منحنی سا پر پیچ پہاڑی راستہ جب میدان کے وسیع و عریض چٹیل شاہراہ سے بغلگیر ہوا تو ایاز نے محمود سے پوچھاسرکار! کیا میں آج یہ گھوڑا گھر لے جا سکتا ہوں؟
شام کے سائے طویل ہو چلے تھے، تاریکی انہیں نگلنے لگی تھی ایسے میں محمود کو یہ سوال کچھ اٹپٹا سالگا وہ بولا اتنی رات گئے تو گھوڑے پر سوار ہو کر کہاں جائے گا؟
میں! کہیں نہیں۔ میں تو اب اپنے گھر جاؤں گا بس
گھر؟ تیرا گھر تو شاہی محل سے چند فرلانگ پر ہے؟
جی ہاں سرکار آپ نے درست فرمایا
تو پھر تجھے گھوڑے کی کیا ضرورت؟
وہ ایسا ہے کہ ایک دن میں گھوڑے پر بیٹھ کر گھر تک جانا چاہتا ہوں
ایاز کے اصرار نے محمود کو مزید حیرت زدہ کر دیا۔ ایاز اس کا پشتینی غلام تھا اس کے آبا و اجداد میں سے کسی نے اس طرح کی بے تکی خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا۔ وہ بولا اس سے کیا فرق پڑتا ہے ایاز؟
فرق؟ بہت پڑتا ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں میرے گھر والوں کو اس پر حیرت نہیں ہو گی؟
ہو گی ۰۰۰۰۰۰ضرور ہو گی لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟
وہی تو فرق ہے سرکار کہ سب لوگ حیرت زدہ رہ جائیں گے ورنہ میں روز ہی پیدل گھر جاتا ہوں کسی کو تعجب نہیں ہوتا
محمود کو ایاز کی باتیں کچھ عجیب سی لگ رہی تھیں کوئی اور غلام ہوتا تو محمود اسے ڈانٹ کر منع کر دیتا لیکن ایاز کی بات اور تھی۔ وہ اس کا چہیتا غلام تھا اور غلام سے زیادہ ان کے درمیان دوستی کا رشتہ تھا۔ بچپن میں وہ دونوں ایک ساتھ کھیلتے تھے۔ اس وقت وہ ناسمجھ بچے تھے۔ ان کو شعور نہیں تھا کہ آقا کیا ہوتا ہے اور غلام کس کو کہتے ہیں؟
محمود بولا ٹھیک ہے ایسی بات ہے تو تم گھوڑا اپنے گھر لے جاؤ اور کھانے پینے سے فارغ ہونے کے بعد اسے واپس لا کر اصطبل میں باندھ دینا۔ ویسے میرا خیال ہے کہ تم بلاوجہ اپنے آپ کو زحمت میں ڈال رہے ہو۔
جی نہیں جناب اس میں زحمت کیسی؟ میں کل صبح اس گھوڑے کو اپنے ساتھ لے کر محل آ جاؤں گا۔
کل صبح؟ کیسی باتیں کرتے ہو ایاز کیا تمہارے پاس اصطبل ہے؟
جی نہیں لیکن اس کی کیا ضرورت؟ گرمیوں کی رات میں ویسے بھی ہم لوگ باہر آنگن میں چار پائی بچھا کر سو تے ہیں آپ کا یہ گھوڑا بھی وہیں بندھا رہے گا
ایاز تم تو جانتے ہو یہ شاہی گھوڑا؟
جی ہاں سرکار میں جانتا ہوں۔ ایاز ادب احترام کے ساتھ گویا ہوا۔ لیکن جہاں شاہی غلام رہ سکتا ہے وہاں شاہی فرسان کیوں نہیں رہ سکتا؟
دیکھو ایاز ضد نہ کرو انسان کا کیا؟ وہ مصالحت کرنا جانتا ہے۔ اپنی طبیعت کو حالات کے ساتھ سازگار بنا لیتا ہے لیکن یہ بیچارہ گھوڑا اس فن سے واقف نہیں ہے۔
کوئی بات نہیں جناب میں کئی سالوں سے اس کے ساتھ ہوں اور میں نے اسے کئی ہنر سکھلادئیے ہیں آج رات یہ میرے ساتھ جینے کا ایک اور گر سیکھ جائے گا
ایاز کا اصرار اب محمود کو ناگوار گذر نے لگا تھا لیکن پھر بھی وہ بولا دیکھو ایاز تم بچپن ہی سے اس گھر میں رہائش پذیر ہونے کے سبب عادی ہو گئے ہو اس لئے تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اس گھوڑے نے شاہی اصطبل میں آنکھ کھولی وہیں پلا بڑھا ہے۔ اس لئے ممکن ہے اسے مشکل ہو گی۔
اس گھوڑے کی مشکلات کا اندازہ تو میں نہیں کر سکتا لیکن اتنا جانتا ہوں کہ آپ کو اس سے بہت دقت ہو گی۔ سچ میں آپ نہایت درد مندانسان ہیں اپنے جانوروں کا بھی بہت خیال رکھتے ہیں۔
محمود نے بات کے بدلنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا ایک بات بتاؤں ایاز تم بہت بھولے ہو اس لئے تمہاری باتیں مجھ جیسے بے وقوف کی سمجھ میں بھی بڑی آسانی سے آ جاتی تھیں لیکن آج نہ جانے کیوں میں تمہیں سمجھ نہیں پا رہا ہوں؟
ایاز بولا اے میرے پیارے آقا جو آپ کو نا سمجھ سمجھے وہ دنیا کا سب سے بڑا بے وقوف انسان ہے۔
اچھا تو تم نے بلا واسطہ مجھ ہی کو بے وقوف کہہ دیا محمود مسکرا کر بولا۔
آپ کیسی بات کہہ رہے ہیں سرکار! میں ایسی گستاخی کی جرأت کیونکر کر سکتا ہوں؟
کیوں تم نے یہ نہیں کہا کہ جو مجھے۔۔۔۔۔
جی ہاں سرکار یہ تو میں نے کہا مگر۔۔۔۔۔
وہی تو! تمہاری باتیں سن کر میں خود اپنے آپ کو بے وقوف محسوس کر رہا ہوں تو گویا تمہاری منطق کے مطابق میں دنیا کا سب سے بڑا۔۔۔۔
جی نہیں جناب یہ آپ کی بندہ پروری ہے جو آپ مجھ جیسے احمق غلام سے دل لگی کر رہے ہیں
اچھا! اس بندے سے بھلا مذاق کون کر سکتا ہے جو گھوڑے پر سوار ہو کر گھر جانا چاہتا ہو ویسے میں تم سے کہہ چکا ہوں کہ اگر تم رات میں واپس اصطبل میں باندھ جانے کیلئے تیار ہو تو اسے اپنے ساتھ لے کر جا سکتے ہو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے
جی نہیں جناب اگر ایسی بات ہے تو جانے دیجئے میں اسے یہیں چھوڑ جاتا ہوں۔ وہ دونوں شاہی محل کے سامنے پہنچ چکے تھے
محمود نے مسکرا کرا للہ حافظ کہا اور دیوان خاص کی جانب مڑ گیا
دیوان میں موجود سارے لوگ محمود کو دیکھ کر احترام سے کھڑے ہو گئے۔ سوائے ایک فقیر کے جو عالم وجد میں جھوم جھوم کر گا رہا تھا
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلادیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری
ایاز گھوڑے کو اصطبل میں باندھتے ہوئے سوچ رہا تھا کاش وہ انسان نہیں فرسان ہوتا۔ شاہی فرسان اور اور شاہی غلام کے درمیان کا فرق آج اس کے سمجھ میں آ گیا تھا۔ گھر جاتے ہوئے ایاز کو اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ جب اس نے باپ اعجازسے پوچھا تھا کہ آپ گھوڑا چلانا جانتے ہیں؟
اس کے باپ نے جواب دیا کیسی باتیں کرتے ہو بیٹا تمہارے باپ کا شمار شہر کے سب سے اچھے شہ سواروں میں ہوتا ہے
اچھا تو آپ گھوڑے پر بیٹھ کر گھرکیوں نہیں آتے؟
اپنے معصوم سے بیٹے کے منھ سے اس قدر تیکھا سوال سن کر اعجاز ششدر رہ گیا۔ وہ بولا بیٹے بات در اصل یہ ہے کہ میں اپنے مالک کے گھوڑے پر سواری کرتا ہوں۔ اس لئے گھوڑے پر اس کی مرضی چلتی ہے اور اس کا حکم یہ ہے کہ گھوڑے کو شاہی اصطبل میں باندھ کر پیدل گھر جایا جائے
اپنے باپ اعجاز کا یہ جواب سن کر اس نے پھر پوچھا۔ گھوڑے کی حد تو ٹھیک ہے لیکن آپ پر کس کی مرضی چلتی ہے؟
مجھ پر؟ مجھ پر بھی اپنے مالک کی مرضی چلتی ہے میں ان کا فرماں بردار اور تابعدار جو ہوں
تو بابا آپ میں اور اس گھوڑے میں کوئی فرق بھی ہے یا نہیں؟ نہ جانے ایاز کو کہاں سے یہ سارے سوالات سوجھ رہے تھے۔
بیٹے! فرق تو ضرور ہے۔ ہم دونوں کے اندر بہت بڑا فرق ہے۔ در اصل وہ تو صرف مالک کی مرضی پر چلتا ہے لیکن میں نہ صرف خود چلتا ہوں بلکہ اس کی مرضی چلاتا بھی ہوں۔
اچھا تو گویا آقا کی غلامی میں آپ گھوڑے کی بہ نست بلند تر درجہ پر فائز ہیں
اس میں شک شبہ کی کون سی گنجائش ہے؟ یہی تو ہماری عظیم ترین سعادت ہے۔ یہ کہتے ہوئے اعجاز کا سینہ پھول گیا لیکن آج ایاز کواحساس ہوا کہ اس کے والد شدید خوش فہمی کا شکار تھے۔ انہیں پتہ نہیں تھا کہ آقا کی نظر میں گھوڑے اور غلام کی حیثیت میں فرق تو ہے لیکن وہ نہیں جو وہ سمجھتے ہیں۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
فصلوں کی کٹائی کا کام مکمل ہو چکا تھا۔ ہر طرف جشن کا ماحول تھا کسانوں کے پاس فرصت بھی تھی اور خوشحالی بھی اس لئے وہ تفریح میں مشغول ہو گئے تھے۔ ہرسال موسم بہار میں پورنیما کی رات کو شہر کے اندر ایک بہت بڑے میلے کا اہتمام ہوتا تھا۔ دوکانیں سجتیں، کھیل تماشے ہوتے، ناچ رنگ کی محفلیں آباد کی جاتیں اور دور دراز سے دوست و احباب ملاقات کی غرض سے تشریف لاتے۔ اس ہنگامے میں سب اہم تقریب گھڑ سواری کا مسابقہ ہوتا۔ بادشاہ کے مختلف غلام گھوڑے دوڑاتے اور ان میں سے جو فتح حاصل کرتا وہ انعام و اکرام سے نوازہ جاتا۔
ایاز اور اس کے والد اعجاز نے کئی مرتبہ یہ اعزاز حاصل کیا تھا۔ اس مقابلے میں کامیابی کیلئے جہاں شہ سوار کی اہمیت تھی وہیں گھوڑا بھی غیر اہم نہیں تھا اس لئے کہ کمزور گھوڑے پر ماہر شہ سوار اور تگڑے گھوڑے پر بزدل سوار یکساں ناکامی کے حامل ہوتے تھے اسی باعث محمود نے سب سے پہلے ایاز کو اپنی پسند کا گھوڑا منتخب کرنے کا موقع دیا اور اصطبل کی جانب اشارہ کر کے پوچھا۔
تم اب کی بار ان میں سے کون سا گھوڑا دوڑاؤ گے ایاز؟
ایاز بولا میں اس بار ان میں سے کوئی گھوڑا نہیں دوڑاؤں گا
محمود کو تعجب ہوا وہ بولا کیوں خیریت تو ہے؟
جی ہاں جناب بالکل خیریت ہے۔ ایاز بولا اور محمود نے چپیّ سادھ لی
مقابلے کے پہلے دن ایاز کا قریبی دوست معاذ اس سے ملنے آیا اور پوچھا کیوں بھائی خیریت تو ہے سنا ہے تم نے اس نے بار شہ سواری سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے؟
یہ تم سے کس نے کہا؟ ایاز نے سوال کیا
معاذ بولاکس نے؟ مجھ سے بات یہ خود محمود نے بتائی
اچھا تو انہیں شاید کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے
غلط فہمی اور آقا کو؟ کیسی باتیں کرتے ہو۔ یہ توہم غلاموں کا عیب ہے۔
انسانی عیوب کے جراثیم بھی بیماری کی طرح ہوتے ہیں اور وہ آقا و غلام کے درمیان فرق نہیں کر پاتے
تم کہیں اور نکل گئے ایاز میں تو تم سے دوڑ کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ کیا تمہاری محمود سے اس بابت کوئی بات نہیں ہوئی؟
ہوئی تھی انہوں نے اپنے اصطبل کی جان اشارہ کر کے پوچھا تھا کہ ان میں سے کون سا گھوڑا دوڑاؤ گے؟ میں نے جواب دیا کوئی نہیں
تب تو انہوں نے صحیح سمجھا اگر تمہارے پاس گھوڑا ہی نہیں ہو گا تو کیا خود دوڑو گے؟
ایاز ہنس کر بولا جیسا مالک ویسا گھوڑا کچھ نہیں تو تھوڑا تھوڑا
پہیلیاں نہ بجھواوسیدھے سیدھے جواب دو
بھئی میں نے تو صرف ان کے اصطبل کے گھوڑوں کے بارے میں یہ بات کہی تھی کیا اس سے باہر دنیا میں گھوڑے نہیں پائے جاتے؟
کیوں نہیں ضرور پائے جاتے ہیں لیکن ان تک ہماری رسائی کیسے ہو سکتی ہے؟ میرا مطلب ہے ہم غلاموں کی! ہمارے پاس تو آقا کے گھوڑے ہوتے ہیں۔ گھوڑا در اصل سرداروں کی سواری ہے غلاموں کی نہیں۔
لیکن گھوڑا تو نہیں جانتا کہ اس کا مالک غلام ہے یاسلطان اسی لئے وہ ہمارے آقا کی مانند ہمیں بھی اپنے اوپر سوار کر لیتا ہے۔
تمہاری بات درست ہے وہ بے وقوف جانور آقا اور غلام کا فرق نہیں جانتا
اچھا تو ہم عقلمند ہیں جو اس تفریق و امتیاز کو جانتے ہیں؟ ایاز نے ترکی بہ ترکی سوال کیا اور معاذ لاجواب ہو گیا
عقلمند اور بے وقوف کا فیصلہ کل دوڑ کے میدان میں ہو گا۔
کیا مطلب؟ ایاز نے پوچھا
یہی کہ کل جو جیتے گا وہی گھوڑا بھی عقلمند ہو گا اور اس کا سوار بھی۔ وہ کون ہو گا یہ تو میں نہیں جانتا لیکن کون نہیں ہو گا یہ ضرور جانتا ہوں؟
اچھا وہ کیسے؟
بھئی جو مقابلے میں حصہ ہی نہیں لے گا اس کی کامیابی کا کیا سوال؟
تمہاری یہ بات بھی درست ہے تماشائیوں کے مقدر میں کامیابی نہیں آتی
افسوس کہ اس بار تم نے خود اپنے آپ کو اپاہج تماشائی بنا لیا ہے
تم نے دوبارہ وہی بات کہہ دی جس کی میں تردید کر چکا ہوں
اچھا تو تم بغیر گھوڑے کے دوڑ میں حصہ لو گے؟
جی نہیں میں گھوڑے سمیت مقابلہ کروں گا
گھوڑا کہاں سے لاؤ گے؟
گھوڑا مجھے لانے کی کیا ضرورت وہ میرے گھر کے پاس بندھا ہوا ہے
تمہارے گھر کے پاس گھوڑا؟ میں کچھ سمجھا نہیں
اب کیا ترکی زبان میں یہ بتانا پڑے گا کہ میرے گھر کے پاس گھوڑا بندھا ہے
دوست تمہاری بات تو میں سن رہا ہوں لیکن سمجھ نہیں پا رہا ہوں اور یہ بات مجھے اس وقت تک سمجھ میں نہیں آئے گی جب میں اس خیالی گھوڑے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لوں
اگر یہی بات ہے تو ہاتھ کنگن کو آرسی کیا؟ میرا گھر کون سا دور ہے چلو قہوہ پیتے ہیں
ایاز نے اپنی اہلیہ سے قہوہ بنانے کیلئے کہا اور گھوڑے کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو وہ اپنے انوکھے انداز میں ہنہنا یہ۔ معاذ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا وہ بولا یار کہاں سے اٹھا لائے اس حیوان کو؟
حیوان کہاں پائے جاتے ہیں؟ کیا تم یہ نہیں جانتے؟
تو کیا تم اسے جنگل سے پکڑ لائے ہو؟
جی ہاں ایک روز میں نے اسے جنگل میں ٹہلتے ہوئے دیکھا اور اس کے پیچھے لگ گیا یقین کرو بڑی مشکل سے قابو میں آیا ہے یہ وحشی۔ ایاز نے بڑے پیار سے اپنے گھوڑے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا
تو کیا تم اس وحشی گھوڑے کے ساتھ میدان میں اترو گے؟
کیوں نہیں گھوڑا تو گھوڑا ہوتا ہے، کیا وحشی اور کیا شہری؟ ویسے تمام ہی شاہی گھوڑوں کے آبا و اجداد کسی نہ کسی نسل میں جنگلی رہے ہوں گے
تمہاری منطق تودرست ہے لیکن دنیا اس پر عمل نہیں کرتی۔ اگر کوئی شخص کسی ملک کی شہریت حاصل کر لے تو اس کے حقوق کی بابت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس کے باپ دادا کون تھے اور کہاں سے آئے تھے؟
مجھے تمہاری یہ دلیل معقول لگتی ہے معاذ۔ اس لئے کہ ہمارے آباء و اجداد بھی تو کسی زمانے میں آزاد شہری رہے ہوں گے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے ہم غلام ہیں اور غلام رہیں گے
جی ہاں ایاز اسی لئے میں پوچھتا ہوں کیا تم نے اس کیلئے اجازت لی ہے؟
اجازت! کیسی اجازت؟ اگر میں کسی اور کا گھوڑا دوڑاؤں تو مجھے اس کے مالک سے اجازت لینی ہو گی لیکن اس کا مالک تو میں خود ہوں۔ اس لئے مجھے اجازت کی کیا حاجت؟
وہ تو ٹھیک ہے لیکن کیا ہم لوگوں کو گھوڑا رکھنے کی اجازت ہے؟ معاذ نے اندیشے کا اظہار کیا
ایاز ہنس کر بولا بھئی جن چیزوں کی اجازت ہے اس کی فہرست تو اس قدر طویل ہے کہ اس کا مرتب کرنا اور اس کی معلومات حاصل کرنا ایک کارِ دارد ہے اسی لئے جن پر پابندی ہوتی ہے ان کے بارے میں بتلا دیا جاتا ہے گھوڑا پالنا ممنوع ہے یہ نہیں سنا۔
تمہاری بات درست ہے ایاز لیکن اس مقابلے کے بھی تو اصول و ضوابط ہوں گے اس لئے اس بارے میں تصدیق کر لینا بہتر ہے ورنہ بلا وجہ۰۰۰۰۰۰۰۰
ورنہ کیا؟ ایاز نے ہنس کر پوچھا مجھے مقابلے سے روک دیا جائے گا یہی نا؟
نہیں میرا مطلب ہے کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے ویسے میں جانتا ہوں کہ تم محمود کے چہیتے ہو اس لئے تمہارے بارے میں کوئی فیصلہ آسانی سے نہیں کیا جا سکے گا
اگر یہی بات ہے تو میں اس اجازت کے بکھیڑے میں کیوں پڑوں؟ جو ہو گا دیکھا جائے گا اگر روک دیا گیا تو رک جائیں گے۔ کھیل تو آخر کھیل ہے ویسے بھی کون جانتا ہے کہ مقابلے میں کامیابی ہی ہو؟
جی ہاں ایاز کسی بھی مقابلے میں کامیابی اہم ہوتی ہے ورنہ ناکام رہنے والے اور حصہ نہ لینے والوں کا انجام یکساں ہی ہوتا ہے
ایاز بولا مجھے نہیں لگتا کشمکش کے بعد ناکامی اور بغیر کسی کوشش کے شکست تسلیم کر لینا یکساں نہیں ہو سکتا
خیر تمہارے اور تمہاری اس نئی سواری کیلئے میری جانب سے نیک خواہشات۔ معاذ نے اٹھتے ہوئے کہا
تمہارے لئے بھی!
اللہ حافظ
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
پورنیما کی رات میں ساری کائنات مقابلے کے میدان میں امڈ پڑی تھی ایسا لگتا تھا گویا حق و باطل کا یہ سب سے بڑا معرکہ ہے اور اس میں کامیاب ہو جانے والا فاتح عالم ہو گا۔ ایک طرف شائقین کا جوش و خروش تھا اور دوسری جانب شہ سوار اپنے سجے سجائے گھوڑوں کے ساتھ صف بندی کر رہے تھے کہ ان کے درمیان ایاز اپنے جنگلی گھوڑے کے ساتھ نمودار ہوا اور سارے لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بن گیا۔ ایاز کے گھوڑے پر زین نہیں تھی ایک پھٹی پرانی شطرنجی سے اس نے گھوڑے کی پیٹھ کو ڈھانپ رکھا تھا اور وہ خود شاہی وردی کے بجائے عمومی لباس زیب تن کئے ہوئے تھا اس لئے سب سے منفرد و مختلف لگتا تھا۔
روایت کے مطابق مقابلے سے قبل تمام ہی شرکاء سے محمود ملاقات کرتا تھا تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو یہ سلسلہ جاری تھا اور لوگوں میں طرح طرح کی چہ مے گوئیاں ہو رہی تھیں
کسی نے کہا اس ایاز کو دیکھو ایسا لگتا ہے غلام گھوڑے پر غلام سوارہے
دوسرا بولا نہیں ایسا نہیں لگتا بلکہ یوں لگتا ہے کہ غلام گھوڑے پر کوئی بادشاہ سوار ہے اس لئے کہ بادشاہ وردی کا پابند نہیں ہوتا۔
اگر ایسی بات ہے تو تیسرا بولا ایاز کے گھوڑے پر بھی شاہی وردی نہیں ہے اور نہ وہ شاہی اصطبل سے آیا ہے اس لئے اسے کیونکر غلام کہا جا سکتا ہے؟
لیکن اس کا لباس تو دیکھو اس کے پاس زین تک نہیں ہے۔ ایک پھٹی پرانی دری؟ کیا یہ شاہانہ ٹھاٹ ہے؟
وہ پھٹی پرانی تو ہے لیکن اس کی اپنی ہے! وہ کسی سلطان کا طوق نہیں ہے۔
کیا آقاؤں کی عطا طوق ہوتی ہے؟
کیا غلامی اور آزادی کی پہچان لباس سے ہوتی ہے؟
گویا جتنے منھ اتنی باتیں۔
اس بیچ محمود سبھی شرکائے مقابلہ سے ملتا ملاتا ایاز کے قریب پہنچ گیا۔ ساری زبانیں بند ہو گئیں ہر کوئی محمود کا رد عمل دیکھنا چاہتا تھا۔ محمود نے مسکرا کر ایاز کی جانب دیکھا تو ایاز نے حسبِ عادت سرکو جھکا دیا۔ محمود نے ہاتھ آگے بڑھا کر حسب دستور مصافحہ کیا اور اضافی یہ کیا کہ ایاز کی پیشانی کا بوسہ لیا۔ اس مخصوص اعزاز کا مستحق صرف اور صرف ایاز تھا۔ ایاز کے لئے یہ نوازش مقابلے میں کامیابی سے زیادہ قیمتی تھی۔
مقابلے کا بگل بجا تو سارے گھوڑے دوڑ پڑے اس مقابلے میں گھڑ سوار گاؤں کے سات چکر لگاتے تھے اور جو سب سے پہلے اسے مکمل کرتا وہ کامیاب ہوتا پہلے دو چکر میں تو ایاز پیچھے رہ جانے والوں میں تھا لیکن تیسرے میں آگے والوں کی صف میں شامل ہو گیا۔ اس منظر نے سارے لو گوں کو چونکا دیا۔ اس کے بعد محمود اور قاضی شہر کے درمیان گفت و شنید کا سلسلہ چھڑ گیا۔
وہ دونوں اس بات کو بھول گئے کہ مقابلے میں کیا ہو رہا ہے ان کے درمیان بحث و مباحثہ مقابلے سے زیادہ گرما گرم تھا۔ اس بیچ زبردست شور بلند ہوا گویا شائقین نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ لوگ خوشی کے مارے پھولے نہیں سمارہے تھے ان کے گلے سے چیخ اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے یہ عجیب و غریب منظر تھا جو اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ محمود نے سر اٹھا کر پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے؟
سردار ایاز جیت گیا۔ آپ کا چہیتا غلام ایاز پھر ایک بار کامیاب ہو گیا ہے سرکا ر۔ مبارک ہو! آپ کو بہت بہت مبارک ہو۔
محمود کا مصاحبِ خاص اسے مبارکباد دے رہا تھا کہ قاضی شہر نے کہا لیکن ایاز! آج وہ ان کا غلام کب تھا؟ نہ شاہی وردی اور نہ شاہی گھوڑا؟ غلامی کی ساری علامتوں کو اس نے از خود نوچ کر پھینک دیا تھا۔
غضبناک محمود نے قاضی کو دیکھا تو وہ بولے گستاخی معاف جناب میں جذبات میں آ گیا تھا۔ مجھے یہ سرِ عام نہ کہنا چاہئے تھا۔ میں معافی کا خواستگار ہوں۔
محمود مسکرایا اور بولا الفاظ کے استعمال سے حقیقتِ حال نہیں بدلتی آپ تقسیم اسناد کا خطبہ ارشاد فرمائیں
شور تھما تو اعلان ہوا اب ہماری روایات کے مطابق قاضی شہر فیصلے کا اعلان فرمائیں گے اور اپنا خطبہ پیش کریں گے ہم مودبانہ گزارش کرتے ہیں کہ عزت مآب قاضی صاحب تشریف لائیں
شہر کا قاضی اس بستی کی سب سے بزرگ اور قابلِ احترام شخصیت تھی تمام تنازعات انہیں سے رجوع کئے جاتے تھے۔ ان کے جاری کردہ فیصلوں کو سلطان و غلام بسرو چشم تسلیم کرتے تھے۔ اپنے وسیع و عریض تجربہ کے باعث وہ بہت جلد معاملات کی تہہ تک پہنچ جاتے اور بڑے اعتماد سے فیصلے فرماتے لیکن آج ان کے قدموں میں لغزش تھی اور زبان لڑکھڑا رہی تھی۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا دل دماغ سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ زبان کا رابطہ ذہن سے ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے۔
رسمی کلمات کے بعد قاضی شہر نے کہا خواتین و حضرات آپ سب لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ ہمارے ملک کا نظام صدیوں پرانے قبائلی دستور کے مطابق چلتا ہے اور اسی کے باعث یہاں امن و امان قائم ہے، قانون کی حکمرانی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ سب نے کبھی بھی ان قبائلی روایات سے انحراف تو کجا ان پر اعتراض تک نہیں کیا اور اس کی مکمل پاسداری کی۔ مجھے امید ہے کہ آئندہ بھی یہی سلسلہ جاری رہیگا ورنہ اندیشہ ہے کہ یہ امن و امان کی فضا غارت ہو جائے گی۔ ایاز کو ان کے اس جملے سے دھمکی کی بو آ رہی تھی۔
خواتین و حضرات ہم اپنی روایات کے مقدس صحیفوں سے صرف دو حالتوں میں رجوع کرتے ہیں ایک تو جب کوئی تنازع کھڑا ہو جائے یا کوئی نئی صورتحال پیدا ہو جائے۔ جب سب کچھ حسبِ معمول چل رہا ہوتا ہے تو ہمیں اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اس لئے ہم اس کی تفصیلات کو فراموش بھی کر دیتے ہیں۔
آج غالباً ہمارے شہر کی تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا کہ اس مقابلے میں کسی غیر شاہی گھوڑے نے حصہ لیا ہے۔ قربان جائیے ہمارے بزرگوں کی دور اندیشی پر کہ انہوں نے اس امکان کا ادراک بھی صدیوں قبل کر لیا تھا اورقیاس کی بنیاد پر اس بارے میں بھی ہماری رہنمائی فرما دی تھی۔ اب آئیے میں آپ لوگوں کو ان ہدایات سے روشناس کراؤں:
دستور کی شق۱۱: گھوڑا ایک شاہی جانور ہے اس لئے کسی آزاد شہری کو گھوڑا رکھنے کی اجازت نہیں ہے الا ّیہ کہ حکومت اسے خصوصی مراعات سے نوازے لیکن اس صورت میں بھی اس کے پاس حکومت کا عطا کردہ گھوڑا ہی ہو گا جسے کسی بھی وقت ضبط کرنے کا مکمل اختیار حکومتِ وقت کو حاصل ہو گا۔ اس بارے میں کسی وضاحت کی مطلق ضرورت نہیں ہو گی۔
دستور کی شق۱۲: اگر کوئی آزاد شہری اس قانون کی خلاف ورزی کرے تو اسے شہر بدر کر دیا جائے گا۔
دستور کی شق۱۳: بصورتِ دیگر اسے اپنے گھوڑے کو شاہی اصطبل میں جمع کرانا ہو گا۔ اس صورت میں وہ شہر میں رہ سکے گا۔
دستور کی شق۱۴: اگر کوئی اپنے ذاتی گھوڑے کے ساتھ مقابلے میں حصہ لے تو اسے انعام کا مستحق قرار نہیں دیا جائے گا الا یہ کہ وہ اس گھوڑے سے دستبردار ہو کر اسے شاہی اصطبل میں جمع نہ کرا دے۔
دستور کی شق۱۵: اگر گھوڑا رکھنے کا جرم کسی غلام سے سرزد ہو جائے تو اس کا معاملہ مختلف ہے۔ غلام چونکہ بذاتِ خود آقا کا بندہ ہوتا ہے وہ کسی شئے کا مالک نہیں ہو سکتا ہے گویا اس کی ملکیت میں جو بھی چیز ہو گی اس کا حقیقی مالک اس کا آقا ہی قرار پائے گا اور اگر وہ دستور کی خلاف ورزی پر اصرار کرتا ہے تو قابل گردن زدنی جرم کا مرتکب قرار دیا جائے گا۔
دستور کی ہدایات نہایت واضح ہیں اس کی روشنی میں اگر ایاز اپنا گھوڑا حکومت کے حوالے کر دے تو وہ انعام و اکرام کا مستحق ہو گا ورنہ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
قاضی شہر کے ساتھ سارے مجمع کو سانپ سونگھ گیا۔ اعلان ہوا۔ آج کے مقابلے میں سب سے آگے رہنے والے ایاز آگے آئیں اور اپنی مرضی بتلائیں
محمود سمیت سارے لوگوں کو یقین تھا کہ ایاز گھوڑے سے دستبردار ہو جائے گا اور انعام و اکرام سے مالا مال ہو کر گھر لوٹے گا لیکن ایاز کے ارادے مختلف تھے اس نے آگے آ کر اعلان کیا۔ میں ہماری روایات کی قدر کرتا ہوں اور قاضی شہر کا احترام کرتا ہوں میری مؤدبانہ گذارش یہ کہ آپ بصد شوق مجھ پر حد نافذ فرما دیں میں بسروچشم اسے قبول کر لوں گا مگر اپنے گھوڑے سے میں دستبردار نہیں ہووں گا۔
ایاز کے لب و لہجہ میں بلا کا اعتماد تھا وہ مسکرا رہا تھا لیکن ساری کائنات بشمول قاضی ٔ شہر سوگوار تھی۔
اس شہر میں برسوں سے کسی نے دستور کی خلاف ورزی نہیں کی تھی موت کی سزا تو دور معمولی قسم کی سزا بھی کسی کو نہیں ہوئی تھی۔ یہ شہر مشہور ہی اس بات کیلئے تھا کہ یہاں جیل نہیں پائی جاتی اور ایسے شہر میں ایاز جیسے فرمانبردار اور وفا شعار کو موت کی سزا؟ نا قابل فہم صورتحال تھی۔ کوئی نہیں چاہتا تھا کہ ایسا ہو لیکن سب کے سب بے بس تھے۔
محمود نے آگے بڑ ھ کر قاضیِ شہر سے سوال کیا۔ دستور میں کیا اس بات کی گنجائش ہے کہ اس طرح کے معاملہ میں سلطان کوئی دخل اندازی کر سکے؟
محمود نے مجمع میں خوشی کی لہر دوڑ ادی اور ایاز کا سر فخر سے اونچا ہو گیا۔
قاضی صاحب بولے ہمارا دستور دیگر سزاؤں کے معاملے میں سلطان کو نہ صرف تخفیف بلکہ معافی کی بھی اجازت دیتا ہے لیکن موت کی سزا ایک استثنائی صورتحال ہے جس میں کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔
موت کی خاموشی نے سارے عالم کو اپنے اندر نگل لیا۔
محمود نے پھر سوال کیا۔ کیا مجھے اپنے غلام کو آزاد کرنے کا اختیار ہے؟
کیوں نہیں یہ اختیار تو ہر کس و ناکس کو حاصل ہے۔ آپ تو سلطان ہیں
اگر میں ایاز کو آزاد کر دوں تو؟
اس صورت میں بھی اسے گھوڑا لوٹانا پڑے گا ورنہ شہر بدر کر دیا جائے گا
محمود نے ایاز کی جانب دیکھا۔ ایاز کی آنکھوں میں عقیدت و محبت کے آنسو تھے وہ بولا میں جان بخشی کیلئے اپنے آقا کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا کہ اس کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ میں قاضی شہر سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ شہر بدری کے نفاذ میں کم از کم مدت کی رہنمائی فرمائیں
زیادہ سے زیادہ تین دن تم اس شہر میں قیام کر سکتے ہو ایاز۔ قاضی صاحب اپنی سواری کی جانب چل دیئے۔ تاریخ میں پہلی بار اس دن انعام تقسیم نہیں ہوا۔
کوئی کہہ رہا تھا آج مقابلے میں سبھی ہار گئے۔ کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا۔
کوئی بولا نہیں ایسی بات نہیں آج کے مقابلے میں ایاز نے ایک ایسی کامیابی درج کرائی جو اس سے پہلے کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔
کسی نے کہا نہیں آج کے مقابلے میں محمود کے سواسب ہار گئے۔ وہ ایاز کی جان بچانے میں جو کامیاب ہو گیا اور یہی بڑی کامیابی ہے
خیر جتنے منھ اتنی باتیں
٭٭٭