عنبری رحمٰن کا تعلق مشرقی چمپارن کے شہر موتیہاری سے ہے۔مشرقی چمپارن کی یہ وہی سرزمین ہے جہاں مشہور زمانہ ناول”Nineteen hundred and eighty four” اور طویل افسانہ “The animal farm” کا مصنف جورج اورویل پیدا ہوا تھا۔ہندوستان کی پہلی Parachuterخاتون جینتی مکھرجی بھی یہیں پیدا ہوئی تھیں۔ مہرشی بالمیکی کی کرم بھومی بھی یہی سرزمین رہی ہے جہاں انہوں نے رامائن جیسی مہاگرنتھ کی تخلیق کی تھی اور یہیں بالمیکی آشرم میں لَو اور کُش پیدا ہوئے تھے جنہوں نے اپنی ماں کے ساتھ ہو رہی زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کی تھی اور اپنے والد سری رام کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ گاندھی جی نے بھی بھارت چھوڑو آندولن یہیں سے شروع کیا تھا اور یہی وہ آندولن ہے جس کے بعد گاندھی جی ’’موہن داس کرم چند گاندھی‘‘ سے’’مہاتما گاندھی‘‘ بنے تھے۔ چمپارن کی اس سرزمین کی مٹّی کی یہ تاثیر ہے کہ یہاں ایک سے بڑھ کر ایک عظیم شخصیتیں پیدا ہوئیں جنہوں نے اعلیٰ درجہ کے ادب کی تخلیق کی ہے۔آج بھی یہاں درجنوں قلم کار اپنی تخلیقات کی خوشبو سے اردو کے چمن کو مہکا رہے ہیں۔ عنبری رحمٰن بھی انہیں قلم کاروں میں سے ایک ہیں جن کی سرشت میں یہاں کی مٹّی کی خوشبو بسی ہوئی ہے۔
عنبری رحمن ایک تازہ کار افسانہ نگار ہیں، انھوں نے اپنے افسانوں میں انہیں واقعات و حادثات کو موضوع بنایا ہے جنہیں انہوں نے اپنے ارد گرد کے ماحول میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔اسی لیے ان کے افسانوں میں علاقائی رنگ کے ساتھ ساتھ آفاقیت بھی پیدا ہو گئی ہے۔ مثلاً عورتوں کے مسائل کو اس طرح سے پیش کیا ہے کہ اب وہ علاقائی مسائل نہیں رہے بلکہ آفاقی ہو گئے ہیں کیوں کہ ان مسائل میں تانیثی آگہی کارفرما ہے۔
عورتوں پر صدیوں سے ظلم وستم اور استحصال کا سلسلہ جاری ہے، انہیں ہمیشہ مجہول،کمزور اور ناقص العقل سمجھا گیا۔پیشہ ورانہ کارکردگی کے اعتبار سے عورت اور مرد کے درمیان امتیاز کیا گیا۔مذہبی،سیاسی اور سماجی سطح پر دونوں کے درجات میں تفریق کی گئی۔پدری نظام،مرد غالب معاشرہ اور مرد و عورت کے درمیان حقوق کی غیرمساوی تقسیم اور روایات کا جبر جیسے مسائل سے دوچار ہونا پڑا۔ حد تو یہ ہے کہ عورت کو ایک انسان نہیں بلکہ بعض دفعہ اشیا ء یا Commodityسمجھا جاتا رہا ہے۔ شاید اسی لیے Gayle Rubinنے کہا تھا کہ ’’عورت شادی میں دان دی جاتی ہے، جنگ میں جیتی جاتی ہے،ہد یہ میں پیش کی جاتی ہے،بطور رشوت دی جاتی ہے اور اسے خریدا اور فروخت کیا جا سکتا ہے‘‘۔عورت پر ہونے والے انہیں مظالم کے ردِّ عمل کے طور پر تانیثیت کا تصور ظہور پذیر ہوا۔پچھلے دوسوسالوں سے ادبیات عامہ میں تانیثی شعور کی تھرتھراہٹیں موجود ہیں لیکن اس کے واضح نقوش جان اسٹوارمل کی تصنیف “On the subject of women” اور ورجینیاوولف،ایچ۔جی۔ویلز اور برناڈ شاہ کی تخلیقات میں موجود ہیں۔ فرانسیسی مفکروں اور قلمکاروں میں جولیا کرسٹیوا،ایلی سیزو، ماریاانتونیتا، Xaviere GauthierاورSimon de Beauvoirوغیرہ کی تخلیقات میں تانیثی رجحان کی لے مزید تیز ہو گئی ہے جس کی وجہ سے 1075ء میں برطانیہ حکومت کو عورت کے حقوق کی حفاظت اور معاشرے میں عورت کے تئیں منصفانہ سلوک کے لیے قانون بنانا پڑا۔رفتہ رفتہ تانیثی رجحان مغرب سے مشرق تک پھیل گیا اور مشرقی مصنفوں نے بھی اپنی تخلیقات میں تانیثیت کے حق میں کھل کر لکھا۔ہند و پاک کے مصنفوں میں للّہ عارفہ، مہادیوی، امریتا پریتم، عصمت چغتائی،کملاداس کرشناسوبتی،مہاشویتا دیوی،فہمیدہ ریاض،پروین شاکر، کشور ناہید، شہناز نبی، فرخندہ نسرین، شفیق فاطمہ شعریٰ،ساجدہ زیدی،سارہ شگفتہ،رفیعہ شبنم عابدی،بلقیس ظفیرالحسن اور زیر بحث افسانہ نگارہ عنبری رحمٰن وغیرہ کی تخلیقات میں تانیثی شعور و آگہی بدرجہ اتم موجود ہے۔
تانیثیت کے سلسلے میں متعدد شعریٰسوپ آہستہ کہ نازک ہے بہت گنقادوں نے بھی اس کے احتجاجی پہلو پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اورسلویاپلاتھ کے اس خیال سے اتفاق کیا کہ ’’عورتوں کے بارے میں گفتگو کی گئی لیکن ان کے لئے گفتگو نہیں کی گئی۔Sylva Plathکی شکایت اب دور ہو جائیگی کیوں کہ موجودہ دور کے بیشتر ناقدین اور قلم کار تانیثیت کے موضوع پر لکھنے لگے ہیں۔ ان قلم کاروں میں عنبری رحمٰن قابل ذکر ہیں جنہوں نے ڈوروتھی پارکی طرح اپنے افسانوں میں عورت کو گھر اور سماج میں اس کا صحیح مقام دلانے پر زور دیا ہے۔سارہ شگفتہ اور کشور ناہید کی طرح اپنی تخلیقات میں انہوں نے احتجاج بلند کیا ہے اور جگہ جگہ تانیثی تشخص کے مسئلے کو اجاگر کیا ہے۔انہوں نے اپنے افسانوں کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ عورت غیر اہم،کمزور اور نہ دوئم درجہ کی شہری ہے۔
عنبری رحمن نے اپنے افسانوں میں سیتا کی اَگنی پریکچھا اور دروپدی کو جوئے میں ہارے جانے والے واقعات کو اپنے طنز کا نشانہ بنا کر اپنے موقف کی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ وہ صدیوں سے عورتوں پر ہو رہے ظلم و زیادتی کے خلاف ہیں۔
پدری نظام میں عورت کی حیثیت ایک کمتر مخلوق اور غیر اہم فرد سے زیادہ نہیں ہے۔ عورتوں کی حیثیت کو مردوں سے ہمیشہ کم سمجھا گیا اور بعض غلط رسم و رواج اور رجحانات کے تحت عورتوں کو صرف مذہبی تعلیم دی گئی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت انہیں نہیں دی گئی۔ عنبری رحمن نے مرد اساس نظام کو اکثر افسانوں میں طنز و تنقید کا نشانہ بنایا ہے کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ عورتیں کسی بھی اعتبار سے مردوں سے کمتر نہیں ہوتی ہیں۔ تانیثی تحریک کے مفکر ہیلن فشر نے بھی اپنی مشہور تخلیق “The First sex” میں لکھا ہے کہ ’’دماغی ساخت کے اعتبار سے عورتیں مردوں پر سبقت رکھتی ہیں لہٰذا ’’صنف اوّل عورت ہے نہ کہ مرد‘‘ … ’’زبان کے اعتبار سے بھی عورتیں مردوں سے بہت آگے ہیں ان کے حواس خمسہ بھی زیادہ تیز اورحساس ہیں لہٰذا ان کا مشاہدہ اور ان کی زبان، ان کا لب و لہجہ اور ادب مختلف ہی نہیں بہتر ہے‘‘۔اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے عنبری رحمن نے عورتوں کی حمایت میں کھُل کر لکھا ہے۔
زندگی کے ہر موڑ پر عورتوں کے ساتھ نا انصافی کی جاتی ہے اور طرح طرح سے مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ افسانہ’’میں نے جینا سیکھ لیا‘‘ میں ثنا کے کردار کو بیٹی، بیوی، بہو اور ماں کی شکل میں پیش کر کے عنبری رحمن نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ مسلم گھرانوں میں خاص کر زمینداروں اور نوابوں کے یہاں ماں باپ اپنی بیٹیوں کو لاڈ پیار سے پالتے تو ضرور ہیں لیکن Professionalاور اعلیٰ تعلیم کی اجازت نہیں دے کر اس کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں وقت سے پہلے اور بیٹی کی مرضی کے خلاف اس کی شادی کر کے اس پر ظلم کرتے ہیں۔ سسرال میں اس کی ساس اور سسر، شوہر کی غلطیوں اور ظلم وستم پر خاموش رہنے پر مجبور کر کے اس پر ظلم کرتے ہیں۔ جب عورت ماں بن جاتی ہے اور نئے ماحول میں خود کو ڈھال لیتی ہے توشوہرکسی بد چلن عورت سے شادی کر کے اسے گھر میں لاتا ہے اور اصل بیوی کو طلاق کے لئے مجبور کر دیتا ہے جو سب سے بڑا ظلم ہے۔ بیوی اپنے بچے کے ساتھ نئی زندگی کی شروعات کرتی ہے۔ بیٹے کی پرورش کر کے بڑا کرتی ہے اور پڑھا لکھا کر ایک لائق انسان بناتی ہے لیکن بیٹے کی جب نوکری لگ جاتی ہے اور شادی ہو جاتی ہے تب بیٹا اپنی بیوی کو لے کر ماں سے الگ ہو جاتا ہے اور ماں کو پھر تنہائی کی زندگی جینے کے لیے مجبور کر دیا جاتا ہے۔مختصر یہ کہ عنبری رحمن نے اپنے افسانوں میں یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ بچپن سے لے کر زندگی کے آخری لمحے تک ایک عورت کو نہ جانے کس کس طرح کی مصیبتوں، ناانصافیوں اور بے وفائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔انہوں نے اپنے افسانوں میں مظلوم عورتوں کو ثنا کے کردار کے ذریعہ یہ ترغیب بھی دی ہے کہ ہر حال میں انہیں اپنے بل بوتے پر جینا سیکھ لینا چاہئے۔
مرد مرکوز سماج میں عورت کی بے قدری،محرومی اور اس پر عائد کردہ قدغن کے خلاف عنبری رحمن نے آواز بلند کی ہے اور عورت کو گھر اور سماج میں اس کا صحیح مقام دلانے کے تصور پر زور دیا ہے۔وہ عورتوں کو مردوں کے ظلم وستم اور نا انصافیوں کو برداشت کرنے کی ترغیب نہیں دیتی ہیں۔ انہوں نے افسانہ’’محبت کے امتحان اور بھی ہیں ‘‘میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ارباب کا شوہر کامران امریکہ جانے کے بعد ایک امریکن عورت کیتھرین سے شادی کر لیتا ہے تو ارباب ہمّت ہارتی نہیں ہے بلکہ حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے پہلے اپنے پیروں پر کھڑی ہوتی ہے پھر اپنے آفس کے باس احمرسے شادی کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ یہ فیصلہ اس کے شوہر کامران کے لیے انتہائی Shockingتھا اور ارباب کے لیے انتقام۔
عنبری رحمن نے میاں بیوی کی محبت، وفاشعاری اور بے وفائی نیز ماں کی ممتا اور بیٹے کی خود غرضی کو بھی اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔وہ بے وفا شوہروں اور خود غرض بیٹوں کے ساتھ رہنے کے بجائے ان کے بغیر زندگی گذارنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ افسانہ’’بنتے بگڑتے رشتے‘‘ میں انہوں نے شوہر کی نفسیات کو افسانہ کی مرکزی کردار بوڑھی اماں کی زبان میں یوں بیان کیا ہے:
’’مجھے کیا پتہ تھا کہ مرد کی محبت ایک بہتی دریا کی مانند ہے جو ایک جگہ ٹھہرتی نہیں بلکہ اپنی راہ میں پڑی چیزوں کو بھگوتا چلا جاتا ہے۔…ویسے بھی مرد کا دل پرانی چیزوں سے بہت جلد بھر جاتا ہے اور نئی چیزوں میں ہمیشہ کشش بنی رہتی ہے۔‘‘
مردوں کی نفسیات اور ذہنیت پر مختلف زبانوں کے تخلیق کاروں نے بھی لکھا ہے۔ان تخلیقات کا نفسیاتی تجزیہ بھی پیش کیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عنبری رحمن کا خیال غلط نہیں ہے۔
برطانیہ کا ایک مشہور فکشن نگارSomerset Maughamنے اپنے ناول”Moon and six pence“میں آرٹ،عورت،محبت،اخلاقی ضوابط اور سماج کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس ناول کے ہیرواسٹرک لینڈ اور اس کی بیوی کے درمیان کے تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے ازدواجی زندگی کی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کبھی کبھی انسان ازدواجی زندگی میں شب و روز ایک دوسرے کی محبت میں بسر کرنے کی وجہ سے دونوں اپنی شخصیت کی جاذبیت اور کشش سے محروم ہونے لگتے ہیں۔ سیدہ جعفر نے اسے انسانی نفسیات کی بوالعجبی اورانسانی جذبات کے ایک عجیب و غریب تفاعل سے تعبیر کیا ہے۔انہوں نے Somerset Maughamکے اس ناول کا مقابلہ ہندی کے فکشن نگار گل شیر خان شانی کی تخلیق ’’آنکھیں ‘‘ سے کیا ہے اور اس کی روشنی میں لکھا ہے کہ:
’’انسان فطرتاً تازگی پسند واقع ہوا ہے۔ازدواجی زندگی میں کبھی کبھی گزرتے ہوئے ماہ وسال تازگی مٹا کر جذبے کو پژمردہ اورحسن کو کند کر دیتے ہیں اور زندگی میں یکسانیت اور بے کیفی کا احساس شدید ہونے لگتا ہے۔اس لیے ساتھ ساتھ رہتے ہوئے بھی فریقین جذباتی طور پر دور ہو جاتے ہیں ‘‘۔(اردو دنیا،مئی 2010، ص- 21 )
عنبری رحمن نے مرد اساس سماج کے تئیں جارحانہ رخ اختیار کرتے ہوئے افسانہ ’’کسوٹی‘‘میں شوہر کی بے وفائی پر سخت تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ہر مرد ایک جیسا ہی ہے۔ بالکل کتے کی طرح جہاں گوشت کا ٹکڑا دیکھا کھانے کی للک پیدا ہو گئی…اس دھرتی پرنہ کوئی مرد ازل سے ابد تک شریف ہے اور نہ قابل یقین۔ مرد کی تخلیق بے وفائی کی مٹی سے عیاشی کے پانی میں گوندھ کر ہوئی ہے۔‘‘عنبری رحمن نے مرد حاوی معاشرہ پر جس طرح سخت رخ اختیار کیا ہے اور عورتوں پر ہو رہے ظلم وستم کے خلاف اظہار خیال کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تانیثیت کی نئی فکر سے خاص طور پر متاثر ہیں۔
آج کے مرد مرتکز ماحول میں عورتیں نہ صرف اپنے شوہروں اور سسرال والوں کے ظلم کی شکار ہو رہی ہیں بلکہ اپنے خون اور خودغرض بیٹوں کے ظلم کا بھی شکار ہو رہی ہیں۔ ا فسانہ ’’میرا فیصلہ‘‘ میں عنبری رحمن نے بوڑھی امّاں کے دو بیٹوں کی خود غرضی کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کس طرح ایک بوڑھی ماں کا ایک بیٹا انہیں تنہا چھوڑ کر امریکہ چلا جاتا ہے اور دوسراہندوستان کے کسی دوسرے شہر میں رہتا ہے۔دوسرا بیٹا امّاں کولے جانے کے لیے آتا ہے لیکن امّاں کا خیال ہے کہ’’اسے ماں سے زیادہ ایک کنیز کی ضرورت ہے جو اس کے گھر اور اس کے بچوں کو سنبھال سکے‘‘۔اس لیے اماں بیٹے کے ساتھ جانے کے بجائے گھر میں تنہا رہنا پسند کرتی ہے۔اس افسانے میں عنبری رحمن عورتوں کو اپنے بل بوتے پر جینے کا حوصلہ دیتی ہیں۔
ماں کی ممتا اور بیٹوں کی بے وفائی کی داستان کو عنبری رحمن نے ایک اور افسانہ’’شام ہو چلی‘‘ میں پیش کیا ہے۔ انہوں نے ممتا لٹانے والی بیوہ ماں شائستہ بیگم کے بیٹے آفتاب کو چڑیوں کے ان بچوں سے تعبیر کیا ہے جو پنکھ نکلتے ہی گھونسلوں سے ماں کو تنہا چھوڑ کر اُڑ جاتے ہیں۔ پرندے تو اپنے بچوں کی جدائی کا صدمہ برداشت کر لیتے ہیں لیکن انسان کے لیے یہ کام مشکل ہے۔
عنبری رحمن نے جہاں عورتوں کے مسائل اپنے افسانوں کے ذریعہ عوام تک پہنچانے کی کوشش کی ہے وہیں انہوں نے گھر کی معصوم فضا گھر کی چہار دیواری کے تناظر میں عورت کی جذباتی دنیا اور اس کی خوشی اور غموں سے متعلق تجربات سے بھی افسانوں کے موضوعات میں تنوع پیدا کیا۔انہوں نے گھریلو عورتوں کی نفسیات اور کمزوری پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ مثلاً ایک عورت، عورت ہی رہنا چاہتی ہے دیوی نہیں۔ ایک عورت میں جہاں ایثار و قربانی کا جذبہ زیادہ پایا جاتا ہے وہیں اس میں ماں بننے کی خواہش شدید ہوتی ہے اور اپنے شوہر کی قربت اس کی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ہے۔افسانہ ’’آخر میں بھی ایک انسان ہوں ‘‘میں عنبری رحمن نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ گھر میں عورت کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور ماں بننے کا تجربہ عورت کی آرزوؤں کا حاصل ہوتا ہے۔ماں بننا عورت کے خواب کی محض تکمیل ہی نہیں بلکہ اپنے نسائی وجود کے مکمل ہونے کامسرت بخش احساس بھی ہے۔اس افسانے کی مرکزی کردار چمپا اپنے شوہر اور سسر کی خوشی کے لیے اپنے شوہر کے بھائیوں کو ماں کی طرح پال پوس کر انہیں بڑا کرتی ہے پھر ان کی شادیاں ہو جاتی ہیں اور سب کے بچے بھی ہو جاتے ہیں لیکن چمپا نہ ماں بن پائی اور نہ اسے اپنے شوہر کی قربت ملی جو ہر عورت کی کمزوری ہوتی ہے۔عنبری رحمن نے لکھا ہے کہ ’’ان کی پرورش کرتے کرتے چمپا خود ماں بننا بھول گئی۔ ساری حویلی میں اسے ایک دیوی کا درجہ حاصل تھا۔ کام سے تھکی ہاری چمپا دو گھڑی نکال کر تنہا ئی میں بیٹھتی تو اسے اپنے اندر ایک خالی پن اور اداسی کا احساس ہوتا ‘‘لیکن چمپا کو اپنی قربانیوں کے لیے افسوس اس وقت ہوتا ہے جب اس کی تینوں دیورانیاں اس کو طعنے دیتی ہیں اور اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتیں ہیں۔ چمپا کا شوہر اسے دلاسا دیتا ہے اور جب یہ کہتا ہے کہ ’’حویلی کا ہر فرد آپ کو دیوی کا درجہ دیتا ہے،دیوی‘‘ تو چمپا کو یہ لفظ گالی جیسا لگتا ہے۔عنبری رحمن نے عورت کی نفسیات اور چمپا کے جذبات کی عکاسی ان لفظوں میں کی ہے:
’’یہ لفظ چمپا کو آج کسی گندی گالی کی طرح لگ رہا تھا۔ وہ پہلی بار چیخ سی پڑی ’’مت کہیں ہمیں دیوی۔ دیویاں تو پرستش کے لیے بنتی ہیں اور ان کی تخلیق بھی پتھروں سے ہوتی ہے جن کے سینے میں جذبات یا دل نہیں ہوتے۔ میں ایک انسان ہوں، ہاڑمانس کی بنی انسان، جس کے سینے میں دھڑکتا ہوا دل ہے اور سوچنے کے لیے ایک دماغ بھی اور جسے چوٹ پہنچنے پر درد بھی ہوتا ہے اور دکھ پڑنے پر آنسو بھی گرتے ہیں۔ آپ بھگوان کے لیے مجھے دیوی کا درجہ نہ دیں، ایک انسان ہی بنا رہنے دیں کیوں کہ دیویوں کو آدر اور پوجا کی ضرورت ہے مگر ایک انسان کو زندہ رہنے کے لیے محبت اور چاہت چاہیے۔ ‘‘
مشہور زمانہ مصوّرپکاسو بھی اپنی محبوبہ (جو بعد میں منگیتر ہو گئی تھی) کو دیوی مانتا تھا۔ اس نے جب اس کی تصویر بنانی شروع کی تو ایک Objectکی طرح اسے سامنے بیٹھا کراس کے برہنہ بدن کے ہر حصّے کو چھوچھو کر محسوس کرتا تھا پھر اس کی تصویر بناتا تھا۔کہا جاتا ہے کہ پکاسو نے اپنی محبوبہ کی لازوال تصویر بنائی تھی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنی محبوبہ سے بے حد محبت کرتا تھا لیکن اس کی محبوبہ نے آخر میں اس سے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔اس کی محبوبہ نے لکھا ہے کہ’’پکاسومجھے ایک عورت نہیں بلکہ ایک دیوی سمجھتا تھا۔اس نے میرا استعمال ایک Objectکی طرح کیا تھا عورت کی طرح نہیں۔ اسی لیے میں نے شادی سے انکار کر دیا کیوں کہ مجھے کسی پتھر کی مورت کا پجاری نہیں بلکہ ایک شوہر چاہئے تھا۔
مذہبی اقدار سے جذباتی قربت کی وجہ سے عنبری رحمن نے بعض تانیثی کردار کو وفا کی دیوی کی شکل میں بھی پیش کیا ہے۔ ان کے افسانوں میں شوہر بیوی کی جدائی میں زندہ رہ سکتا ہے بلکہ ایک نئی دنیا آباد کرسکتا ہے لیکن عورت شوہر کی جدائی اور انتظار میں مر سکتی ہے لیکن بے وفا نہیں ہو سکتی ہے۔افسانہ ’’انتظار‘‘ میں اپنے فوجی شوہر کی جدائی اور انتظار میں ایک بیوی پر کیا گزرتی ہے اس کی عکاسی کرتے وقت عنبری رحمن نے اس میں وہی کیفیت پیدا کی ہے جو کالی داس کی مشہور تخلیق ’’میگھ دوت‘‘ میں موجود ہے۔
عنبری رحمن خود وفا شعار خاتون ہیں اس لیے ہر عورت کو مثالی کردار کے روپ میں دیکھتی ہیں اور مثالی عورت کا کردار خلق کرتی ہیں۔ ان کے نزدیک عورت وفا کی دیوی ہوتی ہے جو اپنے شوہر کے ساتھ کبھی بھی بے وفائی نہیں کرسکتی۔اپنی عزت اور وقار کے لیے اپنی جان دے سکتی ہے لیکن کسی جانور صفت انسان کے سامنے خود کو پیش نہیں کر سکتی۔ افسانہ ’’قانون کا رکھوالا ‘‘میں مرکزی کردار جو ایک عورت ہے، پہلے ایک غنڈے سے پھر ایک خاکی وردی والے سے اپنی عزت بچانے کی خاطر جان دے دیتی ہے لیکن اپنی عزت پر آنچ نہیں آنے دیتی۔ اس افسانے میں پولس والوں کی درندگی کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔
عنبری رحمن جس ماحول کی پروردہ ہیں اس میں ہمیشہ تلقین کی جاتی رہی ہے کہ خدا نے زندگی کا جو نظام بنایا ہے اس کا احترام کرنا چاہئے اور اسی کے مطابق زندگی گذارنے کی کوشش کرنی چاہئے کیوں کے قدرت کے نظام کے خلاف زندگی بسرکرنے والے کبھی خوش نہیں رہ سکتے ہیں۔ اسی نظام کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ لڑکیوں کے لیے اس کا مائیکہ چڑیوں کے گھونسلے کی مانند ہوتا ہے۔جس طرح چڑیوں کے بچے بڑے ہوتے ہی اڑ جاتے ہیں اور اپنی نئی دنیا بسا لیتے ہیں اسی طرح لڑکیوں کو بھی بڑی ہو جانے کے بعد اپنی الگ دنیا بسا لینا چاہئے۔ انہوں نے افسانہ’’چڑیوں کا چمبا‘‘ میں ’’بہار‘‘ کو خبردار کرنے کی کوشش کی ہے کہ شادی نہیں کرنے کی ضد چھوڑ دے ورنہ مائیکے میں اسے طعنے سننے پڑیں گے کیوں کہ مائیکے میں رہنا خلاف فطرت ہے۔ سسرال میں لڑکیاں وہاں کے نئے ماحول میں خود بخود ڈھلتی چلی جاتی ہیں اور ان کی اپنی دنیا آباد ہو جاتی ہے۔بقول عنبری رحمن ’’عورت کی تخلیق ہی اس کچی مٹی سے کی گئی ہے جو ہر حالات کے سانچے میں بخوبی ڈھل جاتی ہے۔‘‘
عنبری رحمن کے بعض افسانوں میں مخصوص تہذیبی رجحانات اور مرد و عورت کے لیے پدری نظام کے مقرر کردہ حدوں کے اثرات بھی نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ شوہروں کی بے وفائی کسی بھی حال میں قابل قبول نہیں ہے لیکن شوہروں کی بعض زیادتیاں عورتیں برداشت کر لیتی ہیں۔ افسانہ ’’اورسچ یہی ہے ‘‘میں آسیہ کی ماں کے ساتھ اس کے والد کی زیادتیوں کو دیکھ کر اپنے والد سے نفرت کرتی ہے اور اپنی ماں کو لے کر والد سے الگ رہنے کا فیصلہ کرتی ہے تو اس کی ماں آسیہ کو سمجھاتی ہے اور کہتی ہے کہ ’’بے شک تمہارے والد ظالم ہیں مگر انھوں نے مجھے پیار بھی بے انتہا دیا تو کیا میں ان کی ساری عمر کی محبت کو بھول کر اس عمر میں ان سے الگ ہو جاؤں ؟‘‘
عنبری رحمٰن کے افسانوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صبا زیدی، نلنی سنگھ اور مرنال پانڈے جیسی تانیثیت کی علم برداروں کی طرح عورت کی عظمت، اور اس کے فعال کردار پر اصرار کرتی ہیں۔ عورت کو سماجی نظام سے برسرِ پیکار دیکھنا چاہتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عورت کو روایت شکن ہونا چاہئے اور انہیں مروجہ نظام کو رد کر دینا چاہئے تاکہ سماج میں عورت کی اپنی حقیقی شناخت اور اصلی وجود قائم ہوسکے کہ یہ کائنات دراصل ’’امہاتی نظام‘‘ پر ہی قائم ہے۔ قدیم دور میں اسی نظام کو معتبریت حاصل تھی، بعد کے زمانوں میں سازشی ذہنوں نے اس میں ترمیم وتنسیخ کی جس کی وجہ سے عورت ’ثانوی حیثیت‘ کی ہو کر رہ گئی ورنہ تو اسی کے وجود سے سارے نظام میں تحرک تھا اور وہی اصل وجود سمجھی جاتی تھی۔