جان عالم(مانسہرہ)
سرمئی شام کی اک خنک یاد نے رات
آنکھوں سے موتی چنے
وقت چلتا ہوا ایک دم سے پلٹ جاتا ہے ،
اندھے کنوؤں میں گرتی ہوئی سیڑھیوں سے پھسلتا ہوا،
اپنے ماضی کے پاتال میں جا اترتا ہوں میں
زندگی اپنی شکنیں اٹھا کر گلابوں کابستر لگا دیتی ہے،
پھر اچانک پرانے گلی کوچے تعمیر ہو جاتے ہیں
بام پر اجلے چہرے چمکتے ہیں اور،
کھڑکیاں آنکھیں بن جاتی ہیں،
میں مسرت سے خوشبو میں ڈھلتا ہوا ،
رنگ بن جاتا ہوں(آٹھواں رنگ )
آٹھواں رنگ․․․․․․․․
خوشبوئیں جس کی دھن میں چمن چھوڑ دیں،
اور دھنک آسمانوں سے منہ پھیر لے،
(پھر یہ منظربدل جاتا ہے)
خوشبوئیں بھک سے اُڑ جاتی ہیں،
تتلیوں کے پروں سے اچانک سبھی رنگ گر جاتے ہیں
جگنوؤں سے کوئی مشعلیں چھین کر اُن کے ہاتھوں میں
بے نورتاروں کی بجھتی ہوئی راکھ رکھ دیتا ہے
زندگی ایک دم سے گلابوں کا بستر اٹھادیتی ہے
اُڑتے اُڑتے اچانک پروں سے اُڑانیں نکل
جاتی ہیں
اور ہوا کاٹتے طائرِ جاں کی پرواز تھم جاتی ہے
رات کی بے اماں ساعتوں میں گرفتار سانسوں کو
کوئی چھڑائے
کون ہے․․․․․․․․․؟
کون ہے جو یہاں سے نکلتی کسی ساتویں سمت کا
آکے رستہ بتائے ؟