فریدہ بیگم(گلبرگہ)
نو ر کے ہم نے گلے دیکھے ہیں اے حالیؔ مگر
رنگ کچھ تیری الا پو ں میں نیا پا تے ہیں ہم
بڑا فنکا ر جب انسا ن کے اخلا قی مسا ئل کو ادب میں بر تتا ہے تو شکسپیئر کے المیے اور دوستو وسکی کے ناول جنم لیتے ہیں ۔ اسی طرح حالیؔ کی تصو یر جب سامنے آتی ہے تو ایک معلم ایک نقاد ۔ ایک مصلحِ قوم کے خد وخال ابھر تے ہیں ۔ حالیؔ کو شعر وادب سے فطری منا سبت تھی ۔ اس سلسلہ میں ان کا اہم ترین کا رنامہ ’’مقدمہ شعر و شاعری ‘‘ ہے اس کتاب سے اردو میں تنقید کا با ضابطہ آغاز ہو تا ہے حالیؔ اردو کے پہلے نقاد ہیں جنہوں نے ایک منظم اور مر بو ط شکل میں تنقیدی نظر یا ت کو پیش کیا ۔ حالیؔ سے قبل بھی اردو میں تنقیدی شعور موجود تھا لیکن اسکی حیثیت ادنیٰ درجہ کی تھی۔ معیار و ذوق اور وجدان کو سمجھا جا تا تھا ۔ جو چیز پسند آتی تھی وہ اچھی تھی ۔ جو پسند نہیں وہ ادنیٰ درجہ کی تھی۔ لیکن ان کی بھی تفصیل پیش کر نے کی ضر وری نہیں سمجھا جا تا تھا ۔
مشہو ر زما نے میں ہے نام حالیؔ
معمو ر ہے ہے حق سے ہے جام حالیؔ
میں کشو ر شعر کا نبی ہوں گویا
نا زل ہے مرے لب پہ کلام حالیؔ (اقبال)ؔ
حالیؔ صر ف ادب یا شاعری میں دلچسپی نہیں تھی ۔ا نہیں اپنی قوم اپنے سماج اپنی تا ریخ اپنی مذہبی روایات اور تہذیبی قدروں میں جو دلچسپی تھی اسکی آئینہ داری ان کی شا عری اور ان کے مختلف تصانیف کر تی ہے ۔حالی کی نظر ادب پر اسطرح تھی کہ
’’ حالی کو اعتراض عشق پر نہیں عیا شی پر ہے ۔ مسرت پر نہیں بلکہ مزیداری پر ‘ مشغلے پر نہیں بلکہ بے کا ری پر سلیقہ مندی پر نہیں با زاری پن پر ۔۔۔۔انہوں نے ابتذال کے زما نے میں مذاق سلیم کی با ت کی ہزل اور ٹھٹھول کے زما نے میں شائستہ مزاج پر زور دیا ۔ ہوس پر ستوں کے بیچ محبت کے ارفع جذبات کا ذکر کیا ‘‘۔ (وارث علوی )
یہ وہ زما نہ تھا کہ تنقید منظم اور مر بو ط شکل میں موجو د نہیں تھی اور جو موجود تھی اسکو اعلیٰ درجے کی تنقید نہیں کہا جا سکتا ۔ حالی نے سب سے معقول اور جاندا ر قسم کی تنقیدکی ابتداکی حالی کا زما نہ وہ زما نہ تھا۔ جس میں معقولیت پسندی کا زندگی کے ہر شعبے میں غلبہ تھا ۔ ہر طرف اصلاح کی کوشش کی جا رہی تھی۔ اس کے اثر ات ادب پر بھی نما یاں ہو ئے۔ ادب میں اصلاح کر نے کاخیال پیدا ہوا ۔ اور جب اس خیال کو عام کر نے کی کوشش کی تو تنقید کا بیچ پھوٹ نکلا ۔ حالی اس میں سب سے زیا دہ پیش پیش نظر آئے ۔ اور اسی وجہ سے وہ نئی تنقید کے علمبر دار کہلا ئے ۔
حالیؔ کے دور میں خاص کر شا عری میں جھو ٹ اور مبا لغہ عروج پر تھا ۔ بلکہ مبا لغہ کو ایک ضر وری جز سمجھا جا نے لگا تھا ۔ شعر اجھو ٹ اور مبا لغہ کو شا عری کا زیو ر سمجھنے لگے تھے حالی لکھتے ہیں
’’ یہ سچ ہے کہ ہما ری شا عری میں خلفا ئے عباسینہ کے زما نے سے لے کر آج تک جھو ٹ اور مبا لغہ بر ابر تری کر تا چلا آرہا ہے۔ اور شا عری کے لئے جھوٹ بولنا جا ئز ہی نہیں رکھا گیا ۔ بلکہ اسکوشا عر ی کا زیو ر سمجھا گیا ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ جب سے ہما ری شا عری میں جھو ٹ اور مبا لغہ داخل ہوا اس وقت سے تنزل شر وع ہو ا‘‘۔
وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شا عری کے حسن میں اضا فے کی نظر سے مبا لغہ کا اس حد تک استعمال ضر وری ہے ۔ جس حد تک شعری تا ثر سلب نہ ہو جائے اور معنوی انداز میں شعر بے اثر ہو کر رہ جا ئے انہوں نے ما حول اور حالا ت و واقعات کے پیش نظر ادب کا جا ئزہ لیا۔ دوسرے ممالک کی جاندار خصوصیا ت اپنے سا منے رکھیں اور پھر چند نظر یا ت پیش کئے ۔ انہوں نے سا دگی ‘ اصلیت اور جو ش کو شا عری کے لئے ضر وری قرار دیا ۔ کیو نکہ اس زما نے میں شا عری مبالغہ آرائی ہو کر رہ گئی تھی۔ تکلف اور نفع اپنے شبا ب پر تھا حالی نے اس طلسم کو توڑا ۔
حالی نے نثر و نظم میں اور بھی بہت سی ایسی باتیں لکھی ہیں جن کی بنیا د پر ان کی تنقیدی بصیر ت زیر بحث لائی جا سکتی ہے لیکن یہ مقدمہ ان کے مر بو ط اور مبسو ط خیالات کا آئینہ ہے یہ کتا ب حالی کی نثر کی کتا بون میں سب سے زیا دہ مشہو ر اور مقبول ہے ۔ حالیؔ نے 1893ء میں جب اپنی قدیم اور جد ید غزلوں اور متفر ق کلام کا مجمو عہ اس مبسوط مقدمے کے ساتھ شائع کیا ۔ اس مقدمہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا ۔ ایک حصہ میں اصول کی روشنی اور تصو رات کی تشکیل اور دوسرے میں اصول کی روشنی میں اردو شا عری کے اہم اصنا ف سخن کا جائزہ اور اصلاح کے متعلق مشو رے ۔ یہ مقدمہ جب شائع ہوا تو ہر طرف سے شور تحسین اور مخالفت کا شو ر بلند ہوا ۔ لکھنؤ اسکو ل میں تو آگ ہی لگ گئی کیونکہ اس مقدمے نے فنِ تنقید کی جو نئی راہ نکا لی تھی اسکی کسو ٹی پر کسے جا نے کے بعد اس زما نے کے بیشتر شعراء کا کلام نکّما ثا بت ہو تا تھا ۔
حالی ؔ سے پہلے شعر کو عروض کی کسو ٹی پر کسنا ‘ اس کے لفظوں ‘ تر کیبوں اور محاوروں پر اساتذہ کی سند لا نا اور تذکیر و تانیث کی بحثوں میں الجھنا ہی شعر کی تنقید سمجھا جا تا تھا ۔ حالی ؔ نے اس راہ کو چھوڑ کر شعر کے بنیا دی اصولوں سے بحث کی کہ شاعری کا اصل مقصد کیا ہے اردو شاعری اسے کہا ں تک پو را کر تی ہے۔ اس مقدمہ کے تعلق سے مختلف لو گوں کی مختلف رائے ہیں ۔ ڈاکٹر عابد حسین لکھتے ہیں
’’ یہ مقدمہ ان کے حسن ذوق اور وسعت نظر اور جدتِ خیال کا آئینہ ہے ۔ جب کوئی غیر شاعر شعر کی تنقید پر قلم اٹھا تا ہے تو عمو مًا منطقی بحثوں میں پڑ کر اصل حقیقت کو نظر انداز کر دیتا ہے مگر حالی خو د شاعر ہیں اس لیے انہوں نے اصولی مسائل کے ساتھ ساتھ فن کی با ریکیوں کو بھی خو ب سمجھا یا ہے اردو میں حالی سے پہلے شعر کی تنقید کے معنی صر ف یہ سمجھے جا تے تھے کہ لفظوں اور ترکیبوں کو اسا تذہ کے کلام کی کسو ٹی پر کس کر دیکھ لیں۔ حالی ہی نے پہلے پہل یہ بحث چھیڑی کہ شا عری کی روح کیا ہے اور وہ شعر میں کیسے پیدا ہو تی ہے ‘‘۔
’ یا دایام ‘ میں محمد عبدالرزاق کا نپو ری لکھتے ہیں
’’مقدمۂ شعر و شا عری ادباء و شعراء کے لئے ایک مستقل ضا بطہ ہے ‘‘
’ محشر خیال ‘ میں سجا د انصا ری لکھتے ہیں
’’ اردو میں فن تنقیدی کی اگر تا ریخ لکھی جا ئے تو اس میں حالی کا نا م سب سے بلند نظر آئے گا ‘‘۔
ترقی پسند ادب میں عزیز احمد لکھتے ہیں :
’ حالی کا مقدمہ شعر و شا عری اردو تنقید کے جدید دور کا اور ان کا کلام اردو شاعری کے نئے دور کا با قا عدہ آغا ز کر تا ہے ‘‘۔
’با قیات بجنو ری ‘ میں عبدالرحمن بجنو ری فر ما تے ہیں :
’’ دیوان حالی کا مقد مہ فن شا عری اور اردو شاعری پر زبان اردو میں سب سے اعلیٰ پا یہ کی تنقید ہے ‘‘۔
’ اردو ادب کا تنقیدی سر مایہ ‘ میں عبدالشکو ر لکھتے ہیں
’’ حالیؔ نے ایک نئے اور نہا یت اہم فن یعنی فنِ تنقید کی بنیا د یں استوار کیں اور ان پر ایسی عما رت تعمیر کی جو آج بھی مسرت ‘ اطمینان اور فخر و نا ز سے دیکھی جا تی ہے ‘‘۔
اس کتا ب کا مقدمہ حالی کے نزدیک معا شرے کی اصلاح تھا ۔ اس میں حالی نے شعر و شا عری کی بنیا دی خصوصیات سے بحث کی ہے ۔ حالی شاعری کو مسرت کا ذریعہ نہیں سمجھتے بلکہ اسکے لیے مقصد یت اور افا دیت کے قائل تھے
اے شعر دلفر یب نہ ہو تو تو غم نہیں
پر تجھ پہ حیف ہے جو نہ دل گداز تو
شعر و شا عری حالی کے خیال میں سو سا ئٹی کے تا بع ہو تی ہے ۔ ان دونوں کا چولی دامن کا سا تھ ہے۔ عمو مًا شا عری سو سائٹی سے متا ثر ہو تی ہے ۔ اور ساتھ ہی ساتھ شاعری کا اثر سو سائٹی پر بھی پڑتا ہے ۔ یہ دونوں لا زم و ملزوم ہیں ۔ حالی کا یہ نظر یہ اردو میں بالکل نیا ہے ۔ اور اسکو دیکھ کر یہ خیال ہو تا ہے کہ مغر ب کے اثرا ت اور وہاں کے تنقیدی نظر یا ت نے حالی کو بدلنے پر مجبو ر کیا ۔ اور اردو ادب کا بھی یہی تقاضا تھا۔
انگریزی ادب سے استفا دہ کی سب سے اہم مثال ‘ وہ خیالا ت ہیں جن کو انہوں نے ملٹن کے حوالے سے شعر کی تین خو بیا ں بیان کر تے ہیں (۱) سادگی (۲) اصلیت اور (۳) جو ش
یہاں وہ مغر ب سے کھل کر استفا دہ کر نے کی کوشش کر تے ہیں ۔
’’ اب وہ خصو صیتں بیان کر نی ہیں جو دنیا کے تمام مقبول شاعروں کے کلام میں عمو مًا پا ئی جا تی ہیں ۔ ملٹن نے ان کو چند مختصر لفظوں میں بیا ن کیا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ شعر کی خو بی یہ ہے کہ سادہ ہو جو ش سے بھر ہو اور اصلیت پر مبنی ہو ‘‘
حا لیؔ کے نزدیک سا دگی کا معیا ر یہ ہے ۔
سادگی :۔ زبان روز مرہ بول چا ل کے قریب ہو ۔ ایک عام آدمی بلند خیال کو ہموار کرنے کے با وجود بھی سمجھ نہیں سکتا ۔ دو با توں خیالرکھنا ضر وری ہے الفا ظ اور شعر کیسا ہی بلند اور دقیق کیوں نہ ہو مگر پیچیدہ اور نا ہموار نہ ہو شعر فہمی کی صلاحیت ہر شخص میں نہیں ہوتی ہے
اصلیت :۔
۱) ایسی چیز جس کے با رے میں شا عر خیال پیش کر رہا ہے اگر حقیقتًا موجود نہ ہو تو کم سے کم عقیدے میں ضر ور ہو۔
۲) لو گوں کو معلوم ہو نہ ہو شا عر کے خیال کے مطا بق ہو۔
۳) جو چیز حقیقتًا موجود ہے اس میں شا عر اضا فہ کر ے کم از کم لو گ قیا س کرسکیں کہ اسکا وجو د ممکن ہے۔
’’ اصلیت پر مبنی ہو نے سے یہ مرا د نہیں کہ ہر شعر کا مضمو ن نفس الا مر پر مبنی ہو نا چ اہیے بلکہ مرا د ہے کہ جس با ت پر شعر کی بنیا د رکھی گئی وہ نفس الا مر بیں یا لو گوں کے عقیدے میں یا محض شاعر کے عندیہ میں فی الوا قع موجود ہے نیز اصلیت پر منبی ہو نے سے یہ بھی مقصو د نہیں کہ بیا ن میں اصلیت سے سرنو تجا وز نہ ہو بلکہ یہ مطلب ہے کہ زیا دہ تر اصلیت ہو نی چاہیے‘‘ ۔(حالیؔ )
حالی دبی زبان سے اس با ت کا اقرار کر تے ہیں کہ اصلیت کے بغیر حقِ شا عری ادا نہیں ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس پر کوئی تنقید پیش کی جا سکتی ہے ۔ ہم اصلیت کے عنصر پر غو ر کر نے کے بعد اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو شعری حقیقت کو بر قرار رکھنا چاہیے اور اس میں جھو ٹ غیر معمولی مبا لغہ کا سہا را نہیں لینا چاہئے مبا لغہ صر ف وہیں تک جائز ہے جہاں تک وہ کلام کے اثر میں اضافہ نہ کر سکے ۔ مبالغہ جب بڑھ جا ئے تو اصلیت ختم ہو جا تی ہے ۔
جوش:۔ ’’جو ش سے مراد اثر انگیزی کی قوت جو شیلے الفا ظ نہیں بلکہ الفاظ سے زیا دہ تخیل کاکام کر ے ۔ الفا ظ نر م تاثر بے پناہ ہو ۔جو ش سے مرا د ہے کہ مضمو ن ایسے بے سا ختہ الفا ظ اور مو ثر پیرائے میں بیا ن کیا جا ئے جس سے معلو م ہو کہ شا عر نے اپنے ارادہ سے یہ مضمو ن نہیں با ندھا بلکہ خو د مضمو ن نے شاعر کو مجبور کر کے اپنے تئیں اس سے بند ھوا یا ہے ‘‘۔ (حالیؔ )
حالی کی نیچر ل شاعری بھی مغر بی ادب کے مسلح خانہ سے نکلی ہوئی شمشیر ہے جسکی کاٹ سے ہر کس و نا کس زخمی ہے مگر لذت زخم سے نا آشنا ۔ حالی کے دور میں اس لفظ کا استعمال اس کثر ت سے ہوا کہ حد نہیں ۔
ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں
’’ نیچر ل مضمو ن مو لانا حالی کامقصو د ایسے مضامین ہیں جو اولاً انسانی نیچر کے مطا بق ہوں ثانیا ’’ قانون قدرت کے مطا بق ہو ں ۔ثا لثا’’ عقل انسانی کی حد ادراک میں ہوں ۔ نیچرل بیان سے ان کی مرا د وہ بیان ہے جو عام فہم اور سادہ ہو جو بے ساختہ طور پر طبیعت یا نیچر سے ثا بت ہو اہو اور طبیعت کے قدرتی بہا ؤ کے مطا بق ہو اور ایسی زبان میں ہو جو اجتما ع انسانی کے اس حصہ کے لئے (جس میں وہ زبان بو لی جا تی ہو ) نیچرل ہو‘‘۔
حالیؔ نے حکمیا نہ انداز اور فلسفیا نہ نظر سے شعر کی اصلی اور بنیا دی صفا ت پر مفصل اور مدلل بحث کر کے یہ ثا بت کیا کہ شا عری کا مقصد محض لفظوں سے کھیلنا اور خیالی طلسم بنانا نہیں بلکہ اس سے بہت بلند و بر تر ہے ۔ شعر کا کام سچے وارداتِ قلب کو اس طرح بیان کر نا ہے کہ وہ سننے والے کے دل میں اتر جا ئیں اور وہ بے اختیا ر پکار اٹھے ۔
دیکھنا تقریرکی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جا نا کہ گو یا یہ بھی میرے دل میں ہے
اور شعر کا کام قوم کو اصلاح کی طرف متو جہ کر نا اور اسکو پستی سے نکال کر تر قی کی راہ پرڈالنا ۔ اس میں اچھا ذوق اور اچھے کام کی قدر پیدا کر نا بھی ہے۔ شعر کی تعریف کے بعد وہ شاعر کی تعریف اسطر ح کر تے ہیں اچھا شا عر ہو نے کے لئے وہ تین شر طوں کو ضر وری قرار دیتے ہیں ۔ (۱) تخیل (۲) کائنا ت کا مطا لعہ (۳) تفحص الفا ظ
تخیل کی قوت خدا داد ہو تی ہے ۔ اکستاب سے حاصل نہیں ہو سکتی لیکن یہ شا عر کے لئے بہت ضر وری ہے ۔ تخیل کی تعریف وہ ان الفا ظ میں کر تے ہیں ۔
’’ وہ ایک ایسی قوت ہے کہ معلوما ت کا ذخیرہ جو تجر بہ یا مشا ہدہ کے ذریعہ سے ذہن میں پہلے سے مہیا ہو تا ہے ۔ یہ اس کو مکر ر ترتیب دے کر ایک نئی صورت بخشی ہے اور پھر اسکو الفا ظ کے ایسے دل کش پیرا یے میں جلو ہ گر کر تی ہے جو معمولی پیرا یوں سے بالکل یا کسی قدر الگ ہو تا ہے ‘‘۔
تخیل کے بغیر شاعری کا تصو ر ممکن نہیں ۔ تخیل ہی احسا سات کی ادائیگی کے لئے منا سب الفاظ تلا ش کر تا ہے صر ف مو زونیت مو زوں طبیعت کا فی نہیں بلکہ تخیل کی بلندی نزاکت کی با ریکی نہا یت ضر وری ہے منجملہ حالی کے تخیل کا مفہو م اس شعر سے پو را ہو تا ہے ۔
ذہن میں پہلے کسی سوچ کی آہٹ تو ملے خو د بنا لیتے ہیں اظہار کے سانچے الفاظ
شعر میں اثر جا دو اور نثری کیفیت اس وقت آتی ہے جب جذبہ کو منا سب لفظوں میں ڈھا لا جا ئے ۔
تخیل کے علا وہ کائنا ت کا مطا لعہ بھی ان کے نزدیک ضر وری ہے لیکن کا ئنا ت کے مطا لعہ سے ان کا مقصد صرف فطر ت یا نیچر کا مطا لعہ ہی نہیں بلکہ فطرت انسانی اور نفسیا ت انسانی سے بھی واقفیت ضروری ہے۔ شا عری میں اس پہلو کی اہمیت تو ظاہر ہی ہے۔ مطالعہ گہر ا ہو اور وسیع ہو جس کے دائرے میں خیال کو وسعت ملے ۔
عبادت بریلو ی لکھتے ہیں
’’ حالی کا یہ خیال صحیح ہے کہ اگر اسکا خیال نہ رکھا جا ئے تو قوت متخیلہ بھی کام نہیں کر سکتی ‘‘۔
تیسری خصوصیت الفا ظ کا صحیح استعمال ہے کیوں کہ بغیر اسکا خیال رکھے شاعر اپنے مافی الضمیر کو اچھی طرح پیش نہیں کر سکتا ۔شاعری ہو کہ نثر الفا ظ سب سے زیا دہ اہمیت کے حامل ہو تے ہیں ایک اچھا شاعر خوبصو رت نقش نگا ر الفاظ کے پیا لہ میں معنویت کی مئے پیش کر تا ہے تبھی وہ متاثر کن ہو تی ہے ۔
حالی لکھتے ہیں :’’ شاعری کا مدار جس قدر الفا ظ پر ہے اس قدر معانی پر نہیں معنی کیسے ہی بلند اور لطیف ہوں اگر عمدہ الفاظ میں بیا ن نہ کئے جا ئیں گے ہر گز دلوں میں گھر نہیں کر سکتے ‘‘۔
حالی کی یہ تینوں شرطیں جو انہوں نے شا عر کے لئے ضر وری قرار دی ہیں بہت اہم ہیں۔ا گر چہ تنقید بہت زیا دہ آگے بڑ ھ چکی ہے ۔لیکن آج بھی انہیں خیالات پر زور دیا جا رہا ہے ۔
حالی کے تنقیدی نظر یات بہت اہم ہیں ان میں مشر ق و مغر ب کے تنقیدی نظر یا ت کا امتزاج موجو دہے ۔ ان دونوں کا مقابلہ بھی کیا ہے لیکن ترجیح انہوں نے مغر بی نظر یات کو دی ہے ۔ کیونکہ ان کے اندر انہیں جامعیت نظر آتی ہے ۔ ان کے تنقیدی خیالا ت و نظر یات گہری سوچ کا نتیجہ ہیں ان میں خلو ص ہے سچائی ہے بے تکلفی ہے تصنع اور بنا وٹ سے وہ بالکل پا ک ہیں۔ شعر کے لئے جن عناصر کو ضرو ری قرار دیا ہے شعر کی ما ہیت اور اسکی ضرورت پر جو روشنی ڈالی ہے ان سب سے اس با ت کا پتہ چلتا ہے کہ وہ شعر کی صحیح اسپرٹ سے واقف تھے ۔ ان کو اسکی اہمیت اور ضر ورت کا بخو بی اندازہ تھا اور اسی وجہ سے انہوں نے یہ اصو ل قائم کئے ۔ تاکہ ان کو صحیح طریقے سے سمجھا اور پر کھا جا سکے ۔ اور ادب میں اچھے شاعر پیدا ہو سکیں۔
اس مقدمہ میں انہوں نے غزل ‘مثنو ی ‘ قصید ے ‘ مر ثیہ ‘رباعی وغیرہ پر الگ الگ اور مفصل بحث کی ہے اور ان سب پر نا قدانہ نظر ڈالی ہے ان کی ضر ورت ان کا صحیح مقام سمجھا یا ہے اور بتایا ہے کہ ان سے کیسے اور کیا کام لیا جا سکتا ہے ۔ وہ غزل پر کڑی تنقید کر تے ہیں حالی ؔ غزل کے رسمی موضو عات مبا لغہ آمیزی ‘غیر اخلا قی تصو رات سے بیزار تھے اس میں جدت پیدا کر نا چاہتے تھے نئے نئے مضامین پر طبع آزمائی پر زور دیتے تھے۔ دراصل وہ اس رنگ کے خلا ف ہیں جو متا خرین نے غزل کا کر دیا تھا ۔ وہ زما نے کے لحاظ سے خو ب سے خو ب تر کی تلا ش میں تھے ہے جستجو کہ خو ب سے ہے خو ب تر کہاں اب دیکھئے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں
وہ غزل کو اعلیٰ جذبات اور بلند اخلا ق کا پا بند بنا نا چاہتے تھے ۔ دراصل حالی نے غزل کے ذریعے درس وتدریس اور واعظ و نصیحت کی با تیں کر نا چا ہتے تھے غزل کو خیالی میدا ن سے نکال کر زندگی سے قریب کر دیا گیا ۔ اس طرح اسکا دامن وسیع ہو گیا ۔
آل احمد سر ور کا خیال ہے کہ
’’ ان کا اعتراض لکھنو اسکو ل پر ہے جس نے شاعری کو غزل میں اور غزل کو رعایت لفظی اور نازک خیالی میں محدود کر دیا۔ انہوں نے قدما کی اس وجہ سے تعریف کی ہے کہ وہ الفا ظ کے طلسم سے نہیں بلکہ دل کی بات سنا کر انسا ن کو مسحو ر کرتے ہیں ۔ قصیدے سے چو نکہ مبالغہ ‘ جھوٹ اور خو شا مد کی عا دتوں کی تر قی ہوتی ہے اور ان سے قوموں میں ضعف پیدا ہوتا ہے ۔ اس لئے حالی اسکی مذمت کر تے ہیں اور یہ مر ثیہ اور مثنوی نے چونکہ اردو شاعری میں رزمیہ اور بزمیہ دونوں رنگ پیدا کیے اس لیے انہیں سر اہتے ہیں ‘‘۔
حالی اس کٹھن منزل سے گذ ر رہے تھے کہ اس زما نے میں لو گ طرز کہن کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے اور آئین نو کو اپنا نا نہیں چا ہتے تھے بقول اقبال
آئین نو سے ڈر نا طر ز کہن پہ اڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زند گی میں
قصیدہ میں مبالغہ اور غلو آمیز مدح سرائی سے پر ہیز کیا اور مدح میں خو شامد کا شائبہ پید انہیں ہو نے دیا ۔ مولا نا اس کو بے کا ر صنف سمجھتے نہیں تھے بلکہ اس سے بھی بہت سا رے کام لیے جا سکتے ہیں وہ چا ہتے ہیں کہ کوئی شخص جس میں اچھے اوصاف ہوں اسکی تعر یف میں بھی قصید ہ لکھا جا سکتا ہے۔ اسطرح تعریف کر نے سے اچھے اوصا ف کی ہمت افزائی ہو تی ہے اور لو گوں کو نیکی اور بھلا ئی کر نے کی تر غیب بھی ہو تی ہے ۔
مر ثیہ کے تعلق سے کہتے ہیں کہ اس نئی طرز کی صنف نظم سے اردو شاعری میں بہت وسعت پیدا ہو گئی ہے لیکن نئے مر ثیے میں وہ بہت سے ان پہلوؤں کو چھڑا دینا چاہتے ہیں جنہیں میر انیسؔ اور دوسرے مرثیہ گو نے کما ل فن قرار دیا تھا ۔ حالی سب سے زیا دہ زور اس با ت پر دیتے ہیں کہ مر ثیہ کو صر ف واقعہ کر بلا تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اس میں وسعت ہو نی چاہیے محض یہ نیت حصول ثواب ہو تو کچھ مضائقہ نہیں ۔ بلکہ شاعر جو کہ قوم کی زبان ہو تا ہے اسکا یہ فر ض ہو نا چاہیے کہ جب کسی کی مو ت سے اسکے یا اس کی قوم خا ندان کے دل کو فی الواقع صدمہ پہنچے اس کیفیت یا حالت کو جہاں تک ممکن ہو ۔ درد اور سوز کے ساتھ شعر کے لبا س میں جلو ہ گر کر ے انہوں نے شخصی مرثیہ پر زور دیا انہوں نے خو د غالب کا مرثیہ ‘ ’سر سید‘ ’ملکہ وکٹو ریہ‘ لکھا ۔
مثنو یوں میں تسلسل خیال کو فطر ی طو ر پر بر قرار دکھنے کی جو خو بی ہے حالی اسکی وجہ سے مثنو ی کو سب سے زیا دہ کا ر آمد صنف شاعری قرار دیتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ اسے وسعت دی جا ئے اور مفید مضامین کے لیے استعمال کی جائے ۔ چنا نچہ حالی نے خو د حُبِ وطن ۔ بر کھا رت ۔ مثنو ی اولاد اور منا جا ت بیوہ لکھی بقول اقبالؔ
سلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زما نہ جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
جب انہوں نے جدید شاعر کے کو چے میں قدم رکھا ۔ قوم کی بہبو دی اور فلاح دوستی اخلا ق اور اقتضائے زما نے کی موافقت کا ڈھنڈورا پیٹنا شر وع کیا تو مختلف حلقوں سے ان کی مخالفت ہوئی۔ جو سر سید کے مخالف تھے انہوں نے ان کی شاعری کو سر سید کے مشن کا پر وپگنڈہ قرار دے کر رد کر دیا جو قدیم شا عری کے چٹخا رے کی تلا ش میں تھے ۔ انہوں نے اسے خشکی اور بے کیفی کی بنا پر رد کر دیا ۔ اور جو شا عر ی کو محض لفاظی قرارد یتے تھے۔ انہوں نے الفا ظ کی نئی معنو یت کو تسلیم کر نے سے انکا ر کر دیا۔ لا محالہ حالی کو اس سے تکلیف تھی کہ ان کی سا ری کو شش رد کی جا رہی ہے۔لیکن وہ یہ سو چ کر کسی حد تک مطمئن تھے کہ آج نہیں تو کل ان کی محنت کی دا د ضر ور ملے گی ۔ حالی کا یہ انداز ہ غلط تھا اور گو کہ مختلف وجو ہ سے ان کے نقطۂ نظر کی مخا لفت آج بھی کی جا رہی ہے ۔ لیکن جس سمت وہ شعر و ادب کو لے جا نا چاہتے تھے اسکی مخا لفت اب تقریبًا ناممکن ہو گئی ہے حالی کا یہ مقد مہ اردو شاعری کی تنقید میں ایک عہد آفریں کا رنامہ ہے آ ج کے دور کے شعراء کیلئے بھی یہ لا زمی ہے کہ وہ اس مقدمہ کو سامنے رکھ کر اپنی اصلاح کر یں کیو نکہ شعر و شا عری کے ذریعہ قوم کی اصلا ح کا بہتر ین کام لیا جاسکتا ہے آج کے شاعر کو اس پر غو ر کر نے کی ضر ورت ہے بقول مسعود حسن رضو ی ’’ انسا ن اخلا ق کی تکمیل کے لئے شعر و شاعری کی ضر ورت کا انکا ر نہیں کیا جا سکتا ۔ مگر اس حقیقت کا اقرار بھی ضروری ہے کہ جو شا عری بعض مخصوص جذبات کو ابھا رے اور با قی کو دبائے ۔ اسکا اثر اخلا ق پر کچھ اچھا نہ ہو گا ۔ ہما رے شا عروں کے دیوان زیا دہ تر رنج و غم ‘حسر ت و یا س کے دفتر ہیں ،اور اگر کسی شا عر کا دکھ بھر ا دل دردو الم کے دریا بہا ئے تو بھی کچھ نقصا ن نہیں۔ ہا ں اگر ہر شاعر آہ و زاری اضطراب و بیقراری ہی کو مو ضو عِ شاعری سمجھ لے تو ضر ور قوم کا دل افسر دہ اور طبیعت مر دہ ہو کر اسکی قوت عمل میں کمز وری آجا ئے گی ۔
مگر اب ضرو رت ہے ایسے شاعروں کی جو خو د ہنس کر دوسروں کو ہنسائیں جو ہمدردی اور رواداری کے جذبات کو ابھا ریں اور ملک میں حب وطن اور قوم پر ستی کی روح پھو نکیں اور ایسی شاعری کریں جو سو تے احسا س کو جگاتی ہے ۔ مر دہ جذبات کو جلا تی ہے ۔ دلوں کو گر ما تی ہے حوصلوں کو بڑھا تی ہے ۔ مصیبت میں تسکین دیتی ہے ۔ مشکل میں استقلال سکھا تی ہے ۔ بگڑے ہوئے اخلا ق کو سنوا رتی ہے ۔ اور گری ہوئی قوموں کو ابھا رتی ہے۔
غر ض یہ کہ حالی کی شاعری اور ان کی تنقید نے اردو ادب میں ایک نئی لہر دوڑادی ۔ انکا یہ احسان اردو زبان کبھی فرا موش نہیں کر سکتی ۔
کلیم الدین احمد لکھتے ہیں ’’ یہ بات ایک حد تک صحیح ہے کہ مقدمہ میں گہرائی اور گیرائی کے سا تھ حالی پو ری عر بی ‘ فا رسی اور اردو شاعری پر حاوی نظر آتے ہیں لیکن انگریزی ادب سے حالی کی واقفیت محد ود تھی ‘‘۔
حالی نے شا عری کی اصلاح کے لئے جو راہ نکا لی وہی آج تک ’سند ‘ کا کام کرتی ہے جو لو گ اسکی حقیقت کو نہیں سمجھے وہ یا تو اپنے متن کی خو ش فہمیوں کی دلدل میں پھنسے یا پھر نقاد کے ہا تھوں مجر م قرار دئے گئے شاعری کو ئی الفا ظ کی با زیگر ی نہیں جس کا جی جسطرح چا ہیے کھیل سکے ۔ آل احمد سر ور نے سچ کہا ہے :
’’ حالی سے پہلے ہما ری شا عری دل و الوں کی دنیا تھی ۔ حالی نے مقدمہ شعر و شا عری کے ذریعے اسے ایک ذہن دیا ۔ بیسویں صدی کی تنقید حالی کی اسی ذہنی قیادت کے سہا رے پر ابھی چل رہی ہے ‘‘
حالیؔ کی نظر ہمیشہ اصلاحی رہی وہ اردو کے چمن کو پھلا پھو لا رکھنا چاہتے تھے
پھلا پھولا رہے یا رب چمن میری امیدوں کا جگر کا خو ن دے دے کر یہ بوٹے میں نے پا لے ہیں
ادب کی مثبت اور آفاقی قدروں کا ترجمان جرمنی سے ایک نئے ادبی رسالہ کا اجرا
ادبی رسالہ طاہر عدیم کی ادارت میں
اثبات جزیرہ
اشعر نجمی کی ادارت میں شائع ہورہا ہے کا پہلا شمارہ منظرِ عام پر آچکا ہی
رابطہ کرنے کے لیے رابطہ کرنے کے لیے
Post Box No.40,P.O.Shanti Nagar Erich -Ollenhauer Str. 35,
Mira Road(East)Dist Thane-40701 1 6307 3Offenbach A/M Germany
E-Mail: [email protected] E-Mail: [email protected]