محمد اسلم رسول پوری(جام پور)
تاثر اور تنقید جناب عبد الرب استاد کے تاثراتی اور تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔جناب عبدالرب استاد کا تعلق بھارت کی ریاست کرناٹک کے شعبہ تدریس سے ہے۔تاثر اور تنقید مختلف موضوعات پر گیارہ مضامین پر مشتمل ہے۔ایک ادبی نقاد کے لئے کچھ خوبیوں کا ہونا ضروری ہے۔جن میں وسیع مطالعہ تجزیے کی صلاحیت اور اظہارِ بیان پر قدرت شامل ہیں۔خوش قسمتی سے جناب عبد الرب استادکو قدرت نے یہ خوبیاں عنایت کی ہوئی ہیں۔اس لئے ان کے مضامین پڑھنے والے کو اس کے تمام مطالبوں کی تسکین کا سامان فراہم کرتے ہیں۔
ان مضامین میں عبدالرب استاد نے نثر اور نظم کے حوالے سے ہر موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ابتدا میں ان کا مضمون تحریک آزادی میں اردو ادب کے حوالے سے ہے۔بلا شبہ یہ ایک اہم مضمون ہے جس پر بہت تفصیل سے لکھا جا سکتا ہے۔لیکن عبد الرب استاد کا یہ مضمون مختصر ہونے کے ساتھ جامع بھی ہے۔انہوں نے تحریک آزادی کو ۱۷۵۷کی جنگ پلاسی سے شروع کیا ہے۔جس پر سراج الدولہ نے انگریزوں کے بنگال پر قبضے کے خلاف مزاحمت کی تھی۔با قاعدہ طور پر یہ جنگ ۱۸۵۷ میں لڑی گئی۔جس کے بعد انگریزوں نے پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔اس کے بعد ہندوستان کی آزادی تک جو نوے سال کا عرصہ بنتا ہے۔ اس میں دو بڑی ادبی تحریکیں شروع ہوئیں۔ایک سر سید احمد خان کی اور دوسری ترقی پسند تحریک ۔عبد الرب استاد نے ان دونوں تحریکوں کا جائزہ لیا۔۱۸۵۷کی جنگ ہندووئں اور مسلمانوں نے مل کر لڑی تھی۔اور یہ ہندو مسلم اتحاد کا شاندار نمونہ تھی۔اور بعد میں انگریزوں نے اس اتحاد سے خوف زدہ ہو کرمسلانوں اور ہندووئں کو تقسیم کرنے فیصلہ کیااور اس کے نتیجے میں زبان کو بھی تقسیم کرنے کی کوشش کی۔اور اسے ہندی اردو لسانی جھگڑے میں مبتلا کیا۔عبد ارب استاد نے انگریزوں کی اس سازش کو بے نقاب کیا ہے۔اس طرح سرسید احمد خان کے دو قومی نظریے پربھی ایک نظر ڈالی ہے۔اور ڈاکٹر تارا چند کے حوالے سے بتایا ہے کہ سر سید احمد خان کے کانگرس سے سیاسی اختلاف تھے۔عبدالرب استاد نے اپنے اس مضمون میں جن بنیادی سوالات کو چھیڑا ہے وہ آئندہ کے محققین کیلئے ریسرچ کا ایک موضوع بن سکتے ہیں۔
مولانا حالی کی ادبی خدمات سے انکار ممکن نہیں ہے۔عبدالرب استاد نے اس دوسرے مضمون میں مولانا حالی کی شاعری اور مسدس کے ساتھ ان کی نثری تصانیف کو بنیادی اہمیت دی ہے۔اس سلسلے میں انہوں نے یادگارِغالب حیاتِ سعدی اور حیاتِ جاوید کو خصوصی طور پر اپنا موضوع بنایا ہے۔یادگارِغالب جو غالب کی زندگی اور شاعری کے بارے میں بنیادی کتاب ہے کی اہمیت کو عبدالرب استاد نے بڑی وضاحت سے پیش کیا ہے اور بالکل درست طور پر کہا ہے کہ غالب کا کوئی سوانح نگاریادگارِغالب سے استفادہ کئے بغیر قلم نہیں اٹھا سکتا۔اس طرح انہوں نے حیاتِ جاوید پر بھی لکھا۔انہوں نے مولانا شبلی کا حیاتِ جاوید کو مدلل مداحی کہنے کا دفاع کیا ہے۔
مولانا حالی کا مسدس پر جو مقدمہ ہے وہ اپنی الگ اہمیت رکھتا ہے۔اس کی اہمیت کو عبدالرب استاد نے پوری طرح نمایاں کیا ہے۔اور حالی نے شعر کی جو تعریف سادگی حقیقت پسندی اور جذبے کے حوالے سے کی ہے اس پر وقت نے مہرِتصدیق ثبت کی ہے ۔تاہم انہوں نے مولانا حالی کے ناول مجالسَِ النسا کا صرف تذکرہ کیا ہے۔اس پر اپنے خیالات کا اظہار نہیں کیا۔ پھر بھی یہ مضمون حالی کی ادبی خدمات کو بڑے جامع انداز میں قاری کے سامنے لاتا ہے۔
پریم چند اور خطبہ صدارت کے حوالے سے عبدالرب استاد کا مضمون بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔اگرچہ پریم چند پر بہت کام ہوا ہے لیکن ان کے خطبہ پر خاطر خواہ نہیں لکھا گیا۔ادبی حوالے سے استاد نے پریم چند کی زندگی کو چار ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ان کا خطبہ صدارت جو ان کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے دیا گیا ادب کی حیثیت کو متعین کرنے میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔انہوں نے بجا طور پر لکھا ہے جس طرح حالی کا مقدمہ شاعری پر تھا اس طرح یہ صدارتی خطبہ پریم چند کے فکشن کا مقدمہ معلوم ہوتا ہے۔
عبدالرب استاد نے پریم چند کے خطبے کے مختلف اقتباسات پیش کر کے انہیں ادب کی ایک کسوٹی قرار دیا ہے۔اور اس طور اس خطبے کی جو بنیادی اہمیت ہے وہ کھل کر سامنے آتی ہے ۔یوں پریم چند کی فکری اور ادبی رسائی کے بارے میں ہم بہتر طور پر جان سکتے ہیں جس میں ان کا سیاسی شعور بھی جگہ جگہ ملتا ہے۔
بلاشبہ ڈاکٹر محی الدین قادری زور ایک بڑا نام ہے ۔اور ان کی ادبی خدمات کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ڈاکٹر زور کی کتاب ہندوستانی لسانیات سب سے پہلے میری نظر سے گذری تھی اور ایک واقت تک میں انہیں صرف ماہرِلسانیات ہی سمجھتا رہا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی دوسری بہت سی خدمات سامنے آتی رہیں مگر عبدالرب استاد کے اس مضمون نے تمام کمیوں کو پورا کر دیا۔اور ڈاکٹر زور ایک بڑے محقق کے طور پر سامنے آئے ۔ یہ مضمون ڈاکٹر زور کی تمام خدمات کا بھر پور جائزہ لیتا ہے۔یقینا یہ ایک معلوماتی مضمون ہے۔
دکن کے ایک با کمال شاعر سلیمان خطیب سے میں پہلی بارعبد الرب استاد کی معرفت متعارف ہوا ہوں ۔ میں نے اس مضمون کو بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھا اور خطیب کی زبان پر خصوصی توجہ دی کیونکہ کہیں کہیں وہ میرے لئے اجنبی تھی مگر عبدالرب استاد کی وضاحتوں سے خطیب کے شعروں نے دل کو گہرائیوں تک جا لیا ۔یہ مضمون نہ صرف خطیب کی شاعری کا تعارف کراتا ہے بلکہ وہاں کی تہذیب اور سماجی زندگی کی پرتیں بھی الٹتا رہتا ہے ۔ ساس بہو کے بارے میں سلیمان خطیب کی نظم بڑی متاثر کن ہے ۔ایسے ہی ساس بہو کے جھگڑے کے بارے میں ایک سرائیکی نظم بچپن میں سنی تھی جو اب تک دل پر اثر کرتی ہے۔
حیدر قریشی کا نام اردو ادب میں زندہ رہنے والا نام ہے۔ انہوں نے اردو کی ہر صنفِ ادب میں اپنے تخلیقی جوہر کا اظہار کیا ہے۔نثر میں افسانہ انشائیہ تنقید اور سفرنامہ کے ساتھ شاعری میں نظم غزل اور ماہیا میں بھی ان کی قدرتِ کلام اپنے تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ سامنے آتی ہے۔۔آج کا اردو ماہیا تو تقریبا ان کے نام منسوب ہے۔انہوں نے اسے عام قسم کے بے وزن لوک گیتوں سے نکال کرایک بڑی ادبی صنف بنا دیا ہے۔اور اس کے لئے جس جدوجہد کا مظاہرہ کیا ہے اس کی جدید اردو ادب میں مثال ملنی محال ہے۔یہی وجہ ہے اردو ادب کے معروف نقاد ڈاکٹر وزیر آغا ڈاکٹر انور سدید اور ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے اس حوالے سے انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔جناب عبدالرب استاد نے اپنے مضمون اردو ماہیا اور حیدر قریشی میں ان سب کا جائزہ لیا ہے۔اور ماہیا کے سلسلے میں جناب حیدر قریشی کی تمام کاوشوں کا ذکر کیا ہے ۔اور ماہیے کو ادبی صنف بنانے کے علاوہ اس کے مزاج کو متعین کرنے اور وزن کے تعین کرنے کی کوششوں کو قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔جناب حیدر قریشی نے صرف ماہیے کی تاریخ اس کے اوزان اور مزاج پرمضامین نہیں لکھے بلکہ خود بھی تین سو سے زائد ماہیے بھی لکھے ہیں ۔ عبدالرب استاد نے اپنے مضمون میں حیدر قریشی کی ان کوششوں کے ساتھ ان کے ماہیوں کا جائزہ بھی لیا ہے ۔ حیدر قریشی نے ماہیے کے موضوعات کو جو وسعت دی ہے۔عبد الرب استاد نے انہیں موضوعات کے حوالے سے کئی حصوں میں تقسیم کیا ہے۔حمد ،دھرتی، رشتے، حسن و عشق، منظر نگاری وغیرہ کے ساتھ ان کے فنی حسن پر بھی نظر ڈالی ہے۔محاکات تلمیحات اور تشبیہات کے استعمال سے حیدر قریشی نے اپنے ماہیوں میں جو شاعرانہ حسن پیدا کیا ہے۔اس پر عبد الرب استاد نے تفصیل سے لکھا ہے استاد کا یہ مضمون حیدر قریشی کے ماہیے کا ایک بھر پور تعارفی مضمون ہے۔جس سے حیدر قریشی کی عملی جدوجہد کے ساتھ فنی رسائی سے ہماری مکمل واقفیت ہوتی ہے ۔تاہم استاد صاحب نے ماہیوں کے بارے میں حیدر قریشی کی اتنی گہری دلچسپی کا نفسیاتی جائزہ نہ لیا ہے ۔جناب حیدر قریشی کا تعلق سرائیکی وسیب(جنوبی پنجاب پاکستان)سے ہے ۔اور ماہیے کے بارے میں میرا نکتہ نظر یہ ہے ۔کہ ماہیا در اصل لفظ ماہی سے بنا ہے جو سرائیکی زبان کا لفظ ہے اور جس کا مطلب محبوب ہے اور عشق و محبت کے حوالے سے مختصر قسم کا شاعرانہ اظہار ماہی کے حوالے سے ماہیا کے نام سے مشہور ہے ۔چونکہ سرائیکی زبان سرائیکی وسیب (جنوبی پنجاب ۔پاکستان) میں بولی جاتی ہے اس لئے عام طور پر یہ سرائیکی صنف شاعری ہے۔(سرائیکی زبان کو مخصوص مفادات کے تحت پنجابی زبان کا لہجہ سمجھا جاتا ہے اس لئے ماہیا کو بھی پنجابی صنف قرار دیا جاتا ہے ) میرے خیال میں جناب حیدر قریشی کی ماہیے سے دلچسپی سرائیکی وسیب اور سرائیکی زبان کی وجہ سے ہے۔سرائیکی زبان ماہیوں سے بھری پڑی ہے۔
ککراں تے پھل ماہیا۔اساں پردیسی ہئیں ۔ساڈے پچھوں نہ رل ماہیا
(کیکروں پر پھول آگئے ہیں ۔دوست ہم تو پردیسی ہیں ہمارے پیچھے نہ آوارہ گھوم)
ہٹیاں تے کھنڈ ویٹی۔ہک تاں غریبی اے ۔ڈوجھا سجناں کنڈ کیتی
(دکانوں پر چینی بکھری پڑی ہے ۔ایک طرف تو غربت ہے دوسری طرف دوست نے بھی پیٹھ پھیر لی ہے)
درمیان میں اس وضاحت کے آجانے کی وجہ سے میں اپنے موضوع سے کسی قدر ہٹ گیاہوں۔
اس کتاب میں حیدر قرشی کے انشائیوں کے بارے میں بھی ایک مضمون ہے۔حیدر قریشی جیسا کہ میں اوپر عرض کر آیا ہوں ایک ہمہ جہت لکھاری ہیں انشائیہ بھی انہوں نے خوب لکھا ہے۔اس مضمون میں استاد صاحب نے صرف دو انشائیوں خاموشی اور نقاب کی روشنی میں ان کا جائزہ لیا ہے۔اور فن انشائیہ پر حیدر قریشی کی دسترس کو ان کے ان انشائیوں کے اقتباسات پیش کر کے ثابت کیا ہے کہ حیدر قریشی کتنا اچھاانشائیہ نگار ہے۔انہوں نے حیدر قریشی کے ان انشائیو ں سے فقرہ ہائے بذلہ سنجی بھی منتخب کئے ہیں ۔اور اس طرح حیدر قریشی کی ذہانت مزاح پر قدرت اور تجربے کی داد دی ہے۔نمونے کے طور پر : ’’خاموشی خیر کی علامت ہے جبکہ شور شر کا مظہر ہے۔‘‘
اور’’ نقاب معلوم اور نا معلوم کی جنت کے درمیان عالم برزخ ہے ۔اس طرح َ۔انسانی جسم بھی ایک نقاب ہے جسے روح نے اوڑھ رکھا ہے۔وغیرہ‘‘ اس مضمون کو عبد الرب استاد نے اس خوبی سے لکھا ہے کہ حیدر قریشی میں ایک اچھے انشائیہ نگار ہونے کی تمام خوبیاں ہمارے سامنے آجاتی ہیں۔
کرناٹک میں اردو غزل ۔پر اس کتاب میں ایک تفصیلی مضمون شامل ہے۔جس میں بہت سے غزل گو شعرا کے کلام کا جائزہ لیا گیا ہے۔اور ان کا مقام متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس مضمون کے ذریعے مجھے عبد الرب استاد کی وسعت علم اورموضوع پر گرفت کا احساس ہوتا ہے۔یہ مضمون قاری کو کرناٹک میں اردو غزل کی موجودہ صورت حال کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔اس کتاب میں تین ایسے مضمون بھی شامل ہیں جو تجزیاتی ہیں ۔ایک مضمون میں انتظار حسین کے زرد کتا کا تجزیہ کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ دیگر دو تجزیوں میں ایک حمید سہروردی کے افسانے کہانی در کہانی اور دوسرا ان کی نظم صفر کا تجزیہ شامل ہے ۔ متن کے مطالعے کے سلسلے میں آج نت نئے نظریات نے ہمارا گھیرا تنگ کر رکھا ہے۔اس لئے کسی بھی متن کا مطالعہ کئی حوالوں سے کیا جا سکتا ہے۔عبدالرب استاد نے ان تخلیقات کا مطا لعہ کسی خاص نظریے کے تحت نہیں کیا بلکہ اپنی تنقیدی رویوں کے تحت کیا ہے آپ ان تجزیوں سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر استاد صاحب کی کو شش بھر پور اور عمدہ ہے۔جس سے قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
ؑعبد الرب استاد کی اس تصنیف سے مجھے ان کے وسیع مطالعے ،تنقیدی صلاحیت اور اظہار بیان پر قدرت نے متاثر کیا ہے۔یہ کتاب اپنے حوالے سے ایک قابل قدر اور لائق مطالعہ کتاب ہے۔