ڈاکٹر اویناش اور ایڈوکیٹ سنتوش وہار لیک کے کنارے ایک اعلیٰ درجے کے ریسٹورنٹ میں بیئر کی چسکیاں لے رہے تھے۔ ان کی بیویاں شانتی اور آکانشا تھوڑی دور پر بیٹھ کرتا زہ پھلوں کے رس سے لطف اندوز ہو رہی تھیں اور ان کے بیٹے وکاس اور سبھاش پانی میں کھیل رہے تھے۔ باتیں کرتے ہوئے سنتوش کی نگاہ جب بچوں پر پڑی تو اس نے کہا۔
اویناش تمہیں یاد ہے کسی زمانے میں ہم دونوں بھی وکاس اور سبھاش کی طرح جوہو کے ساحل پر کھیلا کرتے تھے اور ہمارے والد صاحبان ایک طرف ہماری طرح بیٹھے سگریٹ پھونکا کرتے تھے۔
اویناش نے حامی بھری اور کہا۔ ہاں مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ہماری مائیں ہم چاروں سے الگ تھلگ ایک دوسرے کے ساتھ اسی طرح محو گفتگو ہوتی تھیں جس طرح شانتی اور آکانشا فی الحال لگی ہوئی ہیں۔ بالکل دنیا و ما فیہا سے بے خبر۔
ہاں ہاں مجھے یاد ہے۔ سنتوش بولا۔ اور ان کی باتیں کبھی ختم نہ ہوتی تھیں جس طرح ان دونوں کی باتیں ختم نہیں ہوں گی اور پھر ہمارے والد صاحبان زبردستی ان دونوں کو الگ کر دیا کرتے تھے جس طرح تھوڑی دیر بعد ہم کریں گے اور پھر ہماری مائیں ہم کو بلاتیں جس طرح شانتی اور آکانشا، وکاس اور سبھاش کو بلائیں گی اور پھر ہم سے ناراض ہو جاتیں جیسے کہ وہ ان سے ہو جائیں گی اور پھر ہم با دلِ ناخواستہ اپنے اپنے والدین کی جانب چل پڑتے جس طرح یہ چل پڑیں گے۔ اور پھر ہم اپنے والد کی اسکوٹر پر بیٹھ کر اپنے گھروں کی جانب روانہ ہو جاتے جس طرح ابھی کچھ دیر بعد ہم اپنی اپنی گاڑیوں میں روانہ ہو جائیں گے۔
لیکن اس سے پہلے پانی پوری کے لیے ضد کرنا تمہیں یاد ہے؟ اور ہاں منع کرنے کے باوجود اصرار کرنا اور والدین کو مجبور کرنا بھی یاد ہی ہو گا۔ وکاس اور سبھاش بھی یہی کرنے والے ہیں۔
یار میں سوچتا ہوں زمانہ کتنا بدل گیا۔ تیس سالوں میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا لیکن انسان نہیں بدلا۔
ہاں سنتوش تو صحیح کہتا ہے نہ نسلوں کے فاصلے کم ہوئے نہ جنس کی بنیاد پر موضوعات کے اختلاف میں کوئی تبدیلی آئی۔ پہلے بھی ہمارے ماتا پتا کی دلچسپی کے موضوعات علیٰحدہ ہوتے تھے ہم لوگ ان سے دور دور رہا کرتے تھے آج کل بھی وہی کچھ ہے۔ ایسا لگتا ہے کچھ نہیں بدلا۔
ڈاکٹر اویناش اور ایڈوکیٹ سنتوش بچپن کے یار تھے۔ ایک محلے میں رہتے، ایک اسکول میں پڑھتے، ایک ساتھ آتے جاتے، ایک ساتھ کھیلتے۔ حالانکہ دونوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اویناش نہایت شوخ اور چنچل تھا جب کہ سنتوش نہایت سادہ اور خاموش طبع۔ اس کے باوجود ان کے اندر اٹوٹ دوستی تھی۔ بھائیوں سے زیادہ ایک دوسرے کو چاہتے تھے۔ اسکول کی تعلیم کے بعد دونوں کے راستے بدل گئے۔ ایک نے سائنس تو دوسرے نے آرٹس کا راستہ اختیار کیا۔ ایک ساتھ گریجویشن کی ڈگری کے بعد ایک نے ڈاکٹریٹ کا راستہ اختیار کیا اور دوسرا قانون کی کتابیں پڑھنے لگا۔
دونوں نے تقریباً ایک ساتھ تعلیم مکمل کی۔ اویناش کو ملک کی نامور تحقیقاتی تجربہ گاہ میں ملازمت مل گئی اور سنتوش کو ملک کے بہت بڑے تجارتی ادارے نے اپنا قانونی مشیر بنا لیا۔ اس کے بعد شادی کا وقت آیا تو وہ بھی تقریباً ایک ساتھ ہوئی۔ اویناش کی شادی کالج کے پرنسپل کی لڑکی شانتی سے ہو گئی اور سنتوش نے ایک بہت بڑے تاجر کی بیٹی آکا نشا سے بیاہ رچا لیا۔ دو سال بعد ان دونوں نے لڑکوں کو جنم دیا۔ وکاس اور سبھاش کی عمروں میں صرف تین ماہ کا فرق تھا۔ ان دونوں دوستوں کی زندگی بے شمار اتّفاقات اور اختلافات سے بھری پڑی تھی۔
ڈاکٹر اویناش کا شمار بہت جلد ملک کے بڑے سائنسدانوں میں ہونے لگا تھا۔ رات دیر گئے وہ اپنی لیباریٹری میں کام کرتے رہتے تھے۔ جس کانفرنس میں جاتے چھا جاتے شرکاء کا دل موہ لیتے تھے آئے دن اخبارات میں ان کے انٹرویو چھپتے انہیں کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا تھا۔ لیکن ان سب کے باوجود ان کی بیوی شانتی ان سے ناراض تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر اویناش گھر سے باہر جس قدر وقت صرف کرتے ہیں اس کا عشر عشیر بھی گھر میں نہیں دیتے، ساری دنیا کے لئے ان کے پاس فرصت ہے لیکن گھر والوں کے لئے نہیں، وہ کبھی بھی سورج ڈھلنے سے پہلے گھر نہیں آتے، وکاس کو اکثر سویا ہوا پاتے اور صبح سویا ہوا ہی چھوڑ جاتے۔
شانتی اکثر ان سے کہتی کہ دیکھو تم سرکاری لیباریٹری میں کام کرتے ہو، ہماری کالونی کے سبھی لوگ اس میں کام کرتے ہیں۔ وہ کیسے آرام سے دفتر جاتے ہیں دوپہر کو کھانے کے لیے واپس گھر آ جاتے ہیں قیلولہ کر کے واپس جاتے ہیں۔ شام پانچ بجے اپنے گھر پر دوبارہ حاضر ہو کر بچوں کے ساتھ چائے ناشتہ کر کے چہل قدمی کے لیے نکل جاتے ہیں۔ شام میں تھوڑا بہت وقت بچے کی تعلیم پر بھی صرف کرتے ہیں۔ بیوی کے ساتھ ٹی وی کے سیرئیل دیکھتے ہیں۔ دوسروں کو اپنے گھر بلاتے ہیں اور خود دوسروں کے گھر جاتے ہیں۔
ڈاکٹر اویناش کی زندگی ان تمام چیزوں سے خالی تھی۔ ان کا کسی اور سے تو کیا خود اپنے گھر والوں سے بھی ملنا جلنا نہ ہو پاتا تھا۔ بس کام، کام اور کام۔ اس کے سوا کوئی کام نہ تھا۔ اویناش کے اس رویہ کے باعث شانتی اپنی زندگی میں ایک بہت بڑا خلاء محسوس کرتی تھی۔ جب بہت لمبا وقفہ اس طرح گذر جاتا تو آکانشا کو اپنے گھر بلا لیتی یا ان کے گھر جانے کا پروگرام بناتی۔ ڈاکٹر اویناش کے لیے یہی ایک ایسی دعوت تھی جس کا ٹالنا ممکن نہیں تھا لیکن یہ موقع بھی سال میں ایک دو بار ہی آتا۔
ڈاکٹر اویناش کئی مرتبہ دیوالی اور ہولی کے موقع پر بھی اپنے اہل خانہ سے دور رہتے۔ یورپ اور امریکہ میں ہونے والی سائنسی کانفرنسوں کا ان تہواروں سے کیا سروکار اور ڈاکٹر اویناش کے لیے ان میں شرکت اپنے اہل خانہ کے ساتھ تہوار منانے سے زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔ اس لیے وہ بلا تکلف نکل جایا کرتے تھے۔ وہاں یاد آ گئی تو فون کر دیا ورنہ وہ بھی بھول گئے۔ ڈاکٹر کے اس رویہ نے شانتی کی زندگی میں اشانتی بھر دی تھی۔ لیکن یہ ایک ایسا کرب تھا جس کا اظہار کرنا بھارتیہ ناری کیلئے مہا پاپ سے کم نہیں تھا۔
ادھر سنتوش کے گھر کا معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ سنتوش کی زندگی دفتر اور گھر کے درمیان طواف سے منسوب تھی۔ شام پانچ بجتے ہی دفتر سے نکلنے والی سب سے پہلی گاڑیوں میں سے ایک سنتوش کی ہوتی تھی وہ سیدھا اپنے گھر آتا، بیوی بچّے کی خبر لیتا، پہلے تو صبح کا اخبار دیکھتا اور پھر ٹی وی لگا کر شام کا اخبار پڑھنے لگتا۔ ٹی وی کا ریموٹ ہمیشہ اس کے ہاتھوں میں ہوتا۔ خبروں کے چینلس کا تو وہ دیوانہ تھا۔ اس بیچ بچّوں سے خوش گپّیاں کرتا، بیوی کھانا لگا دیتی تو کھانا کھا تا اور چہل قدمی کے لئے چل پڑتا۔ وہ آکانشا کو بھی ساتھ آنے کی دعوت دیتا لیکن آکانشا کو چہل قدمی کے بجائے ٹی وی پر خواتین کے ڈراموں میں زیادہ دلچسپی تھی۔ وہ امیر خاندانوں کی خواتین کی سیاست پر مشتمل ڈراموں میں کھو جاتی تھی۔
آکانشا کا تعلق چونکہ ایک امیر تجارتی گھرانے سے تھا اس لئے ان ڈراموں کے کرداروں میں آکانشا کو کہیں اپنی ماں نظر آتی تو کہیں باپ، بھائی یا بھابی۔ سب کے سب دولت کے نشہ میں چور ایک دوسرے کو جائداد سے بے دخل کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل، سازشوں اور رنجشوں کے تانے بانے میں الجھی ہوئی کہانیاں آکانشا کو بہت اچھی لگتی تھیں۔ اس بیچ ایک نیا سیرئیل بیرسٹر ونود شروع ہوا جس کا ہیرو شہر کا نامور وکیل تھا۔ سارے ملک میں اس کے چرچے تھے۔ وہ بڑے سے بڑے مجرم کو چھڑا لیا کرتا تھا۔ معروف سیاستدان اس کے دوست تھے۔ آئے دن اس کی خبریں اخبارات میں شائع ہوتیں۔ عدالت کی ہر پیشی کے وہ ہزاروں روپئے لیتا اور ایک محل نما کوٹھی میں رہتا تھا۔
آکانشا جب بھی اس سیرئیل کو دیکھتی اسے سنتوش پر غصہ آنے لگتا اس لیے کہ وہ بھی ایک وکیل تھا لیکن اسے کبھی عدالت جانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ ملک تو کیا پڑوس کے لوگ بھی نہیں جانتے تھے کہ ایڈوکیٹ سنتوش کون ہے؟ آج تک اس نے کسی مجرم تو کیا بے قصور ملزم کا بھی مقدمہ نہیں لڑا تھا۔ عجیب بے رنگ زندگی گذار رہا تھا یہ شخص۔ دنیا وی عیش و طرب سے اس کا کوئی لین دین ہی نہ تھا۔ اپنا دفتر، اپنا گھر، اپنا باس اور اپنی بیوی یہی اس شخص کی کل کائنات تھی اور وہ اسی میں مست تھا۔ آکانشا نے اسے کئی مرتبہ سمجھایا، جھنجھوڑا، ڈانٹا ڈپٹا سب کچھ کر کے دیکھ لیا لیکن سنتوش کے کان پر جوں نہ رینگتی تھی۔
ایک مرتبہ آکانشا نے زبردستی سنتوش کوبیرسٹر ونود دکھانے کے لیے روک لیا اور خاتمہ کے بعد پوچھا۔ تم ایسے کیوں نہیں بنتے؟
سنتوش نے جواب دیا۔ تم نے نہیں دیکھا یہ شخص کس قدر پریشان ہے۔ کس قدر دباؤ میں زندگی گذارتا ہے۔ رات گئے تک قانون کی کتابوں میں غرق رہتا ہے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے سے اسے فرصت نہیں ملتی۔ کیسے کیسے الٹے سیدھے لوگوں سے اس کے تعلقات ہیں۔ یہ سب میرے بس کی بات نہیں۔ میں یہ فریب دہی نہیں کر سکتا۔
سنتوش کا تبصرہ سن کر آکانشا آگ بگولہ ہو گئی۔ اپنے چہیتے کردار ونود کے بارے میں اتنی ساری منفی باتیں وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ آکانشا نے کہا۔ تمہیں اس میں صرف برائیاں ہی برائیاں نظر آتی ہیں کھوٹ ہی کھوٹ دکھائی دیتا ہے۔ تم نے اس کی شاندار حویلی نہیں دیکھی۔ اس کی شہرت تمہیں نظر نہیں آئی۔ اس کا ٹھاٹ باٹ، اس کی گاڑی، اس کی شان و شوکت یہ سب کچھ تمہاری آنکھوں سے اوجھل ہے۔ زندگی بھر کمپنی کے کوارٹر میں رہنے والے اس سے زیادہ سوچ بھی کیا سکتے ہیں اسی کو کہتے ہیں کھسیانی بلّی کھمبا نوچے۔
اپنی بیوی آکانشا کی تقریر سن کر سنتوش نے قہقہہ لگا کر کہا۔ آکانشا اگر تمہیں وہ فلمی کردار اتنا ہی پسند ہے تو کر لو اسی سے شادی۔ میں کل ہی تمہارے طلاق کے کاغذات تیار کر کے لے آتا ہوں لیکن یاد رکھو میں جیسا بھی ہوں اصلی وکیل ہوں۔ ایڈوکیٹ سنتوش رانا ایل ایل ایم اور بیرسٹر ونود نرا بہروپیا ہے بہروپیا۔
آکانشا غصہ سے بپھر گئی۔ اپنی بیوی کو طلاق کی دھمکی دینے کے علاوہ اور ایڈوکیٹ سنتوش کر بھی کیا سکتے ہیں۔ اس لیے یہ بھی کر کے دیکھ لو۔ مجھے اپنے میکے بھیج کر ہو جاؤ آزاد۔
سنتوش پھر مسکرا دیا۔ میری جان طلاق کی بات تو میں نے صرف تمہیں چھیڑنے کے لیے کہی تھی ورنہ کون ظالم اتنی اچھی بیوی کو طلاق دیتا ہے۔ لیکن محترمہ آپ کو یہ تو ماننا ہی پڑے گا میں حقیقت میں جتنا آپ کا خیال رکھتا ہوں، آپ کی خدمت کرتا ہوں وہ تمہارا بیرسٹر ونود ٹی وی کے اسکرین پر بھی اپنی بیوی کی جانب ایسی توجہ نہیں کرتا۔
یہ سن کر آکانشا کچھ نرم پڑی۔ اس نے کہا۔ میں نے کب کہا آپ میرا خیال نہیں رکھتے یا میری خدمت نہیں کرتے۔ وہ سب تو بے شک تم بحسن و خوبی کرتے ہو لیکن سنتوش! زندگی یہی سب تو نہیں ہے مجھے اس کے ساتھ کوٹھی، گاڑی، شان و شوکت، دولت شہرت اور بہت کچھ چاہئے۔ ان کے بغیر زندگی بے معنی لگتی ہے۔
لیکن یہ سب ایک ساتھ نہیں آتا۔ سنتوش نے کہا۔ ایک کو دوسرے کی قیمت پر حاصل کرنا پڑتا ہے اور میں اپنے ازدواجی راحت و سکون کو داؤں پر لگا کر کچھ بھی حاصل کرنا نہیں چاہتا۔ سنتوش نے جواب دیا۔ آکانشا اُداس ہو کر اپنی خوابگاہ میں چلی گئی۔ اس مسئلہ پر سنتوش اور آکانشا کی نوک جھونک کوئی نئی بات نہیں تھی لیکن آج یہ توتو میں میں اپنے حدود کو پار کر گئی تھی۔ سنتوش دیر تک بیٹھا سوچتا رہا آخر کیا کرے اسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ ایسے میں بے ساختہ اسے اپنے دوست اویناش کا خیال آیا اور اس کی انگلی فون پر چلنے لگی۔ اویناش کے گھر پر فون اس کی بیوی شانتی نے اٹھایا۔ ہیلو کی آواز سنتے ہی سنتوش نے فون رکھ دیا۔ اس لئے کہ شانتی سے بات کرنے کا مطلب تھا آکانشا سے بات کروانا اور آج وہ نہیں چاہتا تھا کہ ان میں بات ہو۔ اس نے پھر موبائیل پر فون ملایا تو اویناش نے فوراً جواب دیا۔
بول سنتوش کیا حال ہے؟
سنتوش نے جواب دیا۔ یار حال اچھا نہیں ہے۔
یہ سن کر اویناش چونک پڑا۔ تیس سال کی دوستی میں پہلی بار سنتوش کے منہ سے یہ الفاظ اویناش نے سنے تھے اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ اس نے پھر پوچھا۔ کیوں بھائی خیریت تو ہے مذاق تو نہیں کر رہے ہو؟
اویناش میں یہ کہہ چکا ہوں کہ خیریت نہیں ہے اور میں مذاق نہیں کر رہا ہوں فی الحال یہ بتلاؤ کہ تم کہاں ہو؟ شہر میں یا کہیں باہر۔
سنتوش نے جھنجھلا کر کہا۔ میں تو گھر ہی پر ہوں بتاؤ کیا خدمت کی جائے۔
اویناش بات در اصل یہ ہے کہ میں تم سے ملنا چاہتا ہوں۔
اتنی رات گئے۔ خیریت تو ہے۔
اویناش میں تم سے دو بار کہہ چکا ہوں کہ خیریت نہیں ہے۔ مجھے ابھی اسی وقت تم سے ملاقات کرنی ہے۔
اویناش نے کہا۔ ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ اب بتا کہاں ملنا ہے؟ تو میرے گھر آتا ہے یا میں آؤں؟
نہیں ہم لوگ گھر پر نہیں ملیں گے ہم کسی پارک یا ریسٹورنٹ میں ملتے ہیں۔
یہ سب باتیں اویناش کے لیے نئی تھیں۔ سنتوش رات گئے جاگنے کا عادی نہیں تھا۔ وہ اتنی جلد بازی میں کوئی کام نہ کرتا تھا۔ کسی بھی کام کو بڑے آرام سے کل پر ٹال دیتا تھا اور پھر گھر پر ہی ملنا پسند کرتا تھا۔ کسی اور مقام پر بلانے کے لیے اسے کافی منانا پڑتا تھا لیکن آج سب کچھ اُلٹا ہو رہا تھا۔ اویناش اور سنتوش نے ملنے کے لیے جوہو کا ساحل طے کیا اور اویناش تیار ہونے لگا۔ شانتی نے پوچھا۔
ارے اتنی رات گئے کہاں کی سواری ہے۔
مجھے سنتوش نے بلایا ہے۔
سنتوش بھیا نے اس وقت؟ خیریت تو ہے۔ شانتی نے پوچھا۔
نہیں نہیں خیریت نہیں ہے۔ نہیں میرا مطلب خیریت ہے کوئی بات نہیں۔
شانتی ہنسنے لگی ارے آپ اس قدر بوکھلائے ہوئے کیوں ہیں۔ سنتوش ہی کے پاس جا رہے ہیں نا یا؟
ہاں بابا سنتوش کے پاس ہی جا رہا ہوں۔
میں بھی چلوں۔ شانتی نے پوچھا۔
اویناش جھلّا گیا۔ شک کی دوا تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں اور تم عورتوں کا شک تو بھگوان ہی بچائے۔ چلو اگر چلنا ہے لیکن پہلے بتائے دیتا ہوں کہ سنتوش بھابی کے ساتھ نہیں اکیلے آ رہا ہے۔
شانتی نے ہنستے ہوئے کہا۔ آپ سنجیدہ ہو گئے میں یوں ہی مذاق کر رہی تھی۔ یہ جاننا چاہتی تھی کہ کہیں کوئی تجربہ تو یاد نہیں آ گیا اور ڈاکٹر صاحب تجربہ گاہ کی جانب تو نہیں چل دیئے۔ خیر گڈ بائی۔ گڈ بائی .
سنتوش اور اویناش دس منٹ کے اندر متعینہ مقام پر پہنچ گئے۔ وہاں پہنچنے کے بعد سنتوش نے سارا واقعہ تفصیل سے سنا دیا اور کہا کہ اویناش اب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہے۔ اب یہ سب قابل برداشت نہیں رہا۔ پہلے نوک جھونک کبھی کبھار ہوا کرتی تھی اب کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ بحث نہ ہو۔ تم تو میرا مزاج جانتے ہی ہو یہ سب میرے بس کی بات نہیں۔
اویناش نے سنتوش کی بات سن کر کہا۔ یار یہ مسئلہ صرف تمہارا نہیں میرا بھی ہے۔ شانتی میری تمام تر کامیابیوں کے باوجود مجھ سے ناراض رہتی ہے۔ اس کے لیے میری شہرت میرے تمغے میرا نام نمود سب بے معنی ہے۔ وہ چاہتی ہے میں بھی دوسروں کی طرح شام پانچ بجے دفتر سے چھوٹ کر اس کی خدمت میں آ جایا کروں نہ دیر تک کام کروں نہ نئی نئی ایجادات کروں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا میں کیا کروں؟ اس کی بار بار روک ٹوک نے مجھے احساس جرم میں مبتلا کر دیا ہے۔ جو کچھ تمہارے ساتھ ہوا وہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ شانتی نرم آنچ ہے اور آکانشا شعلۂ جوالہ ہے۔ لیکن دوست آگ تو آگ ہے دونوں کے گھاؤ یکساں ہی ہوتے ہیں۔
ہم دونوں کو اس کا علاج تلاش کرنا ہی ہو گا ورنہ ہماری زندگی جہنم بن جائے گی۔
دونوں ساحل سے چل کر چائے خانے میں آ گئے۔ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے دیر تک سوچتے رہے کیا کیا جائے؟ چائے ختم کرتے کرتے اویناش نے کہا۔
آئیڈیا۔ ہم ایسا کرتے ہیں ڈاکٹر نائک سے ملتے ہیں۔
یہ ڈاکٹر نائک کون ہے؟ تمہارے ساتھ کام کرتا ہے کیا؟ سنتوش نے پوچھا۔
نہیں۔ اویناش بولا۔ یہ ہماری لائن کا ڈاکٹر نہیں ہے بلکہ مشہور ماہر نفسیات ہے۔ ہمیں اس سے رجوع کرنا چاہئے۔
اویناش نے فون پر ڈاکٹر نائک کے دوا خانے سے اگلے دن کا وقت لیا اور سنتوش کو اس کے مطب کا پتہ بتلا کر اپنے گھر روانہ ہو گیا۔ سنتوش بھی واپس آ کر سو گیا۔
دوسرے دن دونوں دوستوں نے اپنی اپنی کہانی ڈاکٹر نائک کو سنائی۔ ڈاکٹر صاحب نے ان سے کئی سوالات کئے اور اپنی تشخیص ان کے سامنے رکھ دی۔ انہوں نے بتلایا چونکہ تم دونوں کے مزاج اپنی اپنی بیویوں کی ضد ہیں۔ اس لیے تمہاری ازدواجی زندگی کبھی بھی اطمینان بخش نہیں ہو سکتی۔
لیکن ڈاکٹر صاحب سنتوش بولا۔ ہم دونوں کے مزاج بھی تو ایک دوسرے سے مختلف ہیں اس کے باوجود پچھلے تیس سالوں سے ہم دونوں ہم پیالہ اور ہم نوالہ ہیں۔ اگر متضاد مزاج کے باوجود دوستی قائم رہ سکتی ہے تو رشتۂ ازدواج کیوں نہیں؟
ڈاکٹر نائک نے کہا۔ سوال دلچسپ ہے۔ دوستی اور شادی میں یہ بنیادی فرق ہے۔ دوستی میں محبت تو بہت ہوتی ہے لیکن باہم انحصار بہت کم ہوتا ہے لیکن شادی میں محبت ہو نہ ہو باہم انحصار بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے دوستوں کی شخصیت ایک دوسرے سے منفرد اور مختلف ہو سکتی ہے لیکن تعلقاتِ زن و شو میں اس سے مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک اور بات ہے۔ ڈاکٹر نائک بولے۔ رشتۂ ازدواج میں ایک دوسرے سے توقعات بہت زیادہ وابستہ ہوتے ہیں اور اسی کے باعث مایوسی کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے۔ دوستی میں توقعات کی کمی کے باعث ایسا نہیں ہوتا۔
اویناش نے کہا۔ ڈاکٹر صاحب یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن اب ہم کیا کریں؟ ہم خوش رہنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر نائک نے کہا۔ اس حالت میں تو آپ لوگ خوش نہیں رہ سکتے۔
سنتوش نے پوچھا۔ لیکن صاحب اس حالت کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ کون قصور وار ہے؟
ڈاکٹر نائک مسکرائے اور انہوں نے کہا۔ انفرادی طور سے تم چاروں کی کوئی غلطی نہیں ہے تم سب ٹھیک ٹھاک ہو نہ تم میں کوئی کمی ہے نہ خامی مگر تمہارا جوڑ درست نہیں ہے۔
دونوں نے ایک ساتھ پوچھا۔ کیا مطلب؟
نائک بولے۔ تم لوگ گاڑی چلاتے ہی ہو گے۔ اس لیے ایک مثال کے ذریعہ میں یہ بات تمہیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ ایک شخص اپنی گاڑی کی رفتار طے کرنے کا حق اپنے پاس ضرور رکھتا ہے لیکن اسے اپنی رفتار کے لحاظ سے ٹریک کا انتخاب کرنا چاہئے۔ اگر دھیمی رفتار سے چلنے والا فاسٹ ٹریک پر گاڑی چلائے تو اسے پیچھے والے کے دباؤ کا شکار ہونا پڑتا ہے اور اسی طرح اگر تیز چلانے والا دھیمی ٹریک پر گاڑی چلائے تو اگلے کی رفتار پر جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتا ہے۔ یہ دونوں حضرات دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں حالانکہ قصور ان کا اپنا ہوتا ہے۔
لیکن ڈاکٹر صاحب آپ نے کہا تھا ہر شخص کو اپنی رفتار کے تعین کا اختیار ہے۔
جی ہاں میں نے کہا تھا۔ ڈاکٹر نائک بولے۔ لیکن یہ بھی کہا تھا کہ ہر شخص کو اپنی رفتار کے مطابق ٹریک کا انتخاب بھی کرنا چاہئے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
اویناش پھر بولا۔ ڈاکٹر صاحب۔ وہ تو ٹھیک ہے لیکن ہم کیا کریں اب تو ہم اس ٹریک پر آ ہی چکے ہیں۔
ٹھیک ہے ڈاکٹر نائک نے کہا۔ آپ لوگ اپنی رفتار بدل دیجئے۔
ہم اپنی رفتار بدل دیں۔ سنتوش نے تعجب سے پوچھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ تو بہت مشکل ہے۔
ڈاکٹر نائک بولے۔ بہت خوب تمہیں اپنی مشکل کا احساس ہے لیکن دوسروں کی نہیں جو چیز تمہارے لیے مشکل ہے وہ کسی اور کے لیے کیسے آسان ہو سکتی ہے؟
اویناش نے کہا۔ لیکن میں نے کہیں پڑھا تھا محبت ہر مشکل کو آسان کر دیتی ہے۔ اگر ہماری بیویوں کے دلوں میں ہمارے لیے محبت ہے تو ان کے لیے کوئی دقت نہیں ہونی چاہئے۔
ڈاکٹر نائک بولے۔ اویناش تمہاری یہ دلیل تو بڑی جاندار ہے۔ تمہیں سائنسداں کے بجائے سیاستداں ہونا چاہئے تھا۔ میں پوچھتا ہوں اگراسی منطق کے مطابق تمہارے دل میں ان کے لیے محبت ہے تو تمہیں بھی کوئی مشکل نہیں ہونی چاہئے۔ اب چونکہ تمہارے لیے مشکل ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ محبت نہیں ہے اور جب تمہارے دلوں میں ان کے لیے محبت نہیں ہے تو ان کے دلوں میں تمہارے لیے محبت کیسے ہو سکتی ہے؟ اس لیے کہ محبت ہی تو ایک ایسا جذبہ ہے جس کا رد عمل بالکل یکساں اور برابر ہوتا ہے۔
سنتوش بگڑ گیا۔ ڈاکٹر صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ آپ کا مطلب ہے ہم لوگوں کے اندر ایک دوسرے کے لیے جذبہ الفت نہیں ہے اور اگر ایسا ہے تو کیا ہے؟
ڈاکٹر نائک بولے۔ سنتوش اطمینان رکھو حقائق کبھی کبھار تلخ ہوتے ہیں لیکن ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ محبت اور حکومت میں بہت معمولی سا فرق ہے۔
اویناش اور سنتوش نے ایک ساتھ سوال کیا۔ وہ کیا؟؟
ڈاکٹر نائک بولے محبت میں حبیب اپنے محبوب کی مرضی میں ڈھل جانا چاہتا ہے اور حکومت میں حاکم اپنے محکوم پر مرضی چلانا چاہتا ہے۔ اب تم لوگ خود ہی فیصلہ کر سکتے ہو کہ تمہارے درمیان الفت ہے یا سیاست۔
لیکن ایک درمیانی شکل بھی تو ہوتی ہے مصالحت کی جس میں دونوں فریق اپنے اندر جزوی تبدیلی لائیں۔ کیا اسے آپ محبت نہیں کہیں گے۔ سنتوش نے پوچھا۔
نہیں۔ ڈاکٹر نائک بولے۔ وہ تو تجارت ہے اس لیے کہ ایسا کرنے کے بعد پھر حساب کتاب ہوتا ہے جس نے اپنے اندر کم تبدیلی برپا کی وہ اپنے آپ کو فائدے میں سمجھتا ہے اور جس کو زیادہ تبدیلی لانی پڑی وہ سمجھتا ہے کہ اس کا خسارہ ہو گیا۔
لیکن انسان ہر ایک کی مرضی کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال تو نہیں سکتا تو سب سے محبت کیسے کر سکتا ہے۔؟
ڈاکٹر نائک بولے۔ تمہاری بات درست ہے انسان کو اختیار ہے کہ کس سے محبت کرے کس سے نہ کرے لیکن وہ جس کسی سے محبت کرے گا اس کے تئیں یہی رویہ اختیار کرنا ہو گا جس کا میں نے ابھی ذکر کیا۔ انسان کو اس کی بھی آزادی ہے کس پر حکومت کرے لیکن وہ جس کسی پر حکومت کرے گا اس کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرے گا جیسا کہ میں بت اچکا ہوں۔
دونوں خاموش ہو گئے پھر اویناش نے پوچھا۔ ڈاکٹر صاحب ایک بات بتائیے۔ حکومت میں محکوم حاکم پر اپنی مرضی چلانا نہیں چاہتا لیکن یہاں دونوں ایک دوسرے پر اپنی مرضی چلانا چاہتے ہیں؟
اس کی وجہ یہ ہے۔ ڈاکٹر نائک نے کہا۔ شوہر تو اس لیے چلانا چاہتا ہے کہ وہ شوہر کی حیثیت سے اپنے آپ کو بیوی کا آقا سمجھتا ہے اور بیوی اس خوف سے اس پر اپنی مرضی چلاتی ہے کہ کہیں یہ کسی اور کا محکوم نہ ہو جائے۔ اس لیے اسے اپنا تابع اور فرمانبردار بنا کر رکھنا چاہتی ہے۔ ویسے دونوں کے اندر رشتہ چونکہ محبت کے بجائے ضرورت کا ہوتا ہے اس لیے اگر ضرورت پوری ہوتی ہے تو رشتہ خوشگوار رہتا ہے اور جب وہ پوری نہیں ہوتی تو رشتوں میں تلخی آ جاتی ہے۔
لیکن ہم تو اپنی بیویوں کی ساری ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔ سنتوش نے کہا۔
ڈاکٹر نائک بولے۔ عام طور پر مادی ضرورتوں کو ہی سب کچھ سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ احساسات و جذبات کو مادی ضروریات پر فوقیت حاصل ہے۔
ٹھیک ہے ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری نفسیات ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ہم اسے بدل نہیں سکتے۔ سنتوش نے کہا۔ اس لیے آپ کوئی متبادل بتلائیں۔
ڈاکٹر صاحب بولے۔ متبادل تو یہ ہے کہ اگر تم اپنی رفتار نہیں بدل سکتے ہو تو ٹریک بدل دو یہ سہل تر ہے۔
ڈاکٹر نائک کا جملہ دونوں پر ایٹم بم کی طرح گرا۔ ان دونوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ دونوں سکتے میں آ گئے۔ کافی دیر خاموش رہے۔ اویناش نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا۔ بات تو شاید معقول ہے لیکن …اور رک گیا۔
ڈاکٹر صاحب نے پوچھا۔ لیکن کیا؟
لیکن میں پہل کرنے کی جرأت اپنے اندر نہیں پاتا۔
سنتوش نے بھی فوراً تائید کی۔
ڈاکٹر نائک بولے۔ آپ لوگ فکر نہ کریں میں ان کو سمجھانے کی کوشش کروں گا۔
دونوں نے بیک وقت کہا۔ یہ ٹھیک ہے۔ اس کے بعد دہ عجیب بیم و رجا کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے۔ انہیں اپنی منزل سامنے دکھلائی دیتی تھی لیکن درمیان میں بہت بڑی کھائی تھی انہیں یقین تھا آکانشا اور شانتی اس تجویز کو سن کر بپھر جائیں گی اور ایسا کبھی بھی نہ ہو سکے گا۔ ڈاکٹر نائک سے آئندہ ملاقات کا وقت لے کروہ واپس ہوئے۔ دیر تک ساتھ ساتھ چلتے رہے لیکن ایک لفظ نہ کہا۔ عجیب و غریب حالت تھی۔ ان کی زبانیں گنگ ہو گئی تھیں۔ ذہن سن ہو گئے تھے وہ لوگ رو بوٹ کی طرح چل رہے تھے۔ گاڑیوں کے قریب آ کر دو بے جان ہاتھ ایک دوسرے سے ملے اور جدا ہو گئے۔
دو روز بعد ڈاکٹر نائک سے ملنے وہ دونوں دوست اپنی اپنی اہلیہ کے ساتھ پہنچ گئے۔ ڈاکٹر نائک نے پہلے ہر ایک سے علیحدہ علیحدہ گفتگو کی اور پھر شانتی اور آکانشا کو ساتھ بلا کر گفت و شنید کی۔ خلاف توقع ان دونوں خواتین کی جانب سے اس طرح کے سوالات کی بوچھار نہیں ہوئی جیسے اویناش اور سنتوش کرتے رہے تھے۔ تجویز کو سننے کے بعد تھوڑے سے شش و پنج کے بعد آکانشا نے پوچھا۔
بات تو معقول ہے لیکن … اور وہ رک گئی۔
ڈاکٹر نائک نے کہا۔ میں نے ان دونوں کو سمجھا دیا ہے۔
شانتی بولی۔ لیکن بچے؟
ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ ویسے تو بچہ اپنے باپ کا ہے اور اس کی جائداد کا وارث ہے لیکن فی الحال آپ لوگ اس مسئلہ کو اس طرح حل کر سکتے ہیں کہ انہیں سے پوچھ لیں کہ وہ ماں کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا باپ کے ساتھ۔ بچہ جس کے ساتھ رہنا چاہتا ہو عارضی طور پر اس کے ساتھ رہنے دیا جائے۔
آکانشا اور شانتی جب ڈاکٹر نائک کے کمرے سے انتظار گاہ میں آئیں تو دیکھا دونوں دوست گم سم احساس شکست کے گہرے سمندر میں غوطہ زن ہیں۔ کنکھیوں سے شانتی کو دیکھ کر مسکرانے کے بعد آکانشا بولی۔
ہیلو ایوری باڈی۔ یہ کیا تم لوگ تو ایسے بیٹھے ہو جیسے آپریشن تھیٹر سے ہماری لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ کیوں کیا بات ہے؟
اویناش بولا۔ نہیں نہیں کچھ نہیں۔ وہ تو بس یونہی ہم لوگ، کچھ نہیں کچھ بھی نہیں۔
شانتی نے اویناش کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا چلو اویناش وکاس اسکول کے باہر ہمارا انتظار کر رہا ہو گا۔ میں نے اسے میک ڈونالڈ لے جانے کا وعدہ کیا تھا۔
ہاں ہاں۔ اویناش بولا۔ میں تو بھول ہی گیا تھا۔
شانتی بولی۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ تمہیں یہ سب کب یاد رہتا ہے۔ اچھا آکانشا چلتے ہیں۔ ہمیں دیر ہو رہی ہے۔
ان دونوں کے چلے جانے کے بعد سنتوش بوجھل قدموں سے اٹھا اور آہستہ سے گاڑی کی جانب بڑھا۔ وہ خاموش تھا اور کافی دیر خاموش رہا۔ جب گھر قریب آ گیا تو اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ ڈاکٹر نائک نے کچھ کہا تو نہیں؟
آکانشا نے کہا۔ کیسی بات کرتے ہو سنتوش ڈاکٹر نائک سے ہم ملنے جائیں اور وہ کچھ نہ کہیں۔ اگر ایسا ہونے لگے تو انہیں فیس کون دے گا؟
سنتوش نے کہا۔ ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن انہوں نے کچھ ایسا ویسا تو نہیں کہہ دیا۔
نہیں سنتوش۔ وہ اتنے بڑے ماہر نفسیات ہیں وہ ایسی ویسی بات کیسے کہہ سکتے ہیں۔ وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہئے۔ آکانشا کے اس جملے نے سنتوش کے ہوش اُڑا دیئے۔
ایک ہفتہ کے اندر بچوں سے رائے معلوم کر لی گئی۔ اویناش کے وکاس نے ماں کے ساتھ رہنا پسند کیا اور سنتوش کے سبھاش نے باپ کے ساتھ۔ اس طرح دونوں بچے ایک ساتھ ہو گئے۔ سنتوش نے پہلی مرتبہ طلاق کے کاغذات تیار کیے اور وہ بھی اپنے اور اپنے جگری دوست اویناش کے۔ اسی کے ساتھ شادی کے کاغذات بھی تیار کر لیے۔ جس دن ان کی طلاق کے کاغذ جمع ہوئے اسی دن طلاق نافذ ہو گئی اور شادی بھی رجسٹر ہو گئی۔
دوسرے دن اخبار میں خبر چھپی ڈاکٹر اویناش کھانولکر نے آکانشا بھاٹیا کے ساتھ شادی کر لی۔ کئی لوگوں نے اس کی سابقہ بیوی شانتی کے بارے میں لکھا اور اس پر ہونے والی نا انصافی پر غم و غصہ کا اظہار بھی کیا۔ لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ شانتی نے بھی شانتی پورک زندگی کا نیا سفرسنتوش، وکاس اور سبھاش کے ساتھ شروع کر دیا ہے۔
٭٭٭