تعارف:حیدر قریشی
سعادت(حمدو نعت) شاعر:خواجہ محمد عارف
صفحات232: قیمت: 200 روپے ناشر:تعبیر پبلی کیشنز۔سیکٹر B – 1۔میر پور
خواجہ محمد عارف میر پور کے رہنے والے ہیں اور اب انگلینڈ کے شہر برمنگھم میں آباد ہیں۔ان کا شعری مجموعہ ’سعادت‘ان کی حمدیہ،دعائیہ اور نعتیہ شاعری پر مبنی ہے۔مناقبِ صحابہؓ ،متفرق ملی نظمیں اور چند قطعات بھی مجموعہ میں شامل ہیں۔چونکہ ان سب کا پس منظر بھی مذہبی ہے اس لیے مجموعہ کا مجموعی تاثر قائم رہتا ہے۔پروفیسر نثار احمد فاروقی نے بجا طور پر لکھا ہے کہ عقیدت میں ڈوبی ہوئی شاعری میں فنی کمالات نہیں دیکھے جاتے،جذبے اور خلوص کو دیکھا جاتا ہے۔تاہم خواجہ محمد عارف کا یہ مجموعہ فنی لحاظ سے بھی مناسب ہے۔اس شاعری میں آج کے سیاسی اور سماجی مسائل بھی پس منظر سے صاف دکھائی دیتے ہیں،بلکہ دعائیہ شاعری کا محرک ہی یہی حالات ہیں۔اس لحاظ سے خواجہ محمد عارف کی دعائیں ان کے دل کی آواز ہیں۔حمد و نعت میں ادب کے مقامات اور تقاضوں کو پوری طرح ملحوظ رکھا گیا ہے۔ حمد و نعت سے خصوصی دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ’سعادت‘ایک عمدہ تحفہ ہے۔
صدائیں ساتھ رہتی ہیں (غزلیں) شاعر:ارشاد قمر
صفحات: 142 قیمت: 150روپے ناشر: بیلا پبلی کیشنز۔اسلام آباد
ہالینڈ میں مقیم ارشاد قمر کا شعری مجموعہ’صدائیں ساتھ رہتی ہیں‘ان کی شاعرانہ قدرو قیمت کے تعین میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اس مجموعہ میں ۵۹غزلیں شامل ہیں، مصنف کے اپنے ’’عرض ارشاد‘‘کے علاوہ ارشاد قمر کی شاعری کے حوالے سے گیارہ ادیبوں کے تاثرات اور سات ادیبوں کے مضامین شاملِ کتاب ہیں۔ ارشاد قمر کے بارے میں دو شعراء کی نظمیں بھی شامل ہیں۔اس طرح ان کی شاعری کے ساتھ ان کے فن اور شخصیت کے بارے میں بھی کافی مواد جمع ہو گیا ہے۔غزلوں کا عمومی انداز ٹھیک ہے تاہم کہیں کہیں(غالباََ)پروف ریڈنگ کی کوتاہی کی وجہ سے اشعار وزن سے باہر بھی ہو رہے ہیں۔صرف ایک مثال:
اک سفر تھا بے ارادہ جانے کیسے کٹ گیا کہ ہم تھے ایک بنجارے جو دربدر ہوتے رہے
توقع کی جانی چاہیے کہ اس مجموعہ کے اگلے ایڈیشن میں پروف ریڈنگ کی ایسی غلطیوں کو دور کر لیا جائے گا۔
ابنِ بطوطہ کے خطوط(سفر نامہ) تصنیف:ڈاکٹر ظہور احمد اعوان
صفحات:438 قیمت:625 روپے ناشر:الوقارپبلی کیشنز،۳۳۵۔کے ٹو،واپڈا ٹاؤن۔لاہور
ڈاکٹر ظہور احمد اعوان اردو کے ممتاز ادیب اور صحافی ہیں۔سفرا نامے،خاکے،رپورتاژ،کالم نگاری،اقبالیات و پاکستانیات،تنقید و تراجم،پشوریات پر ان کی مجموعی طور پر ۴۹کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔زیرِ نظر سفر نامہ ابنِ بطوطہ کے خطوط کے ساتھ ان کی کتابوں کی ہاف سنچری مکمل ہو رہی ہے۔اس میں صرف تین کتابیں ترجمہ سے متعلق ہیں جبکہ ساری کتابیں اوریجنل ورک کے ذیل میں آتی ہیں۔آج کے دور میں جب کسی اونچی دوکان والے نام کی ساٹھ کتابوں کی حقیقت کھلتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اوریجنل ورک کہلانے والی تو مشکل سے پانچ کتابیں نکلی ہیں۔باقی سب قینچی ورک کی مختلف اشکال ہیں۔کہیں ترتیب،کہیں تدوین،کہیں ترجمہ اور کہیں سرقہ۔ایسے ماحول میں ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کے دامن میں پچاس کے لگ بھگ اوریجنل ورک والی کتابوں کا ہونا بجائے خود ایک اعزاز ہے۔
ابنِ بطوطہ کے خطوط میں ہالینڈ،جرمنی،فرانس ،برطانیہ،امریکہ اور ترکی کے سفر کا احوال درج ہے۔ ۸جولائی ۲۰۰۷ء سے لے کر ۲۹اگست ۲۰۰۷ء تک کے عرصہ پر محیط اس سفر کی روداد کو ڈاکٹر ظہور احمد اعوان نے اپنے سابقہ سفر ناموں سے مختلف انداز میں لکھا ہے۔انہوں نے مختلف ملکوں کے شہروں سے اپنے مختلف عزیزوں اور دوستوں کو خطوط لکھے،جن میں اپنے سفر کی روداد ساتھ ساتھ بیان کرتے گئے۔یوں یہ سفر انہوں نے اکیلے نہیں کیا بلکہ ان کے وہ سارے عزیز و اقارب اور دوست احباب بھی ایک رنگ میں اس سفر میں ان کے ساتھ رہے جنہیں وہ ساتھ کے ساتھ اپنی روداد لکھ کر بھیج رہے تھے۔اس انداز تحریر نے اس سفر نامہ کو ایک انفرادیت بھی عطا کر دی ہے۔
اس سفر نامہ میں متعلقہ ممالک کے بارے میں اعداد و شمار والی معلومات سے زیادہ ڈاکٹر اعوان کے ذاتی تجربات،مشاہدات نے سفر کی روداد کو بے ھد دلچسپ بنا دیا ہے۔انہوں نے مغربی ممالک کے خوبصورت اور قابلِ تقلید رویوں کو بھی اجاگر کیا ہے اور ان معاشروں کے منفی اثرات کی بھی نشان دہی کی ہے۔یورپ کے مقابلہ میں انہیں امریکہ زیادہ اچھا لگا لیکن یورپ کی کوبیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ترکی کی روداد میں ان کے جذبات کا بہاؤ کئی بار ماضی اور حال میں مدغم ہوتا رہا۔جرمنی میں جن دنوں میں ڈاکٹر ظہور احمد اعوان تشریف لائے،اُن دنوں میں جرمنی میں گزشتہ بیس برسوں میں سب سے زیادہ گرمی پڑرہی تھی۔چنانچہ انہوں نے جرمنی کا نام گرمنی رکھ دیا اور اب جب میں یہ تبصرہ لکھ رہا ہوں،۷جنوری ۲۰۰۹ء کو جرمنی میں ہمارے علاقہ میں ٹمپریچر منفی سولہ ڈگری تک پہنچ چکا ہے۔انہوں نے چار دنوں کا تجربہ لکھ دیا ہم پندرہ برسوں کے تجربات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
مجموعی طور پر یہ سفر نامہ اپنے انوکھے انداز تحریر کے ساتھ اپنے دلچسپ،معلوماتی اور خوبصورت تجربات و مشاہدات کی بنا پرخصوصی اہمیت کا حامل ہو گیا ہے۔ مغربی ممالک کی سفرنامہ نگاری میں ’’ابنِ بطوطہ کے خطوط‘‘کوایک منفرد و اہم حیثیت حاصل رہے گی۔
گلِ موسمِ خزاں(صفحات :230،قیمت :150روپے)
تمہیں جانے کی جلدی تھی(صفحات:159،قیمت:100روپے)
شاعر:ایوب خاور ناشر:الحمد پبلی کیشنز۔چوک پرانی انارکلی۔لاہور
ایوب خاور تازہ کار اور خوش فکر شاعر ہیں۔ٹیلی ویژن کی دنیا کی مصروفیات نے ان کے اندر کے شاعر کے اظہار میں کچھ نہ کچھ رکاوٹیں تو ڈالیں لیکن وہ شاعر نہ زندہ رہا بلکہ اپنی آن بان اور شان کے ساتھ زندہ رہا۔اس شاعر کی زندگی کے ثبوت کے طور پر ان کے دو شعری مجموعے’’گلِ موسمِ خزاں‘‘اور ’’تمہیں جانے کی جلدی تھی‘‘ پیش کیے جا سکتے ہیں۔ایوب خاور بنیادی طور پر نظم کے نہایت شاندار شاعر ہیں لیکن ان کی غزل بھی اتنی کَسی ہوئی اور بھر پور ہوتی ہے کہ انہیں صرف نظم کا شاندار شاعر کہہ دینا ان کی غزل کے ساتھ نا انصافی ہوجاتا ہے۔ان کی نظم ’’ماں‘‘جدید ادب میں خانپور کے زمانہ میں شائع ہوئی تھی۔اس نظم کا ایک بڑا اقتباس میری والدہ کے خاکہ’’مائے نی میں کنوں آکھاں‘‘ کے اختتام میں اس طور سمایا ہے کہ اسے اس خاکے سے الگ کیا ہی نہیں جا سکتا۔شاید اس لیے بھی کہ ہم جیسوں کی مائیں ایک جیسی تھیں ۔میں ایوب خاور کی نظم کا ایسا خاموش قاری ہوں جو خود ہی اس سے لطف کشید کرتا رہتا ہوں۔’’گلِ موسمِ خزاں‘‘ کی نظم’’گھروں میں ایک گھر ایسا بھی تھا‘‘پڑھتے ہوئے مجھے لگا کہ اس میں سے چند سطریں غائب ہیں:’’زمانہ ایک بنئے کی طرح چالاک ہےہونی کو انہونی میں،انہونی کو ہونی میں کچھ ایسے ہی بدلتا ہےکہ جس کے دکھ میں آنکھوں کے بھرے ساون پیالے ٹوٹ جاتے ہیں‘‘۔۔۔ان سطور کے بعد نظم کا یہ حصہ غائب ہے:’’ہوا سوچوں میں گرہیں ڈال دے تو روح کے اندر اترنے والے ساتھی چھوٹ جاتے ہیں‘‘
میں ربع صدی پیشتر پڑھی ہوئی مذکورہ نظم کے بارے میں اپنی یادداشت کے بل پر یہ نشاندہی کر رہا ہوں،ایوب خاور کتاب کے نئے ایڈیشن میں نظم کو دوبارہ چیک کر لیں تو اچھا ہے۔
غزلوں میں سے کسی انتخاب کے بغیر چند اشعارپیش ہیں۔ ایوب خاور کایہ عمومی انداز بھی بہت خاص ہے۔
ہوا کو اپنے لیے بادبان میں نے کیا حدِ نظر سے پرے،آسمان میں نے کیا
تیری آنکھیں میری آنکھیں لگتی ہیں سوچ رہاہوں کون یہ تجھ سا مجھ میں ہے
وہ نیند اپنے بچپنے کی راہ میں اجڑ گئی اس آنکھ نے بھی معجزوں کے سو جہان کھو دئیی
تیرے بِنا جو عمر بِتائی بیت گئی اب اس عمر کا باقی حصہ تیرے نام
یاد رکھنے کے لیے اور نہ بھلانے کے لیے اب وہ ملتا ہے تو بس رسم نبھانے کے لیی
ھُسن اور عشق کے مابین ٹھنی ہے اب کے اس لڑائی میں کسی ایک کا سر جائے گا
تیسرے مجموعے کی اشاعت کے بعد ایوب خاور تینوں مجموعے ایک جلد میں لائیں تاکہ ان کی مجموعی شعری قدر و قیمت سامنے آسکے۔
اسطوری فکر و فلسفہ(اردوشاعری میں) تصنیف:ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط
صفحات182: قیمت: 220 روپے ناشر:اصول پبلی کیشنز۔مدنی گرافکس انامئے بلڈنگ،پونہ
ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط نے اس کتاب میں اردو شاعری میں بیان ہونے والے اسطوری فکر و فلسفہ کا کچھ احاطہ کرنے کی کاوش ہے۔اساطیر کے انتخاب میں انہوں نے ہندو،سکھ،بدھ،مسیحی،اسلامی اور یہودی مذاہب کی روایات سے استفادہ کیا ہے۔یوں ان کی کتاب فکر و فلسفہ کی بجائے مذہبی فکراور شاعری کی سطح پر رہتی ہے۔فلسفہ کا اس میں عمل دخل بہت کم ہوجاتا ہے۔قدیم مذہبی اساطیر کی بازیافت میں یحییٰ نشیط نے بڑی محنت سے کام کیا ہے اور کئی عمدہ اور خوبصورت روایات کو نہ صرف سامنے لائے ہیں بلکہ اردو شاعری میں ان کے ذکر کی نوعیت کو بھی عمدگی کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ہندو دیومالاتو ویسے بھی اپنے ایسے سرمائے کے لحاظ سے بے حد زرخیز ہے۔سکھ اور بدھ مت کی اساطیر بھی کافی دلچسپی کی حامل ہیں۔
مسیحی،یہودی اور اسلامی روایات کا اصل منبع(ابراہیمی) چونکہ ایک ہی ہے اس لیے یہاں بہت کچھ جانا پہچانا ہی ہے۔کہیں کہیں بعض تسامحات بھی راہ پا گئے ہیں۔مثلاََ یحییٰ نشیط نے ایک جگہ ’کوہِ طُور ‘کو عیسائیوں کے نزدیک مقدس پہاڑ قرار دیا ہے(ص ۹)۔جبکہ اسطوری سطح پر بھی اور کتبِ مقدسہ کے حوالے سے بھی کوہِ طُور یہودی،مسیحی اور اسلامی تینوں مذاہب کے لیے مقدس پہاڑ کے طَور پر مذکور ہے۔
یحییٰ نشیط نے فلسفے کی آزادہ روی کو اختیار کرنے کی بجائے مذہبی فکرکی پناہوں میں اپنا علمی سفر طے کیا ہے،اسی لیے وہ اساطیر میں مذہب ہی کی کارفرمائی دیکھتے ہیں۔افراد کے اجتماعی حافظے سے بات ماقبل تاریخ تک لے جائی جا سکتی ہے،تاہم مذہب الارواح میں بھی مذہبی احساس تو بہر حال کارفرما رہا تھا۔مجھے سمیری دیومالا کی ایک بلا ’’تیامت‘‘ یاد آرہی ہے۔یہ بلا جب نازل ہوتی ہے تو جہاں سے گزرتی ہے وہاں تباہی مچا دیتی ہے۔اپنی ہولناکی کے ساتھ وہ اپنا احترام بھی جبراَ کرواتی ہے۔ہمارے ہاں ’’قیامت‘‘کا جو عقیدہ ہے اس میں بھی مکمل تباہی کے ساتھ ’’قیامت‘‘پر ایمان(احترام)بھی لازمی ہے۔اب خدا جانے اجتماعی حافظے کے سفر کے دوران یہ محض تؔ اور قؔ کا فرق ہے ،یا سمیری دیومالا کے عقب میں بھی کہیں کوئی مذہبی عقیدہ موجود تھا۔مجھے اس طرح کی اور بھی بہت سی مثالیں یاد آئی ہیں لیکن ان کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔
بعض سیدھی سادی مذہبی روایات اور عقائد کے اردو شاعری میں ذکر کو بھی یحییٰ نشیط نے اسطوری رنگ میں پیش کیا ہے۔ جبکہ شاعری میں بھی سیدھے سبھاؤ ذکر والی مثالیں پیش کی ہیں۔چونکہ ان کے پیش نظر ایسا ہی تھا سو انہوں نے اس حوالے سے اچھی محنت کی ہے۔تاہم اس کتاب کے مطالعہ کے بعد احساس ہو رہا ہے کہ یحییٰ نشیط صاحب کو اللہ تعالیٰ ہمت اور توفیق دے تو وہ اساطیرکی تہذیبی و ثقافتی سطح تک رہتے ہوئے اور اردو شاعری میں(بلکہ اردو کی تخلیقی نثر میں بھی) علامتی اور استعاراتی رنگ میں مذکور اساطیر کو دریافت کریں۔ایک وسیع میدان اُن کا منتظر ہے!
شاخِ صنوبر(شاعری) شاعر:کرامت علی کرامتؔ
صفحات:256 قیمت: 200 روپے ناشر:کامران پبلی کیشنز۔دیوان بازار،کٹک۷۵۳۰۰۱۔اڑیسہ
کرامت علی کرامت کا پہلا شعری مجموعہ’’شعاعوں کی صلیب‘‘۱۹۷۲ء میں شائع ہوا تھا۔اس کے چونتیس برس بعد دوسرا شعری مجموعہ’’شاخِ صنوبر‘‘منظرِ عام پر آیا ہے۔اس مجموعہ کو’’ لفظ لفظ جستجو‘‘اور ’’خواب خواب لمحہ‘‘کے زیرِ عنوان دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔اول الذکر کے تحت نظمیں،رباعیات،قطعات،ہائیکو،کہہ مکرنیاں اور آزاد غزلیں شامل کی گئی ہیں جبکہ دوسرے حصہ میں غزلوں کو شامل کیا گیا ہے۔غزلوں کا حصہ مجموعہ کی بجائے دیوان کہلانے کا مستحق ہے کہ اس میں ردیف’ الف ‘تا ردیف’ی‘ تک طبع آزمائی کی گئی ہے۔ابتدا میں ایک دعائیہ ’’بارگاہِ الہٰی میں‘‘اورتین نعتیں شامل ہیں۔نظموں کے حصہ میں بعض نظموں میں علامہ اقبال کا انداز صاف جھکتا ہے ۔آزاد نظم میں ’’منظوم خط۔۔‘‘جیسی چند نظمیں اپنے اکہرے پن کے باعث کوئی اچھا تاثر نہیں قائم کرتیں تاہم مجموعی طور پرآزاد نظم میں وہ اپنی شناخت قائم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔کتاب کے آخر میں پہلے مجموعہ’’شعاعوں کی صلیب‘‘پر معاصرین کی آراء کو درج کیا گیا ہے۔ان آراء کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کرامت علی کرامت نے اپنے پہلے مجموعہ کی چند نظمیں ’’شاخِ صنوبر‘‘میں بھی شامل رکھی ہیں۔مثلاَ تناسخ، سرگزشتِ سفر،اور بے وزنی کا احساس ۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم کتاب کے شروع میں ’’ایک خط اپنے نادیدہ قاری کے نام‘‘میں اس کا ذکر کر دیا جاتا تو ریکارڈ کی درستی یا وضاحت ہو جاتی۔کرامت علی کرامت کی شاعری کے بارے میں عام طورپر ان کے معاصرین نے اچھی رائے دی ہے تاہم شمس الرحمن فارقی،چودھری محمد نعیم اور ڈاکٹر لطف الرحمن کے تاثرات میں خاصے تحفظات کا اظہار ملتا ہے۔
ردیف وار غزلیں کہنے کی مہارت کی ایک جھلک کے طور پر’’شاخِ صنوبر‘‘میں سے چند اشعار پیش ہیں۔
میری بولی بولتا تھا، ہم زباں اپنا نہ تھا مثلِ طوطا شعر پڑھتا تھا،بیاں اپنا نہ تھا
ناکام حسرتوں کا مقدر لئے پھرا یوں میں شکستِ خواب کا منظر لئے پھرا
مختارِ کُل ہے ،لکِ بصیرت کا، اے ادیب کیوں اپنے آپ کو تو سمجھنے لگا غریب
کیا مجھ کو دیکھو ہو جناب میں ہوں کھلی سی اک کتاب
باغوں میں شور و غُل ہے مگر عندلیب چپ کیا بات ہے کہ میرا شگفتہ نصیب چپ
پتہ کھڑک اُٹھا تو میں چونکا ہوں نیند سے جھونکا شکستِ خواب کا لاتی رہی ہے رات
یوں ہے مسموم فضا کیا باعث منظرِ کرب و بلا کیا باعث
پہنا ہے آسمان نے سورج کا جب سے تاج لینے لگا زمیں سے پہاڑوں کا وہ خراج
کرامت علی کرامت کی غزلوں کے ان چنداشعار ہی سے ا ن کی غزلگوئی کے بارے میں رائے قائم کی جا سکتی ہے!
ایک آواز(نثری نظمیں) مصنف:سلیم آغا قِزلباشؔ
صفحات:88 قیمت: 100 روپے ناشر:کاغذی پیرہن۔عظیم مینشن۔رایل پارک۔لاہور
میری ادبی زندگی کی دو اہم شخصیات ڈاکٹر وزیر آغا اور ڈاکٹر انورسدیدکی اگلی نسل کے حوالے سے مجھے دو انوکھے تجربے ہوئے۔انور سدید کے صاحبزادے مسعود انور سے جب ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھا تو پتہ چلا وہ ادب میں ترقی پسند تخلیق کاروں کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔وزیر آغا کے صاحبزادے سلیم آغا کی نثری نظم میں گہری دلچسپی کوبھی میں اسی تجربہ کے طور پر دیکھتا ہوں۔ اس سے دونوں بڑی شخصیات کے گھروں میں آزادیٔ اظہار کا مثبت رویہ دیکھا جا سکتا ہے۔ زیرِ نظر کتاب سلیم آغا قزلباش کی نثری نظموں کا تیسرا مجموعہ ہے۔اب لوگ باگ نثری نظم کے تخلیقی امکانات کی بات زیادہ کرتے ہیں۔ جب ڈاکٹر وزیر آغا شعری مواد اور شاعری کے فرق کو واضح کرکے، نثری نظم کے شعری مواد کا اعتراف کرکے اسے شاعری تسلیم نہیں کرتے تھے،میں تب بھی ان کے خیالات سے متفق تھا اور اب بھی اُسی بات کا قائل ہوں۔کتاب کے نام’’ایک آواز‘‘ پر مبنی ایک نثری نظم مجموعہ کے آخر میں شامل ہے۔اس میں والدہ کی وفات پر دلی جذبات کا اظہار کیا گیا ہے ۔لیکن مجھے یہ نثری نظم پڑھتے ہی وزیر آغا کی والدہ مرحومہ کی وفات پر لکھی ہوئی دونوں نظمیں شدت کے ساتھ یاد آئیں۔ان کے ساتھ ’’آدھی صدی کے بعد‘‘ کے وہ خوبصورت حصے یاد آئے جس میں ماں بیٹے کی یادوں کا خزانہ بھرا ہوا ہے۔
اس مجموعہ کا پیش لفظ ناصر عباس نیر نے لکھا ہے۔اس میں سلیم آغا کی نثری نظم ’’نیا شہر‘‘کاذکر کرتے ہوئے انہوں نے مابعد جدید کلچرکے حوالے سے اور ’’بُت شکن‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے عالمی مارکیٹ اکانومی کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے،وہ سب پڑھ کر بے حد خوشی ہوئی۔ان کی باتوں کا نچوڑ اس اعتراف میں آجاتا ہے:’’کرۂ ارض کی واحدعالمی طاقت نے اکیسویں صدی میں کمزور ملکوں پر ڈسکورس ہی کی بنیاد پر جنگیں مسلط کی ہیں:پہلے اُ ن ملکوں سے متعلق ڈسکورس تشکیل دیے،اُنہیں میڈیا کے ذریعے پھیلایااور باور کرایا،اور پھر ہر کھڑی عمارت اور ثابت و سالم شے کو اکھاڑ پچھاڑ دیا۔اس ڈسکورس میں کہیں نہ کہیں ،مذہبی عُنصُر ضرور شامل رہا‘‘(ایک آواز:ص ۱۱)
جدید ادب جرمنی کے شمارہ اول کے اداریہ کی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے شمارہ دو میں وزیر آغا،ناصر عباس نیر اور میرے درمیان ایک مکالمہ ہوا تھا۔مجھے ناصر عباس نیر کے مذکورہ نتائج اخذ کرنے میں اُسی مکالمہ کی توسیع دکھائی دی ہے،اسی لیے مجھے اس سے دلی خوشی ہوئی ہے اور پہلے سے زیادہ ان کی علم و ادب سے وابستگی کا معترف ہو گیا ہوں۔ نثری نظم اور آزاد نظم کی بحث میں اپنا واضح موقف رکھنے کے باعث نثری نظم کے تئیں میرے تحفظات بہت واضح ہیں،تاہم اس صنف کے امکانات کو آزمالینے میں کوئی حرج نہیں۔نثری نظم کے جو مجموعے ان امکانات پر گفتگو کی گنجائش پیدا کریں گے،ان میں ’’ایک آواز‘‘بھی شامل رہے گا۔ کیونکہ’’ایک آواز ‘‘کی نثری نظمیں اپنے شعری مواد کے لحاظ سے قابلِ توصیف ہیں۔