طاہر عدیم(جرمنی)
ماحول سا طاری ہے
آج گیا ہے وہ
کل میری باری ہے
وہ شخص دعا سا ہے
صورت بھولی سی
اور نام بھلا سا ہے
ملنے سے قاصر ہیں
ہم دونوں اک ہی
کشتی کے مسافر ہیں
اک سانس کہ جاری ہے
غافل جو گذرے
وہ بے حد بھاری ہے
اک فرض نبھانا ہے
سب کو دنیا میں
آ کر چلے جانا ہے
بُت ریت کے لگتے ہیں
لوگ اپنا سینہ
جب تان کے چلتے ہیں
رہتے ہیں آپے میں
اور کریں بھی کیا
ہم لوگ بڑھاپے میں
سب پنچھی بھول گئے
لَوٹ نہیں آئے
کر گلشن دھول گئے
دکھ درد ہزاروں میں
دل دروازے پر
بیٹھے ہیں قطاروں میں
یہ دامن خالی ہے
بیٹھا صدیوں سے
چوکھٹ پہ سوالی ہے
تم اپنے گھر جاؤ
دل ویرانہ ہے
ایسا نہ ہو ڈر جاؤ
آنکھوں کو جگاتا ہوں
تیری یادوں کے
پودوں کو لگاتا ہوں
اک نام میں لیتا ہوں
پانی یادوں کو
اشکوں کا دیتا ہوں
دل آخر تاک ہوا
روز یہ مرنے کا
قصہ ہی پاک ہوا
یہ ہجر بچھونا ہے
اب تو قسمت میں
عمروں کا رونا ہے
میں پیار نبھاؤں گا
اس کے رستے میں
دل اپنا بچھاؤں گا
آنکھوں کو کھٹکتا ہے
لیکن دل بن کر
سینے میں دھڑکتا ہے
میری ہر کروٹ میں
کون ہوا زخمی
بستر کی سلوٹ میں