سرجیت کور کے کانوں میں ’’پرنام جی‘‘ کے الفاظ گونج رہے تھے۔ نظریں اس اجنبی کو تلاش کر رہی تھیں جو ہر صبح اس کو سلام کرتا تھا۔ ۵۰ سالہ سرجیت کور لندن کے سب سے بڑے سپر مارکیٹ ’’ٹسکو‘‘ میں کاؤنٹر کلرک تھی۔ اس کی ڈیوٹی صبح ۸ بجے شروع ہوتی اور ۵ بجے ختم ہو جاتی۔ دن کا اختتام کیسے ہو گا اس کا اندازہ تو سرجیت نہیں کر سکتی تھی لیکن شروعات کی بابت یقین ہوتا تھا کہ اجنبی سردار کے پرنام سے ہی ابتداء ہو گی۔
گزشتہ کئی سالوں سے یہ معمول تھا کہ سرجیت کی آمد سے قبل وہ سن رسیدہ سکھ اس کا منتظر ہوتا۔ سرجیت کا استقبال وہ روزانہ پرنام جی کہہ کے کرتا۔ کبھی کبھار اس کے ہاتھوں میں ضرورت کا کوئی سامان بھی ہوتا جس کی قیمت ادا کر کے وہ چل دیتا اور کبھی تو بس سلام کر کے رخصت ہو جاتا۔ سرجیت نے کبھی جواب دینے کی زحمت نہیں کی تھی۔ وہ اس کی ان دیکھی کر کے اگلے گاہک کی خدمت میں لگ جاتی۔ ٹسکو کے کاونٹر پر دس بجے تک دم لینے کی فرصت نہ ہوتی تھی۔
اتوار کے دن وہ بوڑھا ہفتہ بھر کا راشن اور دیگر سودا سلف خریدتا تھا۔ یہ سامان چونکہ بہت زیادہ ہوتا اس لئے اسٹورمیں کام کرنے والے حمال کے ذریعہ گھر تک پہنچا دیا جاتا تھا۔ وہ چونکہ برسوں پرانا گاہک تھا اس لئے دوکان کے سارے ہوم ڈلیوری والے نوجوان اس کا پتہ جانتے تھے لیکن وہ ان میں سے کسی کونہ وہ پرنام کرتا تھا اور نہ کوئی اس کو سلام کرتا تھا۔ جہاں تک سرجیت کا سوال تھا وہ سلام کرنا تو کجا پرنام کا جواب تک نہ دیتی تھی۔
سرجیت کو اس بلا ناغہ کے سلام دعا سے الجھن ہوتی تھی لیکن چونکہ وہ بزرگ عمر میں اس کے والد کے برابر تھا اور نہایت پر وقار انداز میں پرنام کرنے کے بعد جواب سے بے نیاز لوٹ جاتا تھا اس لئے از راہِ مروت اس نے کبھی ناگواری کا اظہار نہیں کیا تھا۔
وہ اتوار کا دن کا تھا۔ سرجیت کی آنکھیں اس ٹرالی کو تلاش کر رہی تھی جو کبھی ناغہ نہیں ہوئی تھی۔ مگر نہ وہ اجنبی تھا، نہ اس کی اشیائے خور دونوں سے بھری ہوئی ٹرالی تھی اور نہ پرنام۔ اس کیفیت نے سرجیت کو بے چین کر دیا۔ اس کی زندگی میں ایک خلاء رونما ہو گیا تھا۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ آج ضرور کوئی بڑا ناگہانی حادثہ وقوع پذیر ہو گیا ہے۔ اس نے سوچا کہیں کل کا پرنام آخری تو نہیں تھا۔ وہ اجنبی اس دارِ فانی سے کوچ تو نہیں کر گیا؟
کر گیا تو کر گیا ہر روز نہ جانے ٹسکو کے کتنے گاہک داعیِ اجل کو لبیک کہتے تھے۔ سرجیت اس پراگندہ خیالی سے نکلنے کی سعی کر رہی تھی۔ لیکن بار بار پرنام جی کی صدا اس کے کانوں سے ٹکراتی اور وہ بے ساختہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگتی۔ آواز تو موجود تھی لیکن اس کو لگانے والا غائب ہو گیا تھا۔ سرجیت کی بے کلی جب اپنے حدود سے تجاوز کر گئی تو وہ اپنے کاؤنٹر سے اٹھی اور منیجر سے طبیعت کی ناسازی کا بہانہ بنا کر ایک دن کی رخصت لے لی۔
منیجر کے کمرے سے نکل کر ٹسکو کے دروازے پر اس نے ہوم ڈلیوری والے نوجوان سے بوڑھے سردار کے گھر کا پتہ پوچھا اور اس کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی۔ یہ عجیب صورت حال تھی کہ کل تک سرجیت جس کے سلام کا جواب دینے کی روا دار نہیں تھی آج اس کے گھر جا رہی تھی۔ سرجیت نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اگر اس نے پوچھ لیا میرے گھر کیوں آئی ہو؟ تو کیا جواب دے گی۔
گھر پر قفل پڑا ہوا تھا۔ پڑوس سے معلومات کی تو ایک بچہ نے بتایا اس کے والدین سمیت سب لوگ شمسان بھومی گئے ہوئے ہیں۔ سرجیت کا شک یقین میں بدل گیا۔ وہ اپنے آپ کو کوس رہی تھی۔ اس نے اس قدر بے رخی کا مظاہرہ کیوں کیا؟ اگر کبھی مسکرا کر پرنام کا جواب دے دیتی تو اس کا کیا بگڑ جاتا؟ پرنام جی کی متلاشی سرجیت کور کے قدم اب شمسان گھاٹ کی جانب رواں دواں تھے حالانکہ وہ جانتی تھی کہ اس کو پرنام کرنے والا جہانِ فانی سے کوچ کر چکا ہے۔
سرجیت کور جب لندن شہر کے برقی شمسان بھومی کے صدر دروازے پر پہنچی تو دیکھا سوگوار چہرے لوٹ رہے ہیں۔ وہ سمجھ گئی کہ یہ لوگ کس کا انتم سنسکار کر کے واپس ہو رہے ہیں۔ سرجیت نہ مرنے والے کا نام نہیں جانتی تھی اور نہ اس کی دیگر تفصیلات سے واقف تھی۔ وہ ٹسکو کے ہزاروں گاہکوں میں سے ایک ضرور تھا لیکن سب سے منفرد اور مختلف بھی تھا۔ اس لئے کہ اس کی مانند مستعدی سے کوئی اور سرجیت کو پرنام جی نہیں کہتا تھا۔
یہ آواز کچھ اس طرح اس کی زندگی کا حصہ بن گئی تھی کہ اس کے بغیر اپنے دن کی شروعات کرنا اور اسے آگے بڑھانا سرجیت کیلئے مشکل ہو رہا تھا۔ جب سرجیت شمسان بھٹی والے اندرونی حصے میں پہنچی تو وہاں ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ سارے لوگ جا چکے تھے ایسے میں پھر ایک بار وہی سریلی پرنام جی کی آواز سرجیت کی سماعت سے ٹکرائی۔
سرجیت نے مڑ کر دیکھا تو وہی اجنبی ہاتھ جوڑ کر کھڑا تھا لیکن خلاف معمول اس کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں تھی۔
سرجیت نے پہلی مرتبہ جواب دیا پرنام جی۔
ست سری اکال
وا ہے گرو کی جئے
دعا سلام کے الفاظ ختم ہو گئے۔ سرجیت کا جی چاہا کہ کہے تاخیر کیلئے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا لیکن پھر رک گئی۔ کون جانے مرنے والا اس کا کون ہو؟
اجنبی نے سوال کیا تم امرجیت کو کیسے جانتی ہو؟
میں ۰۰۰۰۰میں کسی امرجیت کو نہیں جانتی۔
پھر یہاں کیوں آئیں؟
بس یونہی؟
یونہی بلاوجہ اتنی دور شمسان میں چلی آئیں؟ کوئی بلا وجہ ایسی زحمت نہیں کرتا؟
لیکن آپ بھی تو۰۰۰۰۰۰۰؟ الفاظ نے سرجیت کا ساتھ چھوڑ دیا۔ وہ نہیں کہہ سکی کہ آپ بھی تو نہ صرف بلاوجہ بلکہ بلا ناغہ پرنام کرتے ہیں۔
میں! میں بلا وجہ کوئی کام نہیں کرتا؟
وہ سوچ رہی تو کیا یہ جھوٹ بول رہا ہے اور نہیں اگر سچ کہہ رہا ہے تو برسوں پر محیط اس پرنام جی کے سلسلے کی وجہ کیا ہے؟
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی شمسان گاہ کا انگریز منیجر وہاں آیا اور بولا مسٹر رنجیت مجھے افسوس ہے کہ اب مجھے جانا پڑے گا اس لئے کہ دو گھنٹے بعد ایک اور میت کو سپردِ آتش کرنے کیلئے لوٹ کر آنا ہے۔
رنجیت سمجھ گیا منیجر اس کو جانے کیلئے کہہ رہا ہے۔ رنجیت دروازے کی جانب بڑھا سرجیت اس کے پیچھے تھی۔ شمسان کی آگ سرد ہو چکی تھی۔ شعلے تو کب کے بجھ چکے تھے اب دھواں بھی غائب ہو گیا تھا۔ رنجیت کے سینے میں جلنے والی چتا کا بھی یہی حال تھا۔
عمارت کے باہر ایک ننھا سا باغ تھا وہ دونوں اس کے اندر آ گئے سرجیت استفہامیہ انداز میں بولی آپ کہہ رہے تھے کہ کوئی کام ۰۰۰۰۰۰۰۰۰؟ اس کا جی چاہا کہ پوچھے کیا آپ ہر صبح میرا انتظار جو کرتے ہیں؟ لیکن اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
جی ہاں رنجیت نے جواب دیا۔ ہماری فوجی تربیت کا پہلا سبق یہی تھا کہ کوئی کام بلاوجہ نہیں کیا جائے۔ اس لئے کہ بلاوجہ کیا جانے والا فعل کسی اہم کام کے راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اس سے بڑا خسار ہو سکتا ہے۔ وہ اچھی خاصی فتح کو شکست میں بدل سکتا ہے۔
سرجیت نے پوچھا اچھا تو آپ یہاں کیوں آئے؟
میں نہ آتا تو کون آتا؟ امر جیت کا میرے سوا اس دنیا میں کون ہے؟ بلکہ میرا بھی امر جیت کے سوا کون تھا؟
یہ امر جیت کون ہے؟ سرجیت نے پوچھا۔
امر جیت ہے نہیں تھا۔ میرا اکلوتا بیٹا امرجیت اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ میری ار تھی اٹھاتا میری چتا جلاتا لیکن ہائے افسوس کہ مجھے یہ دکھ بھی سہنا پڑا۔
لیکن میں نے اس کو آپ کے ساتھ کبھی نہیں دیکھا؟
جی ہاں اس سے میں نے کئی بار کہا کہ میرے ساتھ چل میں تجھے سرجیت سے ملاؤں لیکن وہ نہیں مانا۔
مجھ سے آپ اس کو کیوں ملانا چاہتے تھے؟
تاکہ تم دونوں کا بیاہ ہو جائے اور تم میری بہو بن کر اس کا گھر آباد کرو لیکن وہ ۰۰۰۰۰۰وہ نہیں مانا۔ میں نے کئی بار چاہا کہ تم سے یہ بات کروں لیکن تم نے ہمیشہ بے رخی اختیار کی۔ اس کے باوجود نہ جانے کیوں مجھے یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن تم میری بہو ضرور بنو گی لیکن افسوس کہ اب یہ کبھی نہیں ہو گا۔
سرجیت نے یہ سنا تو سر پکڑ کر پاس پڑی بنچ پر بیٹھ گئی۔ وہ دور خلاؤں میں اس امرجیت کو دیکھ رہی تھی جس سے کبھی نہیں ملی تھی۔
رنجیت دیر تک یونہی کھڑا نہ جانے کیا سوچتا رہا۔ جب اس کی بوڑھی ٹانگیں جواب دینے لگیں تو بولا بیٹی اب میں چلتا ہوں مجھے اجازت دو۔ یہ ہماری آخری ملاقات ہے اس لئے کہ جس کی خاطر میں ہر صبح تمہارے پاس آتا وہ تو ہم سے دور کہیں دور چلا گیا۔
رنجیت اپنے خیالات کے جنگل سے لوٹ آئی اور بولی بابا اب آپ کہاں جائیں گے؟
میں ۰۰۰۰۰میں اپنے گھر جاؤں گا؟
وہاں کون ہے؟
وہاں کوئی نہیں ہے؟ میرے گھر میں امرجیت تھا جو اب نہیں ہے۔ لیکن مجھے اپنے ویران گھر میں جانا ہی ہو گا۔
آپ وہاں اکیلے کیا کریں گے؟
میں ۰۰۰۰۰۰میں اپنی موت کا انتظار کروں گا۔
موت کا انتظار سرجیت نے چونک کر پوچھا۔
جی ہاں موت کا انتظار مجھے یقین ہے کہ اب تو اوپر والے کو مجھ پر رحم آ جائے گا اور بہت جلد وہ مجھے اپنے پاس بلا لے گا۔
سرجیت بولی آپ اپنے گھر نہیں جائیں گے۔
رنجیت اس حکم سے چونک پڑا وہ بولا تو کیا میں بھی اپنے بیٹے امرجیت کی چتا میں کود کر اپنے پران گنوا دوں؟
سرجیت نرمی سے بولی نہیں آپ میرے ساتھ میرے گھر چلیں گے۔
تُ۰۰۰تُ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰تمہارے گھر کیوں؟
میں آپ کے گھر بہو بن کر نہ آ سکی تو کیا ہوا۔ اب آپ میرے ساتھ چلئے میرے گھر میں میرے بابا بن کر رہئے۔ اب آپ کو مجھ سے ملنے کی خاطر آنے کی ضرورت نہیں میں ہر روز آپ کے چرن چھو کر ٹسکو جایا کروں گی۔
ہوش سنبھالنے سے قبل یتیم ہو جانے والی سرجیت کو برسوں بعد اس کا کھویا ہوا باپ مل گیا اور رنجیت کو اپنا بیٹا گنوانے کے فوراً بعد بیٹی مل گئی تھی۔
رنجیت لڑکھڑا کرسرجیت کے پیچھے چل پڑا۔
اس کی بیساکھی بدل چکی تھی مگر نہ چال بدلی تھی اور نہ راستہ بدلا تھا۔
٭٭٭