عامر سُہیل( ایبٹ آباد)
کیا اقبال ایک نظام ساز فلسفی ہے ؟ یعنی ، کیا اقبال کی نظم و نثرسے فکر و فلسفہ کا کوئی مر بوط نظام اخذ کرنا ممکن ہے؟ یا اس کا فکر اتنی زیادہ منتشر ہے کہ اُسے باقاعدہ نظام کی صورت میں مجتمع کرنا محال ہے ۔ اقبال محض فلسفی ہے یامتکلم ؟ کیا واقعی اقبال نے جدید علم الکلام کی بنیاد رکھی ہے؟ فکر اقبال کا ماخذ کیا ہے؟ اگرا قبال کا کوئی فکری نظام ہے تو اُسے ہم کیا نام دے سکتے ہیں اس نوع کے تمام سوالات کا تعلق با لواسطہ یا بلاو اسطہ فکری نظام کے تکنیکی اور اُصولی مباحث کے ساتھ ہے۔ اگر ان کی وضاحت ہو جائے تو بے شمار اُلجھے سوالوں کو کسی حدتک ضرور سلجھا یا جاسکتا ہے۔ اس بحث کا با ضابطہ آ غاز کرنے سے قبل فکری نظام کی تعریف اور حدود و ثغور کا تعین کر لینا ضروری ہے۔
انگریزی زبان کی ایک بڑی خوبصورت ضرب المثل ہے:
“Every thing is already here, people and the earth but it takes a system of thought to make things work“
اگرچہ دیکھنے میں یہ نہایت سادہ سی بات نظر آتی ہے۔ لیکن درحقیقت یہ کائنات کی اتنی پیچیدہ مساوات (equation)ہے کہ اسے کسی بھی ریاضیاتی فارمولے کے ذریعے بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ خیر یہ تو ہوا جملۂ معترضہ ، اب اصل موضوع کی طرف رجوع ضروری ہے۔
نظام سے مراد ایسا کُل (Whole)ہے، جس کے تمام باطنی اجزا باہم مربوط ہو کر کسی ایک متعین وظیفے (Function)کو انجام دینے کی صلاحیت حا صل کرلیں۔ اس میں شامل ہر جز ایک خاص عمل کاپابند ہوتا ہے، نظام بااعتبار نوعیت یا ضرورت سادہ اور پیچیدہ ہو سکتا ہے ۔ پیچیدہ نظام وہ ہوتا ہے جس میں شریک تمام اجزاء مزید ضمنی نظام ہائے فکر کی تخلیق کا باعث بن رہے ہوں۔ ہر نظام ایک کُل کی تشکیل کرتا ہے ، لیکن لازمی نہیں کہ ہر کُل (Whole)کوئی نظام بھی متشکل کرے ۔ کُل(Whole)کی پُراسراریت کو سمجھنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ کُل اپنے باطن میں منقسم صورتوں کا ایسا مجموعہ ہو تا ہے جو آگے چل کر اپنی مخصوص ساخت (Structure)بناتاہے ۔ مگر یہ محض ہندسی ساخت نہیں ہوتی کیونکہ اس میں موجود منفرد صفات (properties)ہی نظام کی شناخت قائم کرتی ہیں۔ ساخت اصلاََ تجریدی ہوتی ہے اور درونِ خانہ ایک فعال داخلی جدلیت (Internal Dialectic)رکھتی ہے۔ اگر یہ ساخت نہ ہو تو پھر فکری نظام کے اجزا میں رابطے کا کام مشکلات سے دوچار ہو سکتا ہے ۔ نظام کی کیفیت اور کمیت تو معروضی ہوتی ہے لیکن تمام نظام ہائے فکر تعلیل (Causality)اور تعمیم (Generalization)کے پابند تصور کیے جاتے ہیں۔
ہر فکری نظام اپنے قضا یا (Properties)مقدمات (Premises) کے صدق یا کذب کو ثابت کرنے کے لیے کچھ لوازم کو قبل ازتجربی priori) (aقبول کرتا ہے اور علوم و فتون کے تمام شعبوں کو بطور آلات (Tools)استعمال کرنا جائز سمجھتا ہے فکری نظام کے عناصر ترکیبی میں علم منطق ، مذہب ، ذاتی عقا ئد و نظریات ،مطالعہ کائنات ، سائنسی و سماجی علوم ، تجربیت ، واقعاتی صداقت ، نتائجیت (Pragmatism)، فکری منہاج اورشخصی زاویہ نظر اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ فکری نظام میں کوئی شے پہلے سے طے شدہ نہیں ہوتی بلکہ فکر کا ہر جز ارتقائی عمل کا پابند ہوتا ہے ۔ آزاد فکر کے تمام پہلو تحلیل و تجربے کے مسلسل عمل سے گزرتے رہتے ہیں، البتہ اکثر نظام ہائے فکر ، اغراض و مقاصد کے پابند ہوتے ہیں ، اگر مقاصد کی نوعیت اور اس کی تمام ترجیحات و اضح ہوں تو حاصل شدہ نتائج میں کوئی ابہام نہیں رہتا ۔ ہر نظام فکر اپنے مخصوص دلائل رکھتا ہے اور مسائل کی تعریف ، تفہیم، تشریح اور تعبیر اُس کے مقاصد اولیٰ کا لازمی جز قرار دیے جا سکتے ہیں۔
دنیا کے ہر بڑے فلسفی کا اپنا ایک منفرد نظام فکر ہو تا ہے، اور ہر فلسفی اپنی اپنی اُفتاد طبع کے مطابق کوئی بھی منہاج (Method)استعمال کر سکتا ہے ۔ مثلاََکانٹ اورہیگل نے کلاسیکی منطق کو چھوڑ کر ماورائی منطق (Transcendental logic)اور جدلیاتی تصوریت Idealism) (Dialecticalکو اپنا یا، برگساں اور شیلنگ (Schelling)نے منطق سے مایوس ہو کر و جدانی مکتبِ فکر کی طرف رجوع کیا، جب کہ سورین کر کیگار ڈ (Soren Kierkegaard) جی مارسل (G. Marcel)اور کا رل یا سپرز وجودی فکر (Existentialism)کو اہمیت دیتے تھے۔ فلسفیانہ جستجو مختلف النوع سمتوں میں جادہ پیمائی کرتی ہے ، لیکن یہ سفر فکری نظام کو ہمراہ لیے بغیر منزل آشنا نہیں ہوتا۔ فلسفیانہ نظام فکر میں موجود entitiesکا مجموعہ حقیقی یا مجرد (abstract)ہوتا ہے اور ہرشے دوسری شے لے مل کر بطور کُل (Whole)کام کرتی ہے۔
فکری نظام کو کمہار کے اُس عمل کے ساتھ تشبیہ دی جاسکتی ہے جہاں وہ گھومتے چاک پر مٹی کو نئی شکل دے رہا ہو تاہے۔ ہر کمہار اپنی استعداد ، مہارت اور ضرورت کے مطابق مٹی کو استعمال کرتا ہے۔ فکری نظام بھی نظریہ ء ضرورت کے تحت تشکیل پاتا ہے۔ اور فلاسفہ معاصر تہذیبی، ثقافتی ، سیاسی ، مذہبی اور تاریخی جبر کے زیراثر اپنا اپنا نظام فکر و ضع کر کے کائناتی مسائل کا حل تلاشنے کی سعی کرتے ہیں۔ نظام فکر کے تانے بانے جوڑنے میں فلسفی کا اپنا نقطۂ نظر کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ علم فلسفہ میں نفس معاملہ کی تحقیق ، تنقید، ترسیل اور نتائج مرتب کرنے کے حوالے سے فلسفی کی شخصیت مقدم ہے۔ یہ میلان شخصی بہ نسبت کسی اور شعبہ علم کے فلسفے میں زیادہ اہم ہے۔ کسی بڑے فلسفی کی فکری تعمیر میں شخصی عنصر کوئی بیکار شئے نہیں کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ کبھی کبھار کوئی اہم علمی مسلہ ایک مخصوص طبعی رحجان ہی سے پیدا ہوتا ہے۔
فکری نظام ذہنی تحریکات کے تابع ہوتا ہے اور اس میں ردو قبول کا سلسلہ مسلسل فعال رہتا ہے۔ کسی بھی نظام فکر کے حا صلات واضح ، شفاف اور عام فہم یا پھر ناہموار ، گنجلک ، مبہم ، باہم متضاد و متبائن اور عسیرالفہم ہوسکتے ہیں ۔ غرض اِن نتائج فکری کے درمیان توافق و تناقض کے نہایت وسیع امکانات موجود ہوتے ہیں ۔ فکری نظام میں تکمل (Integration)کی نوعیت اتنی پراسرار اور پے چیدہ ہوتی ہے کہ فلسفی کا تیقن (Certitude)اور قیاس مسلسل (Sorites)متنوع اور باہم متحالف عقاید و نظریات کو یکجا کرنے کی خاطر، جذبات و ہیجانات کی ایک انوکھی دنیا میں گم ہو جاتے ہیں اور یہ بنیادی طور پر توفیقیت (Syncritism)کا ایسا امتزاجی عمل بن جاتا ہے جس میں تطبیق و توافق اور سماجی علائق تہہ در تہہ ایک نا میاتی کل (Organic Whole)تشکیل دینے لگتے ہیں۔
ہر نظام فکر کی اپنی مابعد الطبیعیات ہوتی ہے جس میں علمیات (Epistemology)،فکری جمالیات اور منطقی اُصول وضوابط کاکردار خاص اہمیت کا حامل ہے۔ فلسفیانہ منہاج پر کام کرنے والا ہر فلسفی اپنے فکری نظام کا اسیر ہو تا ہے خواہ اُسے اپنے فکری نظام کا ادراک ہے یا نہیں ۔ ڈاکٹر نعم احمد لکھتے ہیں :
“Every great thinker has a characteristic methodology and certain rules of procedure with the help of which he ultimately prepares the texture of his entire thought system” (1)
اسلام کی فکری روایت میں علامہ قبال نے جو وقیع اضافے کیے اُس کی اہمیت سے ہر صاحب علم واقف ہے ۔ اقبال ایک ہمہ جہت مفکرہیں اور اُن کی فکر کا دائرہ تاریخ، فلسفہ ،تصوف، ادبیات ، مذاہب عالم اور سائنسی علوم تک پھیلا ہوا ہے ۔ اقبال کے فلسفیانہ افکار و نظریات پرتو کافی کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن اس عظیم فلسفی کے فکری نظام پر بھی کام کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ ماضی میں چند فاضل اقبال شناسوں نے اس موضوع پر جوگراں قدرنکات سامنے لائے اُس کی تحسین ضرور ہونی چاہیے ۔ مثلاََ ڈاکٹر محمد رضی الدین صدیقی اپنے مضمون “اقبال کا نظام فکر” میں کہتے ہیں:
“جب اُ نھوں نے” اسرارور موز” کی تضیف شروع کی تو اُن کے ذہن میں ایک فکری نظام تشکیل پا چکا تھا ۔ جس کو اُنھوں نے وقتاََ فوقتاََ دنیا کے سامنے پیش کیا ، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اِن تمام تحریروں کے تحقیقی مطالعہ سے اقبال کے نظام فکر کی تدریجی تشکیل کی نشان دہی کی جائے اور اس کو مربوط شکل میں مرتب کیا جائے” (2)ڈاکٹر جمیلہ خاتون نے مناسب حدتک اقبال کے فکری نظام کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن اُن کو بھی یہی گلہ تھا کہ اس اہم موضوع پر خاطر خواہ کام نہیں ہوا۔ اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھتی ہیں:
“No systematic attempt was till then made to coordinate and analyse his philosophic system, as a whole the studies were mostly confined to criticism of Iqbal’s poetic works or dealt with isolated facets of his thought There was a pausity of serious and thought-engaging studies on the most fundamental aspects of iqbal’s philosophical system” (3)
جمیلہ خاتون نے پوری کتاب میں فکری نظام کے صرف صوری (Formal)پہلوؤں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے تحقیقی مقدمے (Thesis)کی بنیاد اٹھائی ہے اور اسباب و علل (actiology)کے زمانی سلسلے کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے ، بدیں سبب یہ کتاب اقبال کے فکری نظام کی محض یک رخی تصویر ہی پیش کر سکی ہے۔ لیکن پھر بھی اس کتاب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
فکر اقبال کے فلسفیانہ مقدمات پرلکھنے والوں میں ایک اہم نام ڈاکٹر وحید عشرت کا ہے۔ اُن کے مقالات میں اکثر و بیشتر مسلہء زیر بحث پر بھی کچھ بلیغ اشارے مل جاتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب” اقبال فلسفیا نہ تناظر میں “کے ایک مقالے” اقبال کا فلسفیانہ نظام” میں ساری صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد یہ کڑی شرط عائد کرتے ہیں:
” اقبال کے نظریہ ریاست کو پاکستان کی صورت میں تجرید سے عمل میں لانے کی لیے قائدا عظم جیسی شخصیت ہی کامیاب بنا سکتی تھی۔ اتنی ہی بڑی شخصیت اقبال کے فلسفے کی نظام بندی کے لیے درکار ہے ،تبھی ہم اس عظیم فلسفی کی فکر سے آگاہی حاصل کر سکیں گے(4)”
گویا غالب کے الفاظ میں: کون ہوتا ہے حریف مئے مرد افگن عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا ، میرے بعد
ڈاکٹر وحید عشرت کا مقصد مایوسی پھیلانا ہر گز نہیں ہے بلکہ اس بیان کے ذریعے ناقدین اور محققین کو راستے کی دشواریوں سے خبردار کرنا ہے، نیر اُنھوں نے اپنے مقالے میں بعض اتنے نادر نکات زیر بحث لائے جو اقبال کے فکری نظا م پرکلیدی اُصول فراہم کرتے ہیں۔ یہ اقتباس توجہ طلب ہے:
“علامہ اقبال کا تخلیقی فکر اُن کی شاعری میں اور اُن کا ارتباطی فکر اُن کی نثر میں زیادہ تر اظہار پاتا ہے۔ تخلیقی فکر میں اُنہوں نے جو طبع زاد نظریہ پیش کیا ہے ۔ وہ ایک لفظ میں ان کا فلسفہ خودی ہے ، جس میں اُن کے ما بعدالطبیعیاتی افکار کا پورا نظام مکنون ہے اور ارتباطی فلسفے میں وہ مختلف نظام ہائے فلسفہ کے تجزیہ اور تنقید سے ایک نیا سماجی اور عمرانی نظام مرتب کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جو ایسے عمرانی تصورات پر مبنی ہے جو اس سے قبل کہیں اور نظرنہیں آتا ۔ (5)”
ڈاکٹر وحید عشرت کی بصیرت اور فکر و تجس کا زاویہ راست سمت پر گام زن ہے ، ان کے بیان کردہ علمی نکات سے اختلاف کی وجہ نکالنا مشکل ہے ، بلکہ اقبال کے فکری نظام کا لوازمہ تیارکرنے میں یہی نکات روشنی فراہم کریں گئے۔ اقبالیاتی ادب کے وسیع ذخیرہ ء نقد ونظر میں ایک چمکتا دمکتا کوہ نورہیرا ،” حکمت اقبال “ہے۔ یہ محمد رفیع الدین کی تصنیف ہے ۔اس کتاب کے تین مختصر اقتباسات درج کرنے ضروری ہیں جو مسلۂ حاضرہ کی تفہیم و تشریح پر برُہان قاطع کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ حسن اتفاق دیکھے کہ محمد رفیع الدین اور ڈاکٹر وحید عشرت اپنی اپنی آزادانہ تحقیقات کے بعد کم و بیش ایک ہی نقطے پر پہنچے ۔ محمد رفیع الدین کا کہنا ہے:
“اقبال کے تصورات ، علمی اور عقلی اعتبار سے نہایت بر جستہ ، زوردار، درست اور ناقابلِ تردید ہیں اور اگر چہ یہ تصورات اس کی نظم و نثر میں جا بجا بکھرے ہوئے پڑے ہیں تاہم اِن میں ایک علمی اور عقلی ربط موجود ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سب کے سب صرف ایک تصور سے ماخوز ہیں جیسے اقبال خودی کا تصور کہتا ہے۔ ” (6)
فکرِ اقبال کی منطقی ترتیب و تنظیم کے حوالے سے یہ اہم نکتہ بیان کرتے ہیں:
“اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اقبال کے تصورات کی مخفی عقلی ترتیب اورتنظیم کو آشکار کر کے اُس کے فکر کو ایک مکمل نظام حکمت (Philosophical system)کی شکل دی جائے تاکہ وہ نہ صرف پاکستان کے اندر پوری طرح سے قابل فہم بن جائے بلکہ دنیا کی آخری باطل شکن عالمگیر فلسفہ کی حیثیت سے دنیا کی علمی حلقوں میں اپنا مقام حاصل کرسکے ۔(7)”
اقبال پر کام کرنے والوں کے لیے درج ذیل اقتباس خضرِ راہ کا کام دے گا:
ـ”جب تک ہم اقبال کے کسی تصور کی ماہیت کو اُس کے پورے نظام فکر کی روشنی میں اور اُس کے باقی ماندہ تصورات کی مدد سے معین نہ کریں وہ ہمارا اپنا پسندیدہ تصور ہوتو ہو ، اقبال کا نہیں ہو سکتا (8)”
اقبال کے فلسفیانہ افکار و نظریات کی صفات اِولیہ (primary qualities)کی صراحت مذکورہ بالا اُصولوں کو برتے بغیر ناممکن ہے ۔ محمد رفیع الدین کے بیان کردہ سنہری اُصول فکری صداقت کے فہم میں سہولت پیدا کرتے ہیں۔ فلسفہ اقبال ، عظیم خیالات اور طویل سلسلہ تجربات کا نچوڑ پیش کرتا ہے ، یہ عظیم فکر علمی تحریکات کا ایک تاریخی مظہر ہے اور اس افادی فکر کو پارہ پارہ کر کے دیکھنے کا عمل اسے مسنح کر دینے کے برابر ہے ۔ اقبال کے نظام فکر کو صحیح تناظر میں نہ سمجھنے کا بڑا نقصان یہ ہو ا کہ بیسیوں انوکھے۔(tricky)سوالات نے جنم لینا شروع کر دیا، مثلاََ اقبال فلسفی ہے یا متکلم ؟ کیا اقبال نے جدید علم کلام کی بنیاد رکھی تھی؟ کیا اقبال مغرب کا خوشہ چین ہے ؟ اقبال و جودی ہے یا شہودی ؟ کیا قبال کے مذہبی خیالات معتزلہ کے زیر اثر تھے ؟ کیاا قبال نے خطبات کے مباحث سے رجوع کر لیا تھا ؟ اقبال کے ہاں تضاد کیوں ہے؟ اور پھر اقبال پر اشتراکیت کا الزام یا رجعت پسند کہنا اسی کج فکری کے شاخسانے ہیں۔ اسی طرح فکرِ اقبال کو اُصول تطبیق یا اُصول تفریق کی روشنی میں جانچنا بھی کوئی صحت مندرویہ نہیں ہو سکتا ۔ یہاں ایک سوال یہ ضرور اُٹھا یا جاسکتا ہے کہ کیا اقبال کی آفاقی فکر کو سمجھنے کی خاطر ادب اور فلسفہ کی روایتی اصطلاحات کو بروئے کار لانا ناگزیر ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر اسکا صا ف صا ف مطلب تو یہ ہواکہ ہم حکمت اقبال کو جان بوجھ کر منطق اور کلام کی دل فریب اصطلا حوں کی نذر کر رہے ہیں ۔
٭ الفاظ کے پیچوں میں اُلجھتے نہیں دانا غواص کو مطلب ہے صدف سے یا گہر سے (9)
٭ قلندر جز د و حرف لا الہٰ کچھ بھی نہیں رکھتا فقیہِ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا (10)
فکر اقبال کے سنجیدہ نا قدین میں ایک معتبر نام محمد سہیل عمر کا ہے اُن کی تصنیف” خطبات اقبال ۔ نئے تناظر” میں ایک طرف تو ڈاکٹر سید ظفرالحسن کے اُن سوالوں کو نیا پیرا ڈائم (Paradigm)مہیا کرتی ہے جو انھوں نے خطبات اقبال کی صدارت کے دوران اُٹھائے تھے اور دوسری جانب فکر اقبال کی کُلیتی توضیح (Holistic explanation)کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اپنی وقیع کتاب کے حرف آ غاز میں اُنھوں نے جو فلسفیانہ نکات اُٹھائے اُن کا براہ راست تعلق اقبال کے فکری نظام کے ساتھ ہے ۔ مثلاََ وہ کہتے ہیں:
“شاعری اور خطبات کا آپس میں کیا تعلق ہے ؟ موارد اختلاف میں شاعری یا تو خطبات کی تابع ہو گی یا تکمیلی حیثیت رکھی گی یا متوازی چلے گی یا خطبات کے بعد کی شاعری خطبات کی ناسخ قرار پائے گی ! یہ وہ سوال ہے جس سے بہت کم تعرض کیا گیا ہے اور اس کے پیچھے رجالِ اقبالیات کی وہ ثنویت کا ر فرما ہے جس کے تحت شاعری سے شغف اور اشتغال رکھنے والے عمو ماََ خطبات سے اعتنا نہیں کر پاتے ، اور خطبات کو موضوع تحقیقی بنانے والے شاعری سے سرورکار نہیں رکھتے ۔(11)”
محمد سہیل عمر نے ‘حرف آغازـ ‘میں چند اور نادر نکات ایسے زیر بحث لائے جو نہ صرف گزشتہ اقتباس کی وضاحت کرتے ہیں بلکہ فکری نظام میں شخصیت کا جو کردار ہو سکتا ہے اُس کی صراحت بھی کردی ہے ۔ اقتباس قدرے طویل ہے لیکن اپنی اہمیت کے پیش نظر درج کرنا لازمی ہے:
“اگر خطبات اور شاعری میں نقطہ نظر کا کوئی فرق ہے تو یہ دو لخت شخصیت کا شاخسانہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اس سے بڑی شاعری تو کجا شاعری ہی پایہ اعتبار سے ساقط ہو جاتی ہے ۔ تو پھر کیا یہ فرق شخصیت کی دو سطحوں اور وجود کے قطبین کا نمائندہ ہے ، جس میں سے ایک فاعلی اور موثر ہے اور دوسرا الفعالی اور تاثر پذیر ؟ ایک اُفقی ہے ، اسیر تاریخ ہے ، اس سے متاثر ہوتا ہے اور سوال کرتا ہے ، دوسرا عمودی ہے ، تاریخ سے وراء دیکھتا ہے ، جواب دیتا ہے اور آرزو کے سہارے آدرش تک رسائی چا ہتا ہے ۔ شاعری فاعلی جہت کا ظہور ہے اور خطبات الفعالی سطح کی تجسیم!(12)”
محولہ بالا اقتباس میں پیدا ہونے والے شکوک وشبہات کو صرف فکری نظام کے تحت ہی دور کیا جاسکتا ہے ، وگرنہ اس بحث کا رُخ باسانی شخصیت کے نفسیاتی مسائل کی طرف موڑا جاسکتا ہے ، جہاں یہ قضیہ شخصیت کی اخلاقی ، عینی ، سماجی ، عملیاتی ، فطری اور وجودی تعریفوں میں دب کر دم توڑ دیتااور بنیادی مسلۂ پر ڈالا گیا سوالیہ نشان برقرار رہتا ۔ واقعہ یہ ہے کہ شخصیت کے کثیر العباد پہلو ،فکری نظام کے سانچے میں ڈھل کر اپنا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔ کسی مفکر پر بات کرتے وقت اگرفکری نظام کے بنیادی تصورات کو ساتھ رکھا جائے تو پیش آمدہ تضادات کو رفع کرنا مشکل نہیں رہتا ۔ اس ضمن میں ایک قابلِ تقلید مثال ہمیں ڈاکٹر سید عبداللہ کی تحریروں میں دکھائی دیتی ہے ۔ جہاں اُنھوں نے اقبال کی نظمیہ اور نثریہ تصانیف کا باہمی موازنہ اور تجزیہ کرکے یہ ثابت کیاکہ اس نوع کی ہم آہنگی’ فکری نظام ‘کی بدولت ہی ممکن ہے۔ ڈاکٹر سیدعبداللہ کا یہ بیان ملاحظہ ہو:
” علامہ پر یہ اعتراض غلط ہے کہ اُن کا کوئی مربوط نظام فکر نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ علامہ کا ایک مستقل فکری نظام ہے جس کے اجزا مسلسل ارتقاء پذیر رہے ، ان کی فکریات کی انتہا کا ابتدا سے گہرا تعلق ہے میں نے صرف تین کتابوں (گلشن راز جدید، جاوید نامہ اور خطبات ) میں اس تسلسل کا سراغ لگا یا ہے ۔ ان میں سے ہر کتاب کو جب دوسری دو کتابوں کے حوالے سے پڑھا تو ان میں ایک واضح اور ناگزیر ربط نظر آیا ۔ تب محسوس ہو ا کہ علامہ کی حکمت پار ہ پارہ اور ریزہ ریزہ نہیں بلکہ حقائق عالیہ کی ایک منظم صورت ہے جو آغاز ہی سے اُن کے مدِنظر ہے ۔(13)”
ڈاکٹر سید عبداللہ کے اخذ کردہ نتائج کی ایک جھلک دیکھئے:
“میں نے گلشن راز کو خطبات اقبال کے حوالے سے پڑھا ہے اور مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ یہ دونوں کتابیں ایک دوسرے کی شرح کا کام دیتی ہیں ۔ میں نے دیکھا ہے”کہ گلشن راز “کے مطالب” خطبات” کی توضیحات کے ذریعے خاصے آسان ہو جاتے ہیں۔ (14)”
ہمیں ڈاکٹر سید عبد اللہ کا احسان مند ہونا چاہیے کہ اُن کی بدولت فکر اقبال، فکری مغالطوں کا شکار بننے سے محفوظ رہ گی اگر صیح تناظر میں دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ، فکری نظام کی تفہیم ہی وہ واحدکلید ہے جو ہر قفل کھول سکتی ہے ، حجابات اُٹھا سکتی ہے اور من و تو کے جھگڑے ختم کر سکتی ہے ۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے اقبال شناسی کا جو منفرد زاویہ دریافت کیا اُسے آگے بڑھانے کی اشد ضرورت ہے ۔ یہ راستہ دشوارگزار ضرور ہے لیکن اس راستے کی گرد حاصل کرنا بھی ہمت والوں کا کام ہے۔
آوار گی سُپردہ بما قہرمانِ شوق ماہمتے ز گرد سپاہش گرفتہ ایم (اسد اللہ خان غالب)
(حواشی)
Naeem Ahmad, Dr, Iqbal’s Concept of Death, immortality and after life, (1) translated by Dr. Abdul Khaliq, Iqbal Academy Pakistan, Ist edi 2006, P No. 6 3
2۔ محمد رضی الدین صدیقی ، ڈاکٹر ، اقبال شناسی اور فلسفہ کانگر سی جرنل مرتبہ ڈاکٹر عبدالخالق ، بزم اقبال لاہور ، طبع اوّ ل ، جنوری 1993، صفحہ 24
3۔Jamila Khatoon, Dr, The place of God, Man and Universe in the philosophic system of Iqbal, Iqbal Academy Pakistan, 3rd Edi 199 7P No. 7
4۔ وحید عشرت ، ڈاکٹر ، اقبال فلسفیانہ تناظر میں ، ادارہ مطبوعاتِ سلیمانی ، لاہور، طبع اوّ ل مارچ 2009 ، ص79
5۔ اقبال فلسفیانہ تناظر میں ، ص 6 9
6۔ محمد رفیع الدین ، حکمت اقبال ، ادارہ تحقیقات اسلامی ، اسلام آباد ، طبع 1996ء ص ا (دیباچہ)
7۔ حکمتِ اقبال ، ص ا 8۔ حکمتِ اقبال ، ص 1
9۔ محمد اقبال ، کلیات اقبال (اُردو) ، شیخ غلام علی انیڈ سنز ، لاہور ، جنوری 1989ص 50 6
10۔ محمد اقبال ، کلیات اقبال (اُردو) ص324
11۔ محمد سہیل عمر ، خطباتِ اقبال نئے تناظر میں ، اقبال اکادمی پاکستان ، طبع اوّل 1996ء ص 13
۱۲۔ محمد سہیل عمر، خطبات اقبال ۔ نئے تناظر میں ، ص16
۱۳۔ سید عبداللہ ، ڈاکٹر ، متعلقات خطبات اقبال ۔ اقبال اکادمی پاکستان ، طبع اوّل 1977ء ، ص ظ
۱۴۔ متعلقات خطبات اقبال ، ص 242 (ڈاکٹر سید عبداللہ نے اس صفحہ کے حاشیے پر لکھا ہے کہ “اقبال کی اکثر کتابیں باہم تشریح کا کا م دے سکتی ہیں ۔ اسرار خودی سے لے کر ارمغان حجاز تک تقابلی مطالعے کی گنجائش ہے )