کبوتر خانہ نامی گاؤں اس کے باشندوں کے بجائے کبوتروں کے لئے مشہور تھا۔ باوجود اس کے کہ یہ ایک مضحکہ خیز نام تھا لیکن اس گاؤں کے لوگوں کو اپنے کبوتروں پر اس قدر فخر و ناز تھا کہ وہ اسے اپنے لیے باعث صد افتخار سمجھتے تھے۔ یہ کاشتکاروں کی بستی تھی۔ یہاں کے عوام کا پیشہ زراعت اور مشغلہ کبوتر بازی تھا۔ صبح سویرے یہ لوگ اپنے کھیتوں کی جانب نکل جاتے اور شام میں واپس آ کر کبوتر بازی میں غرق ہو جاتے۔
گاؤں میں ایک چھوٹی سی ویران و پشیمان مسجد بھی تھی۔ اس لیے کہ نماز فجر کے وقت گاؤں کے لوگ نیند کی آغوش میں ہوتے۔ نمازِ ظہر کی اذان ان کے دور دراز کھتیوں تک نہ پہنچ پاتی۔ نماز عصر کا وقت راستے میں گذرتا۔ مغرب اور عشاء کبوتروں کے غٹر غوں کی نذر ہو جاتی۔ برسوں سے یہی معمول تھا۔ کبوتر خانے والے اس نظام الاوقات پر اس قدر راضی برضا تھے کہ انہیں اس میں کچھ بھی عجیب نہ لگتا تھا۔
نہایت وضعدار شخصیت کے حامل چودھری عنایت حسین گاؤں کے سرپنچ تھے۔ وسیع و عریض کھیتوں کے مالک چودھری صاحب کے باڑے میں کبوتروں کی سب سے زیادہ تعداد تھی۔ ان کے بغل میں اسلم کا گھر تھا۔ اسلم بھی کبوتروں کا بڑا شوقین تھا۔ کھیتی کے کام سے جیسے ہی فرصت پاتا جنگلوں کی جانب نکل جاتا اور وہاں نئے کبوتر پکڑنے میں جٹ جاتا۔ جنگلی کبوتروں کو پھانسنے اور انہیں سدھانے کے فن میں وہ بڑی مہارت رکھتا تھا۔
ایک دن اسلم نے دیکھا جنگل میں ایک سرخ کبوتروں کا جوڑا دانا چگ رہا ہے۔ گاؤں میں لوگوں کے پاس بھانت بھانت کے کبوتر تھے لیکن سرخ کبوتر کسی کے پاس نہیں تھے۔ جب اسلم نے ان کبوتروں کو پکڑنے کی کوشش کی تو وہ اُڑ گئے لیکن دور افق پر اُڑتے ہوئے یہ کبوتر اسلم کے اعصاب پر سوار ہو گئے۔ اس نے ارادہ کر لیا کہ وہ ہر صورت انہیں حاصل کر کے رہے گا۔ اب دیگر کبوتروں سے اسلم کی دلچسپی کم ہو گئی تھی۔ اس کی نظریں صرف اس سرخ کبوتر کے جوڑے کو تلاش کرتی رہتیں جو کبھی نظر ہی نہ آتے تھے۔
ایک عرصہ گذر جانے کے بعد پھر ایک بار پہلے والے مقام پر اسلم نے انہیں دیکھ لیا اس کی مایوسی امید میں بدل گئی۔ بڑی چالاکی سے اس بار وہ انہیں اپنے دام میں گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اپنی اس کامیابی پر اسلم کا دل بلّیوں اچھل رہا تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے قارون کا خزانہ اس کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ دنیا کی ہر نعمت کی کمیت تقابل سے طے ہوتی ہے۔ جو شئے جس قدر کمیاب ہو اس کی قدر و قیمت اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔
کبوتر خانہ گاؤں میں (جہاں انسانوں کا تشخص کبوتروں سے وابستہ تھا )سرخ کبوتر چونکہ صرف اور صرف اسلم کے پاس تھے اس لیے وہ اپنے آپ کو اپنی بستی کا بے تاج بادشاہ سمجھنے لگا تھا۔ چند گھنٹوں کے اندر سرخ کبوتروں کے چرچے زبان زد عام ہو گئے۔ لوگ آآ کر ان کبوتروں کو دیکھتے اور رشک و حسد کے جذبات سینے میں دبائے واپس ہوتے۔ اسلم بہت جلد انہیں کو سدھانے میں کامیاب ہو گیا۔ اب وہ انہیں فضاؤں میں کھلا چھوڑ دیتا اور یہ سرخ کبوتر آسمان میں اسلم کی عظمت و شہرت کا جھنڈا بلند کرتے پھرتے تھے۔
ان سرخ کبوتروں کے سبب بوڑھے دادا عمرو کے علاوہ اسلم کے سارے گھر والے بہت خوش تھے۔ عمرو نے اسلم سے کہہ رکھا تھا۔ دیکھ اسلم یہ سرخ کبوتر وفا شعار نہیں ہوتے۔ ان کو نہ سدھا۔ ان سے اپنا دل نہ لگا یہ کسی بھی وقت اُڑ جائیں گے۔
اسلم نے کہا۔ کوئی بات نہیں جب اُڑ جائیں گے تب اُڑ جائیں گے لیکن اس وقت تک تو ہماری شان بڑھائیں گے۔
دادا عمرو نے سمجھایا۔ نہیں بیٹے یہ اس قدر آسان نہیں ہے۔ اگر یہ کل کسی اور کے باڑے میں چلے جائیں تو؟
اسلم نے کہا۔ کوئی بات نہیں ان کی مرضی اور اس کا مقدر۔
دادا عمرو نے پھر کہا۔ بیٹے اسلم یہ اتنا آسان نہیں ہے۔
اسلم نے کندھے اچکائے اور دادا عمر و کودلاسہ دینے لگا۔ آپ بلاوجہ کے اندیشوں میں گرفتار ہو رہے ہیں۔ ایک تو یہ جائیں گے نہیں۔ ہمارے باڑے سے آج تک کوئی کبوتر کہیں نہیں گیا۔ ہماری شفقت اور محبت کا بندھن انہیں کبھی بے وفائی کی اجازت نہیں دیتا اور پھر اگر چلے بھی گئے تو … یہ کہہ کر اسلم رک گیا۔
عمرو دادا بولے۔ اسلم آگے بول رک کیوں گیا؟
اسلم نے بات آگے بڑھائی۔ جی ہاں اگر چلے بھی گئے تو ان کی مرضی۔
اسلم دوسرے کبوتروں کی بات اور ہے میں تو ان سرخ کبوتروں کی بات کر رہا ہوں جو صرف تمہارے پاس ہیں۔
اسلم سوال کی اس وضاحت سے کچھ پریشان سا ہو گیا۔ لیکن پھر کندھے اچکاتے ہوئے بولا۔ ان کی مرضی اور اس کا مقدر۔
عمرو دادا نے پھر کہا۔ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔
وقت کا پنچھی گردش لیل و نہار سے بے پرواہ مسلسل اُڑا جا رہا تھا۔ وہ نہ تھکتا تھا اور نہ رکتا تھا۔ ایک روز اسلم حسب معمول شام میں اپنے کبوتروں کو دانہ ڈال رہا تھا۔ ایک ایک کر کے کبوتر واپس آتے وہ ان میں سے ہر ایک کو پیار سے ہاتھوں میں اٹھا لیتا، پچکارتا اور پھر ڈربے میں بند کر دیتا۔ رات کے سائے لمبے ہو گئے۔ کبوتروں کی آمد کا سلسلہ بند ہو گیا لیکن اسلم ہنوز انتظار میں تھا۔ سرخ کبوتروں کا جوڑا واپس نہ لوٹا تھا۔
اسلم جانتا تھا کہ اتنی رات گئے کبوتر نہیں لوٹتے لیکن اس کا دل مانتا نہ تھا۔ ذہن و دل کی اس کشمکش میں بار بار عمرو دادا کے الفاظ ’یہ اتنا آسان نہیں ہے‘ اس کے کانوں میں گونجتے رہے۔ وہ یوں ہی بیٹھا رہا۔ ان سرخ کبوتروں کے بارے میں سوچتا رہا۔ رات آنکھوں میں کٹ گئی۔ نیند کا ایک لمحہ بھی نصیب نہ ہوا۔ صبح سویرے اپنا غم غلط کرنے کیلئے وہ بغیر ناشتہ کیے کھیتوں کی جانب نکل گیا۔ کھیت میں بھی اس کا دل نہ لگا تو وہ جنگل چلا گیا۔
اسلم کے قدم اپنے آپ اسی مقام پر پہنچ گئے جہاں اس نے پہلی بار ان سرخ کبوتروں کو دیکھا تھا اور دوسری بار ان کو پکڑا تھا۔ وہ اس امید میں وہاں پہنچا کہ آج پھر وہ انہیں دیکھے گا۔ آج انہیں پکڑنے کے لیے اسے جال ڈالنے کی ضرورت نہ پڑے گی۔ وہ بس پچکارے گا اور دونوں کبوتر آہستہ آہستہ اس کی جانب آ جائیں گے بلکہ چونکہ اس نے کل سے انہیں نہیں دیکھا ہے اس لئے فرط مسرت میں اُڑ کر اس تک پہنچ جائیں گے اور اس کی آغوش میں سما جائیں گے لیکن یہ سب اسلم کی خام خیالی تھی۔ فی الحال اس کے پاس سرخ کبوتروں کی آرزو تھی اور ان کے کھو جانے کا ملال تھا۔ کبوتر نہ تھے۔
اسلم دیر تک وہاں بیٹھا رہا، سوچتا رہا کہاں چلے گئے اس کے کبوتر؟ اسے ایسا لگ رہا تھا اس کا جہان لٹ گیا ہے۔ اسلم نے اپنے آپ کو بہلایا کہ شاید راستہ بھول گئے ہوں گے۔ آج شام لوٹ آئیں گے یا ہو سکتا ہے دن میں لوٹ آئے ہوں۔ وہ کسی بھی طرح اپنے آپ کو یہ بات سمجھا نہیں پا رہا تھا کہ اس نے کبوتر گنوا دیئے ہیں اور وہ اب اس کے پاس کبھی لوٹ کے نہیں آئیں گے۔ کبوتروں کے لوٹ آنے کا خیال اسے شام سے پہلے گھر لے آیا۔ ابھی دوسرے کبوتر اُڑنے کی تیاری میں تھے لیکن اس کی نظریں سرخ کبوتروں کو ڈھونڈ رہی تھیں جو کل سے لوٹے نہ تھے۔ اس نے سوچا شاید شام ڈھلے دوسرے کبوتروں کے ساتھ وہ لوٹ آئیں گے لیکن وہ شام میں بھی نہیں لوٹے۔
اسلم کو جب اس کے دوست اکرم نے بتایا کہ سرخ کبوتر چودھری عنایت حسین کے کبوتروں میں شامل ہو گئے ہیں تو پہلے اسے یقین نہیں آیا لیکن جب اکرم نے کہا کہ اس نے خود اپنی آنکھوں سے سرخ کبوتروں کو چودھری عنایت حسین کے یہاں دیکھا ہے تو اسلم کے پاس مان لینے کے سوا کوئی اور چارہ کار نہ رہا۔
دوسرے دن اسلم بذاتِ خود چودھری صاحب کی حویلی میں جا پہنچا۔ سلام دعا کے بعد اس نے چودھری صاحب سے کہا۔ میں اپنے سرخ کبوتر لینے آیا ہوں۔
اسلم کی بات سن کر چودھری صاحب مسکرائے انہوں نے کہا۔ اسلم یہ کبوتر اپنی مرضی سے آئے ہیں ہمارے گاؤں کی یہ روایت ہے کہ ہم کبوتروں پر اپنی مرضی نہیں تھوپتے۔
اسلم نے کہا۔ جی ہاں چودھری صاحب آپ بجا فرماتے ہیں لیکن یہ ضابطہ عام کبوتروں کے لئے ہے۔ میں ان سرخ کبوتروں کی بات کر رہا ہوں جو صرف میرے پاس ہیں۔
چودھری صاحب نے کہا۔ دیکھو بیٹے کبوتر تو کبوتر ہے اس میں عام و خاص کی تفریق کیسی؟ ویسے یہ کبوتر اب تمہارے پاس ہیں نہیں! تھے۔ اب یہ تمہارے بجائے میرے پاس ہیں کیا سمجھے؟
چودھری صاحب یہ میرے کبوتر ہیں اور انہیں میں اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا۔
دیکھو اسلم بچے نہ بنو۔ یہ کبوتر نہ میرے ہیں اور نہ تمہارے۔ یہ تو بس اپنی مرضی سے ہمارے پاس آ کر رہتے ہیں۔ اب کسی کے پاس رہنے بسنے سے کوئی کسی کا تھوڑے ہی ہو جاتا ہے۔ چودھری صاحب نے ٹھہر کر فلسفیانہ انداز میں کہا ہاں دل میں بسنے سے ہو جاتا ہے لیکن بسنے والا نہیں بلکہ بسانے والا۔
یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں چودھری صاحب اسلم نے سوال کیا
وہی جو تم سن رہے ہو برخورداراسلم، جب تک ان کی مرضی تھی یہ تمہارے ساتھ تھے اور جب تک ان کی مرضی ہو گی یہ ہمارے ساتھ رہیں گے یہ اپنی مرضی کے مختار ہیں۔
لیکن چودھری صاحب آپ میری بات سمجھنے کی کوشش کریں میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتا اس لیے انہیں ہر قیمت پر اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔
کیا زور زبردستی کر کے لے جاؤ گے؟ چودھری نے پوچھا۔
ہاں زور زبردستی کر کے لے جاؤں گا۔ اسلم نے زور دے کر کہا۔
چودھری صاحب بولے۔ تم بلاوجہ جذباتی ہو رہے ہو۔ میں نہ تو خود زور زبردستی کرنے کا قائل ہوں اور نہ زور زبردستی برداشت کرتا ہوں یا اس کی اجازت دیتا ہوں۔ یہ روایت چونکہ ہمارے گاؤں میں تسلیم شدہ ہے اس لیے کوئی بھی تمہارا ساتھ نہ دے گا۔ تم چاہو تو پنچایت بلو الو۔ میں اس مقدمہ میں سرپنچ کے عہدہ سے دستبردار ہو کر صرف مدعا الیہ بن جاؤں گا۔ مجھے یقین ہے کہ فیصلہ اتفاق رائے سے میرے ہی حق میں ہو گا بلکہ میرے کیا ان سرخ کبوتروں کے حق میں ہو گا جنہوں نے میرے باڑے میں آ کر رہنا پسند کر لیا ہے۔
اسلم غصہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور یہ کہہ کر نکل گیا کہ اب فیصلہ پنچایت میں ہو گا۔ لیکن بعد میں اسے لوگوں نے سمجھایا کہ ایسا مقدمہ دائر کرنے سے کیا حاصل جس کا فیصلہ یقیناً اس کے خلاف ہو گا۔ بالآخر پنچایت سے ایک روز قبل اسلم نے مقدمہ واپس لے لیا۔ دادا عمرو کی بات سچ ثابت ہو گئی۔ وفا شعاری اعتماد و محبت بڑھاتی ہے اور بے وفائی بدامنی اور انتشار کو جنم دیتی ہے۔ سرخ کبوتروں نے یہی کیا تھا۔ چودھری عنایت اور اسلم کی برسوں پرانی ہم سائے گی و دوستی میں بال ڈال دیا تھا۔
وقت کا مرہم ہر زخم کو بھر دیتا ہے۔ آہستہ آہستہ اسلم کے زخم بھی بھر گئے وہ بھول گیا کہ اس نے کبھی سرخ کبوتروں کا شکار کیا تھا وہ کبھی اس کے صحن میں رہتے بستے تھے۔ ان کے باعث سارا گاؤں اس کو رشک کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ ان باتوں کو فراموش کر کے وہ اپنے معمول کے کاموں میں لگ گیا تھا کہ ایک دن اچانک کیا دیکھتا ہے شام میں اس کے کبوتروں سے قبل وہی سرخ کبوتر اس کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ تھوڑی دیر تک اسلم کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ اسے اس بات پر غصہ بھی آ یا کہ وہ اسے چھوڑ کر کیوں چلے گئے تھے لیکن کبوتروں کی آنکھوں میں ندامت اور احساس جرم کو دیکھ کر اس کا دل پسیج گیا۔
اسلم نے دوڑ کر دونوں کبوتروں کو ہاتھوں میں لے لیا اور انہیں چومنے لگا ایک لمحہ میں سارے گلے شکوے دور ہو چکے تھے۔ وہ پھر ایک بار کبوتر خانہ گاؤں کا بادشاہ بن گیا تھا۔ ان کبوتروں نے پھر اس کا سر فخر و ناز سے بلند کر دیا تھا۔ آج اس کی خوشی کا عالم اس دن سے بھی زیادہ تھا جب پہلی بار وہ اس کبوتر کے جوڑے کو اپنے گھر لایا تھا۔ کسی چیز کی قدر و قیمت کا احساس اسے گنوانے کے بعد ہی ہوتا ہے۔ لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ انسان کسی شئے کو گنوائے اور پھر پالے۔ اسلم اپنی خوش نصیبی پر پھولا نہیں سمارہا تھا۔
چودھری عنایت حسین کو پتہ چل گیا۔ سرخ کبوتر دوبارہ اسلم کے پاس لوٹ چکے ہیں۔ اس بات کا انہیں اس قدر صدمہ ہوا کہ وہ اپنی اس تقریر کو بھول گئے جو انہوں نے کبھی اسلم کو سمجھانے کے لیے کی تھی۔ دوسرے دن انہوں نے اسلم کو اپنی حویلی بلا بھیجا۔ اسلم سمجھ گیا اسے کیوں بلایا جا رہا ہے۔ وہ نہایت اعتماد کے ساتھ حویلی پہنچا۔ دیر تک دونوں خاموشی سے چائے پیتے رہے۔ اس کے بعد چودھری عنایت حسین نے اپنے پر وقار انداز میں کہا۔
اسلم تم تو جانتے ہی ہو کہ میں نے تمہیں کیوں بلایا ہے؟
اسلم نے کہا۔ جی ہاں چودھری صاحب۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں لیکن اس سلسلے میں آپ کو اپنی ہی ایک بات یاد دلانا چاہتا ہوں اور ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔
چودھری صاحب نے کہا۔ بولو۔
اسلم نے کہا۔ پہلے آپ کی بات کہ آپ نہ زور زبردستی کرتے ہیں نہ برداشت کرتے ہیں اور نہ اس کی اجازت دیتے ہیں اور میری گذارش کہ آپ پنچایت بلوا لیں۔ سرپنچ کے عہدے پر قائم رہیں مجھے یقین ہے کہ ایک رائے کے علم الرغم اکثریت کی رائے سے فیصلہ میرے حق میں ہو جائے گا۔ اس لیے کہ یہ ہمارے گاؤں کی تسلیم شدہ روایت ہے اور کوئی بھی آپ کا ساتھ نہیں دے گا۔
چودھری عنایت حسین عرصہ دراز سے سرپنچ کے عہدے پر فائز تھے انہوں نے بے شمار تنازعات سلجھائے تھے لیکن ان کا اپنا مقدمہ آج تک پنچوں کے سامنے پیش نہ ہوا تھا اور اب اگر ہوتا بھی تو ان کی شکست یقینی تھی۔ اس احساس سے ان کا دل ڈوبنے لگا۔ حالانکہ اس مسئلہ کا آسان سا حل یہ تھا کہ وہ ان کبوتروں کی محبت اپنے قلب سے نکال دیتے مگر وہ ایسا نہ کر سکے یہاں تک کہ ان کے دل کی دھڑکن بند ہو گئی۔ یکبارگی اسلم کو ایسا لگا کہ اس نے کبوتروں کی خاطر اپنے دیرینہ دوست کو موت کے گھاٹ اُتار دیا ہے لیکن سرخ کبوتر کو پا لینے کی خوشی اس احساس جرم پر غالب آ گئی۔
چودھری عنایت حسین کی موت کے بعد ایک نیا تنازعہ پیدا ہو گیا کہ آخر سر پنچ کسے بنایا جائے؟ باقی ماندہ پنچوں میں سے ہر ایک اس عہدہ کا دعویدار تھا۔ وہ پنچایت جو لوگوں کے جھگڑے چکاتی تھی خود اپنے جھگڑے میں اُلجھ گئی تھی۔ کافی دنوں تک اس معاملہ میں تعطل رہا بالآخر یہ طے ہوا کہ کبوتر خانہ گاؤں کے سرپنچ کا تعین کبوتروں کی تعداد پر ہو۔ گویا معیار حق کبوتروں کی حمایت ٹھہری۔ جس کے پاس سب سے زیادہ کبوتر ہوں گے وہی سرپنچ ہو گا۔ چاہے وہ سابقہ پنچایت کا رکن ہو یا نہ ہو۔ دو ہفتہ بعد کی ایک تاریخ طے کی گئی جس دن سب لوگوں کو پنچایت میں اپنے کبوتروں کی گنتی کرانے کیلئے حاضر ہونا تھا۔
اسلم نے پوچھا۔ کیا میرے سرخ کبوتروں کا شمار بھی عام کبوتروں جیسا ہو گا؟ اس سوال سے سب سناٹے میں آ گئے لیکن چونکہ اسلم کے علاوہ تمام فیصلہ کرنے والے سرخ کبوتروں سے محروم تھے اس لیے فیصلہ ہوا کہ کبوتر، کبوتر ہے سرخ ہو یا سفید ہر کبوتر ایک کبوتر شمار کیا جائے گا۔
اس فیصلہ کے بعد گاؤں میں ایک کہرام مچ گیا۔ ہر کوئی اپنے کبوتروں کی تعداد بڑھانے میں لگ گیا۔ ہر ایک دوسرے کے کبوتروں کو رجھانے میں مصروف تھا۔ کھیتی باڑی کا کام تقریباً ٹھپ ہو گیا تھا۔ دوسروں کے کبوتر اپنے باڑے میں شامل کرنے کی سعی جب نقطۂ عروج پر پہنچ کے بے اثر ہو گئی تو دوسرے کے کبوتروں کو بھگانے کی کوششیں ہونے لگیں۔ اس لیے کہ اوپر جانے کے لیے خود اوپر جانا ضروری نہیں ہے۔ اگر دوسرے کی ٹانگ کھینچ کر اسے نیچے لے آیا جائے تب بھی کام ہو جاتا ہے۔ دوسروں کے کبوتروں میں غلطاں لوگ خود اپنے کبوتروں سے غافل ہو گئے جس سے غیروں کو ان پر ہاتھ صاف کرنے کا موقع مل گیا۔ بہرحال جنون کا نصف ماہ بھی گذر گیا۔ ان پندرہ دنوں میں کبوتر خانہ گاؤں میں وہ سب ہو گیا جو پچھلے پندرہ سالوں میں نہ ہوا تھا لیکن ابھی اصل کھیل باقی تھا۔
پنچایت کی رات ہوا کے جھونکے ایک خاص آواز کے ساتھ تیز تیز چلنے لگے۔ صبح جیسے ہی گاؤں والوں نے اپنے کبوتروں کے ڈربے انہیں پنچایت لے جانے کے لیے کھولے وہ اُڑ اُڑ کر ہوا ہونے لگے۔ گویا وہ اسی کے انتظار میں تھے۔ کبوتروں کا یہ رویہ ان کے معمول کے خلاف تھا اس لیے کہ وہ عام طور سے ڈربہ سے باہر نکلنے کے بعد کچھ سستاتے پر جھاڑتے پھر دانہ چگتے اور اس کے بعد پرواز بھرتے لیکن آج وہ نہ سستائے اور نہ انہوں نے دانے کی جانب دیکھا۔ دیکھتے دیکھتے کبوتر خانہ گاؤں کے سارے کبوتر رفو چکر ہو چکے تھے۔
گاؤں والے پریشان تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ ان لوگوں کو کبوتروں کی اس قدر فکر تھی کہ وہ تیز سے تیز تر چلنے والے ہوا کے تھپیڑوں سے یکسر غافل ہو گئے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ گھروں کی چھت بھی آندھی اُڑائے لیے جا رہی ہے۔ پیڑ اُکھڑنے لگے ہیں، دیواریں گرنے لگی ہیں تو انہیں ہوش آیا۔ ہوا کے جھکڑ اس قدر تیز تھے کہ گاؤں والے بھی تنکوں کی طرح ہواؤں کے دوش پر اُڑے جا رہے تھے۔ کبوتروں کی مانند، پروں سے محروم، ہوا میں تیرنے یا اپنا توازن قائم رکھنے سے قاصر۔
خالق کائنات نے انہیں دور دراز کی مٹی سے بنایا تھا۔ ہوا انہیں ان دور دراز کے مقام تک اُڑا کر لے جاتی اور ان کی اپنی مٹی کے پاس پٹخ دیتی۔ وہ اس پر گرتے اوراس میں رل مل جاتے۔
جب آندھی رکی تو کبوتر خانہ گاؤں میں نہ کبوتر تھے اور نہ کبوتر باز تھے!
٭٭٭