ستیہ پال آنند(کینیڈا)
۰(اس مونتاژ کے لیے مواد شوکت صدیقی کے ساتھ تین انٹرویو (جو راقم الحروف کی ادارت میں چھپنے والے ماہنامہ ’’راہی‘‘ دہلی میں 1955-56 ء میں شامل اشاعت ہوئے،) شوکت کے راقم الحروف کے نام 195 2- 196 7ء کے ذاتی خطوط اور دیگر احباب کی ان کے بارے میں تحریروں سے اکٹھا کیا گیا۔ستیہ پال آنند)
ہندوستان
1928ء۔۔۔منظر۔چار ساڑھے چار برس کا لڑکا۔ اودھی ا ورہند اسلامی تہذیب کے گہوارے لکھنؤ میں موسم گرما کی ایک صبح ، اپنے بڑے بھائی کی انگلی پکڑے ہوئے ، اسکی رفتار کے ساتھ اپنے قدم ملاتا ہوا چل رہا ہے۔ لٹھے کا پائجامہ اور کرتا، پاؤں میں چپل، ہاتھ میں ایک پُچی ہوئی تختی اور اردو کا قاعدہ۔ اس کی منزل مدرسۂ فرقانیہ ہے، جو گھر سے کچھ دوری پر ہے۔ مقصد حصول تعلیم کا ہے، ناظرہ اور قرآن پاک کے چند سپارے حفظ کرنے کا ہے۔
1928 ء۔۔۔ منظر۔ یہی لڑکا، کھلتا ہوا رنگ، چپل کی جگہ باٹا کے ربڑ کے بوٹ، ویسا ہی کُرتا، بے داغ دھُلا ہوا، اور پائجامہ․․․اپنے بڑے بھائی حامد حسین صدّیقی کے ساتھ۔ آج وہ یحیحیٰ گنج ورنیکولر اسکول میں داخلے کے لیے گامزن ہے۔ چہرے پر بشاشت ہے۔ آنے والے دنوں کی خوش بختی کے واضح نشان ہیں۔
1930 ء۔ ۔۔منظر۔ اسکول کا جلسۂ تقسیم انعامات۔ اس کا نام لے کر پکارا جاتا ہے۔ وہ اپنی جماعت یعنی درجۂ سوئم میں اوّل آیا ہے۔ اسٹیج پر آنے کے بعد اسے ایک چھوٹا سا مٹھائی کا ڈبّہ اور ایک سند دی جاتی ہے۔ اب یہ لڑکا خوشی خوشی گھر کی جانب رواں ہے۔ اب اسے گورنمنٹ ورنیکولر اسکول میں داخلے کے لیے زیادہ تردّد نہیں کرنا پڑے گا۔ وہ جانتا ہے کہ اس کے ربڑ کے بوٹ گھس چکے ہیں۔ تلووں میں کہیں کہیں سوراخ بھی ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ گورنمنٹ ورنیکولر جوبلی اسکوؒ ل گھر سے کچھ زیادہ دوری پر ہے۔ چلنا بھی دور تک پڑے گا۔ ربڑ کے بوٹوں کے گھس جانے اور چھوٹا ہو جانے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے بڑے بھائی صاحب کے گھر کی مالی حالت ٹھیک نہیں ہے۔
1934 ء۔۔۔ منظر۔ ساتویں درجے تک کی تعلیم کے لیے اندھیرا پڑ جانے پر گھر میں مٹی کا لالٹین جلا کر پڑھنا ایک مشکل امر ہے کیونکہ گھر میں ایک ہی لالٹین ہے اور اگر دوسرا ہو بھی تو۔۔؟ وہی لالٹین اٹھائے اٹھائے ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک جانا پڑتا ہے۔Moving Montage – Flashes Back and Forth ۰۰
1934-1938– نویں درجے تک جوں توں کر کے تعلیم۔ کوئی ریکارڈ نہیں ملتا کہ کسی مضمون میں اوّل آیا ہو، یا کھیلوں میں کوئی انعام یاتمغہ حاصل کیا ہو۔ کوئی تحریر کردہ حوالہ نہیں کہ کتابوں، کاپیوں، سلیٹوں، پنسلوں کی خرید کے لیے پیسہ کہاں سے آیا ․․․یا نہیں آیا!
۰تیرہ برس کی عمر میں ہی محکمہ ڈاک اور تار میں’’پورٹر بوائے‘‘، کے طور پر جز وقتی ملازمت۔ یعنی ڈاک سے بھرے ہوئے تھیلے اٹھا کر ٹھیلوں پر لادنے کا کام۔ کُل آمدنی۔ دس سے بارہ روپے ماہانہ تک۔ لیکن گھرکی خستہ حالت کے حوالے سے یہ بھی بے حد کارآمد!
ایک عجیب و غریب منظر۔ ماسٹر جگت نارائن سکسینہ کا دو کمروں کا مکان۔ دالان میں تین لڑکے فرش پر بیٹھے ہیں، ان میں سے ایک شوکت ہے ،ماسٹر صاحب خود موڑھے پر براجمان ہیں۔ شعر و شاعری ہو رہی ہے! جی ہاں، شعر و شاعری ہو رہی ہے!! سبھی اپنی اپنی ’’نگارشات‘‘ پڑھ کر سنا رہے ہیں۔ شوکت، جی ہاں، تیرہ برس کا شوکت، اپنا ایک مصرع پڑھتا ہے۔ ’’اس نے کہا، میں نے سنا، اک پل میں باتیں ہو گئیں!‘‘ دوسرا مصرع پڑھنے سے پہلے ماسٹر جگت نارائن سکسینہ کے چہرے کی طرف دیکھتا ہے۔ وہاں حیرت اور انبساط کا ایک رنگ آتا ہے، ایک رنگ جاتا ہے۔ تب شوکت دوسرا مصرع پڑھتا ہے۔ ’’پھر وصل کے دن چل دیے، ہجر کی راتیں ہو گئیں!‘‘ ماسٹر صاحب کے چہرے پر خفگی تو نہیں، البتہ مایوسی کے آثار نظر آتے ہیں۔ ’’ برخوردار، دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے۔ اسے درست کرو اور اگلی نشست میں پھر سناؤ!‘‘۔۔۔ماسٹر جگت نارائن سکسینہ کی صحبت میں اردو ادب کی کلاسیکی اور نیم کلاسیکی روایت سے تعارف۔شوکت (مرحوم) راقم الحروف کے نام اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں۔ (۱۲جنواری ۱۹۵۵ء)’’مرنجاں مرنج آدمی تھے لیکن غالب سے بھی زیادو میر تقی میرؔ کے رسیا تھے۔ ایک بار، نہ معلوم کہاں سے دو چار روپے ادھار مانگ کر ایک اچھی گلوکارہ کے کوٹھے پر گئے جسے ایک رقعے کے ساتھ میر تقی میرؔ کی ایک غزل بھجوا چکے تھے۔ اس نے دیگر شائقین کی موجودگی میں غزل گا کر سنائی۔ آواز کا جادو چلا تو سب نے داد دی، لیکن ماسٹر صاحب چپکے بیٹھے رہے اور پھر چپکے سے ہی سیڑھیاں اتر کر واپس آ گئے۔ دوسرے دن پیغام بھجوایا، ’’بائی صاحبہ، اپنا تلفّظ صحیح کر لیں ۔ میرؔ اگر آپ کی آواز میں اپنی غزل سنتا توبے چارے کی روح تڑپ جاتی!‘‘
1928ء تا 1938ء۔۔۔دس یا گیارہ برس ایک حساس لڑکے کو زندگی کا تلخ سبق سکھانے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ فاقے کی نوبت تو شاید نہ آتی ہو لیکن اگر شوکت صدیقی کی کچھ کہانیوں میں سوانحی عنصر تلاش کیا جائے تو صرف دو کرتے اور دو پائجامے ہونے اور صرف ایک جوڑا ربڑ کے سلیپر نما بوٹ ہونے کا سراغ ملتا ہے۔بھائی کے گھر میں اپنے اور بھائی کے بچوں کے کپڑے دھونے اور گھر کے کام کاج میں بڑی بھابھی کا ہاتھ بٹانے کی کچھ سُو بُو ملتی ہے۔ جیب خرچ کے بالکل نہ ہونے اور آدھی چھٹی کے وقت جب دیگر لڑکے خوانچہ فروشوں کے گرد جمگھٹ لگا کر چٹپٹی چیزیں خرید رہے ہوتے تھے تو ان سے دور کھڑے ہو کر گلی میں آتے جاتے لوگوں کو دیکھ کر گُم صُم رہنے کی خبر ملتی ہے۔
1928ء سے 1938ء تک کچھ جز وقتی نوکریاں، پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے انٹر میڈیٹ کے امتحان میں کامیابی۔ کرسچین کالج میں داخلہ ۔ بی اے میں ناکامی۔ حالات نہایت نا موافق۔ 1944ء میں بی اے پاس کرنے کی دوسری کوشش میں بھی نا کامی!
۰سرسوتی دیوی کیسے ایک نوجوان پر مہربان ہوتی ہے، اس کا ذکر تو آگے آئے گا۔ پہلے یہ دیکھ لیں کہ دولت کی دیوی لکشمی اور علم و فن کی دیوی سرسوتی میں خدا واسطے کا بیر ہے۔ جب آپ سرسوتی کے عابد بنتے ہیں، تو عمر بھر کی معاشی تگ و دو کا بیع نامہ لکھ کر اپنے دستخط ثبت کر دیتے ہیں اور پھر آپ اس تصدیق شدہ حلف نامے سے وا پس دولت اور جاہ حشم کی دیوی لکشمی کی طرف مراجعت نہیں کر سکتے۔
۰تو صاحبو، ہمارے شوکت صدیقی اٹھارہ برس کی عمر میں ہی ادب سے ایسے وابستہ ہوئے کہ ادب ہی اوڑھنا اور بچھونا ہو کر رہ گیا۔ترقی پسند تحریک زوروں پر تھی۔ اس کم عمری میں ہی پہلے بھوپال اور پھر لکھنؤ واپس آنے کے بعد اس وقت کے معروف ترین اہل قلم میں اٹھنے بیٹھنے لگے۔لیکن ادبی سفر کی ابتد۱۲۰ برس کی عمر میں، یعنی ۱۹۴۳ء میں ہوئی جب مظہر رضوی کے اشتراک سے ادبی ماہنامے ’’ترکش‘‘ کا اجراء کیا۔ نہ معلون کن صعوبتوں سے گذر کر دو برسوں میں ’’ترکش‘‘ نے آٹھ دس شمارے شائع کیے۔ خریدار تو وایسے ہی مفتود تھے۔ ادبی رسالوں اور وہ بھی اردو ادبی رسالوں میں کمرشل اشتہاروں کا رواج ہی نہیں تھا۔ لے دے کے ہمدرد دوا خانے والے ایک صفحے کا اشتہار دے دیتے تھے۔
لکھنؤ عجیب شہر تھا۔ جیسے کہ مجاز نے کہا ہے، شہر دانشوراں، شہر نگاراں، شہر خوباں! اسی لیے تو اس البیلے شاعر نے لکنؤ کے اپنے مختصر قیام کے دوران، اس شکایت پر کہ حسینان لکھنؤ اپنے مقامی عاشقوں کو چھوڑ کر ان کی طرف کھنچے چلے آ رہے ہیں، کہا تھا: کچھ روز کا مسافر و مہماں ہوں، اور کیا
کیوں بد گماں ہیں یوسف کنعان لکھنؤ؟
لکھنؤ عجیب شہر تھا۔ پنڈت کشن پرشاد کول تھے۔ نواب جعفر علی خان اثرؔ تھے۔ پروفیسر احتشام حسین تھے۔ ڈاکٹر عبدالعلیم تھے اور نیازؔ فتحپوری تھے جن کے قلم کی روانی اور شعلہ بیانی کے سامنے کوئی نہیں ٹکتا تھا۔
ان کے ساتھ مستقل اٹھنے بیٹھنے کی عادت نے جہان طبیعت کو صیقل کیا، وہاں کچھ کرنے اور کر دکھانے کی ہمّت بھی دی۔ اس وقت کے سرگرم ادبی احاطے انڈیا کافی ہاؤس اور دانش محل تھے۔ صبح جانا اور شام کو لوٹنا۔ کبھی کوئی ’فین‘ (یار لوگ آپسی بات چیت میں اسے ’کبوتر‘ کہتے تھے!) آ جاتا تو کافی کے آرڈر کے علاوہ بھی کچھ منگوا لیا جاتا، جیسے کہ ایک دوسا یا ایک پلیٹ بڑا۔اگر کوئی نہ آتا تو ایک فرلانگ کی دوری پر نانبائی کی دکان تھی جہاں مستقل اُدھار چلتا تھا، وہاں سے نان اور سالن!
تب دو رسالوں کے ساتھ اور انسلاک ہوا۔ خلیق ابراہیم کے ساتھ ایک رسالے کی ادارت میں شامل ہوئے (نام بھول گیا ہوں!) اور حیرتؔ گورکھ پوری کی زیر ادارت دو ماہی رسالے ’’جدید ادب‘‘ میں ڈیڑھ برس ملازمت کی۔ تنخواہ سے زیادو ایڈوانس لے لینا داستور تھا۔
کانپور پھر لوٹے۔ نواب گنج ہائی اسکول میں تاریخ پڑھانے کی عارضی اسامی ملی۔ تبھی یہ خیال آیا کہ تعلیم مکمل کرنا ضروری ہے۔ چار برس لگے، لیکن۱۹۴۸ء میں با لآخر ایم اے کر ہی لیا۔
ادبی کارکردگی کی تاریخ بھی ایسی ہی خلط ملط ہے، جیسے کہ زندگی۔ شاعری سے آغاز کیا لیکن چل نہیں پائے۔ ایک استاد شاعر خواجہ عبدالرُؤف عشرتؔ سے اصلاح سخن لی، لیکن با لآخر ترک سخن اور نثر کی طرف مراجعت۔ لگ بھگ پچاس ساٹھ کے قریب سماجی، رومانی، عشقیہ افسانے لکھے جو ہفتہ وار ’’پیام‘‘ لاہور اور اسی ادارے کے دیگررسالوں میں چھپے۔ ’’شاعر‘‘ آگرہ میں اور دوماہی ‘‘نیا دور‘‘ میں بھی لکھا
راقم الحروف کو ایک خط (بتاریخ سات اکتوبر 1957ء )میں لکھتے ہیں۔ ’’آپ کہتے ہیں کہ بیس برس کی عمر سے لے کر اب تک ، یعنی ستائیس برس کی عمر تک آپ نے نان و نمک کے لیے نام بدل بدل کر بیس تیس جاسوسی ناول لکھے ہیں، ساٹھ سے اوپر افسانے لکھے ہیں اور دو نہایت سنجیدہ ناول لکھے ہیں اور یہ کہ آپ دس دس گھنٹے روز لکھتے ہیں․․․بھئی، آپ کو سلام! میں تو اتنا کام نہیں کر سکتا! درست ہے آپ کو اپنے علاوہ بیوہ ماں اور دو چھوٹے بہن بھائیوں کا پیٹ بھی تو پالنا ہے!)
انجمن ترقی پسند مصنفین کے ساتھ بطور سکہ بند ممبر وابستگی آخر رنگ لائی۔ گرفتاریاں ہوئیں تو یہ بھی دھرلئے گئے۔ دو ماہ کی جیل ہوئی۔ مشروط رہائی ہوئی کہ اب وہ اس تنظیم سے کوئی واسطہ نہیں رکھیں گے۔ خیال آیا ، خیال کیا آیا، سرحد پار کے دوست بار بار پییغام بھیجتے تھے کہ کراچی اردو والوں کے لیے ایک جنّت نشان شہر ہے۔ ’’ آ جاؤ، یہاں تمہارے لیے وہ سب کچھ ہے، جس کے لیے تم مارے مارے پھر رہے ہو۔‘‘
آخر پرمٹ کے ذریعے اپریل ۱۹۵۰ء میں پاکستان کو روانگی۔ پہلے لاہو ر پہنچے۔ کچھ ماہ یہاں قیام کیا۔ مدتّوں بعد ایک خط میں مجھے لکھا، ’’لاہور میرے لیے بنا ہی نہیں تھا، نہ ہی میں لاہور کے لیے بنا تھا۔‘‘ اور پھرسرگوشی کے سے لہجے میں ایک بریکٹ ڈال کر لکھتے ہیں۔ (قاسمی صاحب کے گھر پہنچنے پر ہاجرہ مسرور اور خدیجہ مستور نے بھی شاید یہی محسوس کیا ہو!) لاہور والے ’’غیر لاہوریوں‘‘ کو کب خاطر میں لاتے ہیں؟
ہندوستان سے پاکستان اور پاکستان سے ہندوستان
ایک بار میں نے شوکت کو کچھ اس قسم کا خط لکھا، ’’آپ مجھ سے آٹھ برس بڑے ہیں، لیکن مجھے لگتا ہے کو قدرت نے ہمیں جڑواں بھائیبنایا ہے۔ جن صبر آزما حالات سے آپ ۶۲برس کی عمر میں پاکستان جا کر نبرد آزما ہوئے، سترہ برس کی عمر میں پاکستان سے ہندوستان آ کر میں نے خود کو ایسے ہی حالات سے دو چار پایا۔ فرق صرف یہ ہے کہ میرا بچپن ایک sheltered childhoodتھا۔ گھر میں کسی چیز کی کمی نہیں تھی، لیکن تقسیم وطن کے وقت جبری نقل مکانی، ہندوستان کو روانگی ،ا ور راستے میں ٹرین پر بلوائیوں کے ہاتھوں اڑتالیس برس کی عمر میں باپ کا قتل اور بڑا بیٹا ہونے کے ناتے سے بیوہ ماں اور دو چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داری نے مجھے وقت سے پہلے ہی جوانی اور جوانی سے بھی آگے،ادھیڑ عمر کی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے۔۔۔کیا آپ نہیں سمجھتے کہ آپ مجھ سے زیادہ خوش قسمت رہے ہیں؟‘‘ جواب ایک مصرعے کی شکل میں تھا۔ ’’دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر!‘‘ ۔۔۔۔تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ ادب اگر ایک شوقیہ مشغلہ ہو ، تو یقینناً ادیب کے بھلے کی بات ہے، لیکن اگر آپ اس کو ذریعہ معاش بنا کر اس سے دال روٹی کا بندوبست کرنا چاہیں، تو بارہ بارہ گھنٹے روزانہ قلم گھسانے کے باوجود آپ چپڑی ہوئی روٹی نہیں کھا سکتے۔
شوکت یقینناً مجھ سے کم بد قسمت تھے، لیکن کراچی میں ان کے شروع کے برس بے حد تکلیف دہ تھے۔ رہنے کے لیے مکان نہیں تھا۔ کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا۔ اس پر طرّہ یہ کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے سرگرم کارکن کے طور پر حکومت وقت کی نظر میں کھٹکتے تھے۔ تب پچاس روپے تک ایک افسانے کا معاوضہ مل جاتا تھا، لیکن کچھ رسائل سے ہی، اور وہ بھی بار بار کے تقاضے کے بعد۔ اسی پر گذر اوقات تھی۔ 1952ء میں ایک مجموعہ ’’تیسرا آدمی‘‘ چھپا۔ سر فہرست وہی کہانی تھی جو پہلے احمد راہیؔ کی ادارت میں چھپنے والے مجّلے ’’سویرا‘‘ میں شائع ہوئی تھی اور اہل نقد ہ نظر سے خراج تحسین حاصل کر چکی تھی۔
کچھ حالات نے کروٹ لی یا کیا ہوا کہ اگست 1952ء میں شادی کے بعد اپنے خسر ڈاکٹر سعید خان کی کمال مہربانی سے تین کمروں کا ایک مکان بطور ہدیہ مل گیا اور ایک غیر ملکی فرم میں ملازمت بھی۔ لیکن طبیعت کلرکی کی طرف مائل نہیں تھی۔ اس لیے ملازمت چھوڑ دی۔ اب یکے بعد دیگرے اردو اور انگریزی روزناموں اور ہفتہ وار رسالوں سے وابستگی، علیحدگی،اور دوبارہ وابستگی کا ایک طویل سلسہ چل نکلا۔ ایڈیٹر او ر نیوز ایڈیٹر کے طور پر ’’پاکستان اسٹینڈرڈ‘‘، ’’ٹائیمز آف کراچی‘‘، ’’مارننگ نیوز‘‘، دوبارہ ٹائیمز آف کراچی سے بطور قائم مقام ایڈیٹر انسلاک، پھر ’’انجام‘‘ کراچی کے میگزین ایڈیٹر،1969ء میں ہفت روزہ ’’الفتح‘‘ کے نگران۔ 1972میں روزانہ ’’مساوات‘‘ کے پہلے ایڈیٹر۔ ’’مساوات‘‘ پیپلز پارٹی کا اخبار تھا، لیکن شوکت صاحیب نے کالم نگاری تک ہی اپنی سرگرمیاں محدود رکھیں۔ 1984ء کے لگ بھگ صحافت سے کنارہ کشی۔
تو صاحبو، جس شخص کے بارے میں ایک بار کسی نے کہا تھا کو وہ سوتے ہوئے بھی ایک قلم سرہانے ، ایک قلم ٹیبل لیمپ کے ساتھ اور ایک کان میں اٹکا کر رکھتا ہے، اس کے لیے کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ اپنے گونا گوں صحافتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ تخلیقی کام بھی جاری رکھتا؟
کسب کمال کی جادو گری
ان برسوں میں افسانوں کے چار مجموعے چھپے۔ ’’تیسرا آدمی‘‘ 1952ء، ’’اندھیرا اور اندھیرا ‘‘ 1955ء، ’’راتوں کا شہر‘‘ 1956ء اور ’’کیمیا گر‘‘ 1984ء ۔
ناول ’’خدا کی بستی‘‘ 1958ء میں شائع ہوا۔ ۔۔اس کی بھی ایک داستان ہے، جو صرف میرے حوالے سے ہے۔ ان دنوں پاکستانی کتابوں کےpirated editionہندوستان میں اور ہندوستانی اردو کتابوں کے پاکستان میں عموماً چھپتے رہتے تھے اور کوئی کسی کو رائلٹی تو کجا، ایک جلدکتاب کی بھی نہیں بھیجتا تھا۔ میں ان دنوں تنگ دستی کی وجہ سے اردو افسانوں اورناولوں کے ہندی میں ترجمے کیا کرتا تھا، جو اشاعتی اداروں ’’ساہیتہ سنگم‘‘ اور ’’ساہیتہ پرکاشن‘‘ مالی واڑہ، نئی سڑک، دہلی سے چھپتے تھے۔ جب ’’خدا کی بستی‘‘ کاایک مسروقہ اردو ایڈیشن دہلی سے چھپا تو مجھے پنڈت یگیہ دت شرما، مالک ساہیتہ پرکاشن نے پیشکش کی کہ میں ایک ہزار روپے کے عوض اس کا ہندی میں انوواد کر دوں۔ میں نے دن رات محنت کر کے ایک ماہ میں کام مکمل کر دیا اور خدا کی بستی کا ہندی ایڈیشن اسی عنوان سے چھپ گیا۔ تب شوکت’ٹائمز آف کراچی‘ سے منسلک تھے میں نے انہیں وہا ں اطلاع د ی اور مطبوعہ کتاب کی ایک جلد بھی بھیج دی۔ایک دن مجھے کراچی سے ایک لفافہ موصول ہوا، جس میں ساہتیہ پرکاشن کی طرف سے شوکت صدیقی کے نام ایک ہزار روپے کا چیک تھا جو یگیہ دت شرما نے انہیں رائلٹی کے طور پر بھیجا تھا، ساتھ یہ شوکت صاحب کا مختصر رقعہ تھا کہ یہ چیک وہ وہاں کیش نہیں کروا سکتے اورمیں اس رقم کو پبلشر سے لے کر اپنے کام میں لاؤں۔ پنڈت جی سے بات کرنے کے بعد انہوں نے بمشکل تمام مجھے سات سو روپے دیے۔ میں یہ رقم شوکت صاحب کو نہ بھیج سکا اور بات وہیں ختم ہو گئی․․․․یہ ایک دوسری کہانی ہے کہ 2000ء میں جب میں کچھ دنوں کے لیے کراچی پہنچا توجمیل الدین عالی صاحب نے کلب میں میرے لیے ایک پارٹی دی۔ شوکت وہاں موجود تھے اور بیتابی سے میرے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ (میں ڈاکٹر فہیم اعظمی ،مدیر ’’صریر‘‘ کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا اور وہی مجھے لے کر گئے تھے) ۔ باتوں باتوں میں میری ہندی میں لکھنے کی بات ہوئی اور میں نے شوکت صاحب کو یاد دلایا کہ میں ان کا سات سو روپوں کا مقروض ہوں۔ کیا میں یہاں آپ کو وہ روپے پیش کر دوں؟ ہم لوگ اس پر بہت ہنسے اور تب میں نے ساری کہانی دوستوں کے گوش گذار کی۔
تین دیگر ناول جو شائع ہوئے ان میں ’’کمین گاہ‘‘ کی پہلی اشاعت ساٹھ کی دہائی میں ہوئی لیکن مکمل ناول 1984ء میں چھپا۔ ’’جانگلوس‘‘ جو قسط وار ’’سب رس‘‘ میں چھپتا رہا، بارہ برسوں میں مکمل ہوا۔ ایک اور نا مکمل ناول ’’چار دیواری‘‘ کی تکمیل 1990ء ہوئی۔ تنقید نگاروں کے مطابق یہ ان کی ایک کمزور تخلیق ہے۔ فکشن کے ایک ناقد نے تو یہاں تک لکھا: ’’شوکت صدیقی میں تخلیقی نمو اب ختم ہو چکی ہے۔‘‘ اگر تخلیقی نمو سے اس محترم نقاد کا مطلب creative urgeہے، تو یہ بات غلط ہے، کیونکہ شوکت صدیقی نے اس ناول کے بعد بھی ، اور اس کے زیر قلم ہونے کے وقفے میں بھی، اور بہت کچھ لکھا اور اس میں ’’تخلیقی نمو‘‘ کی کمی نہیں ہے!
’’حقیقت نگار‘‘؟ نہیں، ’’سچ نگار‘‘!
چلو میاں آنند، میں خود سے کہتا ہوں، آؤ دیکھیں کہ قلم کے اس دھنی کو اس کی کون سی خصوصیات اس کے ہم عصروں سے ممتاز بناتی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ساٹھ برسوں کے اس تخلیقی سفر میں اس کے پاؤں پڑاؤ پر پڑاؤ طے کرتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتے رہے ہیں۔ کچھ لوگ چپوؤں کو کھلا چھوڑ دیتے ہیں کہ اب محنت کی ضرورت نہیں ہے۔ کچھ لوگ آخری سانس تک فعال رہتے ہیں۔
پہلی بات جو شوکت صدیقی کے بارے میں وثوق سے کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اس نے حقیقت نگاری کا دامن کبھی ترک نہیں کیا۔ زندگی؟ ہاں زندگی! لیکن وہ زندگی جو کہ ہے، یعنی وہ زندگی جو لمحۂ موجود میں لوگ جی رہے ہیں، نہ کہ وہ زندگی جو اشتراکیت کے حامی ترقی پسند تحریک کے دیگر اہل قلم کے موقف کی بنیاد پر ’ ہونی چاہیے، لیکن نہیں ہے۔‘ اس معاملے میں وہ کرشن چندر سے اتنا ہی دور ہے جتنا ایک افق دوسرے افق سے ہوتا ہے، کوئی idealismنہیں ہے، نثر میں شاعری کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہے۔ کرداروں کی بُنت، واقعات کا تسلسل، زبان و بیان ، یعنی اسلوب ۔۔ تینوں سطحوں پر شوکت صدیقی اپنے دھیمے لہجے میں واقعات بیان کرتا ہوا ، یا کرداروں کے منہ سے ان کا لیکھا جوکھا کہلواتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ کہیں تندی،تلخی نہیں،کہیں ترشی نہیں۔ سیدھا سادہ، لیکن سپاٹ ہو جانے سے بچتا ہوا، نرم آنچ کی طرح کا لہجہ ہے، کرشن چندر کی رومانیت نہیں، خواجہ احمد عباس کی ڈرامہ سازی نہیں۔ آس پاس، بلکہ آس پڑوس کی زندگی کی تلخیاں، نا مرادیاں، بے حوصلگیاں،۔۔سب رفتہ رفتہ، دھیمے لہجے میں بیانیے کی سرحد کو چھوتی ہیں۔ شعوری یا لاشعوری رو کی طرح سطح کو چیر کر نیچے نہیں اترتیں۔ قاری کو ایک غواص کی طرع معنی کے موتی تلا ش کرنے میں غوطہ خوری نہیں کرنی پڑتی۔رمزیت اور علامت نگاری پر انحصار نہیں ہے، لیکن مصنف کو اپنی بات اس شدت اور تاثر سے کہنے کا ڈھنگ آتا ہے، کہ اس میں غم و غصہ نہیں ہے، رومان کی چاشنی نہیں ہے، ڈرامائی اتار چڑھاؤ کی بناوٹ نہیں ہے ۔
تو صاحبو، یہ طرز تحریر آرائش و زیبائش کا دشمن ہے اور ہمیشہ یہی خدشہ لا حق رہتا ہے کہ بیانیہ سپاٹ اور عامیانہ نہ ہو جائے۔ لیکن شوکت صدیقی ایک منجھا ہوا کہانی کار ہے اور زر نگاری سے پرہیز کے باوجود وہ کہانی کو سپاٹ نہیں ہونے دیتا۔ کہانی کا اسٹرکچر مضبوط رہتا ہے۔ کردار زندہ اشخاص کی طرح ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ ماحول وہی جیتا جاگتا، دائیں بائیں، دیکھا بھالا ہوا ہے، جو ہم روز مرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں۔
رومانیت کی اس کمی کو محسوس بھی کیا گیا۔ْقرۃ العین حیدر کے ’’آگ کا دریا‘‘، اور ’’میرے بھی صنم خانے‘‘ چھپنے کے بعد یہ خیال کیا جانے لگا تھا، کہ اب اردو میں اشاریت، علامت نگاری، فلسفیانہ بحث و مباحثے کے بغیر کوئی ناول بڑا نہیں کہلائے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ’’خدا کی بستی‘‘ کے لا تعداد ایڈیشن چھپے۔ ’’تیسرا آدمی‘‘ کو اردو کی دس بہترین کہانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ’’خدا کی بستی‘‘ کو PTVنے دو بار فلمایا اور نشر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ جس شام اس کی قسط ٹیلے کاسٹ کی جاتی تھی، لوگ گھروں میں ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھ جاتے تھے۔ مجھے تو علم نہیں کہ ’’جانگلوس‘‘ اور PTVکے مابین کیا جھگڑا ہوا لیکن اسے شروع کر کے چند اقساط کے بعد ہی بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ شاید کچھ لوگوں کے چہرے بے نقاب ہو جانے کا ڈر تھا!
شوکت صدیقی کے فن کی سب سے بڑی خوبی اس کا سچ ہے۔ حقیقت نگاری ایک مہمل اصطلاح ہے کیونکہ پریم چند کے بعد ترقی پسندوں نے اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ کیا ’سچ نگاری‘ ایک اصطلاح کے طور پر نہیں برتی جا سکتی؟ یعنی اگر ناسخؔ کی روح کو تکلیف نہ ہو، تو ایک ہندوستانی اور ایک فارسی لفظ کواکٹھا کر دیا جائے۔ ’’سچ‘‘ جمع ’’نگاری‘‘۔ وللہ کیا خوبصورت اصطلاح ہے! اور ہم اس اصطلاح سے شوکت صدیقی کے فن کو اپنے مٹھی میں لے کر کہہ سکتے ہیں، کہ یہ ’’سچ نگاری ‘‘ہے اور اس طرح ہم شوکت صدیقی کو بجائے حقیقت نگار کہنے کے ’’سچ نگار‘‘ کہہ سکتے ہیں!
(شوکت صدیقی کو ہدیۂ عقیدت پیش کرنے کے لیے ۱۸فروری ۲۰۰۷ء کو آرٹس سینٹر، (مسی ساگا، کینیڈا) میں کی گئی ایک تقریر)