مریم سعید نے اپنے شوہر کے مشورے پر کرامت اور ان کی بیگم نور کی دعوت کا اہتمام کرکے صحیح کیا تھا یا غلط، اس کی سمجھ میں کبھی نہ آسکا۔ کرامت اور نور ان کے خا ص احباب میں سے تھے۔ ان کی شا دی کی سال گرہ اپنے گھر منا کر ان کو سرپرائز دینا ان کا مقصد تھا ۔
اس تقریب میں وہ سب کچھ ہو رہا تھا جو کینیڈین پاکستا نیوں کی دعو توں کا معمول ہے۔ کچھ مہمان فیملی روم میں اور کچھ لونگ روم میں جمع تھے۔ رعنا، غزالہ اور حمیدہ یہ تینوں مریم کی بہت گہری دوست تھیں، گپ شپ اور وقفے وقفے سے قہقہوںکے ساتھ مریم کے کاموں میں ہاتھ بٹا رہی تھیں۔ لونگ روم میں مرد حضرات پاکستان سے لے کر دنیا بھر کے حالات پر تبصرہ کر رہے تھے، آوازوں کے سُر اونچے نیچے ہو رہے تھے۔ اور جب کوئی کسی کی ٹانگ کھینچتا تو ہلکی ہلکی ہنسی کی آوازیں— بیچ بیچ میں اقتصادی تنگی کی بات حاضر موضوع کے طور پر چھیڑ دی جاتی۔ جمیل کا تعلق رئیل اسٹیٹ سے تھا، ان سے زیادہ اس موضوع پرشاید ہی کوئی اور جانتا ہوگا۔ وہ اس مو ضوع کو بار بار لے آتے اور اپنی انا کی تسکین کا سامان بہم کرتے۔ حمیدہ کے شوہر بہت ہی مذہبی تھے، عمر تیس پینتیس ہوگی۔ خاموش بیٹھے تھے۔ سعید ان کو چھیڑتے، ’’حنیف تم بھی توکچھ بولو۔‘‘ وہ مسکراکر خاموش ہو جاتے، کبھی کبھی بولتے تو ایسے جیسے کوئی درس دے رہا ہو۔
دروازے کی گھنٹی بجی۔ سعید اُٹھ کرگئے اور دروازہ کھولا۔
’’ارے یار! کبھی تو وقت پر آجایا کرو۔‘‘ سعید کی آواز لونگ روم تک آئی۔ سب ہی جانتے تھے کہ کرامت سب سے آ خر میں آنے والے لو گوں میں سے ہیں۔
’’تم تو گھر کے اندر بیٹھے ہو۔ پتا ہے کتنی زبردست اسنو ہورہی ہے۔ گاڑی بھی بہت آہستہ چلاتا ہوا آیا ہوں۔‘‘ کرامت نے سردی سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔
کرامت کے پیچھے ان کی بیگم نور اور ان کا سولہ سالہ بیٹا حارث داخل ہوئے۔ سب نے اپنے جیکٹس اتار کر کلوزٹ میں ٹانگے۔ سعید ان کی مدد کر رہے تھے۔ جیکٹس کے بعد جوتے اتارنے کا مرحلہ تھا۔ حارث اور کرا مت نے اپنے اپنے اسنو شوز اتارے، حارث بیسمنٹ میں چلا گیا جہاںاس کے ہم عمر لڑکے اور لڑکیاں جمع تھے اور کرامت سعید کے ساتھ لونگ روم کی طرف چل دیے۔ نور دروازے کے نزدیک رکھے ہوئے اسٹول پر بیٹھ گئی، اپنے اسنو شوز اتارے اور بیگ میں سے گولڈن چپل نکال کر اپنے پائوں میں ڈالی۔ اتنے میں مریم وہاں پہنچ گئی۔ دونوں گلے ملیں اور باتیں کرتی ہوئی فیملی روم میں پہنچیں جہاں سب عورتیں جمع تھیں۔ نور سب سے گلے ملی اور پھر وہ بھی وہاں جاری عورتوں والی گپ شپ میں شامل ہوگئی جس کا ہدف اس محفل میں غیرموجود انیلا تھی جس کی بیٹی نے شادی کے ایک سال بعدہی اپنے شوہر سے طلاق لے لی تھی۔
’’بھابی! بہت بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ عثمان نے آواز لگائی۔ عثمان، مریم اور سعید کے بے تکلف دوستوںمیں سے تھے۔
’’عثمان بھائی کھانا تیار ہے بس کرامت بھائی اور نور بھابی کا انتظار تھا۔‘‘ مریم نے عثمان کو تسلی دی۔
سموسے تو پہلے ہی پیش کیے جاچکے تھے۔ اسی دوران وہ مہمان بھی انتہائی خاموشی سے لونگ روم میں آچکے تھے جو گیسٹ روم میں بادہ نوشی کررہے تھے۔ سعید اور کرامت بھی ایک چکر وہاں کا لگا آئے تھے۔
تھوڑی ہی دیرمیں سب کو کھانے کے لیے بلایا گیا۔ کھانے کے دوران بھی باتیں، لطیفے، قہقہے، ایک دوسرے پر جملے کسنے کا سلسلہ چلتا رہا۔ بیچ بیچ میں کرامت جو رنگ پر آگئے تھے، لطیفے سناتے اور پورا گھر قہقہوں سے گونج اٹھتا۔
کھانا ختم ہوا۔ تھوڑی دیر بعد ڈیزرٹ کے لیے ڈائننگ روم میںسب کو بلایا جانے لگا۔ جیسے ہی نور اور کرامت ڈائننگ ہال میں داخل ہوئے۔ ان پر پھولوںکی بارش کے ساتھ ہی سب بچوںنے مل کر Happy aniversary Song گایا اور ساتھ ہی کیک جو سعید اور مریم نے بہت ہی اسپیشل اور بہت خوب صو رت بنوایا تھا، کٹوایا گیا۔
’’زبردست سرپرائز تھا۔‘‘ کرامت خوش دلی اور شکرگزاری کی آمیزش والی آواز میں سعید سے مخا طب ہوئے۔ سعید نے جواب دینے کا تکلف نہیں کیا اور اپنے دوست کو لپٹا لیا۔ نور نے بھی مریم کو لپٹا لیا اور سعید اور مریم دونوں کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد تحفوں کا سلسلہ شروع ہوا، سب نے تحفے دیے کرامت اور نور نے سب کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد چائے اور کافی کا دور چلا۔ ابھی کچھ لوگ کافی پی ہی رہے تھے کہ سب کو بیسمنٹ میں بلایا جانے لگا۔ کافی ختم کرکے سب لوگ نیچے پہنچ گئے۔ ہلکی ہلکی دھن پر لڑکے اور لڑکیاں رقص کر رہے تھے۔ پھر بڑوں سے بھی ڈانس کرنے کے لیے کہا۔ ایک دو جوڑوں نے رقص کیا بھی۔ سعید، کرامت اور حنیف تینوں ایک ہی صوفے پر بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ نور بھی باتوں میں مصروف تھی۔ سب کا اصرار بڑھا کہ ان لو گوں کو بھی رقص میں شامل ہونا ہوگا۔ حنیف نے تو صاف منع کر دیا کہ میں اور حمیدہ اس میں شامل نہیں ہوں گے۔ سب جانتے تھے یہ دونوں بہت مذہبی ہیں، اس لیے انھیں چھوڑدیا گیا۔ نور نے بھی بہانہ بنا کر جان چھڑانے کی کو شش کی، لیکن کرامت نے کہا کہ ’’بچوں کا دل رکھنے میں کیا حرج ہے۔‘‘ کرامت نے نور کو راضی کرنے کی کوشش کی۔
’’میں ابھی آتی ہوں۔‘‘ نور یہ کہہ کر کسی کام سے اوپر گئی۔
سعید حنیف سے گفتگو میں مصروف تھے کہ اچانک ان کو اپنے کاندھوں پر وزن محسوس ہوا، وہ چونکے اور پلٹ کر دیکھا، کرامت نے ان کے کاندھے پر سر رکھا ہوا تھا۔سعید نے کرامت کو سنبھا لنے کی کوشش کی، لیکن کرامت کی گر دن ایک طرف ڈھلک گئی۔
’’ یہ کرامت کو کیا ہوا؟‘‘ سعید چیخے۔
سب لوگ متوجہ ہوگئے، کرامت کو صوفے پر لٹا دیا گیا۔ شور سن کر نور بھی اوپر سے بھاگی بھاگی آئی۔ کرامت کی یہ حا لت دیکھ کر اس نے بے اختیار رونا شروع کردیا۔ سعید نے 911 پر کال کی۔ پیرا میڈ والے فو راً ہی ہسپتال لے کر چلے گئے۔
دل کے ایمر جنسی وارڈ کے با ہر لابی میں دعوت میں آئے ہوئے تقریباً سب ہی لوگ جمع تھے۔ سب فکر منداور خاموش تھے۔ سعید مستقل ٹہل رہے تھے، ان کی نگاہیں ایمرجنسی وارڈ کی طرف لگی ہوئی تھیں۔ نور خاموش تھی۔ اس کے ہونٹ ہل رہے تھے، شاید وہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگ رہی تھی۔ حارث بھی ماں کے پاس خاموش بیٹھا تھا۔ ڈاکٹر وارڈ سے باہر آیا سب کی امیدیں بندھ گئیں۔ نور تیزی سے ڈاکٹر کی طرف بڑھی اس کے پیچھے سعید۔ ڈاکٹر نے ’’سوری‘‘ کہہ کر کرا مت کی موت کی تصدیق کر دی اور کہا، ’’کارڈیو ویسکولر فیلیئر۔‘‘
رات کے دو بج رہے تھے ۔ سب اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ سب کو بتا دیا گیا تھا کہ Funeral کل مسجد میں ہوگا اور بعد نمازِ عصر تدفین کی جائے گی۔ سعید، حنیف اور عثمان، نور اور حارث کو لے کر ان کے گھر گئے۔ مریم، حمیدہ اور شازیہ بھی ساتھ تھیں۔ یہ لوگ مستقل نور کے ساتھ تھے۔ نور صدمے سے بے حال تھی۔ اسے بار بار غشی کے دورے پڑ رہے تھے۔ آخری دیدار کے وقت نور کی حالت بہت بگڑ گئی تھی۔ اسے اس وقت اپنوں کی ضرورت تھی، مگر اس ’’د یارِ غیر‘‘ میں یہی سب اپنے تھے جو اس کے آس پاس تھے۔ وہ سب اس کے غم میں برابر کے شریک تھے اور سب کچھ سنبھال رہے تھے۔
قبرستان میں تدفین سے پہلے کسی نے آواز لگائی کہ مرحوم کوقبر میں لٹانے سے پہلے کسی وارث سے رضا لینی ہے۔ مرحوم کا اکلو تا بیٹا حارث کہیں آس پاس موجود نہیں تھا۔ مر حوم کی بیگم نور کو ساتھ نہیں لایا گیا تھا، کیو ںکہ ان کی حالت ایسی نہ تھی۔
’’حا رث کہاں ہے؟ میں نے مسجد میںبھی اسے نہیں دیکھا تھا۔‘‘ سعید بولے۔
’’مجھے پتا ہے وہ کہاں ہوگا۔‘‘ حسان بو لا۔ (حسان حارث کا دوست تھا۔)
’’تو بلائو اسے جلدی۔‘‘ سعید نے حسان سے کہا ۔
حسان نے حا رث کے سیل پر فون کیا، مگر اس نے فون نہیں اُٹھایا۔
’’انکل! حارث فون نہیں اٹھا رہا ہے۔‘‘ حسان نے سعید سے کہا ۔
’’چلو میرے ساتھ حارث کو لے کر آتے ہیں۔ سعید نے حسان کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر گا ڑی میں بیٹھ گیا۔‘‘
حسان سعید کو ایک کافی ہائوس میں لے گیا جو حا رث کی روز کی بیٹھک تھی۔ سعید اور حسان کافی ہائوس میں داخل ہوئے۔ حارث اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔
’’تمھا رے والد کی تدفین ہورہی ہے اور تم یہاں بیٹھے ہو۔‘‘ سعید نے اپنے غصے پر قا بو پاتے ہوئے کہا۔
’’میں کیا کروں گا انکل، آپ سب لوگ ہیں نا۔‘‘ حا ر ث نے جواب دیا۔
اس کا جواب سن کر سعید کا دل چا ہا کہ مار مار کر اس کی کھا ل کھینچ دے۔ سعید نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے گا ڑی میں لا بٹھا یااور کہا، ’’تد فین کے وقت تمھاری اجازت لی جائے گی، کیوںکہ تم مرحوم کے بیٹے اور وارث ہو۔‘‘
دوسرے دن سعید اپنے اور کرامت کے دوستوں کے درمیان یہ کہتے پائے گئے:
’’کرامت نے اسلام آباد میں اپنی اعلیٰ عہدے کی ملازمت سے استعفیٰ دیا اور نہ چا ہتے ہوئے بھی دونوں میاں بیوی اپنے اکلوتے بیٹے حا رث کے اچھے مستقبل کی خاطر (مونٹریا ل) اس دیارِ غیر میں آئے تھے۔‘‘
پھر رندھی ہوئی آواز میں بولے ، ’’دیارِ غیر میں گاڑھے جانے کے لیے۔‘‘