پہلے کامران اور اب راشد کی پر اسرار موت۔
اس کی لاش اس کے گھر والوں نے تقریب سے واپسی پر دیکھی تھی۔ بھیانک لاش کو دیکھ کر انہیں قیامت خیز جھٹکے لگے تھے۔ پولیس نے اپنی تحقیقات اور ضروری کارروائیاں کیں۔ کمرے سے راشد کے علاوہ اور کسی کے فنگر پرنٹس نہیں ملے تھے۔ چاقو کے دستے پر بھی راشد کی انگلیوں کے نشانات پائے گئے تھے۔ آخر پولیس افسر نے اسے خود کشی کا کیس قرار دے دیا تھا، لیکن اتنی اذیت ناک خود کشی؟ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق پہلے چاقو سے آنکھ پر وار کیا گیا تھا۔ پھر ناک کاٹی گئی اس کے بعد دیگر اعضاء پر وار کیے گئے اور سب سے آخر میں شہ رگ کاٹ دی گئی۔ خارج از عقل بات لگتی تھی۔ کامران کی طرح دن گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ہولناک واقعہ بھی مدھم پڑتا گیا۔ کسی کا ذہن کسی اور سمت پرواز نہ کر سکا۔ صرف جاوید کا ماتھا ٹھنکا تھا۔ پہلے کامران عجیب و غریب پر اسرار حالات میں مرا اور اس کی موت کو بھی خود کشی کا نتیجہ قرار دے دیا گیا۔ اس پر اچانک دیوانگی اور وحشت کا دورہ بھی حیرت انگیز تھا۔ اور اب… اب راشد بھی پر اسرار ناقابل یقین موت کا شکار ہو گیا۔
جاوید کڑیاں ملا رہا تھا اور کڑیاں مل رہی تھیں اور پھر ٹوٹ رہی تھیں۔
دل نہیں مان رہا تھا۔ اسے آصف یاد آ گیا تھا، جو تہہ خانے میں سسک سسک کر مر گیا تھا، بلکہ… بلکہ ان تینوں نے اسے مار دیا تھا۔ اپنے مذاق سے، اپنی شرارت سے۔ تو کیا دست قدرت ان سے آصف کی موت کا انتقام لے رہا ہے؟ کیا میں بھی… میں بھی کسی بھیانک حادثے کا شکار ہو جاؤں گا؟ یا پھر کوئی اور بات ہے … آصف کی بے چین روح ان سے بدلے لے رہی ہے اور کیا وہ مجھے بھی مار ڈالے گی؟ جاوید سوچ سوچ کر لرز اٹھتا۔ وہ توہم پرست نہیں تھا۔ اسے جن بھوت، بد روح، چڑیلوں وغیرہ پر کوئی یقین نہیں تھا، لیکن اب نہ چاہتے ہوئے بھی وہ یہ سب سنجیدگی سے سوچ رہا تھا اور پھر دماغ کا خلل سمجھ کر رد بھی کرتا جا رہا تھا۔ بس ایک انجانی سی بے قراری دل میں مچل رہی تھی، جو کسی طور اسے چین سے کہیں بیٹھنے نہیں دے رہی تھی۔ سانپوں کی طرح پھنکارتی ہوئی سوچوں نے اسے پاگل کر کے رکھ دیا تھا۔ جاوید ہر شے سے خوف زدہ رہنے لگا تھا۔ اپنے گھر والوں اور اپنے دوستوں اور ملنے جلنے والوں سے کترانے لگا تھا۔ یہ تمام لوگ جاوید کے بدلے ہوئے عجیب رویے سے حیران و پریشان تھے۔ گھر والوں نے کرید کرنی چاہی، مگر جاوید کسی بات کا جواب نہیں دیتا تھا۔ یہ بات اس کے دماغ میں جڑ پکڑتی چلی گئی تھی کہ وہ بھی جلد کسی عبرت ناک موت کا شکار ہو جائے گا۔ اس کے معمولات تبدیل ہو کر رہ گئے تھے۔ لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ یک مشت تین دوستوں کی اموات نے اس کے ذہن پر برا اثر ڈالا ہے، لیکن جاوید کی پریشانی کی وجہ صرف وہ خود ہی جانتا تھا۔
پھر ایک شام وہ اپنی اس کار میں نکل کھڑا ہوا، جس کار میں وہ چاروں دوست لاہور جا رہے تھے۔ اس نے بہت سوچ بچار کے بعد ایک فیصلہ کیا تھا۔ اسے یوں لگ رہا تھا کہ آصف کی روح ان سے اپنی موت کا انتقام لے رہی ہے۔ وہ آصف کی لاش کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا۔ اس نے چلتے وقت ایک بھاری لوہے کی راڈ اپنے ساتھ لے لی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد اب تک آصف کی لاش ڈھانچے میں تبدیل ہو چکی ہو گی۔ وہ اس ڈھانچے کو بھی نیست و نابود کرنے نکل کھڑا ہوا تھا۔ دیوانگی دماغ میں بس جائے تو اس کا نکلنا دشوار ہوتا ہے اور انتہائی حماقتیں سرزد ہو جاتی ہیں۔ غلط اقدام اُٹھ جاتے ہیں۔ جاوید اپنے آپے میں نہیں تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اگر وہ ڈھانچے کو بھی توڑ پھوڑ ڈالے گا تو آصف کی روح اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔ حماقت آمیز خیال تھا، لیکن بہرحال جاوید کا خیال تھا۔ اسے کوئی ہوش نہیں تھا وہ بس جنونی انداز میں گاڑی دوڑا رہا تھا اور نہ جانے کس وقت وہ کچی سڑک پر مڑ گئی۔ محکمہ جنگلات کی پرانی عمارت اس کے سامنے تھی، جس کے تہہ خانے میں آصف نے جان دی تھی۔ جاوید ہانپتے ہوئے اُترا اور لوہے کی راڈ نکال کر عمارت میں داخل ہو گیا۔ صبح ہونے میں کچھ وقت باقی تھا۔ وہاں کا ماحول روح قبض کر دینے والا تھا۔
کہر آلود فضا نے سارا ماحول دہشت کدہ بنا رکھا تھا۔
ہر شے دھند میں جکڑی ہوئی تھی۔ جھاڑیوں کی سرسراہٹ اور کیڑے مکوڑوں کی آوازوں کے علاوہ وہاں صرف جاوید کے ہانپنے کی آواز گونج رہی تھی۔ اس کا حلیہ خوفناک پاگل جیسا ہو رہا تھا۔ اسے اتنا ضرور معلوم تھا کہ تہہ خانے میں روشنی کی ضرورت پڑے گی، اس لیے وہ طاقت ور ٹارچ بھی لیتا آیا تھا۔ ٹارچ روشن کر کے وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ سیدھے ہاتھ میں لوہے کی راڈ تھامی ہوئی تھی۔
اچانک اس کے پیروں کے قریب حرکت ہوئی۔
جاوید چیخ کر جنونی انداز میں اچھلا اور پیروں کے قریب راڈ ماری۔ ایک گول مٹول سا چوہا تھا۔ راڈ کی ضرب سے بچ نکلا۔ اتنے موٹے تازے چوہے کو دیکھ کر جاوید کی آنکھیں حیرانگی سے پھیل گئیں۔ نہ جانے کیا چیز کھا کھا کر ایسا ہو گیا تھا۔ اس نے کچھ فاصلے پر اندھیرے میں چھوٹی چھوٹی گول روشنیاں چمکتی دیکھیں، جو ادھر ادھر تیزی سے حرکت کر رہی تھیں۔ وہ چوہوں کی آنکھیں تھی اور اسے ہی گھور رہی تھیں۔ جاوید کو ایسا لگا کہ وہ بس بھوکی نظروں سے اسے یہاں آنے پر خوش آمدید کہہ رہی ہیں۔ اس نے زور زور سے کئی مرتبہ راڈ کو گرد آلود فرش پر مارا۔ آواز پیدا ہوئی اور چوہوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ ساری روشنیاں ادھر ادھر منتشر ہو کر غائب ہو گئی تھیں۔ جاوید آگے بڑھ گیا۔
معاً اسے ایک عجیب سی آواز سنائی دی۔
وہ لرز کر ٹھٹک گیا۔ ایسا لگا کہ کوئی ہنسا تھا۔ شاید… شاید میرا وہم تھا۔ کان بھی کبھی کبھی دھوکا کھا جاتے ہیں۔ اس نے خود کو کھوکھلی سی تسلی دی۔ ہو سکتا ہے، چوہوں کی آواز سنائی دی ہو۔ وہ تہہ خانے کی طرف بڑھتا جا رہا تھا۔ تہہ خانے کا چھوٹا زنگ آلود دروازہ اسی طرح بند تھا۔ جیسے انہوں نے چھوڑا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ اس وقت سے اب تک کسی نے یہ دروازہ چھوا تک نہیں تھا۔ جاوید کو ہلکی سی طمانیت کا احساس ہوا۔ اس نے دروازے کی کنڈی پر ہاتھ رکھا اور اسی لمحے اس کے دل پر خوف اور دہشت نے زبردست یلغار کی۔
’’یہ… یہ… میں کیا کر رہا ہوں؟ اندر تو… آصف کی لاش… لاش نہیں ڈھانچا ہو گا۔ مگر… مگر ڈھانچا تو بس ڈھانچا ہی ہوتا ہے۔ ہڈیوں کا بے جان بے حس مجموعہ۔ آہ… میں ادھر کیوں آیا ہوں؟ میرا دماغ خراب ہو گیا تھا؟ کیا ہو گیا ہے مجھے؟‘‘ جاوید نے ٹارچ والے ہاتھ سے اپنی کن پٹی دبائی۔ ’’لیکن مجھے نیچے جا کر اس کا ڈھانچا تو دیکھنا چاہیے۔‘‘ جاوید کے اندر سے ایک اجنبی سی آواز ابھری اور بے اختیار اس کے قدم تہہ خانے کی سیڑھیاں پر جا پڑے۔ وہ یوں قدم اٹھا رہا تھا جیسے اس پر کسی نے عمل کر رکھا ہو اور یہ درست ہی تھا کہ جاوید کو یہاں تک لانے والی طاقت اسی پر اسرار سائے کی تھی۔ سایہ جاوید کے اندر سما گیا تھا۔ اس کے ہی احکامات کی پیروی کرتے ہوئے جاوید تہہ خانے تک آ گیا تھا۔ سائے نے اس کے دل دماغ اور سوچوں پر قبضہ کر رکھا تھا۔ ہر کام حسب منشا ہی ہوا تھا۔
چوہا… چوہے دان میں آ گیا تھا۔
آخر ٹارچ کی روشنی میں جاوید نے وہ دہشت ناک منظر دیکھ لیا۔ آصف کا ڈھانچا اسی طرح پڑا ہوا تھا، جس طرح انہوں نے لاش چھوڑی تھی۔ ڈھانچے کا منہ بھیانک انداز میں کھلا ہوا تھا۔ آنکھوں اور ناک کی جگہ تاریک کھڈے نظر آ رہے تھے۔ پورے ڈھانچے پر گوشت یا کھال نامی کوئی شے نہیں تھی۔ ایک دم جاوید کو انتہائی زبردست بد بو کا احساس ہوا۔ سخت تعفن کی وجہ سے اس کا دم اُلٹ پلٹ ہونے لگا۔ یوں لگتا تھا کہ پورا معدہ اور پھیپھڑے منہ کے راستے باہر اُبل پڑیں گے۔ سانس لینا دشوار ہوا جا رہا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ ہر سانس کے ساتھ دنیا بھر کی غلاظت پیٹ میں اُتر رہی ہے۔ ساتھ ہی جاوید کو اس موٹے اور گول مٹول چوہے کا خیال آیا، جس کو ابھی اس نے اوپر دیکھا تھا۔ اس کا بدن جھرجھری لے کر رہ گیا۔ اب سمجھ میں آ رہا تھا کہ وہ اتنا گول اور پھولا ہوا کیوں تھا۔ خوف کے مارے اس کے ذہن نے زیادہ وضاحت و تشریح نہیں کی۔ نہ جانے کیوں جاوید کو ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ وہ یہاں اپنی مرضی سے نہیں آیا ہے، بلکہ کوئی انجانی طاقت اسے یہاں کھینچ لائی ہے۔ اب خوف کے مارے اس کا برا حال ہو گیا تھا۔ اس نے لوہے کی راڈ پھینکی اور واپس زینے کی طرف بھاگا۔