوعات بنے۔ انوکھی نظمیں، ان چھوٹے الفاظ، استعارون اور پیکر تراشی کی خوبصورتی نے اس علاقہ کے شعراء کو جدید اور منفرد شاعروں کی صف میں کھڑا کیا۔
جدید نظم نگاری میں حمید الماس، حمید سہروردی شہرت کے حامل ہیں ، اکرام باگ، جبار جمیل، لطیف، صابر فخرلدین اور تنہا تماپوری نے بھی نظموں میں کامیاب تجربے کئے۔ نثری نظم کے تجربہ میں اکرام باگ اور حمید سہروردی کا ذکرملتاہے۔ یہ نظمیں مواد اور موضوع کے اعتبار سے بہترین نظمیں کہلائیں۔
ترقی پسند تحریک ہی کے زیر اثر ادب میں ہیت کے کافی تجربے کئے گئے آزاد نظم کی روایت سردار جعفری اور جاں نثار اختر کے ہاتھوں بڑی، عصری موضوعات اور مسائل کو فلسفیانہ آہنگ میں ڈھالا جسکی پیروی اس علاقہ کے شعراء نے بھی کی۔
حیدرآباد و کرناٹک فنکاروں کے قافلے میں کچھ عرصہ پہلے اکرم نقاش نے بھی اپنا نقش ثبت کیا، چھوٹی چھوٹی بحروں میں خوبصورت شاعری کرتے ہیں اپنے انوکھے اور جدید لفظیات و فکشن سے بھی اپنی طرف متوجہ کرلیتے ہیں۔ نثرنگاری کے میدان میں بھی کئی ابھرتے ہوئے فنکار ہیں جنکی ادب پر گہری نظر ہے۔
بیسویں صدی مختلف تحریکات و رجحانات کی صدی کہلاتی ہے۔ اس علاقہ کے ادب پر ان تحریکات و رجحانات کا راست یا بالراست اثر پڑتارہاہے۔ اور ادب میں تغیرو تبدیلی آتی رہی۔
٭٭٭٭٭
سرزمین دکن ابتداہی سے صوفیوں اور بزرگوں کا مسکن رہی ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں اخلاقیات، عرفانیات، اور مذہبیات کا چلن عام رہا ہے۔ جہاں خلق اللہ سے پیار و محبت اور ہمدردی کے جذبات، ان کی تخلیقات سے مترشح ہوتے ہیں وہیں ان کے ادب میں رشدوہدایت اور کشف و کرامات بھی نظر آتے ہیں۔ یہ سرزمین شعروادب کا گہوارہ رہی ہے۔ اردو کے اولین شاعر ہوں کہ نثرنگار اسی خطے سے اٹھے اور شعروادب کی آبیاری میں اپنی عمریں صرف کیں۔ اتنا ہی نہیں ان کی وسعت قلبی اور کشادہ ذہنی کا یہ عالم رہا کہ ادب کی ہر بدلتی تحریک اور رجحان کا ساتھ دیتے رہے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ دکنی شعراء اور فکشن نگاروں نے ادب میں اپنی شناخت بھی بنائی۔
(عبدالرب استاد کے مضمون دکن کا باکمال شاعر سلیمان خطیب سے اقتباس)