ہمالیہ کی ترائی میں واقع کالنگ پونگ کے ویران سرکاری دوا خانے میں صرف تین نفر آباد تھے۔ ایک نو وارد ڈاکٹر انتخاب عالم، دوسرا ان کا بوڑھا کمپاؤنڈر بہارالاسلام اور تیسری اس کی جوان بیٹی چمیلی۔ چمیلی کا دماغی توازن بگڑا ہوا تھا۔ ڈاکٹر انتخاب چونکہ ماہر نفسیات بھی تھے اس لئے علاج کر سکتے تھے مگر چمیلی کے ماضی سے متعلق معلومات کے بغیر یہ نا ممکن تھا۔ جب انہیں پتہ چلا کہ جھمرو چاچا چمیلی کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں تو انہوں نے جھمرو کو بلا کر سوال کیا آپ مجھے چمیلی کے متعلق وہ سب بتائیں جو آپ جانتے ہیں تاکہ میں اس کا علاج کر سکوں۔ اس سوال کے جواب میں جھمرو کچھ دیر ہوا میں دیکھتا رہا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اپنی بات کہاں سے شروع کرے۔ اس کے بعد وہ یوں گویا ہوا۔
ڈاکٹر صاحب! دس سال قبل پہلی مرتبہ میں نے بہارالاسلام کے ساتھ ننھی منی معصوم سی کلی کو دیکھا تو پوچھا بیٹی جھمرو چاچا کو اپنا نام بتاؤ .
وہ بولی چمپا چمیلی۔
میں نے پوچھا چمپا یا چمیلی؟
دونوں
دونوں وہ کیسے؟
اس نے معصومیت بھرے انداز میں جواب دیا چمپا کا رنگ چمیلی کی خوشبو۔
اچھا۔ تجھے کیسے پتہ چلا؟ میں نے حیرت سے سوال کیا۔
وہ بولی۔ خود ہی۔ مجھے خود ہی پتہ ہے۔ مجھے سب پتہ ہوتا ہے۔
یہ ننھی سی جان چمیلی تھی۔ بہارالاسلام اسے انگلی پکڑا کر بازار لاتے اور میرے پاس چھوڑ جاتے۔ وہ مجھ سے باتیں کرتی رہتی یہاں تک کہ بہارالاسلام اپنا کام ختم کر کے لوٹتے اور اسے اپنے ساتھ واپس لے جاتے یہ ہم تینوں کا معمول تھا۔ ہر ہفتہ بازار کے دن ہماری ملاقات ہوتی چمیلی ہفتہ بھر کی باتیں مجھے سناتی۔ اس کے گھر میں کوئی نہیں تھا جس سے وہ دل کھول کر باتیں کر سکتی تھی اور جو اس کے من کی بات بچہ بن کر سن سکتا تھا۔ کوئی پاس پڑوس نہیں تھا۔ بہارالاسلام تھے تو اس کے پاس لیکن والد سے ایک فاصلہ ہوتا ہے۔
چمیلی میرے ساتھ کھل کر باتیں کرتی اور اپنے دل کی ساری باتیں کہہ دیتی تھی۔ وہ مجھے اپنا چچا، اپنا دوست، اپنا ہمدرد اور غم خوار سب سمجھتی تھی اس لئے اپنی خوشیاں اور غم میرے ساتھ بانٹا کرتی۔ ہم لوگ اس قدر گھل مل گئے تھے کہ بغیر بتائے بھی میں اس کا ذہن پڑھ لیتا تھا۔ وقت گذرتا گیا چمیلی نے بچپن سے جوانی کی دہلیز میں قدم رکھ دیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ملیشیا سے اقوام متحدہ کے زیر نگرانی عالمی صحت عامہ کے ایک پروجکٹ کے سلسلے میں ڈاکٹر سوژالی کا تقرر اس گاؤں کے دوا خانے میں ہوا تھا۔
سوژالی؟ انتخاب نے سوال کیا۔
جھمرو بولا جی ہاں شاید اس کے والدین نے اس کا نام سوزعلی رکھا ہو گا لیکن مقامی لب و لہجے نے اسے سوژالی بنا دیا تھا۔
ڈاکٹر انتخاب عالم کے لئے سوژالی کا تقرر حیرت انگیز تھا۔ اس نے پوچھا لیکن جھمرو زبان کا کیا؟ تم لوگوں کی زبان تو بنگلہ سے بھی مختلف ہے اور وہ ملایا بولنے والا شخص۔ مریض اور معالج کے درمیان ترسیل کا مسئلہ کیسے حل ہوتا تھا؟
جناب آپ نے خود ہی اپنے سوال کا جواب دے دیا۔ ہمارے یہاں آنے والے بنگالی اہلکار بھی ہماری زبان ٹھیک سے سمجھ نہیں پاتے ہمارا پہاڑی لہجہ اسے اور زیادہ مشکل بنا دیتا ہے سوژالی کے اندر پائی جانے والی خدمت خلق کی شدید تڑپ، کوشش اور جذبہ عمل اس مشکل کا حل بن گیا۔
لیکن پھر بھی؟ انتخاب کے خدشات ہنوز تشنہ تھے۔
ڈاکٹر صاحب در اصل کام کرنے والے کو بات کی ضرورت کم ہی پڑتی ہے۔ باتوں پر تو مجھ جیسوں کا گذارا ہوتا ہے جو کوئی کام نہیں کرتے۔ بہارالاسلام چائے کی طشتری اپنے ہاتھوں میں لئے کھڑا تھا۔ جھمرو نے آگر بڑھ کر اس کے بوجھ کو ہلکا کیا۔ اور کیتلی سے چائے انڈیلنے لگا۔ بہارالاسلام دروازے کی طرف بڑھا تو انتخاب نے کہا ’بابا‘۔
جھمرو بولا بھئی یہ میری طرح نہیں ہیں ان کو بہت سارے کام کرنے ہیں۔
بہار بولے یہ ٹھیک کہتا ہے۔
انتخاب نے کہا اچھا شکریہ۔
بہارالاسلام زہے نصیب کہہ کر نکل گئے۔ انہیں تعجب ہو رہا تھا کہ انتخاب عالم نے ابھی تک جھمرو کو اپنے پاس سے بھگایا کیوں نہیں؟
چائے کی چسکی لیتے ہوئے انتخاب عالم نے پوچھا وہ تو ٹھیک ہے لیکن وہ بیماری کی تشخیص کیسے کرتا تھا؟
جیسے آپ کسی بچہ کی بیماری جان لیتے ہیں جو ابھی بولنا نہیں جانتا۔ درد کی اپنی بین الاقوامی زبان ہوتی ہے جسے ہر کوئی سمجھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ اس پر کان دھرے۔
انتخاب عالم نے کہا جھمرو! تمہاری ہر بات معقول اوردرست معلوم ہوتی ہے۔
شکریہ جناب میں آپ کی قدر شناسی کی داد دیتا ہوں خیر۔ دیکھتے دیکھتے یہ دوا خانہ آباد ہو گیا دور دراز سے مریض یہاں آنے لگے اور شفا یاب ہو کر جانے لگے۔ دواؤں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی اقوام متحدہ کی جانب سے لاری میں بھر کر دوائیں آتی تھیں اور کھپ جاتی تھیں۔ بہارالاسلام کی مصروفیت کافی بڑھ گئی تھی گاؤں کے کچھ نوجوانوں نے بھی رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کر دی تھیں۔ ڈاکٹر سوژالی کے اخلاق و کردار نے لوگوں کے اندر خدمت کا داعیہ پیدا کر دیا تھا۔
اس دوران بہارالاسلام کے اس باغ کی دیکھ ریکھ چمیلی کرنے لگی تھی۔ ویسے تو وہ اپنے گھر کی تمام ذمہ داریاں ادا کرتی لیکن اس کا سب سے پہلا کام ہوتا تھا کہ صبح صبح باغ سے کچھ تازہ پھولوں کو چنے اور انہیں لے جا کر سوژالی کی میز پر سجادے۔ سوژالی کا تقرر چونکہ محدود مدت کیلئے ہوا تھا اس لئے جب اس کے قیام کا دورانیہ خاتمہ کے قریب پہنچا تو بہارالاسلام نے سوچا اس کے جانے سے قبل چمیلی کے ہاتھ پیلے کر دیئے جائیں۔ بہارالاسلام کی خواہش تھی کہ اس مبارک تقریب میں سوژالی بھی موجود ہو۔ اس درمیان مصروفیت کے باعث چمیلی کا اپنے جھمرو چاچا سے رابطہ منقطع سا ہو گیا تھا۔
ایک دن اچانک خلافِ توقع بہارالاسلام میرے کے پاس آئے میں معمول کے مطابق کچھ لوگوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ بہارالاسلام خاموش بیٹھے رہے یہاں تک کہ سب لوگ اٹھ کر چلے گئے۔ بہارالاسلام نے کبھی ایسا انتظار نہیں کیا تھا۔ میں سمجھ گیا کوئی خاص بات ہے۔ میں نے پوچھا کہیے محترم آپ پچھلے دو گھنٹہ سے خاموش اس حقیر کی محفل میں بیٹھے ہوئے ہیں آج سورج مشرق کے بجائے ۰۰۰۰۰۰۰۰
بہارالاسلام نے درمیان میں ٹوک دیا اور کہا جھمرو آج میں تم سے ایک نہایت سنجیدہ مسئلہ پر مشورہ کرنے کے لئے آیا ہوں۔
جھمرو نے مسکرا کر اپنا تکیہ کلام دہرا دیا زہے نصیب۔
ایک ماہ بعد سوژالی واپس جانے والا ہے میں چاہتا ہوں کہ اس کے جانے سے قبل چمیلی کی شادی ہو جائے۔ اس لئے کہ اس کے بغیر تقریب میں مزا نہیں آئے گا۔
جھمرو نے جواب دیا ارے تقریب میں وہ کیسے نہ ہو گا؟ میں تو کہتا ہوں کہ اس کے بغیر یہ تقریب ہی کیوں کر منعقد ہو گی۔
بہارالاسلام کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا۔ وہ بولے کیا بکتے ہو۔
کچھ نہیں جھمرو بولا تم اپنی بات کرو۔
میرے پاس چمیلی کیلئے دو پیغامات ہیں۔ ایک مشہور عالم دین کا بیٹا منظور عالم جو حلوائی کی دوکان چلاتا ہے اور دوسرا شیخ نصیب کا بیٹا شیخ حبیب جو شہر میں ملازمت کرتا ہے تمہارا کیا خیال ہے؟
جھمرو نے بیزاری سے پوچھا میری چھوڑو اپنی بتاؤ؟
در اصل اس دنیا میں میرا چمیلی کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے اس لئے میں سوچتا ہوں کہ بظاہر شیخ حبیب بہتر ہے لیکن وہ اسے اپنے ساتھ شہر لے جائے گا اور ہم باپ بیٹی ایک دوسرے سے دور ہو جائیں گے۔ منظور عالم رہتا تو یہیں ہے لیکن چمیلی کی طبیعت میں نفاست بہت ہے اور دن بھر منظور عالم کے آس پاس مکھیاں بھنبھناتی رہتی ہیں۔ کون جانے ان متضاد شخصیات کا نباہ ہو سکے گایا نہیں؟
جھمرو نے بہار کی باتوں کو غور سے سننے کے بعد کہا بھائی بہار اگر آپ برا نہ مانیں تو میں آپ کو ایک تیسرا مشورہ دینا چاہتا ہوں۔
وہ کیا؟ بہارالاسلام نے از راہِ تجسس پوچھا
آپ چمیلی کا بیاہ سوژالی سے کر دیں۔
سوژالی سے؟ تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہے۔
کیوں اس میں کیا خرابی ہے؟
میرا مطلب تھا کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی۔
جھمرو بولا تم نے صحیح کہا تم سوژالی کے سامنے گنگو تیلی ضرور ہو لیکن چمیلی۔ چمیلی نہیں۔ میں چمیلی کو بچپن سے جانتا ہوں۔ اور سوژالی کو اس عرصہ میں کافی کچھ جان گیا ہوں مجھ کو پتہ نہیں کیوں ایسا لگتا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے بنے ہیں۔ میرا دل یہ کہتا ہے کہ قدرت نے سوژالی کو چمیلی کے لئے اس دور دراز مقام پر بھیجا ہے ان کا نکاح قدرت کا فیصلہ ہے جو ٹل نہیں سکتا۔
بہارالاسلام سکتہ میں آ گئے انہوں نے کہا جھمرو تم یہ اپنے دل سے کہہ رہے ہو یا ان دونوں میں سے کسی نے تمہیں یہ بات بتائی ہے۔
جھمرو بولا ان میں سے کسی کے ساتھ میری اس مسئلہ پر بات نہیں ہوئی لیکن یہ میرے دل کی آواز ہے بہار بھائی۔ اور میں زبان کا جھوٹا ضرور ہوں لیکن دل کا سچا ہوں۔
بہار الاسلام نے کہا جھمرو تمہارے پاس دل نہیں ایک پتھر ہے کالا پتھر۔ ورنہ یہ بات تمہارے دل میں کبھی نہیں آتی میں اپنی بیٹی کو شہر بھیجنے سے ہچکچا رہا ہوں اور تم چاہتے ہو کہ وہ پردیس چلی جائے۔ ایک ایسے دیس جس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ وہاں کے لوگوں کے بارے میں نہیں جانتا۔ جھمرو کاش کہ تمہارے پاس باپ کا دل ہوتا!
جھمرو بولا بہار بھائی میں آپ کے جذبات سمجھتا ہوں اور دل آزاری کیلئے معافی چاہتا ہوں لیکن پھر بھی ایک گذارش ہے۔ یقیناً آپ اس ملک کے بارے میں نہیں جانتے ہیں اور وہاں کے لوگوں کے بابت آپکی معلومات بہت کم ہے لیکن میں آپ سے یہ کب کہہ رہا ہوں کہ آپ چمیلی کو وہاں تنہا روانہ کر دیں۔
جھمرو نے اپنی بات جاری رکھی آپ سوژالی کو جانتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ سوژالی کو شیخ حبیب اور منظور عالم سے زیادہ جانتے ہیں۔ جو شخص ہم جیسے غیروں کے ساتھ اس قدر اچھا برتاؤ کرتا ہے تو کیا وہ اپنے ملک میں اپنوں کے ساتھ خراب رویہ اختیار کرتا ہو گا؟ اور کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس کی مقبولیت اس کے اپنے شہر میں یہاں سے کم ہو گی؟ کیا وہ اپنے لوگوں میں یہاں سے زیادہ ہردلعزیز نہیں ہو گا؟ یقیناً ہو گا بہار بھائی یقیناً ہو گا۔ یقین جانئے وہ دن دور نہیں جب اس کو حاصل تمام توقیر و احترام اپنے آپ چمیلی کے قدموں میں آ جائے گا۔ جھمرو کا انداز ایسا تھا گویا چمیلی اور سوژالی کا نکاح ہو چکا ہے۔
لیکن کیا وہ دونوں اس پر راضی ہو جائیں گے؟ نادانستہ طور پر بہار کی زبان سے یہ جملہ نکل گیا خودبہارالاسلام اپنے ہی سوال پر چونک پڑا۔
جھمرو نے جواب دیا اگر تم منا سب سمجھو اور مجھے اجازت دو تو میں ان دونوں کی رائے معلوم کر کے تمہیں بتلا دوں۔
بہار الاسلام خاموش ہو گئے دیر تک خاموش رہے اور پھر بولے جھمرو تمہاری تجویز کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کی جرأت میں فی الحال اپنے اندر نہیں پاتا۔ اس لئے تمہیں اس وقت اجازت نہیں دے سکتا۔ اگر یہ بات میری سمجھ میں آ گئی تو میں تمہارا تعاون لوں گا ورنہ تم یہ سمجھ لینا کہ تمہیں اجازت نہیں ہے۔
جھمرو کیلئے بہارالاسلام کے تذبذب کو سمجھنا مشکل نہیں تھا وہ آخر ایک باپ تھا جس نے ماں کی طرح اپنی بیٹی کو پال پوس کر بڑا کیا تھا۔ لیکن پھر بھی اسے یقین تھا کہ وہ چند دنوں کے بعد آ کر رجوع کرے گا اور بصد شوق اجازت بھی دے گا۔ جھمرو کو نہ جانے کیوں اطمینان تھا کہ سوژالی اور چمیلی دونوں اس تجویز کو قبول کر لیں گے اور چمیلی کو اپنی دلہن بنا کرسوژالی دور گگن کی چھاؤں میں لے جائے گا۔
انتخاب عالم نے چونک کر پوچھا کیا مطلب؟
جھمرو بولا میرا مطلب یہ ہے کہ سوژالی، چمیلی کو اپنے ساتھ کوالالمپور لے جائے گا۔
جھمرو کے بیان نے انتخاب عالم کا تجسس بام عروج پر پہنچا دیا تھا۔ چمیلی کے بارے میں اس کے حتمی سوال کا جواب دہلیز پر کھڑا دستک دے رہا تھا۔ وہ بولا پھر؟ پھر کیا ہوا؟؟؟
جھمرو نے تاسف بھرے انداز میں جواب دیا پھر وہی ہوا ڈاکٹر صاحب جو نہیں ہونا چاہئے تھا۔ میرے تمام اندازے ایک ایک کر کے غلط ثابت ہو گئے۔
انتخاب نے حیرت کے ساتھ پوچھا۔ ک۰۰۰ک۰۰۰کیا؟
جی ہاں ڈاکٹر صاحب اپنی ذات سے متعلق میری تمام خوش فہمیاں ملیامیٹ ہو گئیں۔ مجھے اچانک محسوس ہوا کہ میں جو اپنے آپ کو نہایت عقلمند آدمی سمجھتا ہوں دنیا کا سب سے بڑا بے وقوف انسان ہوں۔
ایسا کیوں ہوا؟ کیسے ہو گیا یہ سب؟؟؟ انتخاب نے سوال کیا۔
چند دنوں کے بعد مجھے کسی اور کے ذریعہ اطلاع ملی کہ اگلے ہفتہ بازار کے دن چمیلی کا نکاح منظور عالم سے طے ہو گیا ہے۔ مجھے اس پر کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ میں غمگین ہو گیا حالانکہ بظاہر اس کی کوئی وجہ نہیں تھی ہر کوئی مسرور تھا۔ مشہور عالم کا پورا خاندان بشمول منظور عالم اس قدر خوش تھا کہ مٹھائی میں نمک اور نمکین میں شکر ڈال دیتا تھا۔ بہارالاسلام، چمیلی اور سوژالی گویا اس کائنات میں جھمرو کے علاوہ ہر کوئی شادمان تھا۔
نکاح کے دن دو گواہوں کے ساتھ بہار الاسلام نے مجھے وکیل بنایا اور ہم تینوں چمیلی سے اجازت لینے کی خاطر اس کمرے میں پہنچے یہ حسنِ اتفاق ہے ڈاکٹر صاحب کہ آج جبکہ میں پہلی مرتبہ چمیلی کی کہانی دوہرا رہا ہوں یہ وہی کمرہ ہے جس میں چمیلی کو اپنی چنندہ سہیلیوں کے ساتھ اس منحوس دن بٹھایا گیا تھا؟
ڈاکٹر انتخاب عالم نے حیرت سے پوچھا منحوس دن! !
جی ہاں ڈاکٹر صاحب میری زندگی کا سب سے منحوس دن۔ ہم لوگ آ کر بیٹھے۔ میں قاضی کے رجسٹر میں وہ صفحہ تلاش کرنے لگاجس میں چمیلی کی حامی کے بعد اس کے دستخط لینے تھے۔ اس روز نہ جانے کیوں میری قینچی کی طرح چلنے والی زبان گنگ ہو گئی تھی میں چمیلی سے اجازت کے لئے الفاظ تلاش کر رہا تھا کہ چمیلی کی وہ سہیلی جو کھڑکی میں کھڑی تھی اچانک جھکی اور چمیلی کے کان میں کچھ کہا۔ چمیلی نے جیسے ہی وہ بات سنی وہ اپنی جگہ پر کھڑی ہو گئی اور چیخنے چلانے لگی۔ ن۰۰۰ہ۰۰۰۰ی۰۰۰۰۰۰۰۰ں ۰۰۰۰ نہیں۔ نہیں وہ مر نہیں سکتا۔ سوژالی مر نہیں سکتا۔ سوژالی مر نہیں سکتا۔ وہ کسی صورت نہیں مر سکتا! !
دونوں گواہ اور دیگر سہیلیاں چونک گئیں۔ ہر کوئی حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہا تھا لیکن مجھے کوئی تعجب نہیں تھا۔ میں نے کھڑکی سے جھانکنے والی لڑکی سے پوچھا۔ کیا واقعی سوژالی نے چھلانگ لگا دی۔
وہ بولی۔ جی ہاں میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ وہ بغل والے کمرے کی کھڑکی میں آیا۔ کچھ دیر خلاء میں دیکھتا رہا اور پھر کھڑکی سے سیدھا کھائی میں کود گیا۔
میں کہا انا للہ وانا الیہ راجعون۔ محفل میں ہنگامہ برپا ہو گیا لوگ طرح طرح کی باتیں بناتے ہوئے لوٹ گئے۔ سوژالی خودکشی کر چکا تھا اور چمیلی پاگل ہو گئی تھی۔ لوگ جو باتیں بنا رہے تھے ان کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں تھا۔
انتخاب عالم نے پوچھا۔ پھر؟ پھر اس کے بعد کیا ہوا؟
جھمرو بول اپھر کیا گھڑی کی نبض رک گئی۔ وقت کی رفتار ٹھہر گئی دوا خانہ بند ہو گیا۔ مگر ایک معجزہ رونما ہو گیا۔
وہ کیا؟ یہ انتخاب عالم کا آخری سوال تھا
پاگل چمیلی نے دوسری صبح حسب معمول سوژالی کے لئے پھول چنے اور انہیں سجانے کے لئے بغل والے کمرے میں لے آئی جو سوژالی کا دوا خانہ تھا۔ اس نے انہیں حسبِ سابق سجا دیا پھر اگلے دن وہ نئے پھول لے آئی انہیں بھی سجادیا۔ یہ سلسلہ جاری رہا ہر روز وہ پھول لاتی اور سجا جاتی لیکن وہ پھول تھے کہ مرجھاتے نہ تھے اور نہ ان کی خوشبو میں کوئی کمی واقع ہوتی تھی رفتہ رفتہ یہ بات مشہور ہو گئی۔
پہلے گاؤں والے لوگ اور پھر دور دراز سے لوگ ان پھولوں کو دیکھنے کے لئے آنے لگے۔ حیران اور پریشان لوگ قدرت کا یہ عجیب و غریب کرشمہ دیکھ کر لوٹ جاتے تھے لیکن چمیلی وہ تو دیوانی ہو چکی اسے پتہ ہی نہ تھا کہ لوگ کیوں آتے ہیں اور کس بات پر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ لوگوں کی آمدو رفت سے بے نیاز وہ ہر روز اپنا کام کرتی یعنی تازہ پھول چنتی اور انہیں لا کر اس کمرے میں سجادیتی۔
کمرہ جب پھولوں سے بھر گیا تو بہارالاسلام نے جگہ بنانے کی غرض سے کچھ پھول وہاں سے نکال دئیے۔ پھول جیسے ہی کمرے سے باہر آئے سوکھ گئے۔ اس نے انہیں پھینک دیا۔ اب بہار کا معمول یہ تھا کہ ہفتہ میں ایک دن تھوڑے سے پھول نکال کر نئے پھولوں کے لئے جگہ بنا دیتا باقی گلشن کو یونہی مہکتا چھوڑ دیتا۔ بہارالاسلام کے اندر میری بات کے نہ ماننے کا زبردست احساس جرم تھا۔ اس واقعہ کے بعد وہ ہمیشہ مجھ سے نظریں چراتا رہا وہ کبھی بھی میرے پاس نہ آیا۔ آج صبح پہلی بار اس نے مجھ سے ملاقات کی اور بتایا کہ آپ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔
یہ چمتکار انتخاب عالم کے عقل و فہم سے بالاتر تھا۔ وہ بولا کیا میں پھولوں والا کمرہ دیکھ سکتا ہوں۔
کیوں نہیں؟ دونوں بغل والے کمرے کے دروازے پر آ گئے جو بھڑا ہوا تھا۔ جھمرو نے اسے ڈھکیل کر کھول دیا۔ اس کمرے کو دیکھ کر کوئی بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ غیر آباد کمرہ ہے۔ سب کچھ بالکل صاف ستھرا اور تر و تازہ تھا۔ چمیلی ہر زور اس کمرے کو تیار کرتی تھی لیکن معجزہ داہنی دیوار سے لگی لمبی سی میز پر پھولوں کا ڈھیر تھا۔ ترو تازہ پھول ایسے لگتے تھے گویا شاخوں پر کھلے ہوئے ہیں۔ انہیں توڑا بھی نہیں گیا ہے۔ چمیلی کے پاکیزہ پھول جنھیں نہ کسی نے چھوا ہے اور نہ سونگھا ہے۔
انتخاب عالم یہ منظر اگر اپنی آنکھوں سے نہ دیکھتا تو اسے کبھی بھی اس پر یقین نہ آتا۔ اس کے قدم اپنی جگہ جم گئے تھے اس نے مڑ کر جھمرو کو دیکھا تو کیا دیکھتا ہے جھمرو پھولوں کو نہیں کھڑکی کو دیکھ رہا ہے۔ کھڑکی سے نیچے گہری کھائی کو دیکھ رہا ہے۔ کھائی میں بیٹھے سوژالی کو دیکھ رہا ہے۔ سوژالی جس کی محبت سے سراپا وادی مہک رہی تھی۔ بھینی بھینی تازہ خوشبو بالکل ان پھولوں کی طرح جو داہنی جانب میز پر سجے ہوئے تھے۔
کس قدر یکسانیت تھی ان پھولوں کی اور چمیلی کی دیوانگی میں؟ دیوانگی کی اس خوشبو نے موت اور پاگل پن کو مات دے دی تھی۔ جھمرو کی آنکھوں میں دوستارے چمکے ایک کھائی میں گرا اوردوسرا آسمان میں ستارہ بن کر چمکنے لگا۔ وہ پیچھے مڑا اور چپ چاپ بغیر کچھ بولے لوٹ گیا آج پھر جھمرو کی زبان گنگ ہو گئی تھی۔
ڈاکٹر انتخاب عالم اپنے کمرے میں واپس آئے اور بستر پر لیٹ کر چمیلی کا نفسیاتی تجزیہ کرنے لگے اس بیچ بہار الاسلام کھانا لے کر آیا انتخاب عالم نے صرف لسی کا گلاس لیا اور کہا بابا معاف کیجئے میں آج کھانا نہیں کھاؤں گا۔
کیوں؟
بس یونہی۔
میں نہیں سمجھا
یہ جو محنت آپ نے کی ہے رائے گاں نہیں جائے گی۔ میں اسے ناشتہ میں کھالوں گا۔
بہارالاسلام کی سمجھ میں اب بھی کچھ بھی نہیں آیا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ جھمرو بھی موجود ہے۔ انہیں توقع تھی کہ جھمرو جاتے ہوئے ان سے ضرور ملاقات کرے گا اور کان کھائے گا۔ بہار الاسلام نے کہا ٹھیک ہے جناب اور سیدھا بازار کی جانب چل دیا۔ وہ اسی مقام پر پہنچ گیا جہاں صبح جھمرو سے ملاقات ہوئی تھی۔ جھمرو اپنے گدھوں کے آگے چارہ ڈال رہا تھا۔ بہارالاسلام نے سلام کیا۔ کھانا رکھا اور کہا جھمرو یہ تمہاری روٹی ہے۔
جھمرو نے رُکھائی سے جواب دیا شکریہ۔
بہارالاسلام کی سمجھ میں یہ رویہ نہ آیا وہ واپس ہولیا۔ جھمرو نے ساراکھانا گدھوں کے آگے ڈال دیا اور خود چار پائی پر لیٹ گیا۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
چمیلی کا نفسیاتی تجزیہ کرنے کے بعد ڈاکٹر انتخاب عالم اس نتیجے پر پہنچے کہ چمیلی کا علاج اس کے اعترافِ حقیقت میں پوشیدہ ہے۔ جس دن اسے یقین ہو جائے گا سوژالی مر چکا ہے اس کا پاگل پن ختم ہو جائے گا۔ کسی ذی عقل انسان کو موت کا یقین دلانا نہایت آسان کام ہے لیکن جس شخص کا دماغی توازن بگڑ چکا ہو اس کو موت کی حقیقت سے واقف کرانا مشکل ترین ہدف ہے۔
انتخاب عالم کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ اس لئے بڑے غور و خوض کے بعد انہوں نے ایک منصوبہ بنایا جس کے تحت کھڑکی سے نیچے کھائی کے سامنے مسطح زمین پر ایک بینچ رکھوائی گئی۔ بہارالاسلام کو ہدایت کی گئی کہ وہ ہر روز شام کے وقت چمیلی کے ساتھ وہاں بیٹھ کر اس سے باتیں کرے اور ایک آدھ گھنٹے بعد لوٹ آئے۔ اس بینچ میں گاڑی کی سیٹ کی طرح کے پٹے لگے ہوئے تھے۔
بہارالاسلام اس بینچ پر بیٹھنے کے بعد پہلے چمیلی کا پٹہ لگاتے پھر اپنا پٹہ باندھتے۔ چمیلی پوچھتی بابا یہ آپ کیوں کرتے ہیں؟ تو جواب ہوتا بیٹی سامنے گہری کھائی ہے اس لئے حفاظت کے پیش نظر اچھا ہے۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا لیکن پھر بھی بابا کی خاطر پٹہ لگائے بیٹھی رہتی۔ چمیلی کیساتھ وہاں بیٹھ کر بہارالاسلام کو دیر تک باتیں کرتے رہنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ واپسی سے قبل بہار پہلے اپنا پٹہ کھولتے پھر چمیلی کا پٹہ اور دونوں باپ بیٹی لوٹ آتے۔
اس بیچ انتخاب عالم نے سوژالی کا ایک قد آدم گڈا بنوایا جس میں جدید و حساس مائک اور اسپیکر نصب تھے۔ صبح کے وقت چمیلی کی غیر موجودگی میں اس پتلے کو بنچ پر رکھ کر کئی بار آزمایا گیا۔ بہارالاسلام اس کے بغل میں بیٹھ کر جو کچھ کہتے اسے انتخاب عالم اپنے کمرہ میں بیٹھ کر سن لیتا اور وہ اپنے کمرے کے مائک سے وہ جو کچھ بھی کہتا نیچے گڈے میں لگے اسپیکر کی مدد سے بہارالاسلام اسے سن سکتے تھے۔
ہفتوں کی محنت و مشقت کے بعد جب یہ تجربہ مکمل ہوا تو ایک دن چمیلی سے بات چیت کرتے کرتے بہارالاسلام نے کہا بیٹی مجھے ایک کام یاد آ گیا میں تھوڑی دیر بعد آتا ہوں یہ کہہ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر چلے گئے۔ چمیلی وہاں بیٹھی رہی اپنے آپ سے باتیں کرتی رہی۔ انتخاب عالم اس کی زبان سے نکلنے والے ایک ایک لفظ کو اپنے کمرے میں بیٹھ کر سنتا رہا یہ باتیں وہ ریکارڈ بھی کر رہا تھا تاکہ حسبِ ضرورت دوبارہ سنا جا سکے اور چمیلی کا ذہن پڑھنے میں مدد ملے۔ انتخاب عالم کا خیال تھا کہ الفاظ ہی وہ کھڑکیاں اور روشندان ہیں جن کے ذریعہ کسی دماغ کے اندر جھانک کر دیکھا جا سکتا ہے۔ چمیلی کی باتیں بظاہر بے ربط ہوتی تھیں لیکن غور کرنے پر اس میں سے کچھ نہ کچھ مطلب نکل آتا تھا ایک دن وہ اپنے آپ سے پوچھ رہی تھی سوژالی اچانک بغیر بتائے کیوں چلا گیا؟
وہ کب آئے گا؟ ۰۰۰۰۰۰آئے گا بھی نہیں؟ ۰۰۰۰۰ کیا کبھی نہیں؟ ۰۰۰۰۰۰
اور اگر نہیں تو ان پھولوں کا کیا ہو گا؟ ۰۰۰۰۰۰۰جو اس کے انتظار میں مسلسل مہکتے رہتے ہیں؟ ۰۰۰۰۰کیا وہ یونہی مہکتے رہ جائیں گے؟ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰یہ کیسی بہار ہے جو خزاں کی منتظر ہے؟ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰بہار کی طوالت سے بھی طبیعت اوب جاتی ہے۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰وہ تو خزاں ہے جو بہار کی اہمیت کا احساس دلاتی ہے ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ اگر خزاں نہ ہو تو بہار کی ضرورت اور اہمیت سب ختم ہو جائے۔
بہار اور خزاں چمیلی کیساتھ آنکھ مچولی کا کھیل کر رہی تھیں۔ جب سوژالی اس کے چشم تصور میں آتا تو بہار آ جاتی اور جب وہ چلا جاتا تو پھر خزاں کا دور دورہ ہو جاتا لیکن سوژالی کا آنا جانا لگا رہتا تھا اور یہی چمیلی کی دیوانگی کا بنیادی سبب تھا کسی نہ آنے والے کا انتظار انسان کو دیوانہ بنا دیتا ہے۔ اب چمیلی کو تنہا کچھ دیر کے لئے چھوڑ کر آنا اور پھر واپس جا کر اپنے ساتھ لے آنا بہار الاسلام کا معمول بن گیا تھا۔ انتخاب عالم کے سامنے ہر دن چمیلی کے دل کی کتاب ایک نیا صفحہ کھلتا تھا اور وہ اپنے ساتھ پوشیدہ جذبات واحساسات کو بکھیر کر بند جاتا تھا۔
انتخاب عالم اپنے اس مشکل اور پیچیدہ تجربہ سے لطف اندوز ہونے لگا تھا جس میں طبعی عناصر کی کیمیائی تفتیش نہیں بلکہ انسانی ذہن کو جانچا اور پرکھا جا رہا تھا۔ طبی تعلیم کے دوران طلبا کو پہلے لاشوں پر تجربہ کروایا جاتا ہے اور اس کی مدد سے زندہ انسانوں کی جراحت سکھائی جاتی ہے۔ لیکن جو آپریشن انتخاب عالم کر رہا تھا وہ کسی درسی نصاب میں درج نہیں تھا اوراسے کسی نے کسی کو ابھی تک پڑھایا نہیں تھا۔ یہاں پر جو طالب علم تھا وہی خود استادبھی تھا۔ جو سکھاتا بھی تھا اور سیکھتا بھی تھا۔ منصوبے کے مطابق ایک دن بہارالاسلام کے ہٹ جانے کے بعد ان کی جگہ سوژالی کا گڈا رکھ دیا گیا اور اس میں سے دھیمے دھیمے آواز آئی
چمیلی اوے چمیلی۔
چمیلی چونک پڑی۔ وہ بولی کون! کون ہے؟
پھر آواز آئی چمیلی تم نے مجھے نہیں پہچانا میں سوژالی ہوں سوژالی۔
چمیلی سمٹ کر گڈے سے دور ہو کر بیٹھ گئی اور بولی ہاں ہاں کیوں نہیں سوژالی مجھے پتہ ہے تم سوژالی ہو سوژالی۔
اچھا اگر پتہ ہے تو کیوں پوچھ رہی ہو کہ میں کون ہوں؟
چمیلی چہک کر بولی، یونہی بس یونہی۔
چلو کوئی بات نہیں۔ اچھا بتاؤ کہ تم کیسی ہو؟
میں تم سے نہیں بولتی۰۰۰۰ میں سے بات نہیں کروں گی۔
ٹھیک ہے کوئی بات نہیں چمیلی۔
چمیلی منہ پھلا کر بیٹھ گئی گڈا بڑی صفائی سے اٹھا لیا گیا خاموشی چھا گئی۔
چمیلی اس انتظار میں تھی کہ سوژالی اسے منائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کافی دیر کے بعد چمیلی نے کنکھیوں سے اپنے دائیں جانب دیکھا تو وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ ارے سوژالی پھر چلا گیا۔ سوژالی۔ وہ اپنے آپ سے بولی۔ شاید مجھ سے ناراض ہو گیا۔ کیوں کہ میں ناراض ہو گئی مجھے ناراض نہیں ہونا چاہئے تھا۔ چمیلی کی خود کلامی انتخاب عالم سن رہا تھا۔ دیوانگی نے فرزانگی کی جانب پہلا کامیاب قدم بڑھا دیا تھا۔
تھوڑی دیر بعد بہارالاسلام وہاں آئے۔ اس کے پاس میں بیٹھ کر چمیلی سے کہا بیٹی کیسی ہو؟
وہ بولی ویسی ہی ۰۰۰۰۰۰پہلے جیسی۔
کیا مطلب؟ بہارلاسلام نے پوچھا
مطلب پہلے جیسی تنہا۔ تنہا کی تنہا۔
بہارالاسلام چپ ہو گئے کچھ دیر بعد کہا چلو بیٹی اندھیرا ہو چلا ہے۔ چلو چلتے ہیں۔
چمیلی بولی ٹھیک ہے بابا۔
بہارالاسلام نے پہلے اپنا پٹہ کھولا پھر چمیلی کا اور دونوں باپ بیٹی واپس آ گئے اب معمول میں ایک تبدیلی آ گئی تھی بہارالاسلام ہر روز چمیلی کو چھوڑ کر آ جاتے سوژالی کا پتلا رکھ دیا جاتا اور اس پتلے کے توسط سے انتخاب عالم سوژالی بن کر چمیلی سے بات چیت کرتا۔ چمیلی شام ڈھلے اندھیرا ہونے تک سوژالی سے باتیں کرتی رہتی دیوانی جو تھی نہیں جانتی تھی کہ وہ جس سے بات کر رہی ہے وہ سوژالی نہیں بلکہ انتخاب عالم۔
ایک دن جب شام کے سائے لمبے ہو چکے تھے اور اچھا خاصہ اندھیرا چھا گیا تھا انتخاب عالم نے فائر ورکس میں استعمال کی جانے والی بڑی سی پھلجھڑی چھت کے اوپر سے چھوڑی۔ اس سے نکلنے والا بارود آسمان میں جا کر پھٹ پڑا اور ستاروں کی طرح برسنے لگا۔ پھلجھڑی کا رخ اس طرح تھا کہ روشنی کے ستارے آسمان سے کھائی میں گر رہے تھے۔ چمیلی نے انہیں دیکھا تو بچوں کی طرح خوشی سے تالی بجانے لگی۔
انتخاب عالم نے فوراًدوسری پھلجھڑی چھوڑ دی اور پہلی کا سلسلہ بند ہونے سے قبل دوسری سے روشنی کے شرارے برسنے لگے چمیلی نے پوچھا سوژالی یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہ آسمان سے کیا گر رہا ہے یہ روشنی یہ چمک یہ سب کیا ہے؟ کیا یہ ستارے ہیں جو آسمان سے ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے ہیں؟
جی ہاں چمیلی تم تو انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہو۔
اگر ایسا ہے تو کیا آسمان ان کے گرنے سے تاریک ہو جائے گا؟
نہیں چمیلی ایساکبھی نہیں ہو گا آسمان میں بے شمار ستارے ہیں ان میں سے چند کے ٹوٹنے اور گرنے سے آسمان تاریک نہیں ہو جاتا۔
اچھا لیکن آخر یہ گرتے کیوں ہیں؟
یہ! یہ اس لئے گرتے ہیں کہ ان کو چن کر مانگ میں سجایا جا سکے۔
مانگ میں؟
جی ہاں کیا میں ان کو چن کر لاؤں؟
کیوں؟
تاکہ میں انہیں تمہاری مانگ میں سجا سکوں؟
میری مانگ میں؟
جی ہاں چمیلی تمہاری مانگ میں ۰۰۰۰۰۰۰میں تمہاری مانگ ان ستاروں سے بھر دینا چاہتا ہوں۔
آسمان سے روشنی کے شرارے برس رہے تھے انتخاب عالم نے اشارہ کیا اور گڈے کے پیچھے لگے اسپرنگ کا بٹن دبا دیا گیا۔ گڈا بینچ سے اچھل کر کھائی میں جاگر ا۔ آسمان سے ستاروں کا گرنا بند ہو گیا۔ چاروں طرف اندھیرا چھا گیا۔ چمیلی کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا تھا۔ وہ کھائی کو دیکھ رہی تھی گہری کھائی کو جس نے ستاروں کو نگل لیا تھا۔ وہ بھیانک کھائی جو ایک سورج کو بھی نگل چکی تھی۔ اس سورج کو جو اس کی مانگ روشن کرنا چاہتا تھا۔ کھائی کی گہرائی میں اس کی آنکھیں سوژالی کو تلاش کر رہی تھیں۔ موت کے اندھیرے نے سوژالی کو نگل لیا تھا۔ چمیلی نے آگے جھکنے کی کوشش کی بینچ میں لگے کمربند نے اسے جکڑ لیا اس نے پیچھے سر رکھ دیا۔
چمیلی اب آسمان کو دیکھ رہی تھی جس میں بے شمار ستارے چمک رہے تھے لیکن ایک ستارہ جو ٹوٹ کر کھائی میں گر چکا تھا۔ اس کا اپنا سورج سوژالی ان میں نہیں تھا۔ چمیلی کو پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ سوژالی اب کبھی نہ آنے کے لئے جا چکا ہے۔ چمیلی کی آنکھوں سے آنسورواں ہو گئے وہ ٹپک ٹپک کر ستاروں کی مانند وادی میں گرتے اور غائب ہو جاتے بڑی دیر تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ یہاں تک کہ چپ چاپ بہارالاسلام اس کے بغل آ کر بیٹھ گئے۔
طویل خاموشی کے بعد چمیلی بولی وہ نہیں آئے گا۔ وہ اب کبھی بھی نہیں آئے گا۔ دیوانگی کی جگہ ہوشمندی نے لے لی تھی۔ سوژالی کے کمرے کے پھول مرجھا چکے تھے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ ڈاکٹر انتخاب کا تجربہ کامیاب ہو چکا تھا۔
بہار الاسلام نے بینچ کا کمر بند کھولا چمیلی کا ہاتھ پکڑا اور گھر کی جانب چل دیئے وہ بھی لڑکھڑاتی ہوئی ان کے ساتھ چل پڑی اپنے بستر پر لیٹ کر رات بھر روتی رہی صبح تک اس کی آنکھوں کا پانی خشک ہو چکا تھا۔ چمیلی مرجھا چکی تھی یہ خبر جب گاؤں میں پھیلی تو وہ بازار کا دن تھا جھمرو کو پتہ چلا تو وہ چمیلی سے ملنے کی خاطر آیا۔
چمیلی نے اسے دیکھ کر کہا جھمرو چاچا۰۰۰۰۰۰۰ وہ نہیں آئے گا۔ وہ کبھی نہیں آئے گا۔ آنسوؤں کا نیا سیلاب امڈ پڑا۔
جھمرو نے چمیلی کے سرپر ہاتھ پھیرا اور کہا بیٹی۔ آسمان میں بے شمار تارے ہوتے ہیں۔ اگر ایک آدھ ٹوٹ بھی جائے تو اندھیرا نہیں ہوتا۔
چمیلی نے کہا لیکن چاچا میرا تو سورج ٹوٹ کر گر چکا ہے۔ اب میری زندگی میں صرف رات ہی رات رہے گی کبھی صبح نہیں ہو گی۔
جھمرو کو پہلی مرتبہ اگرکسی نے لاجواب کر دیا تھا تو وہ چمیلی تھی!!!
٭٭٭