جدید ادب کا شمارہ نمبر ۱۲موصول ہوا۔ہاتھ میں لے کر ہی چند منٹ اس کودیکھنے میں گزر گئے۔پھر اس کی ضخامت کا احساس ہوا۔ماشاء اللہ آپ کی محنت اپنا جلوہ دکھا رہی ہے۔صوری و معنوی ہر دو اعتبار سے یہ جریدہ اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتا ہے۔آپ کا اداریہ ہر شمارہ میں قاری کو چونکاتااور دعوتِ فکر دیتا ہے۔الھم زد فزد
نصرت ظہیر کا مضمون حالاتِ حاضرہ بلکہ ہماری مشترکہ تہذیب اور زبان کے قیام کے لیے بر وقت ہے۔اس میں بعض تلخ حقائق کو نصرت ظہیر نے اپنے انداز میں بیان کیا ہے اور بعض خوش آئند جملوں سے قاری کے دل کو چند لمحوں کے لیے فرحت بھی پہنچائی ہے۔زیرِ نظر شمارہ کے تمام مضامین حسبِ سابق اعلیٰ اور معیاری ہیں۔گوشۂ مظفر حنفی اور گوشۂ احمد حسین مجاہد خاصہ کی چیزہیں۔غرض کہ رسالہ کاہے کو ہے علم و ادب کا خزانہ ہے جس میں ہر طبقۂ فکر کی دلچسپی کا سامان موجود ہے۔ ڈاکٹر رضیہ حامد۔بھوپال
آپ کی طرف سے ارسال کردہ رسالہ جدید ادب شمارہ ۱۲موصول ہوا۔اس عنایت کے لیے آپ کا ممنون ہوں۔ فخر زمان۔اسلام آباد
آپ کی زیرِ ادارت شائع ہونے والا ’’جدید ادب‘‘جرمنی ،شمارہ نمبر ۱۲ملا۔کرم فرمائی کا شکر گزار ہوں۔ انشا ء اللہ میں بھی پڑھوں گا اور دیگر احباب اور رفقا بھی فیض یاب ہوں گے۔ افتخار عارف۔اسلام آباد
آج جدید ادب کا اشو نمبر ۱۲ملا۔ابھی مکمل طور پر پڑھ تو نہیں سکامگر سارا دیکھ لیا ہے۔بھائی !کمال ہے،ہر ورق چمن،ہر سطر جگنو! لکھائی،چھپائی،سرورق،اورکاغذسب اچھا،نفیس اور منہ سے بولتا ہوا۔اگر اجازت ہو توآپ کے الفاظ چرا لوں؟میں کہوں گا آپ نے واقعی سنہری کرنوں میں دودھیا موتی پروئے ہیں۔ماشاء اللہ!
مقصود الٰہی شیخ۔بریڈ فورڈ،انگلینڈ
جرمنی سے ایک جامع،مستند ادبی رسالہ ’’جدید ادب‘‘ کے نام سے مسلسل شائع ہو رہا ہے۔جو بھارت، پاکستان، امریکہ،کینیڈا،مشرقِ وسطیٰ،اور یورپی ممالک میں جہاں اردو پڑھنے لکھنے والے موجود ہیں، پڑھا جاتا ہے۔اس وقت تین سو کے لگ بھگ قیمتی صفحات پر محیط رسالے کا بارہواں شمارہ میرے سامنے رکھا ہے۔اس میں لکھنے والے علماء و شعرائے ادب کے نام ہی پڑھیں تو سانس پھولنے لگتی ہے۔۔۔۔اس کے مدیر ہیں ہمارے برخوردارحیدر قریشی۔میں انہیں مغربی دنیا میں اردو کا سب سے بڑا ادیب مانتا ہوں اور ان کی صلاحیتوں کے سامنے اپنی ہیچ مدانی کا اعتراف کرتا ہوں ۔حیدر ،ون مین ادبی رائٹنگ کی انڈسٹری ہیں۔پورا رسالہ کمپیوٹر پرہی بیٹھ کر مرتب کرتے ہیں ۔ ۔میرے برخوردار ہیں۔مجھ سے عمر میں دس برس کم،لیکن کام وصلاحیت میں سو سال بڑے ۔حیدر قریشی سے میرا سب سے بڑا رشتہ و تعلق یہ ہے کہ وہ میرے سب سے عزیز استاد اور دوست پروفیسر ناصر احمد کے بھانجے اور داماد ہیں۔اسی رشتے نے مجھے ان کے پاس جرمنی پہنچایا۔پھر ان کی علمی و ادبی فتوحات کے درجہ و دائرہ کو دیکھاتو ماننا پڑاکہ ہم تو ساری عمر گھاس ہی کاٹتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر ظہور احمد اعوان(پشاور)
(ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کے کالم ’’دل پشوری‘‘میں جدید ادب پر لکھے گئے تبصرہ کا اقتباس۔
مطبوعہ روزنامہ آج پشاور۔ یکم جنوری ۲۰۰۹ء)
ڈاکٹر صاحب! آپ کی محبت اور عنایت کے لیے شکر گزار ہوں۔لیکن آپ نے اتنی زیادہ تعریف کر دی ہے کہ میرے لیے آپ کے پانچ کالمی تبصرہ کا ایک کالمی حصہ شامل کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔دعا کریں کہ آپ نے جو کچھ لکھ دیا ہے اس کا اہل بھی ثابت ہو سکوں۔ح۔ق)
گوشہ یقیناَ بہت اچھا ہے اور آپ نے درست کہا کہ تبصروں کا انتخاب آپ نے اُسی مواد سے کیا ہے جو پرویزؔ اور عنبرؔ شمیم نے فراہم کیا تھا۔نئے مضامین کی کمی نہیں تھی،ان لوگوں کو وہ تبصرے اور مقالات آپ کو بھیجنے چاہیے تھے جو گزشتہ پندرہ بیس سالوں میں شائع شدہ میری درجنوں کتابوں سے متعلق تھے۔بہر حال یہ خط شائع فرمادیجیے تاکہ گوشے کے قارئین کو اس حقیقت سے آگاہی ہو جائے کہ گوشے کے وہ سب تبصرے میری بالکل ابتدائی کتابوں پر ہیں جو آج سے کم از کم چالیس برس پہلے منظرِ عام پر آئی تھیں۔آپ نے جس بے لوث جذبے کے ساتھ ہیچمدان پر یہ گوشہ چھاپا ہے اس کے لیے تہہِ دل سے شکریہ،ورنہ آج کل تو مدیرانِ رسائل نے گوشوں کی اشاعت کو آمدنی کا آسان ذریعہ بنا لیا ہے۔ہم جیسے بے نیازوں کی طرف لوگوں کی نگاہ کم کم ہی جاتی ہے۔ مظفر حنفی(دہلی)
بیرون ملک سے واپسی پر جدید ادب شمارہ 12 کوتحفہ دوست کی صورت میں منتظر پایا۔حالیہ کچھ شماروں سے جدید ادب عمدہ طباعت ،نفیس کاغذاوربے مثل مشمولات کی وجہ سے صف اول کا ادبی جریدہ بن گیا ہے۔اردو دنیا سے اتنی دوراردوادب کا یہ روشن چراغ کسی معجزے سے کم نہیں۔گفتگومیں آپ نے اردوکی ادبی دنیااورادبی رسائل کے مسائل کی جانب اہل علم کی توجہ مبذول کرائی ہے۔اس حوالے سے میرا ذاتی تجربہ ہے کہ شرح خواندگی کے حساب سے ادب کے قارئین کی تعدادمیں اضافہ نہ ہونے کی ایک وجہ بڑی تعداد میں ادبی جرائد کے شائع ہونے کے باوجود قاری تک اسکی عدم رسائی ہے۔مجھ جیسے بہت سے قاری ادبی جرائد کی متلاشی رہتے ہیں لیکن وہ دستیاب نہیں ہوتے ۔مدیران جرائد انہیں قاری تک پہنچانے کیلئے بھرپورکوشش نہیں کرتے جو پرچے معروف بک شاپ پردستیاب ہیں انکی فروخت قابل ذکر ہے ۔جن میں ’’نقاط‘‘’’سمبل‘‘’’مونتاج‘‘’’آج‘‘’’دنیازاد‘‘ اور بھارت کا’’نیاورق ‘‘شامل ہیں۔حال ہی میں کراچی سے نئے ادبی جریدے ’’سخن زار‘‘ کا اجراء ہوا لیکن یہ پرچہ کراچی میں کہیں دستیاب نہیں،کراچی میں رہنے کے باوجودمیں نے سخت کوشش کے بعد ایک دوست کے ذریعے اسے حاصل کیا۔آپ نے بجا لکھا ہے کہ مصنفین اپنی اور چند دوستوں کی تخلیقات کے سوا کچھ اور نہیں پڑھتے۔میں اس میں یہ اضافہ کروں گاکہ ہمارے ادیب و شعراء موجودہ رفتار ادب سے آگاہ ہی نہیں ہیں اورانہیں نئی مطبوعات کے بارے میں کچھ علم نہیں ۔ چندماہ قبل افسانہ نگار،سفرنامہ نگار،ناول نگار اورکالم نگاررئیس فاطمہ نے ’’ایکسپریس‘‘میں اپنے کالم ایک سوبارہ صفحات پرمبنی چیتھڑہ نما ’’افسانہ ‘‘کے بارے میں زمین آسمان کے قلابے میں ملادیے۔ کالم نگارنے ادبی جرائد کے ختم ہونے کا مرثیہ لکھتے ہوئے اس رسالے کو جس میں کوئی بھی نئی تحریر شامل نہیں تھی،نقوش،ہمایوں ،ادبی دنیااور مخزن جیسے تاریخ ساز پرچوں سے ملاڈالا۔اس مدح سرائی کی وجہ محض یہ تھی پرچہ انہیں مفت مل گیا تھا انہیں یہ تک علم نہیں کہ یہ ’’افسانہ‘‘ کا ساتواں شمارہ ہے نہ ہی وہ اردو کے دیگر جرائد کے بارے میں کچھ جانتی ہیں ۔اس کالم کے حوالے سے میں نے محترمہ کو ایک طویل خط میں دنیا بھرسے شائع ہونے والے اردو کے معیاری ادبی جرائد کی تفصیل بتائی جسے وہ گول کرگئیں میں نے یہ خط ایڈیٹرکی ڈاک میں بھیجا اورچونکہ خود بھی ایکسپریس میں دس سال کام کرچکا ہوں ایڈیٹرصاحب سے اسے شائع کرنے کی بات کی جسکاچند روز میں انہوں نے مجھے جواب دیا کہ وہ اپنی کالم نگار کوناراض نہیں کر سکتے ۔
جدید ادب بارہ کے آغاز میں اس بار صبااکبرآبادی کی کمی محسوس ہوئی لیکن فراغ راہوی،فرحت حسین خوشدل اور صادق باجوہ کی حمدونعت دل نواز ہیں۔خواجہ محمدعارف کی مناجات نے بھی دل چھولیا۔مدیرادب ساز نصرت ظہیرکا مقابلہ اردوکا تہذیبی پل اور ماس میڈیا گہری دل سوزی لئے ہوئے ہیں اور انہوں آخر میں بجاکہا ہے کہ اردوزبان کا تہذیبی پل تمام باہمی جھگڑوں کو ختم نہیں کریگالیکن دونوں ممالک کے درمیان سیاسی مفاد پرستی ضرور کم ہوگی۔ڈاکٹرشہنازنبی گذشتہ کئی شماروں سے جدیدادب پرچھائی ہوئی ہیں۔انکے دونوں مضامین عمدہ ہیں۔ مبشراحمدمیر کے مضمون نے میرے اس خیال کی تصدیق کی کہ فارسی زبان سے دوری اردوادب کا معیاربری طرح متاثر ہواہے۔محمداسلم رسولپوری کا مضمون پڑھ کرصادق باجوہ کی شاعری کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے کی خواہش پیدا ہوئی ہے۔محمدخالد انجم عثمانی نے انیسویں صدی کے نثری اسالیب میں دریا کوکوزے میں بندکردکھایا ہے۔
موجودہ شمارے کا اختصاص ڈاکٹر مظفرحنفی اوراحمدحسین مجاہد کے گوشے ہیں۔پاکستان میں بھارتی کتب دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے اکثرتبصرے پڑھتے ہوئے محرومی کا احساس ہوتاہے اور اسی طرح کئی اچھے ادیب وشعرا ء سے اچھی طرح تعارف نہیں ہوسکا۔ڈاکٹر مظفر حنفی کو میں نے اس سے قبل سرسری پڑھا تھا ۔جدید ادب کے گوشے نے ان سے بخوبی متعارف کرایا ہے۔نظم ونثردونوں میں کیاخوب انداز ہے۔انورسدید،شمس الراحمٰن فاروقی اور دیگر افراد نے انکی شخصیت کے بھی مختلف گوشے عیاں کئے ہیں۔مظفرحنفی کی غزل نے بہت زیادہ متاثر کیا اور اتنے عمدہ شاعر سے اب تک لاعلم رہنے کا کچھ افسوس ہوا۔خاص طور پر درج ذیل اشعارناقابل فراموش ہیں
بستی جلانے والو تمہیں کیا بتاؤں میں مدت سے میرے گھر میں دھواں بھی نہیں اٹھا
ہم دم بخودتھے اور اُدھرلٹ رہے تھے گھر جب ہم کٹے توشور وہاں بھی نہیں اٹھا
شاخ کانٹوں بھری سہی لیکن ہاتھ اس نے ادھر بڑھایا تو
نہ ایسے سست ہوں بادل کہ فصلیں زرد ہوجائیں نہ موجوں کو سنامی جیسی بے حد تیزگامی دی
وہ بھڑکتا ہے میرے سینے میں شعلے جیسا پھراسی آگ کو گلزار کیا کرتاہے
اشعارلکھنے لگوں تو خط بہت طویل ہوجائیگا۔احمدحسین مجاہد کی دلسوزی دل میں گھرکرتی ہے اوراس سے پتہ چلتا ہے ادب کے مراکز سے دور بھی کیا کیا دیئے روشن ہیں۔حصہ غزل میں نصرت ظہیر،عبدالاحدساز،فیصل عظیم ،اکبرحمیدی ،شہنازنبی اور فروغ روہوی کی تخلیقات متاثرکن ہیں۔عبداللہ جاوید میرے پسندیدہ شاعر ہیں انکی نثری تحریر’’اللہ میاں‘‘ نے مسجد کا ایک بالکل نیا اورانوکھا تصور دیاجو بہت ہی اچھا لگا۔علی محسن کا افسانہ سب سے اچھا ہے یہ افسانہ شائدگذشتہ برس انکے شائع ہونیوالے مجموعے میں بھی شامل ہے۔ڈاکٹربلنداقبال کے ’’تمغہ جرات ‘‘ نے ایک بالکل نیا پہلودکھایا ہے۔
اس بارآپ کی کٹھی میٹھی یادوں کی دوقسطوں نے مزہ دیا۔ذکراس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا کے مصداق تصویرکائنات میں رنگ کا ذکر دلچسپ ہے۔کشورناہید کی حاضرجوابی اور جملہ بازی،امرتا پریتم اورثریاشہاب کے بعض نئے گوشے اجاگرہوئے۔ریحانہ قمرکی ادبی بد دیانتی کے بارے میں کافی کچھ سنا تھااسکی تصدیق ہوگئی۔ثمینہ راجہ بہت اچھی شاعرہ ہیں ان سے میری ذاتی ملاقات بھی ہوچکی ہے۔ثمینہ راجہ نے فیصل عجمی کے جریدے ’’آثار‘‘ کی مدیر کی حیثیت سے بھی قابل ذکرہیں آثار کے صرف دس شمارے شائع ہوئے لیکن اسکا شمار اردو کے بہترین ادبی جرائدمیں کیا جائیگا۔
ماہیے جدید ادب کی جان ہیں اس بار بھی یہ حصہ بھرپور ہے۔رات جدید ادب شروع کیا تو صبح تک پورا پڑھ ڈالا اور فوری طور پر آپ کوخراج تحسین پیش کرنا ضروری سمجھا۔بلاشبہ جدید ادب کاشماراردوکے بہترین ادبی رسائل میں کیاجائیگا۔اللہ کرے آپ اسے جرمنی سے شائع کرنے میں کامیاب ہوں اور سنسرشپ کے مسائل سے چھٹکارا حاصل کرسکیں۔ نعیم الرحمٰن (کراچی)
جدید ادب جرمنی کا شمارہ:۱۲شائع ہو گیا
حیدر قریشی کی ادارت میں ادبی جریدہ جدید ادب جرمنی کا شمارہ نمبر ۱۲بابت جنوری تا جون ۲۰۰۹ء اپنے وقت سے ایک ماہ پہلے ہی ریلیز کر دیا گیا ہے۔۲۸۸صفحات پر مشتمل اس شمارہ میں جدید ادب کے معمول کے سارے مندرجات شامل ہیں۔حمدو نعت کے حصہ میں فراغ روہوی،فرحت حسین خوشدل،صادق باجوہ،کرامت علی کرامت،ناصر ملک اور خواجہ محمد عارف کی نگارشات شامل ہیں۔مضامین کے حصہ میں نصرت ظہیر،ڈاکٹر شہناز نبی،ڈاکٹر حامد اشرف،مبشر احمد میر،اسلم رسولپوری،محمد خالد انجم عثمانی کے مضامین اور عبداللہ جاوید کا ایک تفصیلی خط بنام حیدر قریشی شامل ہیں۔ڈاکٹر مظفر حنفی کے فن کے حوالے سے ایک گوشہ سجایا گیا ہے۔اس میں محمد حسن،محمود ہاشمی،احتشام حسین،انور سدید،شمس الرحمن فاروقی،ندا فاضلی،ڈاکٹر رشید امجد،عنبر شمیم،فاروق ارگلی اور ظفر احمد نظامی کے مضامین شامل ہیں۔آفرین حسین اور مشتاق احمد حامی کے مظفر حنفی سے لیے گئے ایک انٹرویو اور ’’ہمارے مشاعرے‘‘ کے زیر عنوان مظفر حنفی کے مضمون سے ان کے خیالات کے بارے میں بہتر آگاہی ہوتی ہے۔اس گوشہ میں مظفر حنفی کی چوبیس غزلیں اور سات نظمیں شامل کی گئی ہیں۔اس طرح ان کے بارے میں ایک بھر پورتاثر سامنے آتا ہے۔پاکستان سے نوجوان شاعر احمد حسین مجاہد کے لیے بھی ایک گوشہ مختص کیا گیا ہے۔اس گوشہ میں ضیاالمصطفیٰ ترک،محمد اظہار الحق،جان عالم اور شبہ طراز کے مضامین میں احمد حسین مجاہد کی تخلیقی خوبیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔احمد ندیم قاسمی،قتیل شفائی،ساقی فاروقی،افتخار عارف،خاور اعجاز،ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور متعدد دیگر لکھنے والوں کے مختصر تاثرات سے بھی اس گوشہ کو سجایا گیا ہے۔احمد حسین مجاہد کی بارہ غزلیں اور چھ نظمیں ان کی شعری شخصیت کو بہتر طور پر سامنے لاتی ہیں۔
غزلوں کے سیکشن میں عتیق احمد عتیق،قیصر شمیم،حامدی کاشمیری،نصرت ظہیر،عنبر شمیم،عبدالاحد ساز،صادق باجوہ،فیصل عظیم،ارشد کمال،ارشاد قمر،سلیمان جاذب،ناصر ملک ،حیدر قریشی اور متعدد دیگر شعراء کی غزلیں شامل ہیں،جبکہ اکبر حمیدی،شہناز نبی،خاور اعجاز،ظفراللہ محمود،طاہر عدیم اور معید رشیدی کی پانچ سے سات تک غزلیں شامل کی گئی ہیں۔افسانوں کے حصہ میں احمد ہمیش،عبداللہ جاوید،شہناز خانم عابدی،قیصر اقبال،بلند اقبال اور علی محسن کے افسانے شائع کیے گئے ہیں۔نظموں کے حصہ میں مجید امجد کے تبرک کے ساتھ نصرت ظہیر،عبداللہ جاوید،نیّر جہاں،خاور اعجاز،عبدالاحد ساز،حمیدہ معین رضوی،طاہر عدیم،فیصل عظیم،پروین شیر،ارشد خالداور دیگر شعراء کی تخلیقات شامل ہیں۔جبکہ ستیہ پال آنند کی چار اور تنہا تما پوری کی سات نظمیں بھی شامل ہیں۔
خصوصی مطالعہ کے تحت ستیہ پال آنند کا مضمون’’مولانا رومی:ایران سے چل کر ہالی ووڈ تک کی زیارت‘‘اور حیدر قریشی کی یادوں کے دو نئے باب شامل ہیں۔ماہیوں کے حصہ میں نذیر فتح پوری،احمد حسین مجاہد،امین بابر،سعید رحمانی،اشرف علی اشرف اوروسیم عالم کے ماہیے شامل ہیں جبکہ امین خیال اور فراغ روہوی کے ڈھیر سارے ماہیے شائع کیے گئے ہیں ۔کتاب گھر میں اقبال آفاقی،شمیم حنفی،جمیل الرحمن،شہناز نبی،بلراج کومل اور جاوید ندیم کی کتابوں کا تعارف دیا گیا ہے جبکہ انور زاہدی کے افسانوی مجموعہ مندر والی گلی پر منشا یاد کامضمون،اردو لغت(مدیر اعلیٰ فرمان فتح پوری )پرڈاکٹر عبدالرشید کامضمون،ڈاکٹر بلند اقبال کے افسانوی مجموعہ فرشتے کے آنسو پر جاوید انور کامضمون،طاہر عدیم کے شعری مجموعہ بامِ بقاء پر عبدالرب استاد کامضمون،اور محمد عظیم الدین بخش کے مضامین کے مجموعہ فکرِ عظیم پر ڈاکٹر حامد اشرف کا مضمون شامل ہیں۔
خطوط اور ای میلز کے حصہ میں پروفیسر شمیم حنفی،فتح محمد ملک،افتخار عارف،ارشد خالد،سلیم آغا قزلباش،مقصود الٰہی شیخ،پروین شیر،عبدالاحد ساز،ارشد کمال،اسلم رسولپوری،علی احمد فاطمی،اکبر حمیدی،رفیق شاہین،ستیہ پال آنند،صبیحہ خورشید،شہناز خانم،تنہا تما پوری اور حامدی کاشمیری کے خطوط شامل ہیں۔شمارہ کے آخر میں شامل نوٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ حمیدہ معین رضوی اور علی جاوید کے خطوط حذف کرائے گئے اور بعض دوسرے خطوط میں سے چند سطور حذف کرائی گئیں۔ یہ کیا ماجرا ہوا ہے؟ اس بارے میں حقائق تب سامنے آئیں گے جب حیدر قریشی کھل کر حقائق کو سامنے لائیں گے۔ ارشد خالد(اسلام آباد)
(یہ خبر[email protected]سے۲دسمبر۲۰۰۸ء کو ریلیز کی گئی)
’جدید ادب‘ کا شمارہ ۱۲ انٹرنٹ پر دیکھنے کو ملا۔جستہ جستہ شروع سے آخر تک پڑھ گیا۔مشمولات حسب سابق پسند آئے۔خصوصی مطالعہ کے تحت مولانا رومیؔ کے سلسلے میں ڈاکٹرستیہ پال آنند کی تحریر خاصی دلچسپ ہے اور جیسا کہ آپ نے لکھا ہے اس مضمون سے مغرب کے عوامی مزاج اور ذوق کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔آپ کی اپنی تحریر ․․․․’ادبی کائنات میں ہے رنگ ‘میں کچھ کم معروف بلکہ غیر معروف خواتین کے تذکرے بھی در آئے ہیں تاہم تحریر اتنی دلچسپ ہے کہ قاری کو اکتاہٹ کا احساس نہیں ہوتا ۔آپ نے اچھا کیا کہ افتخار نسیم کو بھی اسی مضمون میں سمیٹ لیا اور ایسا کرنے کی توجیہ بھی پوری صراحت سے پیش کردی۔ویسے موصوف کے قابل لحاظ شاعر ہونے میں دو رائے نہیں ہوسکتی۔
گوشۂ مظفر حنفی میں شاعر موصوف کی کچھ غزلیں اور نظمیں ایک ساتھ پڑھنے کو ملیں اور مزہ دے گئیں۔ان سے لیا گیا انٹرویو بھی خاصا دلچسپ ہے۔ حنفی صاحب نے اپنی روایتی صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے خدا لگتی باتیں کی ہیں۔ امید ہے کہ مغربی بنگال ،خصوصاً شہر کلکتہ کے اردو علقے میں یہ انٹرویو پوری دلچسپی سے پڑھا جائے گا۔کلکتہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے یہ پوچھنے پر کہ حنفی صاحب ! کلکتہ میں تین سال بیت جانے کے بعد آپ کو بنگلہ زبان تو آگئی ہوگی، حنفی صاحب کا یہ کہنا کہ ’ جناب میں اپنی اردو بچانے میں لگا رہتا ہوں، بنگلہ کب اور کیسے سیکھتا؟‘ بہت ہی معنی خیز جملہ ہے جس کی گہرائی اور گیرائی کو اہل کلکتہ سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے !( اس ناچیز کی طالب علمی کا دور بھی کلکتہ میں گزرا ہے)۔ شعری حصے میں عتیق احمد عتیقؔ، قیصر شمیم، عبد ا لاحد سازؔ، عنبر شمیم، اکبر حمیدی اور شہناز نبی کی غزلوں کے متعدد اشعار پسند آئے۔صادق باجوہ کی غزل کے اس مصرعے
یاروغم تو کھا جاتے ہیں خوشیوں کے لمحاتوں کو
میں لفظ ’لمحاتوں‘ کا کیا جواز ہے ؟ کیا آپ بھی اس قسم کی لسانی توڑ پھوڑ کو ’سب چلتا ہے‘ کے ذیل میں رکھتے ہیں؟ رسالے کے آخری صفحے پر آپ نے جس ’ناگفتنی‘ کا ذکر کیا ہے اس کا سارا ماجرا میری سمجھ میں توآگیا، تاہم اردو عوام کے سامنے بھی اس کی پوری روداد آنی چاہیے۔ ارشد کمال( نئی دہلی)
تازہ شمارہ صوری و معنوی دونوں اعتبار سے پُر کشش ہے۔جدید ادب میں گوشے شائع کرنے کا سلسلہ ایک مستحسن اقدام ہے۔اس سے ہمیں مختلف شعراء و ادباء کے فکر و فن کو سمجھنے کا موقع میسر آتا ہے۔دوسری طرف یہ سلسلہ نوجوان قلم کاروں کو ادبی دنیا میں متعارف کرانے اور ان میں خود کو مزید صیقل کرنے کے جذبے کو مہمیز لگاتا ہے ۔ دیارِ غیر ۱میں رہ کر ادبی مجلّہ نکالنا اور اہلِ قلم سے رابطہ استوار رکھنا ایک محنت طلب کام ہے اور ظاہر ہے یہ کام وہی شخص پوری ایمانداری سے انجام دے سکتا ہے جس کے نہاں خانۂ دل میں اردو ادب کی خدمت کا جذبہ پوری طرح موجزن ہو۔
تازہ شمارے کے اداریے میں جس مسئلے کی نشاندہی کی گئی ہے وہ ہم سب کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔اردو زبان کا وجود بول چال کی حد تک قائم رہنے کے امکانات تو موجود ہیں لیکن ادب کے حوالے سے اسے خاصے نامساعد حالات کا سامنا ہے۔آبادی کے تناسب سے اردو ادب میں دلچسپی رکھنے والوں کی تعداد خاصی کم ہو چکی ہے نیز اردو ادب کا مطالعہ اب شعرا وادبا تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔عام پڑھے لکھے لوگوں کی دلچسپیوں کے محور تبدیل ہو چکے ہیں۔دورحاضر کے متنوع ذرائع ابلاغ کی زائیدہ ترغیبات نے آج کی نوجوان نسل کے ہاتھوں سے کتاب چھین کر موبائل اور ماؤس تھما دیا ہے۔نتیجۃَ اطلاعات کا بے بہا خزانہ تو اس کے ہاتھ آگیا ہے مگر دوسری طرف وہ ادبی ذوق و شوق سے بے بہرہ ہوتی جا رہی ہے۔اردو کے ادیب مختلف ادبی دھڑوں میں بٹ چکے ہیں۔یوں لگتا ہے جیسے وہ چھوٹے چھوٹے جزیروں میں مقید ہو کر رہ گئے ہوں۔یہ رجحان اردو ادب کے لیے نیک فال ہر گزنہیں ہے۔لہٰذا ہمیں از سر نو اس ساری صورتحال کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ہوگا اور اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے کوئی جامع حکمت عملی وضع کرنے کی کوشش بھی کرنا پڑے گی،بصورتِ دیگر ہم فقط جرسِ ناقۂ لیلیٰ کی آواز میں ہی محو ہو کر رہ جائیں گے۔ سلیم آغا قزلباش(سرگودھا)
جدید ادب کا شمارہ: ۱۲میرے پیش نظر ہے۔اس میں سب سے پہلے میں نے آپ کی تحریر کھٹی میٹھی یادیں پڑھا اور خوب لطف اندوز ہوا۔مضامین میں مجھے محمد خالد انجم کامضمون اچھا لگا۔مظفر حنفی صاحب کا مضمون جو مشاعروں پر تھا،خوب ہے۔ان کی شاعری بے شک ذرا مختلف قسم کی ہے۔اکثر وہ اچھے شعر نکالتے ہیں مگر زیادہ تر نہیں۔ان کی شاعری مجھے ترنگ کی شاعری لگتی ہے۔جو شعر ان پر جس طرح وارد ہوتا ہے وہ شاید اسی طرح لکھ دیتے ہیں۔حالانکہ تھوڑی سی توجہ سے وہ چاہیں تو کمزور اشعار کو بہتر بنا سکتے ہیں۔اب یہی مصرعہ دیکھیں:
’’کشتی میں اک حبابِ رواں تک نہیں اُٹھا‘‘ انہوں نے یہ تک نہیں سوچا کہ حباب پانی میں اُٹھتے ہیں،کشتی میں کیسے اُٹھتے؟اسی طرح ان کا ایک شعر دیکھیے:
فنا کے مسافر لگے چیخنے جو کھڑکی ذرا بند کر دی گئی
یہ شعر ویسے بھی نہ حُسن کا حامل ہے نہ تاثر کا۔مگر ذرا سی توجہ یہ چمک سکتا تھا۔ذرا اس کا پہلا مصرع بدلتے ہیں۔
ہو ا،احتجاجاَ چلی دیر تک جو کھڑکی ذرا بند کر دی گئی
دیکھیں اس تبدیلی سے شعر میں کتنا فرق پڑا ہے۔اصلی صورت میں اس شعر میں کہا گیا ہے کہ کھڑکی بند کیے جانے سے فنا کے مسافروں نے چیخنا شروع کر دیا۔کس قدر غیر منطقی بات ہے۔کھڑکی بند کرنے سے تو فنا کے مسافروں کو خوش ہونا چاہیے تھا کہ ہوا نہیں آئے گی اور وہ جلد فنا کی منزل حاصل کر لیں گے۔اب ذرا بدلی ہوئی شکل میں شعر کو دیکھیں ،آپ کو فرق صاف محسوس ہوگا۔یہ نہ سمجھا جائے کہ میں ’’استادی‘‘دکھا رہا ہوں،بتانا صرف یہ مقصود ہے کہ حنفی صاحؓ توجہ نہیں دیتے۔اور یہی سبب ہے کہ ان کی غزلیں بھرپور Impactنہیں دے پاتیں۔افسانہ کے نام پر احمد ہمیش کی ایک تحریر ’’روایت بے روایت‘‘دیکھی۔آُ کا ہی دل گردہ تھا کہ اسے آپ نے ’’افسانہ‘‘ قرار دیا۔
احمد صغیر صدیقی۔کراچی
جدید ادب ‘‘ شمارہ نمبر 12 بتاریخ ۲دسمبر کو وصول ہو۔جسے پاکربے پناہ مسرت ہوئی آپ کی اس کرم فرمائی اور عنایات کا بصمیم قلب منمون ہوں۔۲۸۸صفحات پر مشتمل یہ رسالہ بے شمار تخلیقات نظم ونثر کا حامل ہے۔جوآپ کی بے پناہ اردو دوستی کا بین ثبوت ہے۔ دیار غیر میں اپنی شب و روز کی ذمہ داریوں کے باجود اتنے معیاری اور خوبصورت رسالے کو کمپیوٹر کمپوزنگ اور فوٹو آفیسٹ کی دیدہ زیب طباعت سے آراستہ کرنا آپ کی مدیرانہ صلاحیتوں کا آیٔنہ دار ہے۔ رسالہ کی تر تیب وتہذیب اور آرٹ پیپر پر نفس طباعت کے سلسلہ میں کثیر مصارف کو برداشت کر کے اردو دنیا کے خاص عام تک رسالہ کی تر سیل بڑی محنت اور جگر کاوی کاعمل ہے۔ اور یہ کام آپ جیسے بے لوث فرزانوں ہی کاعشق ہے۔ اس سلسلہ میں جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ میری جا نب سے پر خلوص خراج تحسین قبول فر مایں۔رسالہ ابھی زیر مطالعہ ہے۔انشااﷲ تفصیل سے اپنے تاثرات بذریعہ ای میل روانہ کروں گا ۔ عبد الرحیم ارمان(جالنا)
جدید ادب کا ہر شمارہ اپنی مشمولات کی بنا پر من حیث المجموع اچھوتا اور انوکھا تو ہوتا ہی ہے،لیکن تازہ شمارہ اپنی نگارشات کی طرفگی اور افادیت کے سبب سابقہ شماروں سے آگے بڑھ کر اپنی انتہائی منزلیں بھی طے کر گیا ہے۔اس پر مستزاد یہ کہ اس کا اندازِ پیش کش بھی نرالا ہے۔جسے ہر صاحبِ علم آپ کی ’’صحافتی بلوغت‘‘پر دال ہی گردانے گا۔
عتیق احمد عتیق۔مدیر توازن ،مالے گاؤں
(عتیق صاحب! آپ کی حوصلہ افزائی کے لیے شکر گزار ہوں لیکن ’’انتہائی منزلیں‘‘طے کر جانے والی کوئی بات نہیں ہے۔اگر ایسا ہو گیا تو پھر تو جدید ادب کے مزید اجرا کی ضرورت نہ رہے گی۔سو دعا فرمائیے کہ جب تک زندگی ہے ، ہمت موجود اور وسائل دستیاب ہیں، زیادہ سے زیادہ اچھا کام کرنے کی توفیق ملتی چلی جائے۔ ح۔ق)
جدید ادب 12موصول ہوا۔ورق گردانی کے بعد زیرِ مطالعہ ہے۔ آپ کی بات مان لینے میں حرج ہی کیا ہے کہ ادبی جراید کی فراوانی ہے اور قاری ناپید ہے۔ بہت سے جراید غالب کے سبزۂِ بیگانہ کی طرح اُگ آئے ہیں ۔ان میں اکثریت ایسے جراید کی ہے جو ناکام ادیبوں اور شاعروں نے شوقِ ناموری میں نکالے ہیں۔ جب ایک قلم کار تخلیقی سطح پر ایسا کام نہیں کر پاتا جو اسے نام دے تو وہ پھر بیساکھیوں کا سہارا لیتا ہے۔ورق گردانی کر کے جریدہ ایک طرف ڈال دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے جراید کا قد ہی نہیں ہے۔ان میں موجود تخلیقی مواد کا معیار قاری کی اس ذہنی سطح کو نہیں چھو پاتا جو طویل مطالعاتی سفر کا حاصل ہوتا ہے۔قاری مایوس ہو کر جریدہ رکھ دیتا ہے۔ایسے جراید میں ڈالر‘ پاؤنڈ ‘ یورو‘ درہم اور دینار کے زور پر گوشے بھی شامل ہوتے ہیں جن کی کوئی ادبی حیثیت نہیں ہوتی۔ یہ وہ قلم کار ہین جن کی اردو زبان وادب میں کوئی Contributionنہیں ہے۔ حیدر قریشی میرے محترم کیا آپ ان جراید سے آگاہ نہیں ہیں۔ جدیدادب کو آپ نے اس قباحت سے ابھی تک محفوظ رکھا ہوا ہے جس کے لیے ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔اس کا بےّن ثبوت حالیہ شمارے میں گوشۂِ مظفر حنفی اور گوشۂِ احمد حسین مجاہد ہیں۔یہ دونوں گوشے ڈالر‘ پاؤنڈ ‘ یورو‘ درہم اور دینار کے زور پرشامل نہیں ہوئے بل کہ اپنی تخلیقی رفعت کی بنیاد پر شامل ہیں۔ایک بات آپ نے عجیب کہی ۔۔۔ کیا ایسے بھی قلم کار ہیں جو اپنی تخلیقات بِنا کسی مکتوب کے بھیجتے ہیں۔کیا ہم اخلاقی طور پر اتنا گِر چکے ہیں کہ مدیر سے ہم کلام ہوئے بغیر تخلیق کی فائل Emailکر دیتے ہیں۔حیرت بھی ہوئی اور دکھ بھی۔۔۔ ایک بار عذرا اصغر صاحبہ نے ایک بات کہی تھی جو مجھے اچھی لگی کہ ’’تجدیدِ نو‘‘ کے لیے جوتخلیقات موصول ہوتی ہیں اگر ان کے ساتھ خط نہ ہو تو ہم یسی تخلیقات ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیتے ہیں‘‘
محمد حامدسراج(چشمہ بیراج۔میانوالی)
مجھے آج جدید ادب (جنوری۔جون ۲۰۰۹ء/شمارہ :۱۲) موصول ہوا۔ زندگی اشاعتی مراحل سے آج تک جیسے تیسے گزرتی آئی ہے، مگر یقینا آج تک کسی بھی اشاعت سے اتنی خوشی کشید نہیں ہوئی، جتنی جدید ادب نے بہم پہنچائی۔ خوب صورت سرورق، عمدہ طباعت اور پُر اسلوب انتخاب؛ کہیں بھی سقم نہیں، کہیں بھی تشنگی نہیں……(ڈاکٹر) مظفر حنفی اور احمد حسین مجاہد کے ادب و ہنر کے دو گوشے؛ ظفر اللہ حمید، شہناز نبی ، اکبر حمیدی اور حیدر قریشی کے خوب صورت شاہ پارے؛ نصرت رسول، (ڈاکٹر) حامد اشرف، اور (ڈاکٹر) انور سدید کے نادر مراسلے؛ جان عالم کی پُر سوچ باتیں؛ رواں نظمیں اور ماہیے جیسی اصناف نے سخن کی ارفع پیش کاری سے جی موہا۔
بلاشبہ سطر سطر پر غیر معمولی دھیان اور توجہگی کا توانا احساس ہوا۔ پروف ریڈنگ اور معیار قابلِ ستائش اور قابلِ تقلید معلوم ہوا۔ شاید جدید ادب کی روایات اتنی ہی مضبوط ہیں اور یقینا معیار کی اِس منزل تک رسائی ایک دن یا ایک اشاعتی مرحلے کی بات نہیں ہے۔ میرے لیے جدید ادب کی اتنی خوب صورت اشاعت شاید اِس لیے حیرانی کا سبب بنی کہ میں نے اِسے پہلی مرتبہ دیکھا، پڑھا اور محسوس کیا ہے۔ میں غیر رسمی انداز میں تشنگانِ ادب و فیض کے لیے مرتب کیے گئے اِس فقید المثال جریدے کی اشاعت پر آپ اور آپ سے منسلک افراد کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ناصر ملک (ضلع لیہ)
شمارہ نمبر ۱۲موصول ہوا،شکریہ۔رسالے کا معیار ہر اعتبار سے اعلیٰ ہے،نیز انٹرنیٹ پر دستیابی نے اسے دو آتشہ کر دیا ہے۔آپ کی خصوصی توجہ اور کاوشوں کا نتیجہ ہے،ورنہ اس دور میں اردو رسائل کو ایسی عالمی شہرت و مقبولیت کہاں نصیب ہوتی ہے۔خدا ’’جدید ادب‘‘ کو نظرِ بد سے بچائے رکھے۔ منظور ندیم (جلگاؤں)
جدید ادب کا شمارہ ۱۲ہمدست ہوا،حسبِ معمول بے تابانہ انتظار تھا۔شوق اور لگن سے مطالعہ کیا۔دونوں گوشے خوب ہیں۔احمد حسین مجاہد کی شخصیت اور فن سے میں پہلی بار متعارف ہوا۔ڈاکٹر مظفر حنفی کا گوشہ بے حد شوق سے پڑھا،اس لیے کہ یہ میرے پسندیدہ شاعروادیب ہیں۔دیگر مشمولاتِ نظم و نثر بھی حسبِ معمول معیاری و قابلِ مطالعہ ہیں۔ایک ساتھ نظم و نثر کا خوبصورت اور ضخیم پڑھ کر طبیعت عش عش کر اُٹھتی ہے۔تمام اہلِ اردو آپ کی مدیرانہ صلاحیتوں اور ہمہ وقتی ادبی خدمات کے معترف ہیں۔آپ کی جستجو اور لگن قابلِ رشک ہے۔
ڈاکٹرمقبول احمد مقبول(اودگیر)
تازہ جدید ادب ملا ۔ پڑھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔مضامین کا حصہ بہت پر معنی ہے مگر ڈاکٹر شہناز نبی نے اکبر آلہ آبادی پر پہلی بار نئے زاویے سے نظر ڈالی ہے۔۔ ہمارے ہاں اکبر آبادی کو بھی اور سر سید کو بھی ایک ہی ترازو میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اکبرالہٰ آبادی ایک رجعت پسند اور قدامت پرست شاعر تھے۔ جو زمانے کی رو سے ایک متضاد سمت میں زور آزمائی کرتے رہے۔اور قوم کو آگے بڑھنے اور زمانے کے دوش بدوش چلنے سے روکتے رہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے بہت اچھا جائزہ پیش کیا ہے۔ در اصل ہر ہیرو کے ساتھ ایک ولن بھی لگا ہوتا ہے ۔ سر سید کے ساتھ یہ حضرت تھے۔سر سید کی وفات پر کہا۔
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا نہ بھولو فرق جو ہے کرنے والے کہنے والے میں
مگر اس اعتراف کا اب کیا فائدہ ہوا ۔۔۔صادق باجوہ صاحب تو بہت اچھے شاعرتھے ہم انہیں روا روی ہی میں پڑھتے رہے۔ اسلم رسول پوری نے انہیں بڑے سلیقے اور اچھے شعری انتخاب کے ساتھ پیش کیا ہے۔ مبارکباد ۔ ۔ ۔ ٹائٹل پر ماہیا پڑھ پڑھ کر اب میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کو’’ با با ئے ماہیا ‘‘کا خطاب عطا فرماؤں۔ آخر میں آپ کی غزلیں ایک اچھا دلکش اور پر لطف تحفہ ہے۔غزلیں نظمیں سب اچھی ہیں اور جدید ادب اپنے گٹ اپ کے لحاظ سے سب پرچوں سے آگے ہے۔ اکبر حمیدی۔اسلام آباد
زیر نظر شمارے کے بے کم و کاست سبھی مشمولات شعری،نثری۔تخلیقات،تنقیدات،تحقیقات،تجزیات،تبصرات حتّیٰ کہ مراسلات تک قابلِ مطالعہ اور لائق صد تحسین و ستائش لگے۔تاہم نصرت ظہیر کا’’اردو کا تہذیبی پُل اور ماس میڈیا‘‘اپنی حقیقت پسندی کی بنا پر،ندیر جدید ادب کے نام عبداللہ جاوید کا مراسلہ سابقہ شمارے پر ڈالی گئی سیر حاصل روشنی کی بنا پر،حیدر قریشی کی’’۔۔ادبی کائنات میں رنگ‘‘ اور ’’چند پرانی اور نئی یادیں‘‘کے تحت کھٹی میٹھی باتیں اپنی کھٹائی آمیز مٹھاس کی بنا پر مجھے نسبتاََ زیادہ پسند آئیں۔جدید ادب کا مظفر حنفی کا گوشہ اس اعتبار سے اپنے اندر انفرادیت کا جواز رکھتا ہے کہ اس میں مظفر صاحب کی بالخصوص ان کتابوں پر اکابرین ادب کے تجزیاتی مضامین یا تبصرے شامل کیے گئے ہیں جن کا تعلق موصوف کی تخلیقی زندگی کے نصف اول سے ہے اور آج کے بیشتر قارئین تو کجا قلمکار بھی جن کتابوں کے ناموں سے واقف نہیں ہیں۔۔۔آپ نے مظفر صاحب کے ادبی ماضی کو تو اس گوشے کے وسیلے سے روشن کر دیا ہے لیکن حال پر پردہ پڑا رہ گیا ہے۔مزید کچھ نہ کرتے بس یہی کرتے کہ کسی مختصر تعارفی مضمون یا گوشوارے کے ذریعے مظفر صاحب کی از اول تا حال تمام تر ادبی خدمات کا ایک مفصل اور جامع خاکہ قارئین کے روبرو پیش کر دیتے۔ ڈاکٹر محبوب راہی(اکولہ)
اداریہ میں آپ نے منفرد انداز میں اردو کی ادبی دنیا کی صورت حال کے مثبت اور منفی دونوں اہم پہلوؤں کی نشاندہی کی ہے۔اس کی طرف بہت کم لوگوں کی شاید اب تک نظر گئی ہو۔اس اداریہ کا جو NUT-SHELLہے وہ میری دانست میں یہ ہے:’’اس میں یہ افسوسناک صورت بھی نمایاں ہوئی کہ خود ادب سے وابستہ افراد کو مجموعی ادبی صورتحال سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔اپنی تخلیقات اور پھر اپنے چند دوستوں کی تخلیقات کے مطالعہ کے بعد عام طور پر رسالہ بند کرکے رکھ دیا جاتا ہے۔ادبی مسائل پر مکالمہ بہت کم ہوتا ہے‘‘۔۔پہلی بار اس نکتے پر آپ کی نظر پڑی ہے۔اس کا مشاہدہ مجھے بھی ہوا ہے۔لیکن یہ بات ہر کس و ناکس کے لیے نہیں کہی جا سکتی۔’’جدید ادب‘‘ پہلی بار پڑھنے کو ملا ہے،ایک ہفتہ میں میں نے اس کے بیشتر حصہ کا مطالعہ کیا ہے۔آپ کی پارکھ نظر کا مدّاح ہو گیا۔حیرت تو تب ہوئی جب آپ کے رسالہ میں قیمت کا کوئی کالم نظر نہیں آیا۔صوری و معنوی ہر دو اعتبار سے یہ شمارہ نہ صرف جاذبِ نظر ہے بلکہ ہر مضمون اور منظوم تخلیق اہمیت کی حامل ہے۔
اس سے قبل آپ کا ایک افسانہ’’مباحثہ‘‘ میں پڑھا تھا۔اس کے مطالعے سے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ آپ کی علمی و تخلیقی استعداد کیا ہے۔اب جدید ادب میں آپ کی نثری و شعری تخلیقات نظر سے گزری ہیں تو آپ کے قدوقامت کا مزید اندازہ ہوا۔اللہ نے آپ کے اندر بہت سای خوبیاں مجتمع کر دی ہیں۔کھٹی میٹھی یادیں اپنی اہلیہ کو بھی پڑھوایا۔
مضامین کی فہرست میں تمام تر مضمون معیاری نوعیت کے ہیں۔نصرت ظہیر کا مضمون اس رسالہ کے مضمون میں سر فہرست نظر آتا ہے۔آپ کی تینوں غزلوں نے متاثر کیا۔خاص طور پر ایک غزل کا یہ شعر:
لازم ہے سنا جائے کھلے ذہن سے سب کو اپنے ہی خیالات میں اَٹ کر نہیں رہنا
فرحت حسین خوشدل۔(ہزاری باغ)
تازہ ’’اثبات‘‘(تھانے،ممبئی)میں جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۲کی کہانی پڑھ کر یاد آیاکہ آپ کے نیازمندوں کے حلقے میں کبھی میں بھی ہوا کرتا تھا۔دو تین دفعہ آپ کو ای میل بھی کیالیکن اب آپ کے نام سے اور جدید ادب کے ویب سائٹ کی ہمہ گیری کی وجہ سے شاید میرا ای میل آپ تک پہنچ نہیں پایا۔اب سوچا کہ خط ہی لکھوں۔ویسے آپ کی گفتگو آج تک سماعتوں کا اثاثہ ہے۔جدید ادب شمارہ ۱۲کی کہانی پڑھ کر بڑی حیرت ہوئی۔بڑے لوگوں کو تو بے نیاز دیکھا ہے۔مگر اس قدر نوٹس لیتے کم ہی دیکھا ۔آپ نے اپنے رسالے سے تہلکہ مچا رکھا ہے۔اس سے پہلے آپ نے سمندر پار کے ادیبوں شاعروں کے سرقہ و توارد کا حال لکھا تھا۔ رؤف خیر(حیدرآباد دکن)
گزشتہ دنوں جدید ادب شمارہ 1 2 ملا حمد، نعت اور غزلیں شاملِ اشاعت کرنے پر شکریہ۔ ’انسانی اقدار کی شاعری‘ کے عنوان سے جناب محمد اسلم رسولپوری صاحب کا میرے مجموعہ کلام ’میزانِ شناسائی‘ پرگراں قدر مضمون و تبصرہ ان کی حوصلہ افزائی ہے۔ میں ان کا ممنون و شکر گزار ہوں۔لیکن مضمون میں بعض اشعار سہوِ کتابت سے قارئین کی طبائع پر کچھ غلط اثرات مرتب کرنے کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔چند اشعارمیں کچھ غلطیاں ہیں جنہیں درست کرنا ضروری ہے۔صفحہ ۴۸ پر : پہلے شعر کے دوسرے مصرعے میں ’اس کے‘ کی بجائے ’اسی کے‘ ۔۔۔۔ دوسرے شعر کے دوسرے مصرعے میں’بھی‘ غائب ہے مصرعہ یوں ہے: ’خود اپنے آپ سے بھی دور کردیا اس نے‘ ۔۔۔چوتھے شعر کے دوسرے مصرعے کے آخر میں ’نہیں‘ کی بجائے ’کہاں‘ ہوناچاہئے ۔
گیارویں شعر کے پہلے مصرعے میں ’ہیں‘ زائد ہے ۔مصرعہ یوں ہے : ’نویدِ صبحِ مسرت کے منتظر صادق‘
تیرھویں شعر کے آخر میں ’کا ‘ کی بجائے ’کی‘ ہے۔صفحہ ۴۹پر: پہلے مصرعے میں’ہیں ‘ غنیمت کے بعد نہیں پہلے ہے درست مصرعہ یوں ہے : ’چند لمحاتِ مسرت ہیں غنیمت صادق‘۔۔۔نویں شعر کے دوسرے مصرعے میں ’کوئی ‘ غائب ہے درست اس طرح ہے ’ہر بار اس نے کوئی بہانہ بنا لیا‘۔۔آخری مصرعہ میں ’ جو ‘ درج ہونے سے رہ گیا ہے ۔ مصرعہ اس طرح ہے ’نارِ بغض و کیں میں جو جلتے رہے‘۔۔صفحہ ۵۰پر: چھٹے شعر کے دوسرے مصرعے میں ’ تو‘ نہیں لکھا۔ اصل یوں ہے ’پھر تو دل کچھ ڈرا ڈرا سا رہا ‘۔۔ساتویں شعر کے شروع میں ’ سب ‘ نہیں لکھا گیا۔ یعنی ’ سب جہاں پا لیا تو کچھ بھی نہیں ۔‘ صادق باجوہ۔(امریکہ)
انٹرنیٹ پر بھی دیکھا جانے والا پرچہ ’’جدیدادب‘‘ شمارہ نمبر ۱۲وصول ہوا۔ نوازش۔میں بے حد شکر گذار ہوں کہ آپ کو میری نظمیں پسند آئیں اور ان کو ستیہ پال آنند جی کی نظموں کے ساتھ شامل کرکے مجھے جو عزت بخشی ہے اسے میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ آپ نے میرا خط ’’اِثبات‘‘ میں بھی شائع کرادیا۔ مہربانی۔۔محترمہ پروملا آنند کے انتقال کا غم اور کینسر جیسی بیماری کو برداشت کرتے ہوئے، مایوسی کے عالم میں جو نظمیں تخلیق کی گئی ہیں وہ ذہن کو جھنجوڑکے رکھ دیتی ہیں۔ خدا اُنھیں مکمل تندرستی اور سکون نصیب کرے۔ آمین۔ ۔۔۔۔۔مغربی دنیا میں عمر خیام اور مولانا روم کو کن نظروں سے دیکھا جاتاہے اور انھیں کس قسم کی شہرت اور مقبولیت نصیب ہورہی ہے اسکے لئے ستیہ پال آنند کا مضمون بے حد اہم ہے۔اسی شمارے میں برادرم ڈاکٹر حامداشرف کا مضمون ’’عمرخیام۔ حقیقت کا طلبگار‘‘ شامل کرکے آپ نے جس مدیرانہ صلاحیت کا ثبوت دیاہے وہ بے حد قابل تعریف ہے۔آپ کی کھٹی میٹھی یادوں میں امرتاپریتم اور اِمروز کا ذکر آیا تو اِن دونوں سے میری طویل ملاقات کی بہت سی خوشگواریادیں تازہ ہوگئیں مبارکباد۔ عبدالرب استاد کا مضمون ’’بام بقاء‘‘ اور ڈاکٹر حامد اشرف کا مضمون ’’فکر عظیم‘‘ پڑھنے کے بعد ان حضرات سے میری بہترین توقعات وابستہ ہوگئی ہیں۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!تنہا تما پوری(تما پور)