گجرات اور مدھیہ پردیش کا سرحدی علاقہ قبائلی آبادی پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ آج بھی شہری زندگی سے الگ تھلگ اپنے طریقے سے زندگی گذار رہے ہیں۔ یہ نہ ہندو ہیں نہ مسلم نہ سکھ نہ عیسائی۔ ان کے اپنے رسوم رواج ہیں جن کی بنیاد پر ان کا معاشرتی نظام قائم ہے۔ یہاں شادی بیاہ کا طریقہ بھی دوسرے طور طریقوں کی طرح بالکل اچھوتا ہے۔ ہر سال ساون کے مہینہ میں ایک میلہ لگتا ہے جسے شادی کا میلہ کہا جاتا ہے۔ دور دراز سے شادی کے خواہش مند لڑکے لڑکیاں اس میلے میں آتے ہیں اور اپنے جوڑے کے ساتھ بڑے انوکھے انداز میں اپنی ازدواجی زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔
شادی شدہ عورتیں اس میلے میں بندیا لگا کر آتی ہیں۔ ان کی جانب کوئی نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا۔ جس کنواری لڑکی کو شادی نہیں کرنی ہوتی وہ اس میلے میں نہیں آتی۔ اس لیے جو لڑکیاں میلے میں بغیر بندیا کے ہوتی ہیں ان کے بارے میں یہ بات مان لی جاتی ہے کہ یہ نکاح کی آرزو مند ہیں۔ اب جس کسی لڑکے کو ان میں سے کوئی پسند آ جائے وہ اسے بھرے مجمع سے اٹھا کر لے جاتا ہے۔ یہ گویا اس بات کا اعلان ہو گیا کہ ان کی شادی ہو گئی۔ قبیلہ والے انہیں میاں بیوی کے طور پر تسلیم کر لیتے ہیں۔
اس طرح ہر سال سیکڑوں شادیاں نہایت سادگی کے ساتھ ہو جاتی ہیں۔ اس سال جمنا بائی بھی میلے میں آئی تھی چونکہ وہ کنواری تھی اس لیے اس کے ماتھے پر بندیا نہیں تھی لیکن اس کے باوجود جمنا کا چہرہ چاند سا جگمگا رہا تھا۔ کئی نوجوانوں نے اس کے قریب آنے کی کوشش کی لیکن اس نے منہ پھیر لیا جو اس بات کا اظہار تھا اسے رشتہ منظور نہیں ہے۔ دُرجن کو جب اس نے دیکھا تو دیکھتی ہی رہ گئی۔ درجن کو بھی گویا اپنی منزل مل گئی اور وہ جمنا کو اٹھا کر میلے سے لے گیا۔ درجن سنگھ جب جمنا بائی کے ساتھ اپنے خاندان میں پہنچا تو لوگ بہت خوش ہوئے۔ میلے سے چاند کا ٹکڑا جو اٹھا لایا تھا۔ درجن اور جمنا کی پسند ناپسند ایک دوسرے سے موافق تھی۔ دونوں ہم مزاج تھے اور آپس میں بہت محبت کرتے تھے۔ گاؤں والے اس نوبیاہتا جوڑے کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
اگلے سال جمنا بائی پھر شادی کے میلے میں گئی لیکن اس بار اس کے ماتھے پر بندیا سجی ہوئی تھی۔ وہ اپنی ضرورت اور اپنے شوہر کی پسند کا سامان خرید رہی تھی لیکن گنگا سنگھ کی نگاہیں مسلسل اس کا پیچھا کر رہی تھیں۔ میلے میں بہت ساری خوبصورت کنواری لڑکیاں تھیں لیکن گنگا سنگھ نے کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ وہ دیکھ اسے رہا تھا جسے دیکھنا ممنوع تھا۔ وہ جہاں بھی جاتی گنگا اس کے آس پاس ہوتا۔ در اصل وہ جمنا بائی کو اٹھا کر لے جانے کی تاک میں تھا مگر جمنا اس کے ارادوں سے بے خبر تھی۔
میلے کا تیسرا اور آخری دن تھا بھیڑ بھاڑ چھٹ چکی تھی۔ اکثر شادیاں ہو چکی تھیں۔ دُکانوں کا زیادہ تر مال بک چکا تھا بلکہ دوپہر کے بعد چل چلاؤ کا سماں تھا۔ جمنا اور درجن بھی واپسی کی تیاری کر رہے تھے کہ اچانک گھوڑوں کی ٹاپوں سے میدان گونج اٹھا۔ دُکان والے ڈر گئے۔ اس بار ڈاکو ایسے موقع پر آئے کہ ان کے پاس پچھلے دو دنوں کی خوب جمع پونجی تھی۔ وہ تو نہ صرف مال اور منافع بلکہ اپنی محنت کے بھی لٹ جانے کا انتظار کر رہے تھے لیکن حیرت کی انتہا نہ رہی جب کوئی ڈاکو ان کی دوکان کے قریب نہ آیا۔ بس ایک نقاب پوش جمنا بائی کے پاس آیا اسے اٹھا کر اپنے گھوڑے پر بٹھا لیا۔ ہوا میں ایک ساتھ کئی فائر ہوئے۔ فضا میں ایک نعرہ بلند ہوا۔ سردار گنگا سنگھ کی جئے اور یہ جا وہ جا۔ دیکھتے دیکھتے ڈاکو ہوا ہو گئے۔ پولس کی آمد تک گرد بیٹھ چکی تھی۔
دُکان والے خوشی منا رہے تھے اور درجن سنگھ اپنی قسمت کو رو رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ایک قبائلی بزرگ آگے بڑھا اس نے درجن کو پانی پلایا اور کہا۔
درجن جو کچھ تیرے ساتھ ہوا اس کا ہمیں دکھ ہے اگر کوئی اور ایسا کرتا تو ہم اپنی پنچایت میں اسے سزا دیتے لیکن ڈاکو گنگا سنگھ پر کس کا زور چلے ہے۔ اس سے تو پولس اور حکومت بھی کانپے ہے۔ خیر تو جمنا کو بھول جا۔ اب بھی میلے میں کچھ لڑکیاں باقی ہیں ان میں سے کسی کے ساتھ بیاہ رچا لے اور نیا جیون سروع کر۔
درجن بولا۔ یہ مجھ سے نہیں ہو گا میں جمنا کے بغیر جی نہیں سکتا۔ میں اس کے سوا کسی کے ساتھ زندگی نہیں گذار سکتا۔
بیٹے تیری بات ٹھیک ہے۔ وہ تیری دھرم پتنی تھی لیکن اب نا ہے۔ سمجھ لے کہ وہ پرلوک سدھار گئی اب اسے بھولنے کے سوا تیرے پاس کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔ مان لے کہ وہ دنیا میں نہیں رہی۔ مر گئی تیری جمنا۔
بابا اگر ایسا ہے تو مان لو کے میں بھی مر گیا۔ کر دو میرا انتم سنسکار۔ میں جمنا کے بغیر جی نہیں سکتا۔ ماتم زدہ درجن جمنا کا غم ساتھ لیے واپس آ گیا۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
گنگا سنگھ کی گرفت سے جمنا لاکھ جھپٹنے اور الجھنے کے باوجود آزاد نہ ہو سکی۔ طویل گھاٹیوں سے گذر کر جب گنگا سنگھ اور اس کا ٹولہ اپنے اڈے پر پہنچا تو جمنا کو آزادی نصیب ہوئی۔ گنگا سنگھ نے جیسے ہی اسے نیچے اتارا وہ برس پڑی۔ وہ گنگا سنگھ کو کوسنے اور برا بھلا کہنے لگی۔ گنگا کے نائب گوگا سنگھ نے جمنا کو ڈانٹا۔
بد تمیز لڑکی سردار کو گالیاں دیتی ہے۔ چپ نہیں تو تیری زبان کھینچ لوں گا۔
وہ تڑک کر بولی۔ زبان کیوں پران (جان) کھینچ لو مجھے مار ڈالو۔ اس ذلت کی زندگی سے تو مرنا بہتر ہے۔
گوگا غصہ سے جمنا کی طرف بڑھا لیکن گنگا نے منع کر دیا۔ وہ بولا۔ سنو میرے ساتھیو۔ جمنا ہماری معزز مہمان ہے یہ جو چاہے کرے ہم اس کا جواب نہیں دیں گے۔ ہم اس کا بھرپور خیال رکھیں گے یہ میرا حکم ہے۔
جمنا بولی۔ اتنا ہی خیال ہے تو مجھے لایا کیوں؟ مجھے اپنے درجن کے پاس چھوڑ آ۔
نہیں جمنا یہ نہ ہو گا۔ اس کے سوا جو مانگے گی تیرے سامنے حاضر کر دیا جائے گا۔
مجھے کچھ نہیں چاہئے۔ جمنا نے چلّا کر کہا۔ مجھے تو صرف اور صرف میرا درجن چاہئے۔
ساتھیو اسے چھوڑ دو۔ یہ غصے میں ہے اس کی نگرانی کرو اور اس کی خدمت بجا لاؤ۔ جاؤ تم سب آرام کر سکتے ہو۔ گنگا سنگھ کا گروہ اپنی اپنی آرام گاہ میں چلا گیا۔
دوسرے دن گنگا اور جمنا تنہا ساتھ تھے۔ گنگا نے جمنا سے کہا۔ دیکھو جمنا جس طرح پچھلے سال شادی کے میلے سے درجن تمہیں اٹھا کر لے گیا تھا۔ اسی طرح اس سال میں تمہیں اٹھا کر لے آیا ہوں۔ اس لیے جیسے تم اس کی پتنی بن گئی تھیں اب میری بیوی ہو گئی ہو۔
جمنا نے کہا۔ نہیں گنگا ایسا نہیں ہے۔ گذشتہ سال میں کسی کی بیوی نہیں تھی۔ اس لیے میں درجن کی دھرم پتنی بنی۔ لیکن اس سال میں درجن کی زوجہ تھی اور اس کے بندھن میں ہوتے ہوئے میں کسی اور سے ناطہ کیسے جوڑ سکتی ہوں۔
کیوں نہیں جوڑ سکتیں۔ سمجھ لو کہ اس سے تمہارا بیاہ ٹوٹ گیا۔
نہیں گنگا نہیں۔ بیاہ اس نے میرے ساتھ کیا تھا اس لیے وہی توڑ بھی سکتا ہے۔ میں نہیں توڑ سکتی۔
گنگا نے پوچھا کیوں نہیں توڑ سکتیں تم؟
جمنا نے جواب دیا اس لئے کہ جب تک وہ مجھے اپنے بندھن سے آزاد نہ کر دے میں آزاد نہیں ہو سکتی۔
میں توڑ دوں گا اس بندھن کو۔ گنگا سنگھ نے زور دے کر کہا۔
گنگا جس بندھن کو تم نے باندھا نہیں اس بندھن کو تم کیسے توڑ سکتے ہو؟ یہ تو اسی کا حق ہے کہ اگر چاہے تو اسے توڑ دے اور تم جانتے ہو وہ کبھی بھی ایسا نہیں کرے گا۔
کیوں؟ گنگا نے پوچھا۔
اس لیے کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔
یہ تمہیں کیسے معلوم ہوا؟ گنگا نے پوچھا۔
جمنا بولی۔ مجھے معلوم ہے کیوں کہ میں بھی اس سے بہت محبت کرتی ہوں۔
لیکن جمنا میں بھی تو تم سے محبت کرتا ہوں۔ تم میرے بارے میں کیا سوچتی ہو؟
نہیں تم مجھ سے محبت نہیں کرتے تم مجھے زبردستی اٹھا لائے ہو۔ میں تم سے محبت نہیں نفرت کرتی ہوں۔ یہ کہہ کر جمنا اٹھ کر چلی گئی۔
ایک ہفتہ بعد ایک مرتبہ پھر گنگا اور جمنا ایک ساتھ بیٹھے تو گنگا نے پوچھا۔ جمنا کیا اب بھی تم درجن سے محبت کرتی ہو۔
جمنا بولی۔ ہاں کیوں نہیں بلکہ جب سے تم نے ہمیں جدا کیا ہے میں پہلے سے زیادہ محبت کرنے لگی ہوں۔
اور کیا تم اب بھی مجھ سے نفرت کرتی ہو؟
میں اب تم سے نفرت… یہاں آ کر جمنا رک گئی پھر اس نے کہا۔ نہیں کرتی۔
جمنا تم رک کیوں گئی تھیں۔
در اصل میں سوچ رہی تھی۔
مطلب یہ تمہارا سوچا سمجھا فیصلہ ہے۔
یہی سمجھ لو۔
ٹھیک ہے تمہیں یہاں کوئی تکلیف تو نہیں ہے۔
نہیں۔
کسی چیز کی کمی تو نہیں محسوس ہوتی؟
ہوتی ہے۔
میں سمجھ گیا لیکن میں نہیں پوچھوں گا اس لیے کہ وہ چیز میں لا کر دے نہیں سکتا۔
جمنا نے ہنس کر کہا۔ سمجھدار آدمی ہو۔
گنگا بولا۔ شکریہ!
ایک مہینہ کے بعد گنگا اور جمنا پھر ایک بار ساتھ ہوئے۔ گوگا سنگھ یہ دیکھ کر خوش ہوا اور فوراً شراب کی نئی بوتل کھول کر وہاں لے آیا۔
گنگا نے اسے دیکھا اور کہا۔ یہ کیا! لے جاؤ۔ دیکھ نہیں رہے ہو کون بیٹھا ہے؟
معاف کرنا سرکار۔ گوگا بولا۔ میں چائے لے کر آتا ہوں۔
جمنا نے پوچھا۔ گنگا تم میرا اتنا خیال کیوں رکھتے ہو؟
کیونکہ… کیونکہ تم جانتی ہو جمنا پھر بھی پوچھ رہی ہو۔
جمنا بولی۔ خیر تم سے ایک بات پوچھنا چاہتی ہوں۔
گنگا نے کہا۔ پوچھو۔
تمہیں پتہ ہے اس سال شادی کے میلے میں بہت ساری خوبصورت کنواری لڑکیاں آئی تھیں۔
نہیں میں نہیں جانتا۔ گنگا نے جواب دیا۔
در اصل تم سے تاخیر ہو گئی۔ تم تیسرے دن آئے جب وہ سب بیاہی جا چکی تھیں۔
نہیں جمنا میں تیسرے دن نہیں آیا۔ میں تو پہلے دن سے وہاں تھا۔
اچھا تم پہلے دن سے وہاں تھے اور تم نے کسی کو نہیں دیکھا۔
نہیں جمنا میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ میں تو بس تمہیں دیکھتا رہا۔ میلے میں پہلے دن سے تم کب کب کہاں کہاں گئیں یہ مجھ سے پوچھ لو میں ہر جگہ تمہارے آس پاس تھا۔
اچھا مجھے تو پتہ ہی نہ چلا۔
تمہیں کیسے پتہ چلتا تم تو اپنے آپ میں اور درجن میں کھوئی ہوئی تھیں۔
لیکن تم میرے آس پاس کیا کرتے رہے؟
میں در اصل موقع کی تلاش میں تھا۔
موقع کی تلاش میں؟ کیسا موقع؟
میں تمہیں اپنے ساتھ یہاں لے کر آنے کا موقع ڈھونڈ رہا تھا۔
لیکن تم نے میرے ماتھے پر بندیا نہیں دیکھی۔
دیکھی تھی۔
پھر بھی؟
ہاں پھر بھی۔
کیوں؟
کیوں کا جواب تم جانتی ہو؟
لیکن یہ سب ہوا کیسے؟
جمنا میں تمہیں بتلانا چاہتا تھا لیکن پھر اس لیے نہیں بتایا کہ شاید تم یقین نہ کرو یا کان ہی نہ دھرو۔ اب جب کہ تم نے خود ہی پوچھا ہے تب بھی ممکن ہے وشواس نہ کرو لیکن کم از کم سن تو لو۔
جی ہاں سناؤ اور ہو سکتا ہے وشواس بھی کر لوں۔
خیر اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اس کہانی کی شروعات گذشتہ سال ہوئی۔ ہم لوگ میلے میں لوٹ پاٹ کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے وہاں میری نظر تم پر پڑ گئی۔ تمہارے ماتھے پر اس وقت بندیا نہیں تھی۔ تمہیں دیکھنے کے بعد میں نے ارادہ کر لیا کہ تمہارے ماتھے پر میں بندیا سجاؤں گا۔ میں وہاں سے گہنوں کی دوکان پر گیا اور بندیا خریدی جب میں بندیا لے کر واپس آیا اس وقت تک درجن تمہیں اپنے ساتھ لے جا چکا تھا۔ میں تمہارے بغیر تمہاری بندیا کو اپنے ساتھ لیے واپس آ گیا اور اگلے میلہ کا انتظار کرنے لگا۔ یہ ایک سال ایک صدی سے زیادہ طویل تھا لیکن گذر گیا۔ ساون کی چندرماسی کو میں نے بندیا اپنی جیب میں رکھی اور میلے میں چلا گیا وہاں میرا مقصد صرف تمہیں تلاش کرنا تھا۔
مجھے علم نہیں تھا کہ تم میلے میں آؤ گی یا نہیں لیکن خوش قسمتی سے پہلے ہی دن شام کے وقت میں نے تمہیں دیکھ لیا اور اس کے بعد میں اس تاک میں رہا کہ موقع پاتے ہی تمہیں اغوا کر لوں۔ آخری دن تک جب چپکے سے تمہیں اٹھا کر لانے میں کامیابی نہیں ہوئی تو بالآخر کھلے عام لے کر آنا پڑا۔ پہلے تو میں نے سوچا زبردستی تمہارے ماتھے سے درجن کی بندیا نکال کر پھینک دوں اور اپنی بندیا سجادوں لیکن مجھے لگا کہ ایسا کرنے پر تم ناراض ہو جاؤ گی۔ میں تمہیں ناراض نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے میں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔
اب کیا ارادہ ہے؟ جمنا نے پوچھا۔
اب آرزو یہی ہے کہ تم خود درجن کی بندیا اپنے ماتھے سے نکال کر پھینک دو تب میں اپنی بندیا تمہارے ماتھے پر سجادوں گا۔
جمنا نے پوچھا۔ ورنہ؟
ورنہ اپنی بندیا کو چمبل ندی میں پھینک دوں گا اور خود بھی اس میں کود جاؤں گا۔
گنگا کے اس جملے سے جمنا کانپ اٹھی۔ اسے نہیں پتہ تھا کہ جس ڈاکو گنگا سنگھ کے نام سے سارا علاقہ کانپتا ہے وہ اس قدر لطیف و شدید جذبات کا حامل ہے۔ جمنا اس ایک ماہ میں اس کے اخلاق سے کافی متاثر ہوئی تھی۔ گنگا ہمیشہ ہی جمنا سے دور رہا۔ اس نے کبھی بھی اس پر دست درازی نہیں کی۔
تین ماہ بعد گنگا اور جمنا ایک ساتھ بیٹھے تھے کہ جمنا نے پوچھا۔ گنگا تم ایک روز بندیا کا ذکر کر رہے تھے جو تم نے میرے لیے خریدی تھی۔
ہاں جمنا ہم ڈاکو لوگ چیزیں خریدتے نہیں چھین لیتے ہیں لیکن وہ بندیا میں نے اپنی عادت کے خلاف خریدی تھی۔
میں جانتی ہوں مجھے بھی تو تم نے درجن سے چھین لیا ہے۔ خیر کیا تم مجھے وہ بندیا نہیں دکھاؤ گے؟
ضرور دکھاؤں گا۔ جب خریدی تمہارے لیے ہے تو کیوں نہیں دکھاؤں گا۔ گنگا نے اپنے بٹوے میں ہاتھ ڈالا تو وہ کارتوس سے بھرا ہوا تھا۔
جمنا نے کہا۔ یہ کارتوس بھی تو میرے لیے نہیں خریدے؟ اگر اس کو میرے ماتھے پر سجا دیا تو ہو گیا کام تمام۔
نہیں جمنا بات در اصل یہ ہے کارتوس کئی ہیں اور بندیا صرف ایک ہے۔ اس لیے ملنے میں مشکل ہو رہی ہے۔ یہ کہتے ہوئے گنگا نے بندیا نکال لی۔
بندیا دیکھ کر جمنا دنگ رہ گئی اور بولی۔ یہ تو بہت قیمتی ہیروں سے جڑی بندیا ہے۔
ہاں ہاں جس کے لیے خریدی تھی وہ بھی تو معمولی نہیں نہ ہے۔
لیکن اس کی کیا قیمت ادا کی تم نے؟
گنگا بولا۔ میں نے یہ بندیا دو سو روپیہ میں خریدی ہے۔
کیا؟ درجن نے معمولی سی بندیا پانچ سو میں خریدی اور تمہیں یہ بندیا دوسو میں مل گئی۔
گنگا بولا۔ یہی تو فرق ہے درجن میں اور ہم میں۔ در اصل بات یہ ہے کہ ہم تو گہنے اونے پونے دام میں بیچتے ہیں اسی لیے ہمیں اس کی وہی قیمت معلوم ہوتی ہے۔ میں نے جب اس بندیا کی و ہی قیمت لگائی جس میں مہاجن ہم سے خریدتا ہے تو اس نے ڈانٹ کر کہا دماغ خراب ہے کیا؟ یہ سن کر گوگا آہستہ سے بولا۔ گنگا سنگھ کی جئے ہو۔ مہاجن ہم دونوں کو پہچان گیا۔ اس کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔
اس نے کہا۔ یونہی لے جائیے سرکار۔
میں نے کہا۔ نہیں صحیح قیمت بتاؤ۔
اس نے کہا دوسو روپئے۔ میں نے ادا کئے اور بندیا میری ہو گئی۔
تو یہ کہو کہ ڈرا دھمکا کر لے لی تم نے یہ بندیا۔
نہیں جمنا در اصل ہمارا اور مہاجن کا خاص رشتہ ہے۔ وہ بھی ہم سے کم دام میں مال لیتا ہے اور ہم بھی…
جمنا نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔ اسی دام میں۔
نہیں۔ گنگا بولا۔ اسی دام میں نہیں مفت میں۔ لیکن مفت میں بھی نہیں اپنی جان جوکھم میں ڈال کر لاتے ہیں۔
جمنا بولی۔ لیکن یہ غلط کام ہے۔
گنگا نے جواب دیا۔ ہاں جمنا تمہیں تو ہماری ہر چیز غلط لگتی ہے۔ در اصل مجھ سے بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ میں بندیا کے چکر میں پڑ گیا۔ نہ میں یہ خریدنے جاتا اور نہ درجن تمہیں اپنے ساتھ لے جاتا۔
لیکن قسمت کے لکھے کو کون بدل سکتا ہے۔
گنگا نے کہا۔ تم بدل سکتی ہو۔ تم ہماری قسمت بدل سکتی ہو جمنا۔
نہیں گنگا، میں تمہاری قسمت کیسے بدل سکتی ہوں جب کہ میرے ماتھے پر درجن کی بندیا ہے۔ اب وہ میرا مقدر ہے۔ وہ بدل سکتا ہے میں نہیں بدل سکتی۔
کون بدلے گا یہ تو وقت ہی بتلائے گا۔ میں انتظار کروں گا۔ وقت کے بدلنے کا؟
کب تک انتظار کرو گے گنگا؟
میں اس سال شادی کے میلے تک انتظار کروں گا۔ اگر اس وقت تک تم نے اپنے ماتھے سے درجن کی بندیا نکال پھینکی تو ٹھیک ہے۔
اور اگر نہیں تو؟ جمنا نے پوچھا۔
اگر نہیں تو میں اپنی شکست تسلیم کر لوں گا۔ تمہیں میلے میں درجن کے پاس چھوڑ آؤں گا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ وقت نہیں آئے گا۔
جمنا نے سوچا ٹھیک ہے جس طرح ایک سال گنگا نے انتظار کیا وہ بھی انتظار کرے گی اور درجن بھی انتظار کرے گا۔ اس کے بعد وہ دوبارہ اپنی گھر گرہستی چلائیں گے۔
چھ ماہ کے بعد ایک دن گنگا اور جمنا ایک ساتھ بیٹھے تھے۔ جمنا نے پوچھا۔
گنگا ایک بات بتاؤ تم مزاجاً ڈاکو نہیں لگتے۔ پھر تم نے ڈکیتی کا پیشہ کیسے اپنا لیا؟
گنگا نے کہا۔ تم نے بہت پرانی کہانی چھیڑ دی۔ تم تو جانتی ہی ہو ہمارے علاقے میں لوٹ مار کا عام رواج ہے۔ اسی لیے رات کے وقت اس علاقے سے سواریاں اکیلے نہیں بلکہ کارواں کی شکل میں جاتی ہیں اور اس کے باوجود انہیں لوٹ لیا جاتا ہے۔
ہاں ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن سب لوٹ مار کرنے والے ڈاکو تو نہیں بن جاتے؟
تم نے صحیح کہا جمنا۔ میں بھی ڈاکو نہیں تھا لیکن لوٹ مار کیا کرتا تھا اور تم یہ بھی جانتی ہو کہ ہم لوگ لوٹنے کے بعد لٹنے والوں کی پٹائی بھی کرتے ہیں۔
ہاں ہاں جانتی ہوں۔ جمنا بولی۔ تاکہ ایسا لگے گویا بڑی محنت سے کمائی کی ہے۔
گنگا بولا۔ بالکل درست۔ میں بھی اسی طرح ایک بار ایک لٹنے والے کو پیٹ رہا تھا کہ اچانک وہ ٹھنڈا ہو گیا۔ اس کا دیہانت ہو گیا۔
کیا؟ جمنا سے تعجب سے پوچھا۔ تم نے اسے مار ڈالا؟
نہیں جمنا میرا ارادہ اسے جان سے مارنے کا نہیں تھا۔ ویسے بھی ہر کسی کی موت کا وقت مقر رہے۔ اتفاق اس آدمی کی موت کا وقت آیا تو وہ مجھ سے مار کھا رہا تھا۔
پھر؟ جمنا نے پوچھا۔
پھر کیا تھا جیسے ہی ہم لوگوں کو پتہ چلا وہ مر چکا ہے ہم لوگ گھبرا گئے اور لوٹ کا مال چھوڑ کر وہاں سے فرار ہو گئے۔ میں اپنے دور کے رشتہ دار کے یہاں جا کر چھپ گیا لیکن وہ شاید کوئی بارسوخ آدمی تھا چنانچہ پولس نے سارے علاقہ کی زبردست چھان بین شروع کر دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ جلد ہی مجھے پھانسی ہو جائے گی۔ ہماری طرف سے کوئی وکیل بھی تو نہیں کھڑا ہوتا جو سیاہ کو سفید بنا کر ہمیں چھڑا لے۔
پھر؟ جمنا کی دلچسپی بڑھتی جا رہی تھی۔
پھر کیا۔ میں بھاگ کر چنبل کی گھاٹی میں آ گیا جہاں میری ملاقات گوگا سنگھ کے باپ جگا ڈاکو سے ہو گئی۔ اس نے مجھے اپنے یہاں پناہ دی۔ میں اس کی ٹولی میں شامل ہو گیا اور ڈکیتیوں میں حصہ لینے لگا۔ اپنی دلیری اور نشانے بازی کے باعث میں بہت جلد اپنے گروہ میں معروف ہو گیا۔
ایک مرتبہ پولس مڈبھیڑ میں جگا کو گولی لگی اور وہ مارا گیا۔ اس کے بعد گروہ کا سردار کون بنے اس پر اختلاف ہو گیا۔ کچھ لوگ گوگا سنگھ کو سردار بنانا چاہتے تھے تاکہ اس کی آڑ میں اپنی سرداری چلا سکیں۔ گوگا سنگھ اس وقت بہت چھوٹا تھا اس کی عمر تقریباً گیارہ سال تھی۔ اس کی ماں نے اعلان کر دیا گوگا سنگھ ابھی سرداری کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا اور اپنی رائے میرے حق میں دے دی۔ اس اعلان کے ساتھ ہی میرے حامیوں نے فضا میں گولیاں چلانی شروع کر دیں۔ گنگا سنگھ زندہ باد کے نعرے لگنے لگے اور میں سردار بن گیا۔
لیکن اب تو گوگا سنگھ جوان ہو گیا ہے۔ اب تو وہ سردار بن سکتا ہے۔ جمنا نے پوچھا۔
ہاں جمنا تم صحیح کہتی ہو۔ لیکن ڈاکوؤں کے بھی اپنے اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔ یہاں غداری نہیں ہوتی۔ سردار معز ول نہیں کئے جاتے یا تو وہ مارے جاتے ہیں یا خود اپنی مرضی سے کسی کے حق میں دستبردار ہو جاتے ہیں اور جس کے حق میں دستبردار ہوتے ہیں وہ سردار ہو جاتا ہے۔ گوگا مجھے باپ کی طرح مانتا ہے میرا بے حد احترام کرتا ہے۔
اچھا! جمنا نے پوچھا۔ تو کیوں نہیں تم اس کے حق میں دستبردار ہو جاتے اور اسے سردار بنا دیتے۔ جمنا نے مشورہ دیا۔
جمنا کے منہ سے یہ بات سن کر گنگا کو تعجب ہوا تھا۔ اس لیے کہ اس سے پہلے کسی نے ایسا نہیں کہا تھا۔
گنگا بولا۔ مشورہ تو اچھا ہے لیکن اس کے حق میں دستبردار ہو کر میں کیا کروں گا؟ چنبل کی گھاٹی سے باہر موت کا پھندا میرا انتظار کر رہا ہے۔ اب مجھے یہیں جینا ہے اور یہیں مرنا ہے۔
لیکن میں … میں۔ جمنا نے کہا۔
گنگا نے پوچھا۔ کیا؟
جمنا نے کہا۔ کچھ نہیں۔ در اصل اس کی زبان سے یہ جملہ ادا ہوا چاہتا تھا کہ میں یہاں نہیں رہ سکتی لیکن پھر خیال آیا کہ اسے وہاں کب رہنا تھا؟ وہ تو ساون کی پورنیما کا انتظار کر رہی تھی۔ جب اپنے وعدہ کے مطابق گنگا اسے شادی کے میلے میں لے جا کر چھوڑ دے گا اور وہ درجن کے ساتھ واپس اپنے گھر چلی جائے گی۔ جمنا کو یقین تھا کہ گنگا اپنا وچن نبھائے گا اور اسے اعتماد تھا کہ درجن اسے اپنا لے گا۔ اس کے بعد وہ چوروں کی طرح گھاٹیوں میں نہیں بلکہ ساہوکاروں کی طرح کھیتوں اور کھلیانوں میں اپنی زندگی گذارے گی۔
گھڑی کی سوئیاں اپنے محور میں ہفتوں اور مہینوں کا سفر طے کرتی رہیں۔ لیکن گھڑی جہاں کی تہاں تھمی رہی۔ ساون کا مہینہ اور پورنیما کی رات آ گئی۔ اس دن جمنا نے بڑے اہتمام سے اپنی بندیا کو دھو دھا کر اپنے ماتھے پر سجایا۔ آج اسے اپنے درجن سے ملنا تھا۔ ایک سال کا عرصہ گنگا سنگھ کے ساتھ گذارنے کے بعد جمنا کو یقین ہو گیا تھا کہ یہ آدمی اپنی زبان کا پکا ہے۔ یہ اپنے عہد کی پابندی ضرور کرے گا۔
گنگا کو توقع تھی کہ آج جب وہ جمنا کے پاس آئے گا تو اس کی پیشانی پر درجن کی بندیا نہ ہو گی اور وہ اپنی بندیا جمنا کے ماتھے پر سجادے گا۔ لیکن ایسا نہ ہوا اس کی دو سال کی تپسّیا اکارت گئی۔ اس نے جمنا کو بڑے احترام سے گھوڑے پر بٹھایا اور میلے کی جانب چل دیا۔ راستہ بھر دونوں نے کوئی بات نہ کی۔ سوچتے رہے کہ آخر یہ راستہ اتنا طویل کیوں ہے؟
میلہ میں پہنچنے کے بعد گنگا نے کہا۔ جمنا اب تم آزاد ہو۔
جمنا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی لیکن اس کی زبان گنگ ہو گئی۔ وہ انسان نہیں فرشتہ تھا۔ تھوڑی دیر میلے میں گھومنے کے بعد جمنا نے درجن کو دیکھا وہ گہنوں کی دوکان سے بندیا خرید کر باہر آ رہا تھا۔ سامنے جمنا کو دیکھ کر وہ چونک پڑا۔ جمنا درجن سے لپٹ گئی اور دیر تک روتی رہی۔ یہ خوشی کے آنسو تھے۔ درجن کو ایسا لگا جیسے چوری کرتا ہوا پکڑا گیا ہے۔
درجن اور جمنا میلے سے دور تنہائی میں جا بیٹھے۔ جمنا نے پوچھا۔ درجن کیسے ہو؟
درجن بولا۔ اچھا ہوں، تم کیسی ہو؟
میں! میں بھی ٹھیک ہی ہوں۔ میں بہت خوش ہوں آج ایک سال بعد دوبارہ ہماری ملاقات ہو گئی۔
ہاں ہاں میں بھی خوش ہوں بہت خوش مگر…
مگر کیا؟ جمنا نے پوچھا۔
مگر یہ کہ مجھے ڈر لگتا ہے۔
ڈر؟ کیسا ڈر؟ تمہیں کس سے ڈر لگتا ہے؟
مجھے گنگا سنگھ سے ڈر لگتا ہے۔
گنگا سنگھ سے؟ گنگا سنگھ سے کیوں؟
کیا بات کرتی ہو جمنا؟ کیا تمہیں گنگا سنگھ سے ڈر نہیں لگتا؟
نہیں مجھے نہیں لگتا اس سے ڈر۔ جمنا بولی۔
ہاں ہاں تمہیں کیوں اس سے ڈر لگے گا؟ تم تو ایک سال اس کے ساتھ رہ کر آئی ہو۔
نہیں درجن ایسی بات نہیں۔ گنگا اگر برا آدمی ہوتا تو مجھے یہاں چھوڑ کر کیوں جاتا؟
دیکھو جمنا اس کی وکالت نہ کرو۔ اگر وہ اچھا آدمی ہوتا تو اٹھا کر کیوں لے جاتا؟
جمنا نے کہا۔ تمہاری بات صحیح ہے اس نے مجھے لے جا کر غلطی کی تھی لیکن اب اس نے اپنی غلطی کا کفارہ ادا کر دیا۔ اس نے مجھے واپس لا کر چھوڑ دیا ہے۔
آج چھوڑ دیا ہے کل پھر اٹھا کر لے جائے گا۔ اس کا کیا اعتبار؟
اس کا اعتبار ہے۔ جمنا بولی۔ اس نے اپنا وچن پورا کیا ہے۔
چھوڑو جمنا وچن نہیں پورا کیا۔ ایک سال ساتھ رکھنے کے بعد اس کا دل بھر گیا تو لا کر چھوڑ دیا۔ درجن بولا۔ کل پھر دل آئے گا تو لے جائے گا۔ مجھے تو ڈر لگتا ہے۔
دیکھو درجن تم بلاوجہ ڈر رہے ہو۔ اگر اسے مجھے نقصان پہچانا ہوتا تو سال بھر میں وہ ایسا کر سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے مجھے چھوا تک نہیں اور اب لا کر تمہارے پاس چھوڑ گیا۔
ٹھیک ہے تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گا لیکن مجھے تو پہنچائے گا۔ میرا کانٹا نکالنے کے لیے اس کی ایک گولی کافی ہے۔
نہیں درجن۔ وہ ایسا نہیں کرے گا۔ اس لیے کہ وہ جانتا ہے ایسا کرنے سے میں ناراض ہو جاؤں گی اور وہ مجھے کبھی بھی ناراض نہیں کر سکتا۔
تمہیں تو اس پر بڑا اعتماد ہے؟
ہاں ہے۔
مجھ سے بھی زیادہ؟
کیسی باتیں کرتے ہو درجن۔
دوسرے دن شام پھر درجن اور جمنا کے درمیان وہی گفتگو چھڑ گئی۔ درجن نے کہا۔
جمنا اگر میں تمہیں ساتھ لے کر گاؤں میں جاؤں گا تو قبیلہ والے کیا کہیں گے؟
جمنا نے پوچھا۔ وہ کیا کہیں گے؟
وہ کہہ رہے تھے اب تم جمنا کو بھول جاؤ۔ اب وہ کبھی واپس نہیں آ سکتی۔
ان کی بات غلط نکلی۔ میں واپس آ گئی۔
ہاں تم واپس آ گئیں لیکن وہ کہیں گے کہ تم پرائے مرد کے پاس رہ کر واپس آئی ہو۔ تم پوتر نہیں ہو۔
لیکن میں کہتی ہوں کہ میں پوتر ہوں۔ اس نے مجھے ہاتھ نہیں لگایا۔
تم تو یہ کہتی ہو لیکن تمہارے کہنے سے وہ کیسے مان جائیں گے؟
تو پھر کس کے کہنے سے مانیں گے گنگا سنگھ کے؟ جمنا نے پوچھا۔
نہیں ڈاکو کی بات کون مانتا ہے؟
لیکن تمہاری تو مانیں گے تم تو اس بات کی شہادت دے سکتے ہو کہ میں پوتر ہوں۔
میں کیسے شہادت دے سکتا ہوں؟ درجن بولا۔
کیا تمہیں بھی وشواس نہیں۔ تم بھی گواہی نہیں دے سکتے کہ میں پوتر ہوں اور ہاں یہ بات صحیح ہے کہ تم نہیں جانتے۔ اس امر کا شاہد میرے اور گنگا کے سوا کوئی اور نہیں ہے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟
کیوں نہیں پڑتا؟ بہت فرق پڑتا ہے۔
لیکن گنگا سنگھ تو مجھے اٹھا کر لے گیا یہ جاننے کے باوجود کہ میں تمہارے پاس ایک سال تھی اور پھر بھی مجھ سے بیاہ کرنا چاہتا تھا۔ اور تم یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں ایک سال تم سے دور تو رہی لیکن کسی نے مجھے چھوا تک نہیں دنیا سے ڈر رہے ہو؟
دیکھو جمنا تم میری بیوی تھیں اور میرے پاس رہیں اس میں کوئی عجیب بات نہیں ہے لیکن تم میری بیوی ہوتے ہوئے اس کے یہاں رہیں یہ خطرناک بات ہے۔
لیکن میں اپنی مرضی سے تو اس کے پاس نہیں گئی۔ ا س نے مجھے اسی طرح آرام و احترام سے رکھا جیسا کہ میں اپنے میکے میں رہتی اور واپس لا کر تمہارے پاس چھوڑ بھی دیا۔
یہ بات صحیح ہو سکتی ہے لیکن اسے لوگ کیسے مان لیں گے؟
مجھے لوگوں سے غرض نہیں ہے۔ یہ بتاؤ کہ تم اسے درست مانتے ہو یا نہیں؟
درجن کی زبان گنگ ہو گئی۔ جمنا نے چیخ کر پوچھا۔ درجن مجھے بتاؤ تم کو میری بات پر وشواس ہے یا نہیں۔ درجن خاموش رہا۔ جمنا بولی۔ ویسے تو خاموشی کا مطلب ہاں ہوتا ہے لیکن شاید تمہاری یہ خاموشی نہ کی خاموشی ہے۔ تمہارے اندر نہ کہنے کی بھی جرأت نہیں ہے۔ تم مرد نہیں نامرد ہو۔ یہ کہہ کر اس نے درجن کی بندیا اپنے ماتھے سے نکال کر پھینک دی۔ درجن گھبرا گیا۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور زمین پڑی ہوئی بندیا اٹھا لی۔
درجن بولا۔ جمنا جب تم نے میری بندیا پھینک دی تو اب مجھے تمہارے ساتھ رہنے کا ادھیکار (حق) نہیں ہے۔ میں جاتا ہوں۔
جمنا نے کہا۔ درجن کم از کم جاتے جاتے تو سچ بولو۔ یہ نہ بولو کہ تمہیں میرے ساتھ رہنے کا ادھیکار نہیں ہے بلکہ بولو اب مجھے تمہارے ساتھ رہنے کا حق نہیں ہے۔ کاش کہ اس بات کا پتہ مجھے دو دن پہلے چل جاتا۔
میلے کے تیسرے دن درجن کے پاس دو بندیا تھی اور اسے ایک دلہن کی تلاش تھی جو جلد ہی ختم ہو گئی۔ درجن اپنی نئی نویلی دلہن کو اٹھا کر لے گیا لیکن جمنا کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ گنگا کا دروازہ از خود بند کر کے وہ درجن کے در پر آئی تو درجن نے دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا۔ جمنا دو بند دروازوں کے درمیان بے یار و مددگار کھڑی تھی۔
میلہ اٹھنے لگا تھا۔ لوگ اپنا سامان باندھ رہے تھے۔ شام کے سائے لمبے ہوتے جا رہے تھے۔ قافلے اپنی اپنی منزلوں کی جانب رواں دواں ہو گئے تھے لیکن جمنا کی کوئی منزل نہیں تھی۔ وہ اکیلی بیٹھی نہ جانے کس کا انتظار کر رہی تھی کہ اچانک دور سے گھوڑے کی ٹاپ سنائی دینے لگی۔ وہ اس چال سے واقف تھی۔ اس کے کانوں میں نقرئی گھنٹیاں بجنے لگیں۔
گنگا نے جمنا کی شفاف پیشانی کو دیکھا تو باغ باغ ہو گیا۔ وہ فوراً اپنے بٹوے میں بندیا تلاش کرنے لگا۔ جلدی میں اس نے سارے کارتوس زمین پر پھینک دیئے۔ اس کے ساتھ ہی بندیا بھی ریت میں جا گری لپک کر اس نے بندیا کو اٹھایا اور جمنا کے قریب آیا۔ دو سال کے انتظار کے بعد شب وصال ایسے دبے پاؤں آئی کہ یقین نہ ہوتا تھا۔ گنگا سنگھ کی شکست فتح میں بدل چکی تھی۔
گنگا نے جمنا کے ماتھے پر بندیا سجائی۔ اسے گھوڑے پر بٹھایا اور ایڑ لگا دی لیکن اس بار لگام جمنا کے ہاتھ میں تھی۔ آگے بہت آگے وہ ایک دورا ہے پر پہنچ گئے جہاں سے ایک راستہ پہاڑوں اور گھاٹیوں کو تو دوسرا میدانوں اور کھلیانوں کی جانب جاتا تھا۔ جمنا نے گھوڑا میدانوں کی جانب موڑ دیا۔ گنگا سنگھ مد ہوش تھا اسے کچھ پتہ نہیں تھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے؟ جمنا کے ساتھ نے اس کو ہوش و حواس سے بیگانہ کر دیا تھا۔ بہت دور جانے کے بعد ایک دھرم شالا دکھائی پڑی۔ جمنا نے گھوڑے کی لگام کھینچ لی۔
دھرم شالا کے نگراں نے پوچھا۔ نام کیا ہے؟
جمنا بولی۔ گنگا پرشاد اور جمنا دیوی۔
بوڑھا چوکیدار ہنس کر بولا۔ خوب ہے گنگا اور جمنا کی جوڑی لیکن سرسوتی کہاں ہے؟
گنگا بولا۔ بابا ابھی آئی نہیں ہے جب آ جائے گی تو آشیر واد لینے کے لیے تمہارے پاس ضرور لائیں گے۔
٭٭٭