صاؔدق باجوہ(میری لینڈ۔امریکہ)
برادرم پروفیسر ناصر احمدکی ہمہ تن انسان دوست شخصیت کے بارے میں ، ان کی عادات و اطوار اور اوصاف و خصائل پر کافی کچھ لکھا جا چکا ہے اور جب تک ان سے استفادہ کرنے والے شاگرد اور احباب زندہ ہیں شاید مزید لکھا جاتا رہے۔حال ہی میں معروف کالم نگار جناب ڈاکٹر ظہور احمد اعوان نے میری کتاب “میزانِ شناسائی” پر تبصرہ کے دوران ناصر صاحب مرحوم کا ذکرِ خیر بہت عمدہ الفاظ میں کیا ہے۔جو ایک شاگرد اور شریکِ کار کے قریبی اور دیرینہ تعلقاتِ محبت و عقیدت اور قربت کے اظہار کا آئینہ دار ہے۔ڈاکٹر اعوان صاحب نے ان کے اوصاف ، انسانی رشتوں اور عادات و اطوار پر مؤثر اور دلکش انداز میں روشی ڈال کر آنے والی نسلوں کو واشگاف الفاظ میں بتا دیا کہ اپنی ذات کو مٹا کر محض انسانیت کے تعلق کو نبھانے والے انسان مرا نہیں کرتے۔ ڈاکٹر اعوا ن صاحب کا مضمون “اچھے انسان مرا نہیں کرتے” کے عنوان سے روزنامہ’ آواز‘ پشاورکے اگست ۲۰۰۸ ء کے پہلے ہفتہ میں “دل پشوری ” کالم کے تحت شائع ہوا ہے۔قبل ازیں ڈاکٹر صاحب موصوف نے ۱۹۹۳ ء میں جبکہ ناصر صاحب ابھی حیات تھے انہیں’ حاتم طائی‘ کے لقب سے نوازتے ہوئے ایک مفصل مضمون بعنوان “حاتم طائی خدائی خدمتگار ۔ پروفیسر ناصر احمد” سپرد قلم کیا تھا جو اس وقت روزنامہ مشرق پشاور میں ۱۳اکتوبر ۱۹۹۳ ء کے پرچہ میں شائع ہوا تھا۔ اسی طرح عزیزم حیدر قریشی مدیر “جدید ادب ” جرمنی نے اپنے بعض خاکوں اور یادوں کے ابواب میں اور انٹرویوز میں ناصر صاحب کی زندگی کے مختلف واقعات کا ذکر کیا ہے۔میں ان واقعات کو دہرانے کی بجائے کچھ ایسے واقعات و مشاہدات کا ذکر کروں گا جو ان کے بھائی ہونے کے ناطے ساتھ رہتے ہوئے نظر سے گزرے اور بہت سے احباب کے علم میں نہیں ۔ ہمارے والد بزرگوارمیاں سراج الدین سے مشورہ کے بعد بھائی جان ناصر میٹرک کے بعد مجھے اپنے پاس پشاور لے گئے تاکہ میں ان کی نگرانی میں تعلیم حاصل کرسکوں ۔ چنانچہ میں نے ایف ایس سی سے ایم ایس سی تک کا عرصہ ان کے ساتھ گزارا۔
بچپن سے انہیں مترنّم، متأثّر اور خوبصورت آواز میں نظمیں پڑھتے دیکھتے آئے تھے۔غالباً ہم ساتویں جماعت میں تھے جب ہمیں بھی شاعری کا شوق ہوا۔ایک دن ہم نے پُر امید انداز سے بھائی جان سے درخواست کی کہ وہ ہمیں کوئی نظم لکھ کر دیں۔تھوڑی دیر میں انہوں نے ایک نظم ہمارے ہاتھ میں تھمادی۔جس کی ردیف ’جی چاہتا ہے‘ تھی۔یہ نظم پا کرہماری خوشی کی انتہا نہ تھی۔ہر ایک کو یوں سناتے پھر رہے تھے جیسے ہم نے خود کہی ہو۔ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد ایک دن اسکول کے ایک خالی پیڑ ید میں کچھ ہم جماعت ایک استاد کے بارے میں الٹے سیدھے شعر پڑھ رہے تھے۔جانے کیا سوجھی کہ ہم نے ایک نظم لکھ کر لانے کا وعدہ کرلیا۔دوسرے دن ہم کلاس میں ایک نظم سنا رہے تھے جو بھائی جان کی لکھی ہوئی نظم کے ہم قافیہ تھی۔ سب دوست بہت خوش تھے اور ہمار ی نظم شوق سے پڑھ رہے تھے ۔ ایک لڑکے نے شرارتاً وہ نظم اس استاد کی خدمت میں پیش کردی جس کے بارے میں نظم لکھی گئی تھی۔ہم بہت پریشان ہوئے کیوں اس کا رد عمل کسی بھی قسم کی سزا کی صورت میں ظاہر ہو سکتا تھا۔لیکن حیرت ہوئی کہ انہوں نے ہمیں کچھ نہ کہا۔شام کو والد صاحب کی ڈانٹ اور استاد کی عزت و تکریم پر لیکچر سن کر علم ہوا کہ شکایت اور تنبیہ کے رنگ میں نظم والد صاحب تک پہنچ چکی تھی۔ یہاں پس منظر کے طور پر ایک اور واقعے کا ذکر بے جا نہ ہوگا۔ہمارے اسی استاد نے ایک ضعیف العمرشخص کے بارے میں(جسے لوگ چڑانے کے لئے بابا بھنڈی کہتے تھے ) ایک مزاحیہ نظم لکھی۔ ستم ظریفی یہ کہ انہوں نے نہ صرف وہ نظم عام لوگوں کے سامنے پڑھی بلکہ اس بزرگ کو بھی سنا دی۔ہمیں بہت برا لگا۔ہمارے اندر ہمدردیٔ انسان کا خوابیدہ جذبہ، جو قدرت نے ابتدا ہی سے ودیعت کر رکھا تھا، جاگ پڑا اور ایک حد تک ہماری پہلی نظم اسی کا رد عمل تھا۔بعد میں یہی جذبہ ایک اہم جزو بن کر زندگی بھر کارفرما رہا اور ہماری شاعری پر اس کی گہری چھاپ رہی ہے ۔
والد صاحب نے ڈانٹنے کے بعد اپنی اس حیرت کو دباتے ہوئے کہ ان کا بیٹا شاعر بن رہا ہے مجھ سے پوچھا کہ آخر تم نے کیا سوچ کر یہ نظم لکھی ہے۔میں نے صفائی پیش کرتے ہوئے جب اپنے استاد والی نظم کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگے کہ تمہیں کیا پڑی تھی کہ نظم لکھتے پھرو۔ وہ بابا تمہارا لگتا کیا ہے ۔تم بہر حال استادوں کی عزت کیا کرو۔ہم یہ تو نہ کہہ سکے کہ آخر وہ بھی تو انسان ہے جس کے جذبات مجروح کئے گئے۔ غالباً وہ بھی سمجھ چکے تھے کہ میری نظم اپنے استاد کے خلاف نہیں بلکہ جذبۂ ہمد ردی کے تحت لکھی گئی ہے۔ اور شاید اسی وجہ سے ان کا لہجہ نرم ہو چکا تھا ۔
میں نے اپنے شعری مجموعے “میزانِ شناسائی ” کو ناصر صاحب کے نام منسوب کیا ہے۔ نیزحرفِ اول میں لکھا ہے:۔ شعرو شاعری سے ہماری توجہ، دلچسپی اور ذوق و شوق کا باعث ہمارے بڑے بھائی پروفیسر احمد کا وجود تھا۔ انہیں بلا مبالغہ ہزاروں اشعار از بر تھے۔ وہ اکثر گھریلو ماحول میں اور احباب و اقربا کی فرمائش پر اتنے انہماک اور وجدانی کیفیت سے دوچار ہوتے ہوئے ا شعار سناتے یوں لگتا کہ وہ خود شعر کہہ رہے ہیں جن کی آمد ایک تسلسل سے ہو رہی ہے۔سننے والے ان کے اس انداز سے بہت محظوظ ہوتے۔وہ شاعر تو نہ تھے لیکن شعراء کو سننا اور پڑھنا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا ۔اچھے شعر پر دل کھول کرداد دیتے ” (میزانِ شناسائی صفحہ 7 (
ہماری یہ تحریر سوائے اظہارِ حقیقت کے کچھ نہیں۔
اگرچہ ہم نے اسکول کے زمانے سے شعر کہنے شروع کردئے تھے اور اساتذہ اور بہت سے دیگر شعرا کے اشعار ہمیں بھی یاد تھے اور موقع محل دیکھ کر شعر چسپاں کر دیتے تھے لیکن بھائی جان ناصر کی یادداشت کو ہم نے ہمیشہ تعجب کی نظرسے دیکھا ہے۔کہ کس طرح لمبی لمبی نظمیں انہیں ازبر تھیں جو وہ ماحول و سامعین کو دیکھ کر ان کے مزاج کے مطابق سنایا کرتے تھے۔حمدیں، نعتیں، منقبتیں، غزلیں ،ماہئے اور مزاحیہ نظمیں خوب یاد تھیں ۔الغرض شاعری کی تمام اقسام سے ناقابلِ بیان حد تک شناسائی تھی۔کہیں غالب، ذوق،آتش ، مومن اور اقبال کے اشعار ہیں تو کہیں ہمعصر شعرا کا کلام سنایا جا رہا ہے۔کبھی ظریف جبلپوری کی مزاح نگاری سے محفل کو زعفران زار بنا رہے ہیں تو کبھی مجید لاہوری کے نمکدان سے ٹوٹکے سنائے جا رہے ہیں۔جس محفل میں بیٹھ جاتے اسی کے ہو جاتے اور لوگ مدتوں یاد رکھتے۔ دو تین سال قبل نیو یارک سے آنے والے ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ باتوں باتوں میں جب انہیں علم ہوا کہ میں ناصر صاحب کا بھائی ہوں تو انہوں نے بہت پرانی باتیں سنانی شروع کردیں کہ کس طرح ایک محفل میں ملاقات کے بعد وہ ناصر صاحب کے مداح بن گئے تھے۔ اور ابتک انہیں اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں ۔
شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے علاوہ بھی گھریلو ماحول میں چھوٹے بڑے تمام عزیز و اقارب اس انتظار میں ہوتے کہ کب آئیں اور محفل گرم ہو۔ان کے کام کی نوعیت اور گونا گوں مصروفیت دیکھ کر اندازہ نہ ہوتا کہ میلانِ طبع اس حد تک شاعری کی تمام اصناف سے نہ صرف مانوس ہے بلکہ مؤثر بیان پربھی خوب دستر س ہے۔راقم الحروف سے بھی فرمائش کرکے غزلیں سنا کرتے اور اچھے اشعار پر داد دیتے۔
ناصر صا حب کی اردو شعر وشاعری اور ادب کے گہرے مطالعے کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان و ادب پر بھی خوب دسترس تھی۔ انگریزی کے استاد تھے۔بہت سی کتب کے بے شمار اقتباسات ہر وقت یا د ہوتے ۔ان کے پڑھانے کا طریق بھی منفرد ہوتا ۔اس انداز سے مضمون میں ڈوب کر پڑھاتے کہ طلباء کو یاد رہتا۔اوراکثرانہیں عزت و تکریم سے یاد کرتے ۔تعلیم کے بعد بھی دوستی کا تعلق نہ صرف برقرار رکھتے بلکہ ان کے شاگرد ہونے پر فخرمحسوس کرتے۔
ہر ملنے والا اور عزیز خوب جانتا تھا کہ ناصر صاحب کے ذہن و دماغ میں انکار نام کی کوئی شے سرے سے موجود ہی نہیں۔جس نے مانگا، جب مانگا، جو مانگا مہیا ہو جاتا۔مانگنے والا شاید سوچتا بھی نہ تھا کہ اس شخص کی محدود آمدنی ہے گھریلو اخراجات بھی ہیں اس نے کہاں سے دیا ہے،کہاں سے آئے گا اور کیسے پورا کرے گا۔دریا دلی تھی کہ بحرِ ناپیدا کنار کی طرح موجزن تھی۔بہت سے شاطر لوگ اس کمزوری سے ناجائز فوائد بھی حاصل کرتے رہے۔ مثلاً ضرورت بتا کر قرض مانگا اور واپس نہ کیا۔بھائی جان ناصر ایسی باتوں کا کسی سے ذکر نہ کرتے لیکن ساتھ رہتے ہوئے بعض دفعہ مجھے بھی علم ہو جاتا۔بہت پرانی بات ہے کہ ایک صاحب لاہور سے کسی کام کے سلسلے میں پشاور آئے اور کچھ دن ہمارے ہاں قیام کیا۔جاتے ہوئے یکصد روپیہ قرض اس وعدہ پر لیا کہ لاہور جاتے ہی منی آرڈر کردیں گے۔لیکن منی آرڈر نہ آنا تھا نہ آیا۔حالانکہ یہ صاحب بہت اچھے عہدے پر فائز تھے۔کچھ دنوں بعد بھائی جان ناصر لاہور جانے لگے تو میں نے یاد دلایا کہ ان صاحب سے قرض واپس لینا نہ بھولئے۔واپسی پرجب میں نے پوچھا کہ کیا وہ آدمی آپ کو ملا تھا تو ہنستے ہوئے کہنے لگا ہاں ملا تھا اور کہتا بھی تھا کہ میں نے آپ کا قرض دینا ہے لیکن دیا نہیں۔ بعد میں بھی وہ صاحب متعدد بار ملے لیکن قرض واپس نہ کیا۔ اسی طرح ان کا ایک شاگرد گاؤں سے کسی کام سے پشاور آیا اور ہمارے ہاں ٹھہرا۔ ہماری بھابی نے نیا بستر بچھایا ۔ جاتے ہوئے وہ ایک چادر اٹھا کر ساتھ لے گیا۔جب بھابی صاحبہ نے شکایت کی تو جواب ملا ۔کوئی بات نہیں وہ زیادہ ضرورتمند ہو گا۔ فکر نہ کرو اﷲ اور چادر دے دے گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر ناصر احمد کا حافظہ
ان کی بیٹی کی ڈائری سے ایک نثری اقتباس
’’ایک بار ابونے خواجہ حسن نظامی کی ایک تحریر جو اُنہیں زبانی یاد تھی، بتائی،میں نے اسی وقت نوٹ کر لی۔بہت دلچسپ تھی،وہ لکھے دیتی ہوں۔آپ تو ابو کے ادبی ذوق کو مجھ سے کہیں زیادہ سمجھتے ہیں مگر میں جب اسے اپنی ڈائری سے پڑھتی ہوں ،یہ سوچ کر مزہ لیتی ہوں کہ انہیں کیسے کیسے منفرد نثری اقتباس بھی زبانی یاد تھے۔خواجہ حسن نظامی کی تحریر کا اقتباس یہ ہے:
آپ کون؟
ناچیز تنکا
اسم شریف؟
دیا سلائی کہتے ہیں۔
دولت خانہ؟
نہ دولت،نہ خانہ،اصلی گھر جنگل میں تھا مگر چند روز سے احمد آباد میں بستی بسائی ہے اور سچ پوچھئے تو یہ ننھا سا کاغذی ہوٹل جو آپ کی انگلیوں میں دبا ہوا ہے،میرا موجودہ ٹھکانہ ہے۔
کیا احمد آباد،ناروے یا سویڈن میں ہے؟کیونکہ آپ لوگوں کی بستیاں انہی علاقوں میں سنی جاتی ہیں۔
نہیں جناب!احمدآباد ہندوستان میں ہے،آپ دیکھتے نہیں میرا رنگ سانولا ہے۔یہ اس ملک کی نشانی ہے۔
ناروے اور سویڈن کی دیا سلائی گوری چٹی ہوتی ہے۔مجھ غریب کو اس سے کیا نسبت۔
تو آہا آپ ہمارے ملک کی دیا سلائی ہیں تبھی تو آپ کا رنگ سانولا ہے مگر ہماری نگاہ میں دیاسلائیوں کی رانی ہو۔
جناب والا مجھے رانی نہ کہیو بیگم کہیو۔میں نے مسلمانوں کے گھر جنم لیا ہے۔
اچھا میاں تنکے!ناراض نہ ہو۔تم کو بھی یہ دن لگے کہ رانی اور بیگم میں تمیز کرتے ہو۔
(پروفیسر ناصر احمد صاحب کی چھوٹی صاحبزادی بشریٰ ہما (لندن) کے ایک خط بنام حیدر قریشی سے اقتباس)