فون کی گھنٹی بول رہی تھی کہ یہ انٹن کا فون ہے۔ شمیم نے ہاتھ بڑھا کر اسے اٹھایا۔
دوسری جانب حسب معمول ہشاش بشاش پُر جوش انٹن تھا۔ کیا حال ہے؟
سب ٹھیک ٹھاک۔ آنے کی تیاریاں مکمل ہو گئیں؟ شمیم نے پوچھا۔
میں نے تو تیاریاں پوری کر لیں لیکن یہ انشورنس والے
کیوں ان کو کیا پریشانی ہے؟
ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے حالات موافق نہیں ہیں۔
بھئی ایک بات بتاؤ کینڈا کے بارے میں آپ بہتر جانتے ہو یا سعودی عرب میں بیٹھے ہوئے انشورنس ایجنٹ۔
مذاق کرتے ہو شمیم کینڈا کے بارے میں مجھ سے بہتر کون واقف ہو گا۔
اب اگر میرا ایجنٹ مجھے منع کرے تو تم کیا کہو گے یہی نا کہ پاگل ہے۔ تو بس میں بھی وہی کہوں گا جو تم کہو گے۔
شمیم یہ بتاؤ تمہارے اور انشورنس والوں کے خیالات ہمیشہ مختلف کیوں ہوتے ہیں؟
بات در اصل یہ ہے کہ ہم دونوں کاروباری لوگ ہیں انہیں اپنے کاروبار کی فکر ستاتی ہے اور مجھے اپنے کاروبار کی۔ چونکہ ہمارا پیشہ مختلف ہے اس لیے ہماری رائے بھی مختلف ہو جاتی ہے۔ لیکن دوست اتنا یاد رکھو کہ تم بھی میری طرح ایک پیشہ ور تاجر ہو۔ تمہارا اور ہمارا کاروبار یکساں ہے اس لیے تمہیں انشورنس کمپنی کے بجائے مجھ سے اتفاق کرنا چاہئے۔
انٹن بولا شاید تم ٹھیک کہتے ہو لیکن پھر بھی میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ آخر یہ انشورنس والے ہمیشہ ڈراتے کیوں ہیں؟
شمیم نے خوش ہو کر کہا ارے بھائی انشورنس کا پورا کاروبار ڈر اور اندیشہ پر منحصر ہے۔ اگر آپ کو نقصان کا ڈر ہے تو انشورنس کی ڈھال ہے۔ مرنے کا خوف ہے تو بیمہ کا خیال ہے۔ جب ڈر ختم ہو جائے گا تو انشورنس کا دھندہ اپنی موت آپ مر جائے گا لیکن جہاں واقعی خوف و دہشت شدید ہوتی ہے وہاں تو یہ لوگ پر ہی نہیں مارتے۔
انٹن نے تائید کی تمہاری بات درست معلوم ہوتی ہے۔
یہ در اصل لوگوں کونہ تو خوف و اندیشہ سے نکالنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ آڑے وقت میں ان کا تعاون کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں بلکہ یہ تو امن و امان کے ماحول میں لوگوں کو مصنوعی اندیشوں کے اندر گرفتار کر کے ان سے روپیہ اینٹھنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ یہ تم سے کمانا تو چاہتے ہیں مگر تم پر خرچ کرنا نہیں چاہتے۔ اس لیے جہاں خطرات کا امکان ہوتا ہے وہاں جانے سے اپنے گاہکوں کو روک دیتے ہیں۔
انٹن نے تھوڑے سے توقف کے بعد کہا پھر تو انہیں کی بات صحیح ہو گئی کہ سعودی عرب کے حالات ٹھیک ٹھاک نہیں ہیں وہاں حقیقی معنیٰ میں خطرہ پایا جاتا ہے۔
شمیم نے نفی کی۔ ایک تو یہ ان کا اندازہ ہے اور اندیشے اکثر باطل ہوتے ہیں۔ دوسرے ان کا مشورہ ان کے اپنے فائدے اور نقصان کے پیش نظر ہے اور تمہیں ان کا نہیں اپنا کاروبار بڑھانا ہے۔
انٹن نے پوچھا کیا صرف میرا بزنس ہے یا تمہارا بھی؟
جی ہاں دونوں کا مشترکہ کاروبار ہے۔ ہم دونوں باہم چولی اور دامن جیسے ہیں۔
ٹھیک ہے تو میں حسب پروگرام آ رہا ہوں ہم لوگ ملیں گے ریاض ایئر پورٹ پر ہفتہ کے دن رات ۹؍ بجے۔ او کے، سی یو۔ گڈ بائے۔ ٹیک کیئر۔
اس روز خلاف معمول انٹن کی بیوی ماریا نہ صرف دروازے تک بلکہ کار تک آ گئی۔ انٹن نے تعجب سے اس کی جانب دیکھا لیکن اس بیچ وہ کار میں بیٹھ چکی تھی۔
انٹن نے سوال کیا۔ بھئی ماریا! آج سورج …
ماریا نے غصہ سے بات کاٹ دی۔ تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے میں سنجیدہ ہوں۔
سنجیدہ ہو یا رنجیدہ۔
انٹن آخر تم کب باز آؤ گے اپنی ان عادتوں سے؟
کن عادتوں سے؟
ایک تو تم خود کبھی سنجیدہ ہوتے نہیں اور پھر دوسروں کی بھی …
انٹن نے بات کاٹ دی بھئی میں دوسروں کے لیے بھی وہی پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے۔ لیکن اگر دوسروں کو یہ پسند نہ ہو تو نہ سہی۔ کیا فرق پڑتا ہے۔
فرق پڑتا ہے انٹن۔ بہت فرق پڑتا ہے۔ دیکھو میری جان بات غور سے سنو۔ ’جان ہے تو جہان ہے۔
یعنی جہان میں ہوں انٹن نے پھر مذاق کیا۔ اور میں نہ ہوں گا تو جہاں نہ ہو گا کیا مذاق کرتی ہو ماریا۔
ماریا نے اس کی بات پر توجہ نہ دیتے ہوئے کہا جہان تو ہو گا لیکن میرا جہان نہ ہو گا اس لیے کہ میرا جہان صرف تم ہو۔
اچھا تو بتاؤ میری جان کہ میں اب کیا کروں؟ وہ سامنے ایئر پورٹ ہے اپنا ٹکٹ منسوخ کر کے واپس آ جاؤں اپنی جانِ جہاں کے پاس۔
نہیں یہ میں نے کب کہا۔ میں تمہارے راستے کا روڑا بننا نہیں چاہتی لیکن بس اپنا خیال کرنا اور…
اور کیا؟
اور مجھے فون کرتے رہنا۔ ہر روز صبح شام میں تمہارے فون کا انتظار کروں گی ورنہ…
ورنہ کیا؟
ورنہ یہی کہ – میں فون کرتی رہوں گی۔
ایک ہی بات ہے۔
ایک ہی بات نہیں ہے۔ جب تم فون کرو گے تو اپنی فرصت سے کرو گے اور میں کروں گی تو ممکن ہے نادانستہ تمہارے کام میں خلل انداز ہو جاؤں۔ میں یہ نہیں چاہتی۔
ٹھیک ہے۔ میں فون کروں گا۔
کروں گا نہیں کرتا رہوں گا۔
اچھا بابا کرتا رہوں گا۔
دیکھو یہ وعدہ ہے مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے ماریا کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اس کے باوجود اس نے اپنے ہونٹوں پر تبسم سجا کر گڈ بائے کہا اور ہاتھ ہوا میں لہرانے لگی۔
ماریا کے الفاظ سے بوجھل انٹن نے اپنا سامان چیک ان کیا۔ بورڈنگ کارڈ لے کر لابی میں پہنچا اور ہینڈ بیگ سے ’’ہیری پورٹر‘‘ کی کتاب نکال کر اس میں غرق ہو گیا۔ ایک گھنٹہ بعد جب فلائٹ میں چڑھنے کا اعلان ہوا تو وہ ماریا کو بھول چکا تھا۔ ہوائی جہاز میں اس کا پڑوسی ایک امریکی سفارت کار تھا۔ دعا سلام کے بعد انٹن نے اسے بھی اپنی گفتگو میں الجھا لیا۔ اخبار میں صفحہ اول پر بش مشرف ملاقات کی تصویر تھی۔
انٹن نے سوال کیا یہ مشرف واشنگٹن میں کیا کر رہا ہے؟
سفیر بولا وہ اپنے آقا کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہوا ہے‘۔
انٹن نے پھر سوال کر دیا لیکن ٹکنالوجی کے اس دور میں قدم بوسی کے لیے بنفس نفیس حاضر ہونے کی کیا ضرورت؟ وہ پاکستان میں بیٹھے بیٹھے بھی تو سجدۂ تعظیم ادا کر سکتا تھا۔
یہ بات تو صحیح ہے اور صبح و شام وہ ایسا کرتا بھی ہے مگر یہ تصویر کیسے چھپتی؟
انٹن مان کر نہیں دے رہا تھا لیکن تصویر سے اس کا کیا فائدہ ہے؟
سفیر بولا فائدہ کیوں نہیں؟ بش ساری دنیا کو یہ بتلا رہا ہے کہ مشرف کی حکمرانی امریکہ کے لیے قابل قبول ہے اس لیے ساری دنیا کے لیے قابل تسلیم ہونی چاہئے۔
انٹن سوال پر سوال کئے جا رہا تھا لیکن وہ حکمراں تو پاکستان کا ہے اور پاکستانی عوام اس کی وردی کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔
یہی تو بات ہے۔ مشرف یہی تو کہنا چاہتا ہے کہ جب ساری دنیا اس کی حکمرانی کو تسلیم کرتی ہے تو پاکستان کے عوام کو بھی چاہئے کہ اسے اپنا حکمراں مان لیں۔
لیکن کیاکسی غلام کو حکمراں تسلیم کرنا کچھ عجیب نہیں لگتا؟
سفیر فخریہ لہجے میں بولا ارے بھئی وہ کسی ایرے غیرے کا غلام تھوڑے ہی ہے۔ شہنشاہِ اعظم امریکہ بہادر کی غلامی کا شرف کوئی معمولی بات ہے؟ مشرف تو اسے اپنی سعادت سمجھتا ہے پاکستانی عوام کو بھی ایساہی کرنا چاہئے۔
لیکن پاکستانی عوام تو اسے حقارت سے ’’بشرف‘‘ پکارتے ہیں۔
سفیر نے کہا ارے پاکستان کے جاہل عوام کی بات کیوں کر تے ہو۔ وہ تو ملّاؤں کی چکر میں پڑے رہتے ہیں۔ جمہوریت اور آزادی کی اہمیت ہی نہیں جانتے بے چارے۔
انٹن کو اس ڈپلومیٹ کی بات پر ہنسی آ گئی۔ اس نے کہا۔ کیا مذاق کرتے ہو ابھی تو تم مشرف کو غلام کہہ رہے تھے اور ابھی اسے آزادی کا علمبردار کہہ رہے ہو۔ کیا یہ باتیں متضاد نہیں ہیں؟
جی نہیں اس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ جمہوریت کے بغیر آزادی بے معنی ہے اور مشرف نے پاکستان میں جمہوریت بحال کی ہے۔ انتخابات کا انعقاد کروایا اور کیا چاہئے۔
انٹن نے اثبات میں سرہلایا۔ یہ تو صحیح ہے کہ مشرف نے پاکستان میں انتخابات منعقد کروا کے جمہوریت کو بحال کیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مشرف سے پہلے بھی تو پاکستان میں جمہوریت تھی آخر پاکستان میں جمہوریت کو پامال کس نے کیا؟ اب اگر مشرف نے اس چیز کو بحال کر دیا جسے پامال کیا تھا تو اس میں کون سی بڑی بات ہے؟
بڑی بات کیوں نہیں ہے؟ جس جمہوریت کو مشرف نے ختم کیا اس کے ہاتھوں میں فوج کی باگ ڈور نہیں تھی۔ فوجی سربراہ اس جمہوری نظام میں بے دست و پا تھے اس لئے امریکہ کے فوجی عزائم کو بروئے کار لانے کی اہلیت اس طرز حکومت میں نہیں تھی۔
انٹن نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا لیکن امریکہ تو فوجی حکمرانوں پر عوامی نمائندوں کو ترجیح دینے کا قائل ہے۔ کیا یہ بات اس دعویٰ کے خلاف نہیں ہے؟
نہیں۔ ہرگز خلاف نہیں ہے۔ اگر فوجی حکمران ہمارے مفادات کے خلاف ہوں تو ہم اس پر عوامی نمائندوں کو ترجیح دیتے ہیں لیکن اگر جمہوری حکمراں ہمارے مفادات کا تحفظ کرنے سے قاصر ہوں تو ہم ان کی جگہ فوجی جرنیلوں کولے آتے ہیں۔
لیکن وہ جس ملک کے سربراہ ہوتے ہیں اس ملک کی عوام کے مفادات کی حفاظت کون کرتا ہے؟
سفیر نے بڑے اعتماد سے کہا ہم کرتے ہیں۔ ہم ساری دنیا کے ٹھیکیدار ہیں۔ ساری دنیا کے حکمراں ہماری خدمت کرتے ہیں اور ہم ساری دنیا کی عوام کا خیال کرتے ہیں۔
انٹن چکرا گیا۔ پھر بھی وقت گزاری کے لیے اس نے بات آگے بڑھائی۔ لیکن یار ایک بات بتاؤ مشرف نے جمہوریت بحال تو کر دی لیکن اس کے ہاتھوں میں اختیارات نہیں دیئے بلکہ ایک وزیر اعظم کو بلاوجہ دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال بھی دیا۔
ڈپلومیٹ ہنسا۔ اس نے کہا۔ تم سائنسداں بڑے بھولے ہوتے ہو۔ ارے بھئی اگر مشرف کے ہاتھوں میں اختیارات ہوتے تو وہ اسے منتخب شدہ نمائندوں کے حوالے کرتا۔ سارے اختیارات تو بش کے ہاتھوں میں تھے۔ اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے آپریشن وزیرستان سے قبل میر نصر اللہ جمالی کو بش نے اپنے کٹھ پتلی کے ذریعہ ہٹوا دیا۔
کیوں! جمالی سے کوئی خطرہ تھا کیا؟
تھا نہیں ہو سکتا تھا۔ ویسے ہم لوگ افغانستان جیسے نازک معاملے میں معمولی خطرہ بھی مول نہیں لے سکتے۔ ابھی تک ایک بڑے حصہ پر طالبان کا قبضہ باقی ہے۔ کئی قبائلی سردار حامد کرزائی کو تسلیم نہیں کرتے ایسے حالات میں سنبھل کر قدم بڑھانا پڑتا ہے۔
اب انٹن کو نیا موضوع مل گیا۔ لیکن حامد کرزائی بھی تو انتخابات میں کامیاب ہو گیا۔
ہاں وہ ڈرامہ تو ہم لوگوں نے بحسن و خوبی کھیلا لیکن ہمیں پتہ ہے کہ پولنگ کس قدر کم ہوئی۔ خیر ہم نے افغانستان میں جمہوریت تو بحال کر دی۔ ہمارے تعاون سے افغانستان کی تاریخ میں پہلے عوامی نمائندے نے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی۔
کیا؟ انٹن نے سوال کیا۔ جو کرزائی ابھی ابھی امریکہ کا نمائندہ تھا وہ اچانک عوام کا نمائندہ کیسے ہو گیا؟
ارے بھئی یہی تو ہے انتخابی تماشہ کہ جس کے ذریعے ہمارا نمائندہ عوام کا نمائندہ ہو جاتا ہے اور عوام کا نمائندہ جمہوریت کا دشمن قرار پاتا ہے۔
اچھا ایسا بھی ہوتا ہے۔
سفیر بولا کیوں تم نے یوکرین کے انتخابات نہیں دیکھے۔ وہاں ہمارا نمائندہ کامیاب نہ ہو سکا تو ہم نے بڑے پیمانے پر دھاندلی کے نام پر انتخابات ہی کو کالعدم قرار دے کر منتخب شدہ سربراہ کو جمہوریت کا دشمن قرار دے دیا۔
یہ تو آپ کا بڑا کمال ہے۔
سفیر مسکرا کر بولا کمال ہمارا نہیں جمہوریت کی نیلم پری کا ہے۔ جس نے ساری دنیا کومسحور کر رکھا ہے۔
اس بیچ کھانا آ گیا۔ دونوں کھانے میں مصروف ہو گئے۔ اس سے فارغ ہوتے ہی سفیر نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ انٹن کو پتہ چل گیا کہ وہ کھانے کے انتظار میں اس کے ساتھ وقت گزاری کر رہا تھا۔ اس نے ہیری پورٹر کی کتاب نکالی اور خود بھی مصروف ہو گیا۔
لندن ایئر پورٹ پر انٹن کو اپنی فلائٹ بدلنی تھی۔ درمیان میں چار گھنٹہ کا وقفہ تھا۔ تھکن کے باعث ذہن کسی سنجیدہ کام کے لیے تیار نہ تھا۔ ہیری پورٹر سے بھی طبیعت اوب گئی تھی۔ وہ سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کرے اتنے میں اسے سامنے ٹیلی ویژن کا اسکرین نظر آ گیا اور اس کے قدم اپنے آپ اس جانب بڑھنے لگے لیکن وہاں پہنچنے کے بعد بھی مایوسی ہی ہاتھ لگی۔
ٹی وی پر ایک سسپنس فلم دکھلائی جا رہی تھی جسے انٹن کئی بار دیکھ چکا تھا۔ وہ نہ صرف اس کے سسپنس بلکہ ہر منظرسے واقف تھا۔ لیکن پھر بھی وقت گزاری کے لیے وہیں بیٹھ گیا اور سوچنے لگا متبادل کی غیر موجودگی انسان سے کیسی کیسی حماقت سرزد کروا تی ہیں۔ فلم کے دوران اس کی آنکھ لگ گئی اور ریاض فلائٹ کے اعلان تک وہ سویا رہا۔ فلائٹ میں جاتے ہوئے ایک مسافر نے اسے بیدار کیا اور وہ شکریہ ادا کر کے جہاز کی جانب چل پڑا۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
اس فلائٹ میں انٹن کا ہم سایہ ایک عربی نژاد نوجوان تھا۔ دعا سلام کے بعد انٹن نے پوچھا۔ آپ کہاں جا رہے ہو؟
ہم سفر عدنان مسکرا کر بولا۔ جہاں جہاز جا رہا ہے سبھی وہیں جا رہے ہیں۔
انٹن جھینپ گیا۔ وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ کہاں سے آ رہے ہو؟
جی میں نیویارک سے آ رہا ہوں۔
نیو یارک سے؟ تو کیا آپ نیویارک میں کام کرتے ہیں؟
جی نہیں! پہلے تو میں وہاں کام کرتا تھا لیکن اب نہیں۔
کیا مطلب؟
عدنان نے جواب دیا میں نے نیویارک کی ملازمت چھوڑ دی۔
کیوں؟ کوئی بہتر ملازمت مل گئی؟
نہیں۔
انٹن نے پوچھا پھر کیوں چھوڑ دی؟
در اصل میں نے امریکہ کو خیرباد کہہ دیا۔ اگر امریکہ میں رہنا ہی نہ ہو تو پھر نیویارک میں نوکری کیسے کی جائے؟
لیکن امریکہ کو چھوڑنے کی وجہ؟
دہشت گردی۔
انٹن نے حیرت سے پوچھا امریکہ میں دہشت گردی؟
جی ہاں 9/11 کے بعد جس خوف و دہشت اور ذلت و رسوائی سے ہمیں گزرنا پڑ رہا ہے اس کے بعد ہم نے اس ملک سے نکل جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
لیکن اس کی وجہ؟
ہمارا مسلمان ہونا اور اوپر سے عربی نژاد ہونا۔
انٹن بولا لیکن یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی۔
آپ کے لیے نہیں ہے لیکن امریکی انتظامیہ کے لیے ہے۔ آئے دن چھاپے۔ آئے دن تفتیش۔ ہر کوئی شکوک و شبہات کی نظروں سے دیکھتا ہے ہر کسی کی آنکھوں سے نفرت کے شعلے برستے ہیں۔ آخر انسان اس کو کب تک برداشت کرے گا؟ جب ہمیں یقین ہو گیا کہ یہ نہیں چاہتے کہ ہم وہاں رہیں تو ہم نے بھی نکلنے کا ارادہ کر لیا۔
انٹن سوچنے لگا یہ تو اُلٹا ہو گیا۔ وہ تو سوچتا تھا کہ سعودی عرب سے غیر ملکی دہشت کا شکار ہو کر نکل رہے ہیں لیکن یہاں تو ایک عرب باشندہ امریکہ سے دہشت زدہ ہو کر واپس جا رہا ہے۔ انٹن نے کہا لیکن اس طرح کی دہشت گردی سعودی عرب میں بھی تو ہے۔‘‘
عدنان بولا جی ہاں ہے لیکن وہ تو محض ایک رد عمل ہے اور دونوں میں ایک بنیادی فرق ہے۔ امریکی دہشت گردی انتظامیہ کی زیر سرپرستی ہے جب کہ سعودی عرب میں حکومت اس کے خلاف ہے۔
اس فرق نے انٹن کو چونکا دیا۔ اس نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔ خیر شاید اس دور میں یہ سب ہماری زندگی کا حصہ ہے۔ اچھا تو یہ بتاؤ کہ امریکہ آپ کب اور کیسے گئے تھے؟ عدنان ایک ٹھنڈی آہ بھر کے گویا ہوا یہ ایک پرانی داستان ہے۔ میں بنیادی طور سے عراق کا رہنے والا ہوں اور یہ اس وقت کی بات ہے جب ایران کے خلاف جنگ میں صدام حسین امریکہ کے منظورِ نظر ہوا کرتے تھے اس وقت میں نے کالج کی تعلیم ختم کی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ چلا گیا۔ امریکہ میں تعلیم مکمل کرتے ہی مجھے ملازمت مل گئی اور پھر میں وہیں کا ہو گیا۔ جب گاؤں والوں کو پتہ چلا کہ میں امریکہ میں رہنے والا ہوں فوراً ایک نہایت خوشحال خاندان کی خوبصورت سی لڑکی سے میرا نکاح کر دیا گیا اور پھر ہم لوگ امریکہ کے باشندے بن گئے۔
اس کے بعد حالات بدلے۔ عراق نے کویت پر قبضہ کیا اسے خالی کرایا گیا لیکن اس سے ہم پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ بیس سال امریکہ میں رہتے رہتے میں نے اسے اپنا وطن بنا لیا تھا۔ میرے اندر اپنے غیر ملکی ہونے کا احساس بھی ختم ہو گیا تھا لیکن 9/11 کے بعد سب کچھ بدل گیا میں پھر ایک بار اجنبی ہو گیا۔ آئے دن کے خوف وہراس سے تنگ آ کر میں نے پہلے اپنے اہل خانہ کو سعودی عرب روانہ کیا۔ اب حساب کتاب چکتا کر کے واپس جا رہا ہوں۔
بہت خوب لیکن سعودی عرب کے انتخاب کی کوئی خاص وجہ؟
عدنان بولا ہاں وجہ در اصل یہ ہے کہ میں اپنے مرکز سے بہت دور نکل گیا تھا۔ آزمائش کی اس گھڑی میں مجھے خیال آیا کہ میں نے ساری دنیا کی سیرو تفریح تو کی لیکن کبھی مکہ یا مدینہ جانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ در اصل دنیا نے مجھے اپنے دین سے غافل کر دیا تھا لیکن اسی دنیا نے مجھے خوابِ غفلت سے بیدار بھی کر دیا۔ میں گذشتہ سال حج کے لیے مع اہل و عیال یہاں آیا اور محسوس کیا کہ آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ امن و سکون کی جگہ یہی ہے۔
یہاں پر انسان کو نہ صرف سماجی امن بلکہ روحانی سکون بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ میں نے ارادہ کر لیا کہ اب یہیں آ کر بس جاؤں گا۔ واپس جانے کے بعد میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ وہ سعودی عرب میں ملازمت تلاش کرے۔ دو ماہ کے اندر اسے یہاں نوکری مل گئی۔ میں نے اپنے پورے خاندان کو اس کے ساتھ روانہ کر دیا اور اب خود بھی واپس جا رہا ہوں۔
انٹن نے سوال کیا اچھا تو اب ارادہ سعودی عرب میں ملازمت کرنے کا ہے؟
نہیں۔ بہت کر لی ملازمت۔
تو پھر اب کیا ریٹائرڈ زندگی گزارنے کا خیال ہے؟
عدنان بولا نہیں ایسا بھی نہیں ہے۔
پھر تو کاروبار کرنے کی سوچ رہے ہو گے۔
نہیں وہ بھی نہیں کرنا۔
اچھا تو آخر کرنا کیا ہے؟
میں عراق جانا چاہتا ہوں۔
عدنان کے اس جواب نے انٹن کو چونکا دیا عراق؟ اس وقت؟
ہاں اسی وقت وہاں میری ضرورت ہے۔
وہاں جا کر کیا کرو گے؟
وہاں جا کر میں امریکی تسلط کے خلاف مزاحمت کروں گا۔
اچھا تو تم بھی دہشت گردوں میں شامل ہونے جا رہے ہو۔
عدنان بولا دہشت گردوں میں؟ کیا بات کرتے ہیں آپ۔ میں تو وہاں دہشت گردی کے خلاف لڑنے جاؤں گا۔
امریکہ کے ساتھ؟
نہیں امریکہ کے خلاف۔
امریکہ کے خلاف دہشت گردی کی جنگ! یہ تو پہلی بار سنا ہے۔
ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ آپ لوگ وہی کچھ سنتے ہیں جو امریکہ یا اس کے حواری کہتے ہیں اب امریکہ خود اپنے آپ کو دہشت گرد تو کہہ نہیں سکتا اس لیے اپنے مخالفین کو دہشت گرد کہتا ہے۔
لیکن میں تو امریکی نہیں ہوں۔ انٹن بولا
آپ امریکی تو نہیں ہیں لیکن امریکہ کے ہر سچ اور جھوٹ پر ایمان لانے والے ضرور ہیں اور اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ میں بھی انہیں میں سے ایک تھا۔ لیکن عراق میں امریکی فوج کشی کے بعد میری آنکھیں کھل گئیں۔
انٹن نے کہا۔ میری تو سمجھ میں کچھ بھی نہیں آتا۔
آ جائے گا۔ جب امریکہ اپنی فوجیں کینڈا میں داخل کر دے گا۔ تم لوگوں کو آزادی کے نام پر اپنا غلام بنا لے گا اور جب تم اس جارحیت کے خلاف مزاحمت کرو گے تو وہ تمہیں دہشت گرد قرار دے گا۔ تب تمہاری سمجھ میں سب کچھ آ جائے گا۔
پہلی مرتبہ عدنان نے انٹن سے سوال کیا۔ ایک بات بتاؤ امریکہ نے عمومی تباہی کے ہتھیاروں کا جھوٹ گھڑ کے عراق پر غاصبانہ قبضہ کر لیا پھر بھی وہ آزادی کا علمبردار ہے اور ہم اس کو اپنے ملک سے نکال کر خود مختاری حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہم دہشت گرد ہیں؟ کیا یہ منطق تمہیں معقول لگتی ہے؟
انٹن پھنس چکا تھا۔ اس آسان سے سوال کا کوئی جواب اس کے پاس نہ تھا۔ شاید جواب تو تھا لیکن وہ اس سے نظریں چرا رہا تھا۔ بات گھمانے کیلئے وہ بولا تمہارے عزائم تو بلند ہیں لیکن یہ جان جوکھم کا کام ہے۔ کیا تمہارا خاندان تمہیں اس بات کی اجازت دے گا؟
عدنان نے جواب دیا جہاں تک میرے اہل خانہ کا سوال ہے وہ بھی اس آگ میں تپ رہے ہیں جو میرے سینے میں لگی ہوئی ہے۔ وہ در اصل میرے لیے رکاوٹ نہیں بلکہ میرے معاون و مددگار ہیں۔ ہم نے آپس کے مشورے سے یہ طے کیا ہے کہ میں اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ برّی راستہ سے عراق روانہ ہو جاؤں گا۔
لیکن وہاں جا کر کیا کرو گے؟
وہاں پر فی الحال پولس میں بھرتی کا کام زور و شور سے چل رہا ہے۔ ہم دونوں اس میں داخل ہو جائیں گے۔ ہتھیار چلانے کی تربیت حاصل کریں گے۔ ان کے ناپاک منصوبوں سے واقفیت حاصل کریں گے۔ انہیں کے ذریعے ہمیں مزاحمت کرنے والے گروہوں کی تفصیلات کا بھی پتہ چل جائے گا جن کا وہ قلع قمع کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سب جان لینے کے بعد مناسب موقع پر ہم مجاہدین آزادی سے جا ملیں گے۔
امریکی ہتھیاروں اور تربیت کا استعمال امریکہ کے خلاف کرنا تو غداری ہے۔
یہ غداری نہیں اپنے دین اور ملک کے تئیں وفاداری ہے۔ یہ جنگ ہے اور تم تو جانتے ہی ہو کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔
اچھا تو اس میں محبت بھی ہے؟
کیوں نہیں؟ اپنے دین اور اپنی آزادی سے محبت ہی اس کا محرک ہے۔
لیکن تمہیں پتہ ہے وہاں آئے دن ہونے والے حملوں میں پولس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا جاتا ہے۔
ہاں ہمیں پتہ ہے اور یہ خطرہ ہم جان بوجھ کر مول لے رہے ہیں۔ ہمیں موت کا خوف نہیں ہم آزادی کی موت کو غلامی کی زندگی پر ترجیح دیتے ہیں۔ ہمارا دل صاف ہے اور نیت ٹھیک ہے ہم کس مرحلہ میں کام آتے ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ یہ خون رائے گاں نہیں جائے گا اور آزادی کا سورج اسی خون سے رنگین ہو کر طلوع ہو گا۔ ہم اپنی شہادت سے یہ ثابت کر دیں گے کہ ہم ظلم و جبر کے سامنے جھکنے والوں میں سے نہیں ہیں بلکہ ظالموں سے پنجہ آزمائی کرنے والے لوگ ہیں۔ ہم نے افغانستان میں ایک سپر پاور کو نیست و نابود کیا ہے اور عراق میں دوسرے کی قبر کھود رہے ہیں۔ ہم نمرود اور اس کی آگ کا انجام دیکھ چکے ہیں۔ ہم اس سے خوف نہیں کھاتے بلکہ امریکی استعمار کو نمرود کے بغل میں دفن کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
انٹن خون، موت، قبر، دفن اس طرح کے الفاظ سے گھبرا گیا اور اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ ریاض ایئر پورٹ پر اترنے تک انٹن کے دل میں ایک احساس جرم پیدا ہو گیا تھا وہ اپنے ہم سفر عدنان سے کترا رہا تھا۔ بے دلی کے ساتھ دونوں نے ایک دوسرے سے مصافحہ کیا اور جدا ہو گئے۔
ایئر پورٹ پر حسب وعدہ شمیم نے انٹن کا استقبال کیا اور اسے ہالی ڈے اِن ہوٹل میں چھوڑ دیا۔ راستہ میں رسمی دعا سلام کے علاوہ اور کچھ نہ ہو سکا۔ انٹن نے نہایت سنجیدگی سے بس ایک سوال کیا تھا حالات تو بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں کسی قسم کا کوئی خطرہ تو نہیں ہے؟
اس سے پہلے کہ شمیم اس کا حوصلہ بڑھاتا فون کی گھنٹی بج گئی۔ انٹن کے لیے ماریا کا فون تھا اور وہ اس سے وہی سوال کر رہی تھی جو ابھی ابھی انٹن نے شمیم سے کیا تھا۔ انٹن نے ماریا کو سمجھا بجھا کر فون بند کیا اور شمیم آئندہ صبح ملنے کا وعدہ کر کے رخصت ہو گیا۔
دوسرے دن وقت سے پہلے انٹن تیار ہو کر لابی میں آیا اور شمیم کو فون لگا دیا۔ شمیم نے اسے بتایا کہ وقت مقر رہ میں ابھی ایک گھنٹہ باقی ہے اور وہ آدھے گھنٹہ بعد ناشتہ کر کے گھر سے نکلے گا۔ شمیم نے انٹن کو اطمینان سے ناشتہ کرنے کا مشورہ دیا۔ فون بند کرنے کے بعد جب انٹن نے اخبار اٹھایا تو شاہ سرخی اس کی دلچسپی کی نکل آئی۔ سیاست کے بجائے ماحولیات کی خبر دیکھ کر اسے خوشی ہوئی وہ اخبار پڑھتے ہوئے ناشتہ کرنے لگا۔ ماحولیات پر تبصرے کے بعد دیگر سیاسی خبروں میں وہ دلچسپی نہ لے سکا۔ اخبار کو لپیٹ کر ایک جانب رکھا اور کافی پیتے ہوئے اس نے دیکھا سامنے کی میز پر ایک اور انگریز بیٹھا ہوا ہے۔
ان دونوں نے آنکھوں آنکھوں میں آداب و تسلیم کا تبادلہ کیا اور ایک دوسرے سے قریب آ گئے۔ نووارد نے انٹن سے اس کا پروگرام پوچھا اور جیسے ہی انٹن نے بتلایا کہ وہ دوسرے دن جدّہ جا رہا ہے تو وہ چونک پڑا۔
انٹن نے حیرت کی وجہ دریافت کرتے ہوئے سوال کیا کیوں؟ کوئی مسئلہ ہے کیا؟
نووارد نے کہا۔ ویسے تو کوئی خاص بات نہیں ہے لیکن پچھلے دنوں ایک فرانسیسی کو جدّہ میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
انٹن کے کان کھڑے ہو گئے۔ پچھلے دنوں یعنی ایک آدھ ہفتہ پہلے؟
نہیں۔ تقریباً چھ سات ہفتہ پہلے کی بات ہے۔
چھ سات ہفتہ پہلے۔ آپ لمبے عرصہ سے یہاں قیام پذیر ہو کیا؟
نہیں میں تو ابھی تین دن پہلے یہاں آیا تھا لیکن چونکہ یہاں آنا تھا اس لیے یہاں کے حالات سے واقفیت تو ضروری تھی نا؟
انٹن نے سوال کیا لیکن فرانسیسی کو کیوں؟
ہو سکتا ہے اسکارف والے معاملہ کو لے کر یہ قتل ہوا ہو۔ فرانس نے طالبات کے اسکارف پر پابندی کا قانون بنا کر ساری دنیا کے مسلمانوں کو بد ظن کر دیا ہے۔
کیا قتل کرنے والوں نے اس کی یہی وجہ بتلائی ہے۔
نہیں اس وقت تو یہ خبر آئی کہ اسے امریکی باشندہ سمجھ کر غلطی سے مار دیا گیا۔
کیا بات کرتے ہو؟ کیا دہشت گرد بھی اس طرح کی تفریق کرتے ہیں؟
ہاں سنا ہے یہ صرف امریکیوں اور برطانوی باشندوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ وہ تو ہمارے حکمران ہیں جو بلا تفریق کبھی افغانستان کوتو کبھی ایران کو، کبھی عراق تو کبھی فلسطین کو اپنا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔
اگر ایسا ہے تو ان لوگوں نے پھر فرانسیسی باشندہ کا قتل کیسے کر دیا۔
ارے بھائی غلطی تو سبھی سے ہوتی ہے۔ اب کوئی قتل کرنے سے پہلے پاسپورٹ تو چیک نہیں کر سکتا اندازہ لگاتا ہے کبھی کبھار اندازے بھی غلط ثابت ہوتے ہیں۔
اچھا یہ بتلاؤ کہ میرے بارے میں دہشت گرد کیا اندازہ لگائیں گے۔ انٹن نے فکر مندی سے پوچھا۔
تم چہرے سے نہ صرف امریکی بلکہ یہودی بھی لگتے ہو اور پھر کینڈا کو بہت سے لوگ امریکہ کا حصہ سمجھتے ہیں۔
تم کہنا کیا چاہتے ہو۔ مجھے ڈرا رہے ہو کیا؟
نہیں بھائی ایسی بات نہیں ہے۔ یہاں آنے کے بعد مجھ پر فرانسیسی کے قتل کی بابت کئی نئے انکشافات ہوئے۔
وہ کیا؟ انٹن نے سوال کیا
پہلے تو پتہ چلا کہ اس نے کسی خاتون کو چھیڑا تھا۔ جس کا بدلہ لینے کے لیے اس خاتون کے رشتہ دار نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
لیکن قانون کی بالا سدستی بھی تو کوئی چیز ہے؟
شاید تم نہیں جانتے اس ملک میں جہاں مقامی باشندوں کے لیے سخت ترین قوانین ہیں وہیں یورپی ممالک اپنے باشندوں کو سیاسی دباؤ ڈال کر چھڑا لیتے ہیں اس لیے لوگوں نے ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کے بجائے از خود انہیں کیفر کردار تک پہنچانا شروع کر دیا ہے۔
کیا واقعی ایسا ہی ہے؟
پتہ نہیں۔ سنتے تو یہی سب ہیں۔ ویسے میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ وہ فرانسیسی منشیات کا اسمگلر تھا اور دو گروہوں کی آپسی رنجش کا شکار ہو کر اپنی جان گنوا بیٹھا۔
انٹن نے جب یہ تیسری کہانی سنی تو اسے ہنسی آ گئی۔ ا س نے پوچھا۔ یار ایک بات بتاؤ تمہارا تعلق بھی فرانس سے تو نہیں ہے؟
نہیں میں تو جرمنی کا رہنے والا ہوں۔
تو پھر کیا تم اس فرانسیسی کے قتل کی تحقیقات کرنے کے لیے یہاں وارد ہوئے ہو۔
اس نے کہا۔ نہیں ایسی بات نہیں میں تو اپنے کاروباری سلسلہ میں یہاں آیا ہوں۔ آج کل یہ لوگ امریکہ اور برطانیہ کے مقابلہ جرمنی اور جاپان کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ ہمارے لیے کاروبار کے نئے مواقع پیدا ہو گئے ہیں اسی کا فائدہ اٹھانے کے لیے میں یہاں آیا ہوں۔ اب ہر روز شام میں وقت گزاری کے لیے فرانسیسی کا ذکر چھڑ جاتا ہے اور ایک نئی کہانی سامنے آ جاتی ہے۔ آج چوتھا دن ہے ہو سکتا ہے شام تک کوئی نیا انکشاف ہو جائے۔ یہ کہہ کر وہ قہقہہ لگانے لگا۔ انٹن بھی مسکرایا۔ اس کے سامنے شمیم کھڑا تھا۔
دعا سلام کے بعد دونوں کار میں بیٹھ گئے۔ انٹن نے فرانسیسی کے قتل کا قصہ چھیڑ دیا اور شکایت کرتے ہوئے پوچھا تم نے تو کہا تھاسب ٹھیک ہے جب کہ حال میں ایک فرانسیسی کو جدہ میں قتل کر دیا گیا۔
شمیم کو تعجب ہوا۔ کب کل ہوا؟ میں تو ابھی خبریں دیکھ کر آ رہا ہوں ایسی کوئی خبر میری نظروں سے نہیں گذری۔
یہ کل کی بات نہیں چھ ہفتہ پہلے کی بات ہے۔ انٹن نے وضاحت کی۔
چھ ہفتہ! ! ! شمیم کا قہقہہ بلند ہوا۔ اگر میں تمہیں یہ بتلا دیتا کہ گذشتہ چھ ہفتوں میں کینیڈا کے اندر کتنے لوگ قتل کیے جا چکے ہیں تو شاید تم ٹورنٹو کے بجائے انٹارٹیکا سے ریاض آتے۔
یار شمیم یہ نہایت سنجیدہ معاملہ ہے اور تم اسے ہنسی میں اُڑا رہے ہو۔
میں اسے ہنسی میں نہیں اُڑا رہا بلکہ میں تم سے یہ کہہ رہا ہوں کہ جس طرح ایک فرانسیسی کا یہاں قتل ہوا اسی طرح نہ جانے کتنے غیر ملکیوں کا مختلف ممالک میں قتل ہوا ہو گا۔ اس میں بہت زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
خیر اب یہ بتلاؤ کہ ہم لوگ کہاں جا رہے ہیں؟
شمیم نے جواب دیا۔ فی الحال ہم لوگ اپنے ایک گاہک سے ملنے جا رہے ہیں۔ یہ وہی شخص ہے جس سے گذشتہ مرتبہ تم نے فون پر بات کی تھی اور آئندہ ملنے کا وعدہ کیا تھا۔ آج تم اپنا وہ وعدہ وفا کرنے جا رہے ہو۔
انٹن نے شمیم کی جانب تشکر آمیز انداز میں دیکھا اور کہا۔ زہے نصیب۔
یہ دونوں دس منٹ تاخیر سے مائیکل کے پاس پہنچے اور اسے استقبالیہ میں منتظر پایا۔ تینوں بڑی گرمجوشی سے ملے۔ مائیکل نہایت باغ و بہار شخصیت کا حامل تھا۔ انٹن نے شاندار دفتر کی تعریف کی۔ مائیکل اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں اس پینٹنگ کے قریب لے گیا جو ابھی حال ہی میں استقبالیہ کے اندر نصب کی گئی تھی۔
وہ تصویر در اصل آرٹ کا بے مثال نمونہ تھی۔ کالے پتھر پر مصور نے بھورے رنگ کا استعمال کرتے ہوئے عربی قافلہ بنا دیا تھا۔ پینٹنگ تقریباً دو میٹر اونچی اور دس میٹر چوڑی دیوار پر محیط تھی ایسا لگتا تھا گویا کالے پتھر پر فطری نقوش نے قافلہ کو ابھار دیا ہے پتھر پر ہاتھ پھیرنے پر بھی رنگ محسوس نہ ہوتا تھا۔ ایک فوجی کارواں اونٹوں اور گھوڑوں پر رواں دواں تھا۔ قافلہ سالار اپنے ہاتھ میں علم بلند کیے ہوئے تھاسبھی نے عربی لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ چاروں طرف صحرا اور درمیان میں ایک خیمہ نظر آتا تھا۔ انٹن نے پوچھا۔
یہ کس کا قافلہ ہے اور کہاں جا رہا ہے؟
مائیکل بولا یقین کے ساتھ تو میں نہیں کہہ سکتا لیکن سنا ہے یہ طارق بن زیاد کا قافلہ ہے جس نے پہلی بار اسپین کو فتح کیا تھا۔
اوہ تو انہیں اپنی وہ فتح یاد ہے۔
بالکل یاد ہے یہ اس فتح کو دوہرانا چاہتے ہیں اسی لیے پینٹنگ سجاتے ہیں۔‘‘
بات چیت کرتے کرتے وہ لوگ گیارہویں منزل پر مائیکل کے کمرے میں پہنچ گئے۔ اس سے پہلے کہ انٹن اپنی کمپنی کا تعارف کراتا مائیکل اپنے کارنامے بیان کرنے لگا۔ اس نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ امریکہ میں گزارا تھا اس کے بہت سارے تلخ تجربات تھے جو وہ انٹن کے گوش گذار کرنے لگا۔
اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں اسے کئی مرتبہ امریکی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا تھا اور اکثر مایوسی ہوئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ امریکہ میں قانون کی عدالتیں ہیں انصاف کی نہیں۔ وہاں قانونی مباحث تو ہوتے ہیں لیکن انصاف نہیں ملتا۔ اس بیچ انٹن نے کئی مرتبہ اپنی کاروباری گفتگو کو چھیڑا لیکن ہر بار مائیکل اسے کہیں اور لے گیا۔ بالآخر انٹن نے ہتھیار ڈال دیئے اور پوچھا۔ حالات کیسے ہیں؟
مائیکل کا جواب تھا اچھے نہیں ہیں۔ اس دفتر میں پہلے تیس امریکی کام کرتے تھے اب صرف چھ رہ گئے ہیں۔ اس کا خیال ہے امریکی انتظامیہ کا دعویٰ جھوٹا ہے کہ تیس ہزار امریکی ہنوز یہاں برسر روزگار ہیں۔ ۸۰ فی صد لوگ یہاں سے جا چکے ہیں۔
انٹن نے حیرت سے پوچھا۔ ایک بات بتاؤ آپ یہاں کب سے ہو؟
مجھے چار پانچ سال ہو گئے۔ درمیان میں لوٹ گیا تھا لیکن دو سال پہلے واپس آ گیا۔ مائیکل نے سکون سے جواب دیا۔
انٹن نے سوال کیا تعجب ہے جب لوگ جانے لگے تو تم لوٹ آئے۔
ہاں یہی سمجھ لو۔
انٹن نے پوچھا تمہیں ڈر نہیں لگتا؟
لگتا ہے۔ لیکن یہ ڈر تو وہاں بھی موجود ہے۔ موت کا ڈر۔ اس لیے میں سوچتا ہوں وہ تو اپنے وقت مقررہ سے پہلے آ نہیں سکتی اور پھر جب وقت آ جائے گا تو وہ آ کر ہی رہے گی۔ ملک الموت کو امریکہ یا سعودی عرب سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
انٹن بولا یار میں تو تمہیں سائنسداں سمجھتا تھا تم تو فلسفی نکلے۔
کیوں؟ نہیں ویسے یہ فلسفہ نہیں حقیقت ہے۔ مائیکل بولا
اچھا تو یہ بتاؤ کہ آخر یہاں کا مسئلہ کیا ہے؟
مسئلہ در اصل یہ ہے کہ یہاں کی عوام کو اپنی دینی اقدار سے بے شمار عقیدت و محبت ہے وہ امریکہ کو اپنے دین کا دشمن سمجھتے ہیں۔ بدقسمتی سے امریکی انتظامیہ اپنے قول و عمل سے ان کے یقین میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔ اب یہ لوگ امریکہ نواز حکمرانوں کو بھی اپنا دشمن سمجھنے لگے ہیں نیز ان کے خیال میں حکمراں خاندان دین سے خاصہ دور ہو چکا ہے۔ یہ ان کے اپنے مسائل ہیں جن میں وہ الجھے ہوئے ہیں۔ ہم اپنے مفاد کی خاطر اس طبقہ کی حفاظت پر مامور ہیں جن سے عوام بیزار ہیں۔ اس لیے وہ ہم سے بھی ناراض ہیں۔ اس طرح ایک خطرناک دائرہ بن گیا ہے جس میں ہم سب ایک دوسرے کا تعاقب کر رہے ہیں۔
مائیکل کی بات انٹن کے سر پر سے گزر گئی اس نے موضوع بدلتے ہوئے پوچھا۔ لیکن وہ فرانسیسی جسے جدّہ میں قتل کر دیا گیا؟ اس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟
مائیکل نے جواب دیا۔ میں اپنا خیال کیا بتلاؤں ہمارے فلپائنی سکریٹری کا خیال بتلاتا ہوں جو مجھے خاصہ معقول معلوم ہوتا ہے۔
وہ کیا ہے؟
جس روز اس فرانسیسی کا قتل ہوا میں نے اپنے فلپائنی سکریٹری سے اس بارے میں استفسار کیا تو وہ بولا۔ ہر روز دنیا میں سیکڑوں لوگوں کو یوروپین اور امریکی موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں لیکن ان کی فکر کسی کو نہیں ہوتی بس ایک آدھ انگریز کہیں مارا جائے تو قیامت آ جاتی ہے۔ سکریٹری کے اس جواب نے میرا نقطۂ نظر بدل دیا۔
گفتگو کا فی طویل ہو چکی تھی مائیکل نے انٹن اور شمیم کو کھانے کی دعوت دی اور کھانا کھلا کر روانہ کیا۔ انٹن اس ملاقات سے مطمئن نہیں تھا اس لیے کہ کاروبار کے سلسلے میں بہت کم گفتگو ہو سکی تھی۔ اس ملاقات کے دوران انٹن بولا کم تھا اور زیادہ تر وقت مائیکل کی گفتگو سننے میں صرف ہوا تھا ورنہ اکثر تو یہ ہوتا کہ وہ بولتا لوگ سنتے اورسوال کرتے نیز وہ جواب دیتا۔ اس بار ترتیب الٹ گئی تھی وہ پوچھتا رہا اور مائیکل کا بول بالا رہا۔
شام میں انٹن اور شمیم کو جدّہ جانا تھا جس وقت یہ لوگ اپنا سامان چیک اِن کرا رہے تھے اچانک کسی نے زوردار انداز میں شمیم کی پیٹھ تھپتھپائی۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے پر پتہ چلا یہ منورنجن بھارتی تھا۔ عربی ثوب سر پر شماغ اور گترا، آنکھوں پر کالا چشمہ اور فرنچ کٹ داڑھی ہر چیز عربوں جیسی تھی۔ شمیم نے منورنجن بھارتی کو اس کی منفرد مسکراہٹ سے پہچانا تھا۔
اوہ منو یہ کیا تم تو بالکل لارنس آف عربیہ بنے ہوئے ہو۔ خیریت تو ہے۔
منورنجن نے جواب دیا۔ کل ّ کوئیز۔ اور پوچھا۔ کیف انت زین۔
شمیم شرمندہ ہو گیا۔ اس لیے کہ ایسی عربی تو وہ خود بھی نہیں سیکھ پایا تھا اور نہ ہی اس لباس کو اختیار کر سکا تھا۔ شمیم نے پوچھا۔
یار تم تو دور درشن پر دور سے درشن دیتے تھے اب یہاں کہاں پہنچ گئے؟
میں فی الحال سی این این کے لیے کام کر رہا ہوں۔ 9/11 کے بعد ایک ایک کر کے جب ان کے انگریز نمائندے مشرق وسطیٰ سے رفو چکر ہونے لگے تو پھر ان لوگوں نے کچھ نئے رنگروٹ بھرتی کیے۔ گذشتہ ایک سال کے دھماکوں نے انہیں بھی راہ فرار پر مجبور کر دیا۔ ویسے تو انسان اپنا تشخص چھپا لیتا ہے لیکن ٹی وی کا صحافی جسے لوگ ہر روز دیکھتے ہوں یہ ممکن نہیں تھا؟ اس لیے وہ بے چارے یہاں رک نہ سکے۔ اس کے بعد سی این این نے ہند و پاک کا رخ کر کے نئی بھرتی شروع کی تو میری بھی تقدیر کھل گئی۔ دوردرشن میں تنخواہ روپیوں میں ملتی تھی یہاں ڈالر میں ملتی ہے نیز اس پر ٹیکس بھی نہیں لگتا۔
اوہو تب تو ان خراب حالات نے تمہارا بھلا کر دیا کیوں؟
منورنجن بولا یار خراب حالات سب کے لیے تھوڑے ہی ہیں جس کے لیے ہیں اس کے لیے ہیں ہمارے تمہارے لیے تو جیسا بھارت ویسے سعودی عرب بلکہ یہاں ٹھیک ہی لگتا ہے آرام ہی آرام اور مال ہی مال۔ کیوں ٹھیک ہے نا۔
منورنجن کی باتوں نے انٹن کا خوب منورنجن کیا۔ اس نے کہا۔ تم غلط پیشے میں آ گئے تم تفریح کی دنیا میں ہوتے تو تمہارے سیرئیل کبھی نہیں اترتے۔
نہیں دوست نہیں۔ شائقین یکسانیت کے دشمن ہوتے ہیں۔ وہ ہر کسی سے بور ہو جاتے ہیں کسی سے جلد، کسی سے بدیر۔ ندرت و تنوع کے بغیر تفریح ممکن نہیں۔
فلائٹ کا اعلان ہو گیا مسافر جہاز کی جانب چل پڑے۔ منورنجن چند منٹوں میں کچھ ایسا گھل مل گیا کہ انٹن اور شمیم نے اسے اپنے درمیان بٹھا لیا۔ جہاز میں انٹن نے کہا۔ ایک زمانہ تھا جب صحافی خبر رسانی کا کام کرتے تھے آج کل تو خبر بنانے لگے ہیں۔ نیوز ریڈر سے نیوز میکر بن گئے ہیں۔ کیوں کیا خیال ہے؟
اس سوال پر منورنجن سنجیدہ ہو گیا اس نے کہا۔ یہ در اصل مسابقت کی دیوانہ وار دوڑ کا کمال ہے پہلے خبریں دینا صرف حکومت کی ذمہ داری تھی۔ کسی اور کو اس کی اجازت نہیں تھی۔ ان سرکاری خبر رسانوں کے پاس نہ وسائل کی کمی تھی اور نہ ان کا کسی سے مقابلہ تھا۔ اس صورتحال نے ٹی وی پر کام کرنے والے صحافیوں کی تخلیقی صلاحیت کو بانجھ کر دیا تھا لیکن جب پرائیوٹ چینل آ گئے تو ان کو وسائل کے لیے اشتہارات اور اشتہارات کے لیے ناظرین کی تعداد پر منحصر ہونا پڑا۔ مختلف چینلس کے درمیان مسابقت اور مقابلہ آرائی شروع ہو گئی اس نے صحافیوں کو بیدار مغز اور ندرت پسند بنا دیا اور نیوز ریڈر کو نیوز میکر میں تبدیل کر دیا۔‘‘
بھئی بات معقول معلوم ہوتی ہے۔‘‘ شمیم نے تائید کی اور پوچھا۔ قدیم صحافت اور جدید خبر رسانی میں بنیادی فرق کیا ہے؟
منورنجن نے کہا۔ اگر ایک جملہ میں بیان کرنا ہو تو پہلے ہم خبروں کے پیچھے بھاگتے تھے اب خبروں کے آگے یا کم از کم ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔
آگے کیا مطلب؟ کیا تم لوگوں کو الہام ہو جاتا ہے؟ شمیم نے پوچھا۔
نہیں الہام تو نہیں ہوتا لیکن اندازہ ضرور ہوتا ہے۔ کل کون سی خبر شاہ سرخی بن سکتی ہے اس کا اندازہ جو صحافی آج لگا لیتا ہے اور اس کی تیاری کرتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور جو ایسا نہیں کر پاتا ناکامی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔
درست، خیر یہ بتاؤ کہ کل کی اہم ترین خبر کیا ہو گی؟‘‘ انٹن نے سوال کیا۔
منورنجن نے کچھ دیر سوچ کر کہا۔ میں انتر یامی تو نہیں ہوں لیکن ہمارا خیال اور ہماری خواہش ہے کہ کل کی اہم ترین خبر حامد کرزائی کی حلف برداری ہو۔
خیال تو ٹھیک ہے لیکن خواہش کیوں ہے؟
خواہش اس لیے ہے کہ ہم ایسی خبریں دینا چاہتے ہیں جو ہمارے ناظرین کو خوش کرے ویسے یہ بات ہمیشہ ممکن نہیں ہوتی ہمیں ایسی خبریں بھی نشر کرنی پڑتی ہیں جو ان کو ناگوار ہوں۔ اس لئے کہ کئی بار ان کی دلچسپی ایسی خبروں میں بڑھ جاتی ہے لیکن جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں تفریح میں ٹریجڈی کے بجائے کامیڈی زیادہ چلتی ہے اسی طرح خبروں میں ناگوار کے مقابلے خوشگوار خبروں کو زیادہ سراہا جاتا ہے۔ ہماری کوشش بھی یہ ہوتی ہے غمناک خبر زیادہ طویل نہ ہو بلکہ جتنی جلد ممکن ہو اسے ہٹا دیا جائے۔ اِلّا یہ کہ… منورنجن اچانک رُک گیا۔
اِلّا کیا؟ شمیم نے سوال کیا
یہ راز کی بات ہے لیکن تم سے کیا چھپانا۔ اِلّا یہ کہ اس سے حکومت کو کو ئی سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہو۔
لیکن تم پرائیوٹ چینل والے لوگ تو اپنے آپ کو آزاد صحافت کا علمبردار کہتے ہو۔ پھر یہ سب؟
ہاں بھئی یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ امریکی انتظامیہ کا ڈنڈا جب سر پر پڑتا ہے اچھے اچھوں کے ہوش ٹھکانے آ جاتے ہیں۔ جیسے ہمارے ملک میں کسی بھی آدمی کو داؤد یا چھوٹا راجن کا آدمی بنا کر انکاؤنٹر کر دیا جاتا ہے اسی طرح امریکہ کسی کو بھی دہشت گرد قرار دے کر گونٹے ناموبے بھیج دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ سب اس کا خیال رکھتے ہیں۔
لیکن یہ تو پریس کی آزادی کے خلاف ہے۔
ہاں ہم جانتے ہیں لیکن پھر بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ عراق میں جب آمریت تھی الجزیرہ کو آزادی تھی اب آزادی آئی تو الجزیرہ کا دفتر بند اخبارات پر پابندی۔ یہ سب دیکھ کر بھی جو عبرت نہ پکڑے تو وہ سراسر احمق ہے۔‘‘
انٹن نے پوچھا اچھا یہ بتاؤ کہ حامد کرزائی کی حلف برداری کے سلسلے میں تم یہاں بیٹھ کر کیا کرو گے؟
ہم ملاقاتیں کریں گے۔ عوام و خواص سے ان کے تاثرات معلوم کریں گے اور جو ہمارے حق میں ہوں گے انہیں نشر کر دیں گے۔
یہ کام تو افغانستان میں ہونا چاہئے۔
نہیں وہاں یہ سب نہیں ہو سکتا۔ کل چونکہ امریکی خارجہ اور دفاع کے سکریٹری وہاں موجود ہوں گے اس لئے کرفیو کی سی صورت ہو گی۔ عوام کو گھروں سے نکلنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ ویسے بھی وہاں کے لوگوں کی اکثریت خلاف ہے اس لیے ان پر اپنی توانائی صرف کرنے سے کیا حاصل؟ کابل سے صرف تقریب کو نشر کیا جائے گا۔ یہاں سعودی عرب میں اکثر دانشور اور صحافی جدّہ میں رہتے ہیں۔ میں ان سے ملوں گا اور حامد کرزائی کی حکومت کے قیام اوراس میں امریکہ کے احسانات کے بارے میں پوچھوں گا تاکہ لوگ افغانستان پر کی گئی بمباری اور مظالم کو فراموش کر کے امریکہ کے تئیں اچھے جذبات سے اپنے دلوں کو معمور کریں۔
شمیم نے پوچھا۔ کیا ایسا ہو گا؟
منورنجن خاموش ہو گیا اور پھر اس نے گیتا کا مشہور اشلوک سنا دیا۔ کرم کیے جا پھل کی اِچھاّ مت کر اے انسان۔ ہمارا کام کوشش کرنا ہے بس ہمیں اسی کی تنخواہ ملتی ہے۔
ہوائی جہاز کا انجن بند ہوا اور ان تینوں کی گفتگو کا سلسلہ بھی رک گیا۔ اپنا اپنا سامان اٹھائے سب لوگ نیچے بس میں آ گئے اور پھر ایک دوسرے سے مصافحہ کر کے جدا ہو گئے۔ انٹن نے کہا۔ تمہارا دوست دلچسپ آدمی ہے۔
شمیم نے جواب دیا۔ وہ اسم بامسمیٰ ہے ہندی میں منورنجن کا مطلب تفریح ہوتا ہے۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
جدّہ میں انٹن اور شمیم کی مشغولیات مختلف تھیں لیکن دو دن بعد ان کو ساتھ میں ینبع جانا تھا۔ شمیم جدہ سے باہر ڈیڑھ سو کلو میٹر دور رابغ روانہ ہو گیا اور انٹن اپنے ایک گاہک سے ملنے جدہ شہر میں چلا گیا۔ دوپہر سے قبل ہوٹل آنے کے بعد انٹن کو اپنے ایک دیرینہ دوست ڈاکٹر طلحہ کا فون موصول ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ امریکی قونصل خانہ پر حملہ ہو گیا ہے جو ان کے دفتر کے بالکل سامنے ہے۔ قونصل خانے کی عمارت سے شعلے اٹھ رہے ہیں۔ گولیوں کے چلنے کی آوازیں آ رہی ہیں۔ کچھ لوگ یرغمال بھی بنا لئے گئے ہیں۔
اس خبر کے سنتے ہی انٹن کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔ اس نے اپنے کمرہ میں آ کر ٹی وی چلا دیا۔ سی این این پر وہی منورنجن بھارتی قونصل خانہ کے باہر سے ڈاکٹر طلحہ کی تصدیق کر رہا تھا۔
انٹن بری طرح بوکھلا گیا۔ اس نے آناً فاناً اپنا منصوبہ تبدیل کر دیا اور اسی رات جدہ سے واپس لندن جانے کا پروگرام بنا لیا۔ شمیم کو ان تمام چیزوں کی اطلاع ہی نہیں تھی۔ جب انٹن نے اسے بتایا تو وہ بھی حیرت میں پڑ گیا لیکن اب کون کیا کر سکتا تھا۔ اس نے انٹن کی ڈھارس بندھائی اور جلد ہی وہ اپنے پہنچنے کی یقین دہانی کرائی لیکن جب ہوٹل پہنچا تو انٹن کی بے قراری دیکھ کر پریشان ہو گیا۔
ہذیانی کیفیت میں مبتلاء انٹن کہہ رہا تھا۔ یہ کیا پاگل پن ہے مجھے پہلے ہی پتہ تھا دنیا کے اس حصہ میں یہی سب ہوتا ہے۔ خیر مجھ سے غلطی ہو گئی جو میں نے یہاں کا رخ کیا۔ اس کے لیے میں خود ذمہ دار ہوں اور میں اپنی اصلاح خود کروں گا واپس جاؤں گا اور پھر کبھی نہ آؤں گا۔
شمیم سمجھ گیا موت کے خوف نے اسے حواس باختہ کر دیا ہے اس لیے کچھ کہنا سننا فضول ہے۔ تھوڑے سے وقفہ کے بعد وہ دونوں ایئر پورٹ پر آ گئے وہاں ان کی ملاقات پھر منورنجن سے ہو گئی جو ریاض واپس جا رہا تھا۔ شمیم نے پوچھا۔
بھئی تمہارے دوست حامد کرزائی کا کیا بنا تم تو اسے بھول ہی گئے اور دن بھر کچھ اور ہی راگ الاپتے رہے۔
منورنجن نے کہا۔ تم صحیح کہتے ہو امریکی قونصل خانہ پر حملہ کی خبر نے ساری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ اب ایسے میں اگر ہم بھی اس جانب متوجہ نہ ہوتے تو لوگ ہماری طرف سے توجہ ہٹا دیتے۔
شمیم بولا یار میں بھی دن بھر تمہاری خوشگوار اور ناگوار والی بات پر غور کرتا رہا لیکن حالات کس طرح اختیار سے باہر ہو جاتے ہیں؟
منورنجن نے کہا۔ لیکن یہ سب اتفاقی بات نہیں ہے۔ در اصل جن طاقتوں کے درمیان کشمکش برپا ہے وہ دونوں ایک دوسرے کے منصوبوں سے واقف ہوتے ہیں۔ وہ دونوں اس بات کو جانتے ہیں کہ کس موقع کا کون کتنا فائدہ اٹھائے گا اور پھر وہ دونوں ایک دوسرے کو زک پہنچانے کا کوئی موقع نہیں گنواتے۔ یہی تماشہ ہم آئے دن دیکھتے اور لوگوں کو دکھلاتے ہیں۔
منورنجن کی بات ٹھیک تھی یہ حملہ ایک دن قبل یا بعد بھی ہو سکتا تھا لیکن اگر ایسا ہوتا تو حامد کرزائی کی حلف برداری کا جشن متاثر نہ ہوتا۔ امریکہ جس چیز کو اپنی زبردست کامیابی کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتا تھا اس پر جدّہ میں قونصل خانہ پر حملہ کی خبر گرہن بن کر چھا گئی تھی۔ بش نے حامد کرزائی کی حلف برداری کے دن عراق کے کارگزار صدر کو وائٹ ہاؤس آنے کی دعوت دی تھی تاکہ اس جشن کو دوبالا کیا جائے لیکن جدہ کے حملہ نے سب تہ و بالا کر دیا
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
لندن کی فلائٹ جب ہوا میں پرواز کر گئی تو انٹن کی جان میں جان آئی۔ اب اس نے آس پاس دیکھا تو اپنے بغل میں اسے ایک نوجوان نظر آیا۔ اس نوجوان نے انٹن کو سلام کیا۔ خیریت دریافت کی اور پوچھا۔
آپ کہاں جا رہے ہیں؟
انٹن جو کافی دیر سے خاموش تھا ایک دم سے پھٹ پڑا۔ اس نے نوجوان کو بتایا کہ اسے مزید دو دن سعودی عرب میں گزارنے تھے لیکن اس حملے کے باعث اپنا منصوبہ منسوخ کر کے وہ لندن جا رہا ہے وہاں دو روز قیام کر کے اپنے ملک کینیڈا روانہ ہو جائے گا۔ اس غیر محفوظ علاقہ سے نکل کر محفوظ و مامون دنیا پر چلا جائے گا۔
انٹن کے بغل میں بیٹھا ہوا نوجوان مسکرایا اور سوال کیا۔ آپ تو محفوظ مقام پر پہنچ جاؤ گے لیکن ہم کہاں جائیں؟
کیا مطلب؟ انٹن نے سوال کیا۔
وہ بولا۔ میرا تعلق فلسطین سے ہے۔ میرے والد اسرائیلی حملے میں شہید کر دیئے گئے میری بے سہارا ماں اپنے بھائی کے پاس سعودی عرب آ گئی۔ میں نے ہوش سنبھالنے کے بعد اپنے باپ کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے دوبارہ فلسطین جانے کا فیصلہ کیا تو میری ماں نے مجھے منع کر دیا۔ میں نے سمجھا کہ میری ماں ڈر گئی ہے میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے مجھے بتایا بیٹے اسرائیل تو ایک شاخ ہے فتنہ کی جڑ تو امریکہ ہے جس نے نہ صرف فلسطین بلکہ عراق اور افغانستان کو جہنم زار بنا رکھا ہے۔
جس کے ارادے نہ ایران کی بابت ٹھیک ہیں نہ شام کے بارے میں اچھے ہیں۔ جو سوڈان کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے اور لبنان کو بھی۔ اس کی بدولت ہم ہر جگہ غیر محفوظ ہیں۔ اسی لئے میں نے سوال کیا تھا کہ آپ تو اپنے محفوظ مقامات پر چلے جاؤ گے لیکن ہم کہاں جائیں گے؟
اس سوال کا انٹن کے پاس جواب نہ تھا۔ اس نے کہا۔ یہ تو ٹھیک ہے لیکن تم بھی تو امن کی تلاش میں برطانیہ ہی جا رہے ہو۔
نہیں میں جانتا ہوں کہ امریکہ اور برطانیہ بھی ہمارے لیے محفوظ نہیں ہے۔ وہاں معصوم لوگوں کو دہشت گرد قرار دے کر بھون دیا جاتا ہے لیکن پھر بھی میں وہاں جا رہا ہوں تاکہ لوگوں کو اپنے قلم اور اپنے عمل سے امن و امان کا مطلب سمجھاؤں۔ میں وہاں جا کر لوگوں کو بتاؤں گا کہ اگر اپنی خیرو سلامتی چاہتے ہو تو دوسرے کا سکون غارت نہ کرو۔ اگر یہ بات الفاظ سے ان کی سمجھ میں آ جائے تو ٹھیک ورنہ پھر مجھے اپنے عمل سے یہ بات سمجھانی ہو گی۔
عمل کیسا عمل؟ انٹن نے سوال کیا
ایسا عمل جو دلوں کو دہلا دے جو لوگوں کے اندر عدم تحفظ کا احساس پیدا کر دے تاکہ وہ اپنی حفاظت کا انتظام کریں اور دوسروں کے تحفظ کا احترام کریں۔
لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟
ممکن ہے۔ جیسا کہ ۱۱؍ستمبر کے دن ممکن ہوا۔
انٹن کے لیے یہ ایک یادگار سفر تھا۔ حالانکہ وہ اپنے کاروباری مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔ لیکن بہت سارے غلط افکارو نظریات سے اس نے نجات حاصل کر لی تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر نوجوان فلسطینی ہمراہی سے ہاتھ ملایا اور دعا دی … ’’گاڈ بلیس یو ینگ مین! ‘‘
٭٭٭