27 اکتوبر 2011، جمعرات کی صبح حقانی القاسمی نے جب مجھے یہ خبر دی کہ صلاح بھائی رات ڈیڑھ بجے اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے تومیرے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی اورمحسوس ہوا کہ ادب کاشہنشاہِ جذبات،عروضی اور دیگر تکنیکی پابندیوں کو توڑ کر ندی کی تیزد ھارا کی مانند اپنا الگ راستہ بنانے والا منفرد اور شیریں لب و لہجے کا شاعراس دنیا سے رخصت ہو گیا۔میرے تصور میں دسمبر 2002 (دو ہزار دو) کے پہلے ہفتہ کی ایک شام کا واقعہ یاد آنے لگا جب پہلی بار صلاح الدین پرویزکی تحریروں کے ذریعہ ان کی تخلیقی روح سے متعارف ہوا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، تقریباًساڑھے سات یاآٹھ بجے ہوں گے۔سردی اپنے شباب پر تھی۔ میں رضائی کے اندر Relaxموڈ میں لیٹا ہوا تھا کہ اچانک میری نظر سائڈٹیبل پررکھے’’استعارہ‘‘پر پڑی جسے میں اسی دن دہلی اردو اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر منصورعثمانی سے مانگ کر لایا تھا۔میں اسے اٹھا کر ورق گردانی کرنے لگا۔حسب معمول سب سے پہلے اس کا اداریہ پڑھا۔اداریہ پڑھنے کے بعد میں نے ایک خط کو پڑھاجسے ’آج کل‘کے ایڈیٹرمحبوب الرحمٰن فاروقی نے صلاح الدین پرویز کو لکھا تھا۔اس خط کے جواب میں صلاح الدین پرویزکا ایک نہایت دلچسپ خط شائع ہوا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ خط نہیں جذبات کا دریا ہے جس کی تندوتیز بہاؤ میں بس بہتے چلے جا رہے ہیں۔ اسی خط میں صلاح الدین پرویزنے اپنی ایک پرانی نظم’’کنفیشن‘‘بھی درج کی تھی جو سچ مچ ان کی زندگی کا ایک اہم کنفیشن تھی جس نے بہت سے ادیبوں کی نیند اڑادی ہو گی۔سچ تو یہ ہے کہ صلاح الدین پرویزکاوہ خط اور ان کی نظم نے میری بھی نیند اڑادی تھی اور ان کی شخصیت میرے حواس پر چھانے لگی تھی۔’’استعارہ‘‘ میں شامل ان کی دوسری نظموں، خطوط اور مضامین کے تئیں رفتہ رفتہ میری دلچسپی بڑھنے لگی اور ایک ایک کر کے ان کی تمام تحریریں ’’چہاردرویش کی کہانی‘‘، ’’نظم عین رشید‘‘، ’’یہ دکھ کے سارے راستے‘‘،’’دھوپ کی آواز‘‘، سنت اورشام‘‘،’’مجروح‘‘ ’’مبارک اور ممبئی‘‘،’’باب غزل کا دیباچہ لکھنے کی کوشش‘‘ اور ’’باب نظم کا دیباچہ لکھنے کی کوشش‘‘وغیرہ وغیرہ پڑھ چکا۔ ان کی تحریروں کو پڑھتے ہوئے چھ گھنٹے کیسے بیت گئے مجھے احساس ہی نہیں ہوا۔معلوم ہوتا تھا کہ ان کے الفاظ جذبات کی آگ میں پگھل کردل کی دھڑکن اور سانسوں کے نشیب وفرازسے ہم آہنگ ہو کر ابھی ابھی استعارہ کے ان صفحات پر وارد ہوئے ہیں۔ مجھے یہ بھی محسوس ہو رہا تھا کہ ان کے پگھلے ہوئے الفاظ غنائی تنظیم وترتیب میں ڈھل کرنغمہ ومعنی کے محیط دائرے کی صورت میں مرتعش ہوتے جارہے ہیں۔ ان کے الفاظ میں مجھے کبھی جھنکار سنائی دیتی تھی تو کبھی گمان ہوتا تھا کہ یہ الفاظ گنگنا رہے ہیں اور جمال و جلال ایک پیکر کی صورت میں کسی منزل کی طرف پیغام زندگی گاتے ہوئے گام زن ہو رہے ہیں۔ شاید ان کی تحریروں میں ان کی روح پورے آب وتاب کے ساتھ موجودتھی۔رفتہ رفتہ میرا پورا وجودبھی ان کی تحریروں کے ساتھ گنگنانے اور رقص کرنے لگا۔یہاں تک کہ ان کی تحریروں میں جو جذبات کی شدّت تھی اس کی تپش سے میں خودکو پگھلتا ہوا محسوس کرنے لگا۔رفتہ رفتہ مجھے گرمی محسوس ہوئی اور میں بیڈ روم سے باہر نکل کر ڈرائنگ روم میں ٹہلنے لگا۔ صلاح الدین پرویز کے الفاظ،جملے اور مصرعے میرے کانوں میں گونجنے لگے۔ دیوار گھڑی کی طرف نظر گئی تو معلوم ہوا کہ رات کے ڈیڑھ بجے ہیں۔ اس وقت ساری دہلی یقیناًسو رہی ہو گی لیکن میں عجیب وغریب کیفیت سے دو چار ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد میں بیڈ روم میں گیا اور’’استعارہ‘‘کے ابتدائی صفحات میں صلاح الدین پرویز کا فون نمبر ڈھونڈھنے لگا لیکن فون نمبر ان صفحات میں کہیں درج نہیں تھا۔ ورنہ اسی وقت میں انہیں اپنے تاثرات سے آگاہ کرتا کہ صلاح الدین پرویزآپ اس عہد کے سب سے بڑے ادیب اورلفظوں کے جادوگر ہیں۔ آپ اس دور کے جینیس ہیں۔ آپ کاکوئی ثانی نہیں ہے۔آپ کی نثرونظم میں یکساں افکارومحسوسات کاایک حسین تاثرموجودہے۔آپ کی تحریریں اردو،ہندی،انگریزی،فارسی اور عربی کی کلاسیکی،نو کلاسیکی،جدید اور ہم عصر ادبیات نیز مشرقی تہذیب،فلسفہ، جمالیات اورمذہبیات کا نایاب خزانہ ہیں۔
اس طرح کی کیفیت زمانۂ طالب علمی میں مجھ پر اس وقت ہوتی تھی جب میں رات کی تنہائی میں علامہ اقبال کی نظمیں پڑھتا تھا۔خاص کر نظم ’’شکوہ‘‘اور ’’جواب شکوہ‘‘پڑھتے پڑھتے میں اٹھ کر بیٹھ جایا کرتا تھا میری آنکھوں سے آنسو نکلنے لگتے تھے۔لیکن ان دونوں کیفیتوں میں فرق تھا۔اقبال کی نظموں کو پڑھ کر جو کیفیت طاری ہوئی تھی اس کا تعلق عشق خدا اور رسول سے تھا لیکن صلاح الدین پرویز کی نظموں اور تحریروں کو پڑھ کر جو کیفیت طاری ہوئی تھی اس کا تعلق نئی آواز میں غیبی معلومات کی بے شمار جہات سے تھاجنہیں میں اپنے اُوپر نزول ہوتے ہوئے محسوس کررہاتھا۔
کئی دنوں تک صلاح الدین پرویزکی تحریروں کااثرمیرے دل ودماغ پر چھایا رہا اورمیں اپنے دوستوں سے اس واقعہ کا ذکر کرتا رہا۔ میرے دوستوں میں سے کسی نے صلاح الدین پرویزسے میرا غائبانہ تعارف کرایااور یہ بھی بتایا کہ ان کی تحریرپڑھ کر مجھ پر کیا گذری ہے۔ایک دن شعیب رضا فاطمی صلاح الدین پرویز سے ملاقات کرانے کے لیے مجھے غفار منزل میں واقع’’استعارہ‘‘کے دفتر لے گئے۔ دفترمیں چاروں طرف کتابیں بکھری ہوئی تھیں۔ بیشتر کتابوں کو دیمک چاٹ گئی تھی۔ان کتابوں اور دفتر کے اندرونی حصّے سے سیلن Dampness)) کی بدبو آرہی تھی۔دفترمیں موجود دوسری چیزیں بھی بکھری پڑی تھیں۔ وہاں چند حضرات بیٹھے ہوئے تھے جن کی شکل صورت اور حالتِ زار دیکھ کر میں سمجھ گیا تھا کہ یہ حضرات یقیناً اردو کے شاعروادیب ہوں گے۔انہیں لوگوں کے درمیان سفید لباس میں ملبوس گورے رنگ اور درمیانہ قد کا ایک شخص صوفہ سیٹ پر بیٹھا تھا ان کے سامنے میز پر پانی کی ایک بوتل اور کالے رنگ کا ایک چشمہ رکھا ہواتھا۔دفترمیں جو بے ترتیبی اور انتشار نظر آرہا تھا وہی بے ترتیبی اوربکھراؤ اس شخص میں بھی تھا۔شعیب رضا فاطمی نے ان سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہی صلاح بھائی ہیں۔ پھر میرا تعارف ان سے کراتے ہوئے کہا کہ یہ عقیل بھائی ہیں۔ آپ کے بہت بڑے مداح۔صلاح الدین پرویز نے ڈھیلے ڈھالے اندازمیں گفتگو کی شروعات کی۔ان کا اندازگفتگو اوربدن کے لسان سے معلوم ہو رہا تھا کہ ان کے اندر خوداعتمادی کی کمی ہے اور لااُبالی پن کا تھوڑا سا شائبہ بھی ہے۔بات چیت کے دوران جب میں نے انہیں بتایا کہ ان کی تحریروں کو پڑھ کر مجھ پر کیا گذری ہے تو فوراً ان کا Body languageاور بات کرنے کا انداز بدل گیا اور انہوں نے کہا کہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں اسے لکھ کر دیجئے۔میں نے پہلے ٹالنے کی کوشش کی لیکن ان کے اصرار پر اسی وقت لکھ کر انہیں دے دیا اور انہوں نے اسے استعارہ کے اگلے شمارہ میں بابِ ربط کے تحت شائع بھی کیا۔اس سے پہلے نہ میں ان سے کبھی ملا تھا اور نہ انہیں پہچانتا تھا البتہ دہلی کی ادبی حلقوں میں نئی نسل کے حوالے سے جب بھی جدید نثری نظم کی بات ہوتی تھی تو صلاح الدین پرویزکا ذکر ضرورہوتا تھا لیکن میں نثری شاعری کو شاعری ہی نہیں سمجھتا تھا۔ دوسری بات یہ کہ ان کے متعلق اکثر کہا جاتا تھا کہ صلاح الدین پرویز کے پاس بے انتہا دولت ہے جسے وہ دونوں ہاتھوں سے لٹاتے ہیں اور ہر وقت وہ چمچوں اور چاپلوس بازوں سے گھرے رہتے ہیں۔ اس لیے صلاح الدین پرویز سے نہ کبھی میں نے ملنے کی کوشش کی اور نہ ضرورت سمجھی۔ لیکن اس ملاقات کے بعد ان سے ملنے اور ان کی تخلیقات پڑھنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ایک ایک کر کے ان کی کئی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ ان کی بیشتر نظموں اور ایک ناول ’’دی وار جرنلس‘‘کا مطالعہ بطورِ خاص کیا۔ میرے خیال میں موجودہ دور میں اختر ا لایمان کے بعدجن شاعروں نے نظم میں نت نئے تجربے کیئے ہیں ان میں صلاح الدین پرویزکا نام نمایا ں طور پر لیا جا ئے گا۔صلاح الدین پرویز کی تخلیقات میں بین المتنیت کے علاوہ تہذیب و ثقافت کی گہری بصیرت موجودہے۔ انہوں نے نظم میں ایک ساتھ کئی تجربے کرتے تھے اور یہ صرف بین المتنیت کے اقدار سے قریب ہونے کی وجہ سے تھا۔وہ نثری نظموں میں با وزن اشعار کی تضمین اتنی خوبصورتی سے کر دیتے تھے کہ نظم جاگ اٹھتی تھی اس پر طرہ یہ کہ ان کی زبان لوک بھاشا کی خمیر سے تیار ہوئی تھی۔پوربیا،بھوجپوری،پنجابی،اور اردو کا خالص انداز ان کی نظم کی زبان کو پوری اردو شاعری سے الگ کر دیتا ہے۔صلاح الدین پرویزنے نثری نظم کو واقعتاایک ایسی شاعری بنا دی ہے جسے نثری نظم کا جواز کہا جا سکتا ہے۔مثالیں بہت ہیں میں صرف ان کی نظموں میں پائے جانے والے موسم کے احساس کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرنا چاہتا ہوں۔ صلاح الدین پرویز نے کئی نثری وشعری قدیم اصناف کا احیاء کیا ہے اور اسکی ہیئت میں انوکھے تجربے کیے ہیں۔ ان کے مشہور مجموعہ کلام’’آتما کے پتر پرماتما کے سے ماخوذ یہ بند ملاحظہ کریں :
نام‘‘جیسے ساون کی رم جھم کے پیچھے
بھادو کے سانپوں کا ڈیرہ ہوتا ہے
جیسے کنوار کے سنًاٹے کے پیچھے
کارتک کے چندا کا لہرا ہوتا ہے
جیسے اگہن کی سردی کے پیچھے
پوس کا ڈسنے والا کہرہ ہوتا ہے
جیسے ماگھ کی مدماہٹ کے پیچھے
پھاگن کی ہولی کا پھیرا ہوتا ہے
جیسے ہر دو آنکھوں کے پیچھے
اک سپنا ہوتا ہے
ویسے ہی ہر موسم میں وہ تیرے موسم ہوں یا میرے موسم
اے نظم اے میری ازلی محبوبہ میں ہوتا ہوں
میری کتاب ’’مغیث الدین فریدی اور قطعاتِ تاریخ‘‘کی اشاعت کی خبرجب صلاح الدین پرویز کوملی توانھوں نے کہا کہ یہ کتاب ان کی نگرانی میں استعارہ پبلی کیشن سے شائع ہو گی۔کتاب شائع ہو جانے کے بعد میں نے انہیں دس ہزار روپیہ کا ایک chequeدیا جسے انہوں نے لینے سے انکار کر دیا لیکن میں اپنا نام ان لوگوں کی فہرست میں شامل کرانا نہیں چاہتا تھا جو لوگ جونک کی طرح ان کے سوکھے ہوئے جسم سے خون چوس رہے تھے۔لہٰذا انہیں چیک دینے کی میں نے پوری کوشش کی لیکن وہ بے حد جذباتی ہو کررونے لگے اور کہنے لگے کہ کیا تم مجھے اپنا بڑا بھائی نہیں مانتے ہو۔میں انہیں روتے ہوئے دیکھ کر ڈر گیا اور فوراً ان سے معافی مانگتے ہوئے چیک واپس اپنی جیب میں رکھ لیا۔یہ وہ زمانہ تھا جب ان کا ہاتھ تنگ ہو گیا تھا پھر بھی اقربا پروری اور یارباشی کا سلسلہ جاری تھا۔پیسے کی تنگی سے استعارہ کی اشاعت کا مستقبل تاریک تھا پھر بھی استعارہ کا چندہ لینا انہیں گوارہ نہیں تھا۔اس زمانے میں پروفیسر گوپی چند نارنگ سے وہ کھل کر بتاتے تھے کہ استعارہ کی اشاعت جاری رکھنے کے لیے اب ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ مجھے معلوم نہیں ہے کہ نارنگ صاحب نے استعارہ کو زندہ رکھنے کے لیے کچھ کیا یا نہیں لیکن اسی زمانے میں نارنگ صاحب نے انہیں دوحہ قطر ایوارڈ ضرور دلوایا تھا۔ وہ اکثر اپنے دوستوں پر دل کھول کر پیسے خرچ کرتے تھے۔ تمام لوگوں کو رات کا کھانا کھلا کر گھربھیجتے تھے۔کئی بارمجھے بھی ان کے ساتھ شام کی محفل میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ صلاح بھائی اکثر دل کھول کر بڑی پتے کی باتیں کرتے تھے۔وہ کہا کرتے تھے کہ میرے ارد گردجو کچھ تم دیکھتے ہو وہ سب مایاجال ہے۔میری بیوی میرے رشتہ دار اور دوست احباب بھی مایا ہیں۔ حقیقت صرف میری پہلی بیوی ہے جو بنگلور میں رہتی ہے۔باقی سب دھوکاہے۔میرے بیشتر احباب مجھے بے وقوف سمجھتے ہیں اور میرے غائبانہ میں میری برائیاں بھی کرتے ہیں۔ لیکن میں نظراندازکر دیتا ہوں کیوں کہ ان میں چند ایسے ہیں جو ضرورت مند اوربے روزگار ہیں۔ انہیں میں پالتا ہوں اور مجھے اس کام میں خوشی محسوس ہوتی ہے۔صلاح بھائی کی باتیں سن کر مجھے منٹو کے ایک مشہورکردار بابوگوپی ناتھ کی یاد آتی تھی۔ بابوگوپی ناتھ کی طرح صلاح بھائی کو بھی معلوم تھا کہ جب ان کے پیسے ختم ہو جائیں گے تو ان کے بھی دوست احباب اور رشتہ دار انہیں تنہا چھوڑ دیں گے اور ان سے آنکھیں چرانے لگیں گے۔پھر بھی انہوں نے ضرورت مندوں اپنے چمچوں کو کبھی نراش نہیں کیا۔رفتہ رفتہ انہوں نے اپنی پوری دولت لٹا دی۔ذاکرباغ کا فلیٹ بھی فروخت کر دیا۔ان کا محبوب رسالہ’’استعارہ‘‘ ان کے اظہارِ خیال کا واحد ذریعہ تھا،جس کی بدولت ان کے دل کی دھڑکن ان کے قاری محسوس کرتے تھے،جس کے ذریعہ ادب میں نئے تجربے، نئے تغیرات اور نئے خیالات سے ادبی دنیا آشنا ہوتی تھی، بند ہو گیا۔’استعارہ‘ کے بند ہوتے ہی ان کا رابطہ اپنے قاری اور چاہنے والوں سے ٹوٹ گیا۔موقع پرستوں نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔وہ بھی دہلی سے گریٹر نوئیڈا کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں منتقل ہو گئے اور گمنامی کی زندگی بسرکرنے لگے۔ جدیدادب کا خالق جس نے اپنے علم کے شعاعوں سے پوری ادبی دنیا کو منور کیا ہواتھا اب وقت اور حالات نے گمنامی کی تاریکی میں ڈھکیل دیا۔اسی تنہائی اور گمنامی نے انہیں مرضِ قلب میں مبتلا کر دیا۔ ایک سال پہلے وہ نوئیڈا سے علی گڑھ چلے گئے۔یہاں انہوں نے گمنامی کے اندھیرے سے نکلنے کے لیے اپنا نیا شعری مجموعہ’’بنام غالب‘‘ شائع کرایا جس میں انہوں نے غالب کے مصرعے یا اشعارکے مفہوم کو Deconstructکر کے نظمیں لکھی اور غالب کے ہی مصرعوں یا مصرعہ کے ایک حصّے کو ہرنظم کا عنوان بنایا۔عجیب وغریب بات ہے کہ اس کتاب کوانہوں نے اپنے چاہنے والوں اوراپنے قاری کو ابھی ابھی بھیجنا شروع کیا تھا۔ بعض لوگوں کو یہ کتاب ان کی وفات سے پہلے مل گئی تھی لیکن زیادہ تر لوگوں کو ان کی موت کے بعد ملی۔وقت نے انہیں اپنے قاری کے تاثرات سن کر خوش ہونے اور گمنامی کی زندگی سے باہر آنے کا موقع نہیں دیا۔ لیکن مجھے امید ہے کہ ان سے محبت کرنے والے قاری یہ کتاب ضرورپڑھیں گے اوراظہارخیال بھی کریں گے لیکن افسوس کہ صلاح بھائی نہیں ہوں گے۔ صلاح بھائی نے کئی نادر کتابیں تخلیق کی ہیں۔ ان کی ناولوں میں ’’نمرتا‘‘،’’آئیڈنٹیٹی کارڈ‘‘،’’سارے دن کا تھکا ہوا پرُش‘‘،’’ایک دن بیت گیا‘‘،’’دی وارجرنلس‘‘،ایک ہزار دوراتیں‘‘ قابلِ ذکر ہیں، ان کے شعری مجموعوں میں ’’سبھی رنگ کے ساون‘‘، ’’دستِ تحیرات‘‘، ’’کنفیشن‘‘ ، ’’دھوپ سمندر سایہ‘‘، ’’پرماتما کے نام، آتما کے پتر‘‘اور ’’کتاب عشق‘‘ بے حد مشہور مقبول ہیں۔ مجھے امید کہ ہندوستان وپاکستان کی یونیورسیٹیاں ان کتابوں پر تحقیق کرائیں گی۔
صلاح بھائی اپنے معاونین میں حقانی القاسمی جو ’’استعارہ‘‘کے نائب مدیر تھے کی تعریف کرتے ہوئے نہیں تھکتے تھے۔وہ کہتے تھے کہ حقانی خوددار،ایماندار اور بے لوث محبت کرنے والا نیک انسان ہے۔تم ہمیشہ حقانی سے دوستی بنائے رکھنا اور اس سے ادبی مشورے لیتے رہنا۔وہ تمہیں صحیح مشورہ دے گا۔یاد رکھنا جو شخص ہمیشہ پوچھتا اور سیکھتا رہتا ہے وہ بتانے والے یا سکھانے والے سے آگے نکل جاتا ہے۔ ہمیشہ پوچھتے رہنے کی تمہاری عادت مجھے بہت پسند ہے۔صلاح بھائی خود فریب کھاتے رہتے تھے لیکن مجھے ہمیشہ فریبیوں سے دوری بنائے رکھنے کی ہدایت کرتے تھے اورکہتے تھے کہ تم اپنے فلاں فلاں دوستوں سے ذرا ہوشیار رہنا اور دوری بنائے رکھنا۔
صلاح بھائی دراصل شریعت کے نہیں طریقت کے آدمی تھے۔ اس لیے عشقِ خدا اور رسولﷺمیں ہمہ وقت تڑپتے رہتے تھے اوراکثر زاروقطار روتے تھے۔کبھی کبھی مجھے لگتا تھا کہ شایدانہیں اپنی غلطیوں کا احساس ہوتا تھا اورخدا کے خوف سے ان کی آنکھوں سے آنسوبہنے لگتے تھے۔ کبھی وہ روروکر حضوراکرمﷺکی محبت میں تڑپتے تھے اور آپﷺکیسیرت اور صورت کی تصویر کشی کرتے تھے کہ جیسے وہ حضوراکرمﷺکے دورِنبوت میں پہنچ کر آپﷺکی صورت اورسیرت اپنی آنکھوں سے دیکھ کر محفل میں موجود لوگوں کے سامنے اسے اسی طرح بیان کرہے ہوں جیسے شیخ سعدیؒ نے حضوراکرمﷺکی محفل میں آپﷺکیشان میں اپنا مشہور قصیدہ:
بلغ العلیٰ بکمالہ
کشف الدجیٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ
صلواعلیہ وآلہ
سنایا تھا۔صلاح بھائی کا ایک مشہور شعری مجموعہ’’کتاب عشق‘‘ اسی زمانے میں شائع ہواتھا۔اس کتاب میں عشق حقیقی کے مختلف درجات کی وضاحت جس فلسفیانہ اندازسے کی گئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صلاح بھائی نے مراقبے میں جاکر عشق کے مختلف مقامات سے گزرنے اورعشق حقیقی کے تجربے حاصل کرنے کے بعد یہ کتاب لکھی ہو گی۔صلاح بھائی اکثر حضرت علی کرم اﷲؓکے کارناموں کا ذکر کرتے تھے اور ان کی مشہور کتاب ’’نہج البلاغہ‘‘ پرعالمانہ گفتگو کرتے رہتے تھے۔وہ اہلِ بیت سے بے حد محبت کرتے تھے۔انہوں نے کئی نادر مرثیے بھی لکھے ہیں۔ ’’حضرت زینب کی دو پینٹنگ‘‘کے عنوان سے انہوں نے دومرثیے لکھے ہیں۔ ’’دوسری پینٹنگ‘‘کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے:
سرپہ ہے آکاش مگروہ نیلانہیں ہے لال
پاؤں کے نیچے مٹی ہے پربھوری نہیں ہے لال
آنگن میں اک بھیڑ بھی ہے پراس کااون بھی لال
وہیں کہیں مشکیزہ بھی ہے اس کا جگر بھی لال
چولھے سے جو دھواں اٹھا ہے وہ بھی بالکل لال
آگ تو لال تھی پہلے ہی سے اور بھی ہو گئی لال
ایک ردا زینب کے سرپراب بھی تھی سرسبز
وہ بھی رنگ نہ غیر کوبھایاچھین کے کر دیا لال
ایک حسین کے لال ہونے سے
سب جگ ہوا لال
زینب تیرے گھررنگوں کا
کیسا ہو گیا حال
ایک ہی رنگ اسے من بھایا
اب ہو وہ پامال
انسان کے ظاہری اعمال اکثر دھوکا دیتے ہیں۔ انسان کا اصل جوہر اس کے باطن میں ہوتا ہے۔خدا بھی باطنی خوبیوں کے دیکھتا ہے۔صلاح بھائی کی باطن پاک وصاف ہے۔اس لیے مجھے یقین ہے کہ خدا،اس کے رسول حضرت رﷺاوراہلِ بیت کی محبت اور’کتاب عشق‘کے طفیل میں خدا ان کی تمام گناہوں کو معاف کر دیں گے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائیں گے۔آمین