سید تحسین گیلانی
تاریخِ انسانی میں جِھڑکیوں کا آغاز یقیناانسان کی ابتداء سے ہی ہوگیا۔مگرمیں ان کی ترقی کے ضمن میں اتناہی کہوں گا کہ ایک یہی کام ہے جو تمام عمر اِنہوں نے کیایعنی اِن میں میں ترقی کرنے کابے حد جنوں رہاہے……ہاں یہ بات اور ہے کہ ان کی ترقی نے انسانی زندگی پہ ہمیشہ دوطرح کے اثرات مرتب کئے!یعنی دوواضح تبدیلیاں ہمیشہ ـ”جِھڑکیوں “کی بدولت انسان کے اندر رونما ہوئیں اور ان کی تبدیلیوں کی وجہ سے انسان نے خود کومٹایا بھی ……اور …… بنایا بھی ……مٹالینے کی بھی دو معنوی حیثیتیں ہیں اور وہ دونوں حیثیتیں خود ایک دوسرے کی مخالف ہیں یعنی “جذب “کرلینا اور “جذب نہ کرپانا “…………جی ہاں یہ دوحالتیں ہی اہم ہیں ……یعنی جذب کرلینے والابھی خود کو”مٹا “لیتاہے اور جو جذب نہ کرپائے وہ بھی خود کو مٹاہی لیتاہے۔
جِھڑکیاں ذاتی طور پر بُری نہیں ہیں ہاں ان کی وجہ سے دوشخصیتوں کی پہچان میں کافی حد تک مدد ملتی ہے ۔ دیکھئے جِھڑکیاں ہمیشہ طرفین اورجانبین کے درمیان کسی فعل کی وجہ سے وقوع پذیرہوتی ہے……جی ہاں اگرکوئی تیسرا ذی شعور وہاں موجود ہوتو وہ تمام حالات وواقعات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دونوں میں سے اصل قصور وارکااندازہ اپنے تائیں لگاسکتاہے……!اب بات ہوہی رہی ہے تومیں بھی کچھ فلسفہ جھاڑتا ہوں ۔ اس بارے مَیں تو یہی کہوں گاکہ جِھڑکیاں دینے والا چاہے جس قدر بھی معزز ،معتبر اوروضع دار شہری ہو جب و ہ اِ س نازیبا فعل کا مرتب ہوتاہے تو اُس کی شخصیت کے بہت سے خفیہ پرت اپنے آپ کُھل کرسامنے آجاتے ہیں ۔ مثلاًہمیں پتہ چلتاہے کہ یہ شخص جو ڈانٹ پلارہاہے اس میں برادشت کامادہ نہ ہونے کے برابر ہے یا یہ کہیں کہ اُس فرد کی اِ س خامی کو کل لوگ بطور ہتھیار بھی استعمال کرسکتے ہیں ۔مثلاًجان بوجھ کر اس کا نقصان کرنا اور اس کی جِھڑکیوں کی طویل فہرست سننا اور پھر اچھاخاصہ تماشالگاکر معذرت خواہانہ روّیہ اختیار کرلینا ……اور پھر باربار اس کی زندگی میں اس ہتھیار کو استعمال کرکے اُس کی اِس کمزوری سے فائدہ اٹھانا ۔ ہاں کچھ جِھڑکیاں برمحل بھی ہوتی ہیں ۔ مثلاً……والدین کی اولاد کیلئے “جِھڑکیاں “……اساتذہ کی طلبہ کیلئے”جِھڑکیاں “……لیکن باتپھر وہی کہ دوقسم کی صورتیں ہمیشہ جِھڑکیوں کی وجہ سے سامنے آئی ہیں۔
مثلاًمیرا دوست “الف “بہت فطین ہے ۔میں اُس کی قابلیت کاقائل ہوں اور میں نے اس کی لائقی اور تیزی کو بارہا پرکھا اوروہ ہرامتحان میں کامیاب رہا……میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ کیوں BScنہ کرسکا۔جبکہ اس میں کوئی کمی بھی نہ تھی……اُس نے بتایا کہ جِھڑکیوں نے کِس طرح اس کی زندگی کوایک بہترین رستے سے ہٹادیا۔جبکہ اب بھی وہ دوماسٹر ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد بطورٹیچراپنے فرائض نبھارہا ہے……مگر ان جِھڑکیوں نے اسے بہت آگے جانے والے راستے سے ہٹا کررکھ دیا ……اس نے بتایا ہمارے ایک لیکچر ارتھے وہ مجھے کلاس میں کھڑاکرلیتے اورمیری جسمانی ساخت میری کم گوئی اورمیری شرافت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مجھے تقریباًڈانٹنے کے اندازمیں کہتے (اوے توں کدی وی BScنہیں کرسکدا اے بڑا اوکھا کم آ،اے تیرے وس وچ نئیں)”بھئی تم کبھی بھی BScنہیں کرسکتے یہ بڑا مشکل کام ہے اور یہ یہ تمہارے بس کا نہیں “کیونکہ وہ عمر ایسی ہوتی ہے کہ کوئی سوچ بھی اپنی نہیں ہوتی اورنہ ہی اندر پختگی ہوتی ہے ہرچیز حالات کے مطابق اثرکرتی ہے کیونکہ میں اپنی محنت سے اور اپنے خرچے پرہی پڑھائی کاسلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے اس لئے میں ڈر گیا اور ڈپریشن کاشکار ہوکر گھر بیٹھ گیا……اوراِن جِھڑکیوں نے میری زندگی میں طوفان برپا کردیا یہ میرے ارادوں کواُکھاڑ کراپنے ساتھ لے گئیں لہٰذا میں BScنہ کرسکا……یہ تو ایک واقع ہے ……مگر نہ جانے کتنے واقعات روزانہ ہمارے اِردگردرونماہوتے ہیں جوشاید اس سے بھی بڑھ کر ہوں ……لیکن نہیں ……اصل یہ نہیں ہے اس کے آگے بھی کچھ ہے ……اب آپ کہیں گے وہ کیا؟……تووہ یہ کہ گذشتہ روزمجھے ایک ایسے نوجوان سے ملنے کا اتفاق ہوا جس کامدّعا تقریباً میرے دوست “الف”سے ملتا جلتا تھا مگر اس کے نتائج حیران کن طورپرالٹ تھے۔ میرے اس دوست نے اپنی زندگی کا سفر بڑی کامیابی سے طے کیا اور طے کرتاجارہاہے ……بس حیران کن بات یہ تھی کہ جب میں نے اس سے پوچھا کہ تمہاری زندگی میں اس قدر کامیابیاں کیسے آئیں اور ان سب کی بڑی وجہ کیاہے تو وہ پہلے توہنساپھرکہنے لگا ……جِھڑکیاں ……میں بہت حیران ہوا اورمیں نے ایک ہی سانس میں اس سے کئی سوال کر ڈالے ……یہ کیسے ہوسکتاہے ؟……جِھڑکیاں کسی کوایسے کامیابی دلاسکتی ہیں ؟ یہ کیسے ممکن ہے ؟تووہ بولا……بھئی ……یہ ہوبھی سکتاہے……”جِھڑکیاں “کامیابیاں دلابھی سکتی ہیں…… یہ ممکن بھی ہے ؟ توسنو وہ ایسے کہ جب بھی مجھے کوئی “جِھڑکیاں “دیتایاڈانٹتاتومیرے …… اورتومیرے اندر بیٹھی ہوئی کوئی طاقت مجھے پہلے سے بھی زیادہ کام کرنے اور دوبارہ ایسی صورتِ حال سے بچنے کی ترغیب دیتی۔یعنی میرے اندرایک مادہ چھلا وہ بن جاتا اور میں انسان سے مشین بن جاتامیرے اندر ماورائی طاقتیں جنم لیتیں اور مجھے کام کام اور زیادہ کام پر مجبور کرتیں اورمیں اڑتا چلاجاتا……آگے ہی آگے ……آج ان جِھڑکیاں کاہی ثمر ہے کہ میں آج ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کامیاب زندگی گزار رہاہوں چونکہ میں خاندانی طورپر آسود ہ حال تھا اس لئے میری زندگی پہلے سے زیادہ کامیاب ہوگی ……لیکن میراذاتی مشاہدہ ہے کہ “جِھڑکیاں “زیادہ تر سننے والے کیلئے بمباری ثابت ہوتی ہیں اوردوسرا یعنی سننے والا خودکوکمتر سمجھتے ہوئے خودمیں سمٹنا شروع ہوجاتاہے اورآخر کاروہ اپنے ہی نیچے ایک دن دَب کر مرجاتا ہے چونکہ مشرق میں یہ روایت عام ہے ……اسلئے میں جِھڑکیوں کو کسی بھی پھلتی پھولتی قوم کی راہ کاسب سے بڑاپتھر تصّور کرتاہوں………… آپ مشاہدہ کریں تو آپ کو پتہ چلے کہ کتنے لوگ آسود حال ہیں!!!
لیکن بہت سوچنے اورمشاہدہ کرنے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ یہ دوسری قسم کی صورتِ حال بہت کم کم وقوع پذیر ہوتی ہے جبکہ پہلی قسم کے لوگ زیادہ ہیں اوریہی وجہ ہے جِھڑکیوں کی وجہ سے کئی افراد اندرونی طور پرتہس نہس ہونے کے ساتھ ساتھ ظاہری طورپربھی عدم تحفظ کاشکارہوگئے مگریہ سوال اپنی جگہ پہ قائم ہے کہ ان سب حالات کا سبب بنیادی طور”جِھڑکیاں “خالصتاًصرف “جِھڑکیاں “ہی ہیں یااصل اسکے پچھے خود انسان کھڑاہے اوریہ روےّہ برے روےّوں میں سب سے اونچے درجے پرفائز ہوگیاہے روےّے کسی بھی تہذیب کابنیادی حصہ ہوتے ہیں ان کا ہوناافراد کیلئے ان کی پہچان کاباعث ہوتاہے مگر اِن کا اچھا بُراہونااُن افراد کیلئے باعثِ عزت اور باعثِ ذلت دونوں کا مؤجب بھی ہوسکتاہے ہم سب چونکہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں اورسب اپنی ہی کھودی ہوئی قبروں کے دہانے پرکھڑے ہیں اس لئے ہمارے روےّے بھی بدتہذیبی کاشکار ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ مرچ کے پودے سے انگورکی توقع کی جائے۔”جِھڑکیاں “اصل میں تشدّدکی پہلی سیڑھی ہیں۔لیکن اصلاًیہ تشدد سے بھی کچھ بڑھ کرہیں۔کیونکہ ظلم کی انتہا تشد دہے اُ س سے آگے تو کچھ نہیں لیکن “جِھڑکیاں “عملاًدوسرے آدمی کیلئے ذہنی انتشار کا باعث ہوتیں ہیں ______جب سکون ہی برباد ہوگیا تو کیا بچا!یقیناسکون دنیاکی سب سے بہترین شے ہے جس کے پاس یہ دولت ہے وہ دنیا کا سُکھی ترین انسان ہے اور”جِھڑکیاں “کسی بھی انسان کو اِس فہرست سے خارج کرنے کا آسان ترین ذریعہ ہیں۔
جو قومیں اس طرح کی انتشاری ذہنی کیفیت میں تادیر مبتلا رہیں اور جن کیلئے یہ معمول کی بات ہو وہ پہلے تو کسی کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں اوراگروہ سامنے آبھی جائیں تو اُن میں اعتماد کی اتنی کمی ہوتی ہیں کہ وہ خود کو گِرتا گِرتا محسوس کرتے ہیں اور اُن کے اندر کی فضا میں خوف کاعنصر اِ س قدر نمایاں اور اِس قدر تیزی کے ساتھ شامل ہوجاتاہے کہ وہ شخصیت ادھوری اور اکہری رہ جاتی ہے___ہمارے ہاں عموماًبچوں کی بچپن سے ہی “جِھڑکیوں “کاسامنا کرناپڑتاہے ___یہ کرو___یہ نہ کرو___ادھر مت جاؤ ___یہ مت کھاؤ___یہ کیوں توڑا___ایساکیوں ہوا___وغیرہ جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہوتا___وہ بچے کو مکمل تحفظ اور اعتماد سے بھرپور زندگی گزارنے کا موقع دیتے ہیں جس کی بدولت وہ آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اورجارہے ہیں ۔ مگر ہم میں ایسے کتنے ہیں جو “جِھڑکیوں “کے مقابل خودکوکھڑا کرنے کے متحمل ہوسکتے ہیں___؟یہ ایک سوال ہے جومیرا اور آپ کامشترکہ ہے ؟
میں نے کیاکہا اپنی جگہ !اصل بات تویہ ہے کہ آپ کیاکہتے ہیں ؟