حسن عباس
(کامٹی،انڈیا)
پیغام مرے دل کا
بادِ صبا جا کر
تو اُن کو سنا دینا
تراروپ کنول جیسا
ہرانداز ترا
ہے میری غزل جیسا
ہر رنگ میں ڈھلنا ہے
شمع کی قسمت میں
ہر حال میں جلنا ہے
سچ بول زمانے میں
جیناچا ہے اگر
بے خوف زمانے میں
روکے سے نہیں رکتی
تلوار وں سے کبھی
سچائی نہیں مرتی
طیبہ میں حضوری ہو
خواہش یہ میری
کب دیکھئے پوری ہو
شرارتی ماہیے
چینی ہے نہ آٹا ہے
شادی رچانے میں
گھاٹا ہی گھاٹا ہے
پھر دل پہ راج کرو
پہلے گوری تم
مجھ کو سرتاج کرو
باتیں ہیں نہ قصہ ہے
جھوٹ سیاست کا
اک لازمی حصہ ہے
پلّو کو بھگوتے ہیں
پھیر کے گالوں پہ
منہ اپنا دھوتے ہیں
یہ رسمِ زمانہ ہے
کیوں نہ لُوں رشوت
گھر بھی تو چلانا ہے
کس بات کا رولا ہے
پاس مِرے سجنا
جب ’’کھوتا کرولا‘‘ ہے
امین بابر
(رحیم یارخاں)
معصوم ، بچارا دل
تھر تھر کانپا ہے
جب بجلی کا دیکھا بل
ایمان تو تازہ تھا
اس کے گالوں پر
جب تک نہ غازہ تھا
پٹنے کا ارادہ ہے
پیار میں عاشق کے
کچھ جوش زیادہ ہے
دامن جو پھاڑا ہے
قیس کو لیلیٰ نے
کس زور سے جھاڑا ہے
وہ گال گلابی ہیں
اس کے بھائیوں کے
حملے بھی عذابی ہیں
کب اس میں معافی ہے
گفٹ بنا بابرؔ
یہ عشق ناکافی ہے