وزیر آغا(لاہور)
گلی بھی وہی ہے
مکاں بھی وہی ہے
وہی ہے مکاں کا پُر اسرار،بے نور چہرہ
مگر چور قدموں کی بے نام آہٹ
ملائم لبادے کی محجوب سی سرسراہٹ
’’ہٹو راستہ چھوڑ دو‘‘کی چمکتی غصیلی ادا
پھر ہنسی ضبط کرنے کی مدھم صدا
وہ صدا اب نہیں ہے،کہیں بھی نہیں ہے
کہیں کچھ نہیں ہے
خموشی کی بھیگی ہوئی التجا کے سوا!
یہ سنسان زینہ کہ صحرا کی صورت ہے پھیلا ہوا
اس کی ٹھہری ہوئی،ریت ہوتی ہوئی
سلوٹوں میں کہیں
رُت کے پھولوں کی بکھری ہوئی پتیاں
اب بھی ہوں گی
لرزتے ہوئے مکڑیوں کے پُر اَسرارجالوں میں
سرگوشیاں
جھولتے نرم دھاگوں میں لپٹی ہوئی
اَن کہی داستاں کی طرح
بے زباں اب بھی ہوں گی
گھِسی اور اُکھڑی ہوئی چھوٹی اینٹوں پہ
مہندی کی سُرخی کا مدھم سا کوئی نشاں اب بھی ہوگا
مگر تازہ پھولوں کی پاگل مہک
اور مہکتے لبادے میں اجلا بدن
اور کھنکتی ہنسی
پھر ہنسی ضبط کرنے کی مدھم صدا
تیز ہوتی ہوئی دھڑکنوں کا مدُھر سلسلہ
وہ مدُھر سلسلہ اب کہاں ہے!
زمانے کے جالے میں محبوس بجھتی ہوئی یہ صدا
جس کی خاطر تو سنسان زینے کے
پہلے قدم پر کھڑا ہے
صدا تو نہیں ہے
فقط لاش ہے ایک مُردہ صدا کی!