امین خیال(جاپان)
شاہوں کا اجارا ہے
طوق غلامی کا
کب ہم نے اتارا ہے
علت کے علائم کے
بند کرو سارے
اڈے یہ جرائم کے
دائم ٹھکراتے ہو
ووٹ کی خاطر تم
کیا خوب بناتے ہو
یہ ریل عوامی ہے
قوم کی قسمت میں
کب تک یہ غلامی ہے
گوروں کی،کالوں کی
دھونس رہی ہم پر
نت وردی والوں کی
کم ذات نہیں بدلے
چہرے بدلے ہیں
حالات نہیں بدلے
پل پل افتاد آئے
عید کے دن سارے
بچھڑے ہوئے یادآئے
خوشیوں کا سال آیا
عید جو آئی تو
ماہیے کا خیال آیا
دل کو ناشاد کیا
عید کے دن بھی تو
کب آپ نے یاد کیا
اس سے جا کر کہہ دو
عید کا دن آیا
تمہیں عید مبارک ہو
یہ کرم حضور کرو
عید مبارک ہی
میری منظور کرو
کوئی چیز نہیں بھاتی
آپ جو آجاتے
تو عید بھی ہو جاتی
مکھ عید کی شانوں کا
تکتا رہا اس کو
وہ چاند اسمانوں کا
احسان مزید کرو
مدت بیت گئی
گھر آ کے عید کرو
مت دن اب گن ڈھولا
عید مبارک ہے
ترے وصل کا دن ڈھولا
پھولوں کی کیاری ہے
سامنے تو ہے تو
اب عید ہماری ہے
اب ڈال نہ چھن ماہیا
مل لے آج گلے
ہے عید کا دن ماہیا
ہے تو بھی شئے ماہیا
لگ جا آج گلے
دن عید کا ہے ماہیا
کیوں خود سے الجھتا ہے
اللہ کی حکمت
کب کوئی سمجھتا ہے
لُوں لُوں میں رستا ہے
ہر اک سے مخفی
ہر اک میں بستا ہے
کس کس کے یہاں جاؤں
گھر ہے کہاں تیرا
میں تجھ کو کہاں پاؤں
کیا اس کا جادو ہے
آپ ہی پھول بنا
اور آپ ہی خوشبو ہے
اس کا تو جاپ ہی ہے
آپ ہی ذرہ ہے
اور مہر بھی آپ ہی ہے
پڑھ اللہ ہُو سائیں
لا، سے نہیں ہوں میں
ہے تُو ہی تُو سائیں
مفلس کا تُو والی
شکر ترا مولا
تو نے ہی بلا ٹالی
بے پر کو شہپر دے
دے دے عشق نبیؐ
اک یہ احساں کر دے
پُر نور سویرا ہے
ذکرِ محمدؐ سے
منہ میٹھا میرا ہے
والفجر سا مکھڑا ہے
جہل سیاہی میں
وہ نُور کا ٹکڑا ہے
حصہ ایمان کا ہے
مکھ اُس دلبرؐ کا
صفحہ قرآن سا ہے
سُن میری صدا شاہا
کون سنے دل کی
اب تیرے سوا شاہا!
امید جگاتا ہے
دل میں جو رہتا ہے
ڈھارس وہ بندھاتا ہے
جُز فرقت سہتا ہے
کُل سے ملنے کو
بے چین سا رہتا ہے
کایا کی چھایا ہے
میں تجھ میں ہوں تو
تو مجھ میں سمایا ہے
تنہا کس قابل ہوں
مجھ میں شامل تو
میں تجھ میں شامل ہوں
کس پار سے آتے ہیں
دنیا میں انساں
کس پار کو جاتے ہیں
جو پیار کہانی ہے
زندہ رہے گی وہ
باقی سب فانی ہے