سہیل اختر(بھوبھنیشور)
نہ دیکھی ہیں میں نے اس کی آنکھیں
نہ ہونٹ دیکھے ہیں اس کے اب تک
پڑھا ہے ای میل صرف اس کا
لکھے ہیں جتنے بھی لفظ اس نے
بہت ہی معصوم وخوبصورت
جو شاید اس کی ہی چشم و لب کی طرح حسیں ہیں
سطور کے درمیان حسرت سے دیکھتا ہوں
وہاں مرے واسطے بھی کوئی جگہ ہو شاید
جگہ کہ نم ناک ہو زمیں بارشوں میں جیسے
دھلی دھلائی سی نرم گھاسوں کے فرش جیسی
کہ سردیوں کے دھندلکوں میں ڈوبی صبح جیسی
سنہری کرنوں میں لپٹی جنگل کی شام جیسی
سطور کے درمیان اسرار ہیں بہت سے
جو لاکھ کوشش پہ بھی نہ کھل پائے مجھ پر اب تک
حروف سارے ستارووں کی طرح دور مجھ سے
تمام شب جگمگاتے رہتے ہیں آسماں پر
کبھی کبھی گرمیوں کی شب جب
ہوائیں چلتی ہیں ٹھنڈی ٹھنڈی
اور ان میں دھن کوئی تیرتی سی سنائی دے تب
کسک اک انجان سی جگاتی ہے مجھ کو پہروں
پڑا میں چھت پرستاروں کو دیکھتا ہوں گھنٹوں
کبھی کوئی ٹوٹتا ستارہ
لکیر روشن سی اک بناتا ہے آسماں پر
نہ جانے اس روشنی سے اک خواب
چونک پڑتا ہے نیند سے کیوں؟